چلتے ہو تو بلوچستان کو چلیں۔۔۔

 سفر اپنے ملک کا ہو یا غیر ملک کا، معلومات اور تفریح کے ساتھ ساتھ مختلف تہذیوں اور ثقافتوں کے مشاہدے کا ذریعہ بنتا ہے۔ سفر سے ذہن کو روشنی اور وسعت ملتی ہے۔ ہمارا تعلق پولٹری میڈیسن بنانے والی پاکستان کی ایک اچھی کمپنی سے ہے۔ بزنس کے سلسلے میں ہم پاکستان بھر کے ٹور کرتے رہتے ہیں۔ اسی سلسلے میں ہم نے چھبیس تا اکتیس دسمبر بلو چستان میں گزرا۔ وہاں کی کچھ یادیں کچھ باتیں آپکے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں ۔ میں کئی بار پاکستان کے سب سے بڑے صوبے ۔۔۔ بلو چستان۔۔۔ جا چکا ہوں ۔ نومبر تا مارچ کو ئٹہ جانے کا مطلب ہوتا ہے ، سردی، برف باری، گرم لباس اور ڈرائی فروٹ وہاں انجوائے کرنا۔ سو ہم بھی تیاری کر کے گئے تھے اور خوب انجوائے کیاتھا۔ بلوچستان جانے کے مختلف زمینی ر استے ہیں، کراچی سے حب ، خضدا ر قلات اور کوئٹہ۔ دوسرا راستہ سکھر سے شکارپور، جیکب آباد،ڈیرہ الہ یار، ڈیرہ مراد جمالی، سبی اور کوئٹہ۔ بذریعہ ٹرین بھی یہی راستے ہیں۔ لیکن اگر آپ پشاور سے ا ٓ رہے ہوں تو ڈیرہ اسما عیل خان سے بھی راستہ ہے۔ آپ بلوچستان کی وسعت اور رقبے کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس میں پنجاب اور پختون خواہ بیک وقت سما جائے۔

گرم کپڑوں کے سا تھ ہم چھبیس دسمبر کی صبح آٹھ بجے کراچی سے خضدار روانہ ہوئے جہاں سے اگلے روز ہمیں چار دن کے لئے کوئٹہ جانا تھا۔ میرے ساتھ ہماری کمپنی کے سول ڈسٹری بیو ٹر ’’ جناب محمد اسحاق سیلرو ‘‘ بھی جارہے تھے۔ نو بجے ہماری بس حب شہر پہنچی۔کراچی کے قریب ہی’’ حب چوکی‘‘ وہ گیٹ وے ہے جہاں سے صوبہ بلوچستان کا آغاز ہوتا ہے۔ حب شہرکے بازار میں آپ کھڑے ہوں تو اپنے چاروں طرف بلوچی، براہوی، سندھی اور کو ئٹہ وال پٹھان بھائی دیکھ کر آپکو پاکستانی ثقافت کی رنگا رنگی بہت بھلی لگتی ہے۔ آپکے احسا سات کچھ یوں ہوتے ہیں کہ آپکا ایک قدم کراچی یعنی سندھ میں ہے اور دوسرا قدم بلوچستان میں ہے۔ کرا چی سے حب چوکی تقریباََ بیس کلومیٹر اور وہاں سے گڈانی پچیس کلو میٹر ہے ۔ سمندر کراچی شہر کے بائیں جانب سے ہوتاہوا گڈانی اور وہاں سے ’’گوادر ‘‘کی طرف نکل جاتا ہے۔ سنا ہے کہ ’’گڈانی‘‘ اشیاء کی سب سے بڑی شپ بریکینگ یارڈہے ۔ اب روڈ بہت اچھا ہے۔ سڑک کے بائیں جانب جو سب سے دلچسپ چیز دکھائی دیتی ہے وہ گوادر کی طرف جاتے نیلگوں سمندر کا سحر انگیز نظارہ ہے ۔ حب شہر تا ویندر بہت خوصورت مناظر آنکھوں کو اچھے لگتے ہیں ۔ ان دونوں شہروں کے درمیان جب آپکی نظر پہاڑوں ، فیکٹریوں، درختوں، کہیں کہیں کھیتوں، پولٹری فارموں اور کھلی کھلی فضاء میں کوئٹہ کی طرف جاتی خو بصورت ’’آر سی ڈی ‘‘ سڑک پر آتی جاتی جدید اور لگژری مسافر بسوں ،اور کاروں پر پڑتی ہے تو آپکو عجب سی حیرت اورخوشی آپکو ہوتی ہے ۔ یہ دیکھ کر کہ کراچی کے پہلو میں بائیں جانب ’’ حب شہر تا ویندرکا علاقہ قدرت اور انسانی صناعی کا حَسین امتزاج بنتا جا رہاہے ، میں نے سوچا کہ اگر امن و امان کا ایشو نہ ہو تو یہ ایریا رہنے کے لئے دلکش اور خوب صورت جگہ ہے ۔ میٹر و پو لیٹن مسائل سے دوچار کراچی شہر سے ذرا سے فاصلے پراس قدر دلکش مناظر اور قدرتی ماحول ،کھلی فضاء، پہاڑ او ر نیلگو ں سمندر بھی ۔ ۔۔واہ ! کراچی جیسے بڑے شہر کے شور اورہجوم سے گھبرائے’’ باسی‘‘ کو اور کیا چاہئے۔ حب، گڈانی اور ویندر کے بعد اوتھل، بیلہ، وڈھ اور پھر خضدار ہے۔ کراچی سے خضدار کا فاصلہ تین سو ساٹھ کلو میٹر ہے اور اور تقریباََ پانچ گھنٹوں کا سفر ہے۔ خضدار کے بعد سوراب ، قلات ، مستونگ اور پھر کوئٹہ شہر آتا ہے۔ اگر آپکے پاس دیکھنی والی آنکھ اور محسوس کرنے والا دل ہے تو ساڑھے چھ سو کلو میٹر اور نو دس گھنٹوں کایہ سفر یادگار ، معلوماتی اور دل چسپ ہوسکتا ہے۔

