حکومت کی مفت علاج اسکیم

وفاقی حکومت کی جانب سے ملک کے غریب عوام کے لیے نیشنل ہیلتھ انشورنس پروگرام کا اعلان کیاجس کے تحت خط افلاس سے نیچے کی زندگی گزانے والے افراد جن کی تعداد 32لاکھ خاندان بتائی گئی ہے کو مفت میڈیکل کی سہولیات حکومت وقت کی جانب سے مہیا کی جائیں گی۔ بظاہر دیکھا جائے تو یہ ایک مستحسن اقدام ہے ۔ شکر ہے حکومت کو غریبوں پر ٹیکس لگا کر اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے یا ٹیکس خسارہ پورا کرنے کے علاوہ بھی کچھ خیال آیا۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب نے فرمایا کہ غریبوں کا علاج اب مفت ہوگا، انہیں گھر کی اشیاء فروخت کرنا نہیں پڑیں گی۔ یومیہ 200روپے آمدن والے افراد کو قومی صحت کارڈ جاری کیا جائے گا، ہر خاندان کو سالانہ 3لاکھ روپے تک علاج معالجہ کی سہولت حاصل ہوگی،علاج کی رقم تجاوز کرنے پر بیت المال مزید3لاکھ روپے دے گا۔ تفصیلات میں کہا گیا ہے سر دست اس اسکیم کا اطلاق 15اضلاع میں ہوگا جسے بعد میں 23تک بڑادیا جائے گااور آگے چل کر اس کا اطلاق پورے ملک میں ہوگا اور جب یہ وقت آئے گا تو میاں صاحب کی حکومت کا مقررہ وقت اختتام کو پہنچ چکا ہوگا، اگر کوئی اور اقتدار آگیا تو وہ اس اسکیم کو کھڈے لائن لگا دے گا۔ اس لیے کہ ہمارے ملک میں 68سال سے یہی دستور چلا آرہا ہے۔ جو بھی نیا حکمراں آتا ہے اپنے سابقہ حکومت کی پالیسیوں کو سرد خانے کی نظر کر دیتا ہے۔ اگر کوئی منصوبہ تکمیل کے مرحلے میں ہوتا ہے تو وہ اس پر اپنے نام کی تختی لگوا کر فیتا کاٹ دیتا ہے۔

سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس وقت ایسے مزدور ہیں جن کی آمدنی یومیہ 200روپے ہے، ہمارے ہاں کا مزدور کم سے کم 500روپے سے کم نہیں لیتا، کیا کوئی سرکاری ادارہ ایسا ہے جہاں پر خاک روب کی تنخواہ 6000روپے ہو۔حکومت نے تو از خود کم سے کم مامانہ 13000ہزار روپے مزدوری مقرر کی ہوئی ہے۔ البتہ مکینک کی دکانوں، جنرل اسٹوروں، پنچر بنانے والی شاپس پر کام کرنے والے چائلڈ لیبر ایسے ضرور ہیں جن کو صرف200روپے یومیہ مزدوری دی جاتی ہوگی۔ گھروں میں کام کرنے والی ملازمائیں ہوسکتی ہیں جو 6000روپے ماہانہ تنخواہ پر کام کر لیتی ہیں۔حکومت کا Minimum Wages Ordinance 1961,اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ادا کیا جانے والے معاوضے سے مراد وہ اخراجات جو کسی بھی محنت کرنے والے کو ادا کیے جائیں ۔ یومیہ شرح وقت اور مہنگائی کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہی ہے۔ موجودہ حکومت کے احکامات کے مطابق جس کا اطلاق یکم جولائی 2015ء سے ہوا کم سے کم محنت کا معاوضہ جو کسی بھی غیر ھنر مند اور چائلڈ لیبر جس کی عمر (14-17)سال کے درمیان ہوگی اس کا ماہانہ معاوضہ یا تنخواہ 13000ہزار روپے ماہانہ ہوگی۔ اس کا اطلاق سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں ہوگا۔ خیبر پختونخواہ نے علیحدہ سے یومیہ شرح کا اعلان کیا جس کے مطابق کم سے کم اجرت461.54یومیہ اور کم سے کم ماہانہ اجرت 12000روپے مقرر کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کی وضاحت کے مطابق 8گھنٹے روز مزدوری کرنے والے کی یومیہ مزدوری 500روپے اور 26یوم کام کرنے کی صورت میں اسے 13000روپے ادا کیا جائے گا۔

یہ بات عقل و سمجھ سے بالا تر ہے کہ حکومت نے 200روپے معاوضہ وصول کرنے والوں میں کون لوگ شام ہیں ۔ اگر بھیک مانگنے والوں کی آمدنی کا صحیح پتہ چل جائے تو وہ 200یومیہ نہیں بلکہ 2000یومیہ تک ہوسکتی ہے۔ ایسی صورت میں حکومت کی جانب ایسے لوگوں کے لیے طبی مراعات کا اعلان کا فائدہ کس کو ہوگا نہیں معلوم؟ سرکاری اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کو جو حال ہمارے ملک میں ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ سرکاری ملازمیں کے لیے سرکاری اسپتال ہی تو ہیں جہاں سے وہ اپنا اور اپنے خاندان کا علاج کراسکتے ہیں۔ مشکل سے دو فیصد سرکاری ملازمین ادھر کا رخ کرتے ہوں گے۔وہ لوگ جن کی آمدنی حکومت نے 200روپے یومیہ بتائی ہے کو یہ سہولت سرکاری اسپتالوں سے ہی مہیا ہوں گی۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ حکومت اس رقم کو ملک میں قائم سرکاری اسپتالوں کی بہتری کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں اسپتال اور ڈسپنسریاں قائم کردیتی، ان میں مطلوبہ اہلیت کے طبی ماہرین فراہم کردیتی، تربیت یافتہ پیرا میڈیکل اسٹاف مہیا کردیا جاتا، دواؤں کی فراہمی کو یقینی بنا دیا جاتا،اسپتال میں موجود آپریشن تھیٹر کو جدید ساز و سامان سے آراستہ کردیا جاتا،اسپتالوں میں غریب مریضوں کے ساتھ جو غیر اخلاقی ، غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے اس پر خصوصی توجہ دے دی جاتی۔ ایسی صورت میں دو سو روپے یومیہ لینے والے ہی بلکہ پانچ سو روپے لینے والے اور سرکاری ملازمین بھی اس سہولت سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکتے تھے۔

