ایک فیصد میں پانچ کروڑ۔ سودا برا نہیں

 ایسا وزیر و خزانہ قسمت سے ملتا ہے جو ہر دم اس فکر میں رہتا ہو کس طرح غریبوں کو غریب اور امیروں کو امیر بنانے کی اسکیمیں متعارف کرائی جائیں؟ قرض کس طرح حاصل کیا جائے؟ اور پھر قرضوں کی ادائیگی کس طرح کی جائے۔ ابھی چند دن قبل قرضوں کی ادائیگی کے لیے 313درآمدی اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھادی گئی۔ مقصد وزیر خزانہ نے یہ بیان کیا تھا کہ ایسا کرنے سے حکومت کا40ارب روپے ریونیو کا شارٹ فال پورا کرنے کی شرط کی تکمیل ہوجائے گی۔ یہ اشیاء کیا تھیں؟دوبارہ عرض کر رہا ہوں ناشپاتی، امرود، آم، کینو، لیمو، چکوترا، سیب، کشمش، انار، کھجور، سبزیوں میں کھیرا، ٹماٹر، آلو، مٹر، لوبیا، دہی، مکھن، ڈیری مصنوعات، پنیر، کھویا، ڈبل روٹی، مشروبات، ٹوتھ پیسٹ، صابن، اچار اور اس طرز کی دیگر استعمال کی اشیاء شامل تھیں۔ تنقید ہوئی تو سب کے منہ یہ کہہ کر بند کردیے کہ اس کے اثرات غریب پر نہیں پڑیں گے۔ گویا غریب یہ اشیا ء نہیں استعمال کرتا۔ مارے اور رونے بھی نہ دے والی مثال تھی۔ ابھی اس کارنامے کو چند دن ہی ہوئے تھے کہ پنشنرز کے لیے جاری کی جانے والی بہبود سیونگ سرٹیفیکیٹ پر منافع کی شرح کم کرنے کا اعلان فردیا ساتھ ہی یہ خاص جملہ کہ اس کا اثر غریب پر نہیں ہوگا۔ گویا پینشنرز امیرکبیر ہوتے ہیں۔ ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹ خرید کر طویل عرصہ اپنا پیشہ چارگنا کرنے والے امیر ہوتے ہیں، منافع پر کٹوتی صرف بہبود سیونگ اسکیم کے لیے تھی۔ اب ایمنسٹی اسکیم متعارف کرائی گئی ہے جس کے توسط سے کالا دھن سفید بنایا جاسکے گا ۔ اس اسکیم کے مطابق ایک فیصد ٹیکس ادا کر کے پانچ کروڑ کا کالا دھن سفید کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہے انکم ٹیکس ترمیمی بل 2016ء جو ہمارے وزیر خزانہ نے منتخب ایوان میں پیش کر کے موجودہ سال کا پہلا کارنامہ انجام دیا ہے۔

پہلے ٹیکس اکٹھا کرنے اور کالے دھن کو وائٹ کرنے کا جو طریقہ کار وزیر خزانہ نے بیان فرمایا ہے اس کی چیدہ چیدہ باتوں پر غور کر لیتے ہیں ۔ تاکہ بات سمجھنے میں آسان ہوجائے ۔ انکم ٹیکس ترمیمی بل 2016کے مطابق ایک فیصدٹیکس دے کر 5کروڑروپے کا کالا دھن سفید کرایا جاسکے گا۔ 31جنوری 2016ء تک گوشوارے جمع کرانے پر گزشتہ چار سال کی آمدنی کا ذریعہ نہیں پوچھا جائے گا۔ سالانہ ٹیکس گوشواروں کے آڈٹ کی بھی چھوـٹ حاصل ہوگی۔ 2016سے2018ء کے دوران ٹرن اوور پر ٹیکس ریٹس مختلف ہوں گے، فائلر بننے کے بعد ٹیکس کی شرح بتدریج کم ہوتی جائے گی۔ یہ بل دستور کے آرٹیکل 73کے تحت مالیاتی بل انکم ٹیکس (ترمیمی) بل2016ء پیش کہلائے گا ۔ چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے یہ معاملہ متعلقہ کمیٹی کو بھجوادیا۔ کمیٹی تجایز کا جائزہ لے کر اپنی شفارشات پیش کر دے گی۔

