افغانستان میں طویل تنازع کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے
ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مسئلہ جنگ یا اسلحے کے ذریعے حل نہیں کیا
جاسکتا۔ایک قابل عمل حل متحارب گروپوں کے درمیان امن مذاکرات اور مثبت
سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے۔ پاکستان پُرامن افغانستان کا خواہشمند ہے اور
مذاکراتی پارٹیوں کے درمیان سازگار فضاء پیدا کرنے کے لئے مثبت کردار ادا
کرنا چاہتا ہے۔ ہندوستان اور مغربی عناصر کی طرف سے پراپیگنڈ ے کے طور پر
طالبان کے ساتھ پاکستان کی قربت کے پراپیگنڈے کی پاکستان نفی کرچکا ہے
کیونکہ طالبان کے ساتھ قربت کا تاثر پاکستان اور افغانستان کے درمیان
بداعتمادی پیدا کرنے کے لئے دیا جاتا ہے۔ دہشت گردی اور انتہاء پسندی کے
خاتمے کے لئے آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان اس بات کے واضح مظہر ہیں
کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گا۔ ایک
پُرامن افغانستان کے مخالف عناصر ہمیشہ پاک افغان مثبت اشتراک عمل کو خراب
کرنے یا رکاوٹ ڈالنے کی ہمیشہ کوشش کرتے ہیں تاکہ پاکستان یا افغان سرزمین
کو دہشت گردی کیلئے استعمال کرکے دونوں ملکوں کی دوستی اور تعاون کو نقصان
پہنچایا جاسکتا ہے۔ افغانستان کی پیچیدہ صورتحال میں غیر متنازع کردار کی
وجہ سے پاکستان مفادات رکھنے والے ممالک اور اضافی علاقائی طاقتوں اور
گروہوں کی دہشت گردی کا اہم ہدف بنا ہوا ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں
عسکری سطح پر بڑھتے ہوئے رابطوں کے پیش نظر سیاسی قیادت کو ہر سطح پر باہمی
تعلقات کو فروغ دینے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان دشمنوں اور دہشت گردوں کو محفوظ پناہ
گاہیں ،تربیت ، اسلحہ اور سرمایہ فراہم کررہا ہے جس کے نتیجے میں بلوچستان
اور خیبرپختونخوا ، قبائلی علاقہ جات میں دہشت گردی کے کئی واقعات رونما ہو
چکے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی براستہ افغانستان میں بھارتی کردار کے کئی
ثبوت پاکستان متعلقہ ممالک کو دے چکا ہے۔
بہت ہو چکا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اور افغانستان امن کے اصل
دشمنوں کے چھپے چہروں کو پہچانیں صرف یہی نہیں بلکہ باہمی اعتماد سازی اور
مشترکہ حکمت عملی سے امن کے دشمنوں کو شکست دیکر افغانستان کو ایک پرامن
ملک بنا کر دم لیں ۔ بے شک ایک پرامن افغانستان پاکستان کے ہی نہیں سارے
خطے کے مفاد میں ہے۔ |