نیشنل ہیلتھ انشورنس پالیسی کی افادیت اور ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ان سہولیات کا مرکز اور منبع سرکاری اسپتال اور ڈاپنسریاں ہی ہوں گی، ان اسپتالوں کی ، ڈسپنسریوں کی حالت اس قدر ابتر ہے کہ اسکیم کے کامیاب ہونے کے آثار محدود نظر آرہے ہیں۔ وزیر مملکت سائرہ افضل تارڑ نے اس اسکیم کو دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد پروگرام قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ملک کی پچاس فیصد آبادی جو علاج کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتی استفادہ کر سکے گی۔کیا پاکستان کے 15 اضلاع کی آبادی پچاس فیصد ہے جو اس اسکیم سے مستفیض ہوگی؟ پاکستان میں تو 133اضلاع ہیں۔ بلوچستان میں27،خیبر پختونخواہ 24، پنجاب35،سندھ20، اسلام آباد1، ٹرئیبل ایریا فاتا7، آزاد کشمیر10اور گلگت بلتستان میں9اضلاع ہیں۔ کس طرح آپ ملک کی پچاس فیصد آبادی کو اس اسکیم سے مستفیض کریں گے۔ اس اسکیم کے عمل درآمد اور اس کو ملکی سطح تک پھیلانے کی عملی کوشش ضروری ہے بصورت دیگردوسرے اضلاع میں احساس محرومی پھیل سکتا ہے۔ ساتھ ہی اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کی ابتر حالت پر توجہ مرکوز کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اگر ملک میں جگہ جگہ اسپتال اور طبی سہولیات کے مراکز قائم ہوں جہاں پر بلاتفریق رنگ و نسل، طبی سہولیات مہیاں ہوں، حکومت کی جانب سے انتظامی امور میں سخت پالیسی پر عمل کیا جائے تو اس قسم کی اسکیمیں مفید ہوسکتی ہیں اور صحیح معنوں غریب و مستحق افراد کے لیے صحت جیسی نعمت کو برقرار رکھنے میں معاون ہوسکتی ہیں۔

وزیر اعظم صاحب نے اس پروگرام کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا کہ ابتدائی طور پر دو صوبوں یعنی پنجاب اور بلوچستان کے 15اضلاع کے 12لاکھ خاندوں کو قومی صحت کارڈ جاری کیے جائیں گے۔ بعد ازاں ان میں مزید 8اضلاع کے 20لاکھ خاندانوں میں بتدریج اضافہ ہوگا۔کل اضلاع ہوگئے 23 باقی 110 اضلاع نے کیا قصور کیا ہے۔کیا یہ آپ کی سوتیلی اولادیں ہیں۔ وفاق کی جانب سے کسی بھی عوامی فلا ح و بہبود کی کوئی بھی اسکیم ایسی صورت میں ہی مفید اور قابل عمل ہوسکتی ہے جب کہ اس کے ثمرات پورے پاکستان میں ظاہر ہوں۔ کسی ایک یا دو صوبوں تک محدود وہ بھی چند اضلاع تک اسکیم کو قومی اسکیم ہونے میں سوالات اٹھتے ہیں۔ وفاق جب بھی کوئی اسکیم بنائے اس کے پیش نظر پاکستان کا چپہ چپہ ہونا چاہیے ۔ یہ کہہ کر کہ ابھی چند کے لیے بعد میں اور وں کو بھی ملے گا۔ مناسب نہیں۔ کیا ہم اپنے گھر میں کوئی چیز لائیں اور اپنے چھ بچوں میں سے صرف دو کو دے کر یہ کہہ دیں کہ باقی کودو ماہ بعد اور اس کے بعد باقی دو کو ایک سال بعد دیا جائے گا۔ یہ نہ تو مناسب ہے اور نہ ہی ایسا کیا جانا چاہیے۔ وفاق کی حیثیت پاکستان کے سربراہ کی ہے، باپ کی ہے، اسے سب کو ایک نظر سے دیکھنا چاہیے۔ اسکیمیں تشکیل دینے والے یقینا نیچے کے لوگ ہوتے ہیں ان کے پیش نظر عوام کی اور حکومت کی حیثیت اور اس کے فوائد اور نقصانات پیش نظر نہیں ہوتے وہ تو اپنے باس کو خو ش کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ مصالہ تیار کر کے پیش کردیتے ہیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ایسے پروگراموں کو آگے بڑھانے سے قبل اس کے تمام پہلوؤں کا بغور جائزہ لے کر پیش رفت کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غریب عوام کے لیے مفت علاج کی سہولت فراہم کرنا حکومت کے فرائض میں سے ہے اور اس کی ذمہ داری بھی اس نے صحت کے شعبہ میں یہ اسکیم متعارف کرا کے ایک مستحسن کام کیا ہے۔ خدا کرے کہ وزیر اعظم صاحب کی یہ خواہش بھی پوری ہو جائے کہ یہ اسکیم صرف دو صوبوں تک محدود نہ رہے بلکہ دیگر صوبے اور علاقوں کے غریب عوام بھی اس سے مستفیض ہوں۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437216 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More