پہلے تو دیکھنا یہ ہے کہ سینٹ میں اس بل کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے ، کمیٹی اور پھر سینٹ کے اراکین نے کالے دھن کو کوڑیوں کے مول میں سفید کرنے کی وزیر خزانہ کی تجویز کو قبول کر لیا تو پھر تو وزیر خزانہ کی یہ خواہش پوری ہوسکے گی کہ سینٹ قومی اسمبلی کے لیے سفارشات مرتب کرے بصورت دیگراس بل کا بھی وہی حشر نہ ہو جو اس سے قبل اپوزیشن جماعتوں نے پی آئی اے کی نج کاری کے سلسلے میں صدارتی آرڈیننس کا کیا تھا۔ سنوائی ہے کہ ایمنسٹی اسکیم کے معاملے میں سینٹ میں موجود حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومت کو شرمندہ کرنے کافیصلہ کرلیا ہے۔تازہ ترین اطلاعات یہی ہیں ۔ پی آئی اے کی نج کاری کی طرح اس بار حکومت نے صدارتی آرڈیننس کا سہا را لینے کے بجائے سینٹ کے ذریعہ اپنی اسکیم کو منظور کرانے کی حکمت علمی اپنائی ہے اور درست طریقہ بھی یہی ہے۔ اجلت کی صورت میں صدارتی آرڈیننس کا سہارا لیا جاسکتا ہے ۔پی آئی اے کی نج کاری کے معاملے پر حکومت کو سبکی اٹھا نا پڑی تھی۔ تحریک انصاف کے چیٔر میں ایمنسٹی اسکیم کو عمران خان نے اسکیم کو کالا دھن سفید کرنے کے لیے حکومتی پیشکش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس بل کی سخت مخالفت کی جائے گی، پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے بھی اس بل کی مخالفت کی ، جماعت اسلامی کے امیر بھی اس بل پر تنقید کرچکے ہیں۔ممکن ہے ایم کیوایم بھی اسی راہ پر چلے۔ ایسی صورت حال میں نظر یہی آرہا ہے کہ مخالفین خاص طور پر سندھ سے تعلق رکھنے والے حزب مخالف کے اراکین نے سندھ میں رینجرز کے معاملے کا بدلہ سینٹ میں لینے کی حکمت عملی اپنالی ہے۔ حکومت نے سندھ حکومت کے تحفظات کو پشِ پشت ڈال کر وزیر داخلہ نے رینجرز کو تمام تر سابقہ اختیارات کے ساتھ دو ماہ کی توسیع کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا تھا ۔ پیپلز پارٹی اور ایک کیو ایم کے دلوں میں وفاق کے اس اقدام کی پرخاش موجود ہے ۔ سینٹ میں دیگر جماعتیں بھی حکومت مخالفت میں ایک ہوجاتی ہیں جس کے باعث حکومت کو سینٹ میں اپنی من مانی کرنا تو دور کی بات ہے اسے سَبک سر ہونا پڑرہا ہے۔

حکومت کی جانب سے ٹیکس ریلیف اسکیم کو ملک کی معیشت کو استحکام دینے کی حکمت عملی قرار دیا جارہا ہے۔ٹیکس نیٹ میں اضافے کا باعث قرار دیا جارہا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دنیا کے بے شمار ممالک میں کالے دھن کو سفید کرنے کی اس قسم کی اسکیموں کا اعلان کیا جاتا رہا ہے، ہمارے پڑوسی ملک میں بھی کئی بار اس قسم کی اسکیموں کا اعلان ہوچکا ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے ، ہماری روایات اور قدریں مختلف ہیں۔ ان اسکیموں کا بنیادی فلسفہ یہ ہوا کرتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے ناجائز طریقے سے، لوٹ مار سے، جائز و ناجائز طریقے سے دولت جمع کر لی ہے وہ اگر چاہیں تو اس ناجائز دولت کا کچھ حصہ حکومت کو ادا کرکے اپنی غیر قانونی دولت کو قانونی بنا لیں۔یہ گویا ٹیکس چوروں کے لیے عام معافی کا اعلان ہوتا ہے۔ کوئی شک نہیں اس عمل سے حکومت کو کچھ نہ کچھ رقم ضرور قومی خزانے کے لیے مل جاتی ہے، ٹیکس نیت ورک میں بھی اضافہ ہوتا ہے لیکن وہ حکومتیں جو اپنی معیشت کو استحکام دینے میں ناکام ہوجاتی ہیں، ٹیکس نیٹ ورک میں کسی طرح اضافہ نہیں ہورہا ہوتا، ملک کے سرمایہ کاروں، تاجروں کا اعتماد حکومت پر سے اٹھ جاتا ہے، وہ کسی طور بھی سرمایا کاری میں دلچسپی نہیں لیتے ایسی صورت حال میں ایمنسٹی اسکیم جیسے اقدامات کے ذریعہ کوشش کی جاتی ہے معیشت کو استحکام دینے کی، ٹیکس نیٹ میں کسی طرح اضافہ کرنے کی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستانی ماہرین معیشت خواہ ملک کے اندر ہوں یا بیرون ملک کے تعاون سے چوروں ، لٹیروں ، کالا دھن جمع کرنے والوں کے بجائے ایسی اسکیمیں تشکیل دلوائے جو ہماری روایات، وقار اور باعزت ہوں جن سے ملکی معیشت کو استحکام مل سکے۔ وزیر خزانہ کی صلاحیتں دو سالوں کے اقدامات سے واضح ہو چکی ہیں۔ ملک قرضوں پر چلا یا جارہا ہے۔ ٹیکس پر ٹیکس لگا کر خسارہ پورا کیا جارہا ہے کوئی بھی ٹھوس اور ایسا اقدام سامنے نہیں آیا جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ اب نہیں توکچھ عرصہ میں ہماری معیشت مستحکم ہوجائے گی۔ پاکستان اپنے وسائل پر انحصار کرنے کی حکمت علمی پر چل پڑے گا۔ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کی اس بات میں وزن ہے کہ’ معیشت مستحکم ہو توملک اور فوج مضبوط ہوگی‘، لیکن معیشت کس طرح مضبوط ہوگی، ایمنسٹی اسکیم کے ذریعہ، کالے دھن کو کوڑیوں کے عوض سفید کرنے سے نہیں۔ ہر گز نہیں اس قسم کی اسکیمیں عارضی اقدامات ہوا کرتے ہیں ان سے ملک کی معیشت مستحکم نہیں ہوگی، بھلا چوری کے پیسے سے ، ناجائز ذرائع سے جمع شدہ پیسہ برکت کا باعث ہوگا، استحکام کا باعث ہوگا، کالے دھن کو سفید کرنے کا یہ طریقہ چوروں کو ،لٹیروں کو خوش کرنے کی تدبیرکہی جاسکتی ہے۔ ملکی معیشت کے استحکام کا باعث مشکل ہی سے ہوگی۔سرمایہ کاری بورڈ کے چیرٔ میں ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے اس اسکیم کے بارے میں فرمایا کہ وزیر اعظم کی اعلان کردہ اسکیم سے ملک کے ذمہ دار شہری ٹیکس کے دائرہ کار میں آئیں گے‘۔ بہت خوب جنہوں نے کالا دھن جمع کیا، ٹیکس چوری کیا وہ ملک کے ذمہ دار شہری ہوئے۔اسی طرح فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ایک سابق عہدیدار نے اس اسکیم کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ تاجر برادری طویل عرصے سے کسی رعایتی اسکیم کا انتظار کر رہی تھی،انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ یہ اسکیم تاجر برادری کی مشاورت سے مرتب کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تاجر برادری ملک کی سب سے بڑی ٹیکس دہندہ آبادی ہے جو قومی خزانے کو سالانہ اربوں کی ادائیگی کرتی ہے۔ یہ بات واقعی قابل قدر ہے کہ ہمارے ملک کا تاجر طبقہ قومی خزانے میں کروڑوں جمع کرنے کا ذریعہ ہے۔ اگر تاجر حضرات پہلے ہی ٹیکس ادا کر رہے ہیں تو انہیں کیا ضرورت پڑی ایمنسٹی اسکیم کی ۔ کالے دھن کو سفید کرنے والی اسکیم اور رعایت کی۔جو تاجر ایمانداری سے ٹیکس ادا کررہے ہیں وہ قابل احترام ہیں اور ملکی معیشت کے استحکام میں ان کا اہم کردار ہے۔ اگر تاجر وں کو رعایت ہی درکار ہے تو بہت سی ریاعتیں ہوسکتی ہیں جو تاجروں کو دی جاسکتی ہیں۔ یہ اسکیم صرف ایسے تاجروں کے لیے مفید اور کارآمد ہی جنہوں نے ٹیکس ادا نہیں کیا، دولت پہ دولت بناتے چلے گئے،دولت کا رکھنا ان کے لیے مشکل ہوجاتا ہے، چھپانا مشکل ہوجاتا ہے اب انہیں اس قسم کی ریاعت درکار ہوتی ہے اپنے کالے دھن کو سفید کرنے کی، اس سے انہیں تو بے پناہ فائدہ ہوتا ہے جب کہ حکومت کو اونٹ کے منہ میں زیرہ والی کیفیت ہوتی ہے۔حکومت کی ٹیکس ریلیف اسکیم سے کالا دھن رکھنے والوں کو فائدہ اٹھا نا چاہیے ، ایسا موقع کبھی کبھی ملتا ہے۔صرف ایک فیصد میں 5کروڑ سودا برا نہیں۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437081 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More