اس چھ روزہ یاد گار سفر میں میرے ہم سفر تھے محمد اسحاق صاحب ۔ سندھ بلوچستان میں ’’پولٹری صنعت ‘‘سے وابستہ ایک دُنیا اسحاق صاحب کو محنتی اور ایماندار پولٹری بزنس مین کے طور پر اچھی طرح جانتی ہے۔ وہ پیدا تو ہوئے عرب کے اردن میں لیکن انکی رگ رگ سے سندھی مٹی اور انگ انگ سے سندھی کلچر کی خوشبو آتی ہے۔ نرم مزاج اور دہمہ لہجہ ۔اکثر بلوچستان آتے جاتے رہتے ہیں۔ انھوں نے بلوچستان کے خدو خال اور بلوچ کلچر سے متعلق میری معلومات میں بے پناہ اضافہ کیا۔ انکی محبت ، تعاون اور خلوص کا سوچ کر بے اختیار کہنا پڑ رہاہے۔ ’’شکریہ اسحاق شریف‘‘ ۔

دوستو ! بلوچستان یاترا کا یہ احوال آپکے گوش گزار کرتے ہوئے ہم ’’حب اور ویندر شہر‘‘ سے آگے ایک اور بڑے شہر ’’بیلہ‘‘ کی طرف بڑھاتے ہیں۔

حب شہرتا بیلہ تقریباََ ایک سو پچاس کلو میٹر کے سفر میں آپکو سڑک کے دونوں جانب درخت، سبزہ ،پانی ، گھر اورآبادی دیکھنے کو ملے گی۔ لیکن ’’بیلہ شہر ‘‘ کراس کرتے ہی ’’اصل بلوچستان‘‘ شروع ہوتا ہے۔ جہاں سڑک کے دونوں طرف صحرا ئی انداز کی خشک ،بے آب و گیاہ ریتلی زمین ، خال خال کچے مکان ا ور آپکے ساتھ ساتھ کوئٹہ تک دوڑتے ہوئے درمیانے اور کہیں کہیں بڑے سائز کے پہاڑ سفر کرتے نظر آتے ہیں ۔ اگر آپ مجھ سے بلوچستان اور خیبر پختون کے پہاڑوں کے موازنہ کرنے کے لئے کہیں گے تو میں صرف اتنا عرض کرنا چا ہوں گا کہ خیبر پختون خواہ کے پہاڑ کالے رنگ کے بھی ہیں اور سرسبز بھی۔ یا پہاڑوں کے دامن ضرور سرسبزہیں لیکن حب شہر تا کوئٹہ سڑک کے دونوں جانب کے پہاڑ ذردی مائل مٹی کے رنگ جیسے ہیں۔ سبزہ پہت کم ہے۔
ایک چیز حیران کر دینی والی ہے۔ وہ یہ کہ آپکی گاڑی بیلہ سے خضدار اور وہاں سے کوئٹہ کی طرف چل رہی ہے۔ کافی فاصلے کے بعد سڑک اور پہاڑ کے درمیان جہاں کہیں چند کچے مکان نظر آتے ہیں۔ کہیں پانچ تو کہیں پندرہ بیس چھو ٹے بڑے مکان نظر آتے ہیں۔ ایک آبادی سے دوسری آبادی کا درمیانی فا صلہ گھنٹوں کا ہو سکتا ہے۔ پانی ، درخت اور سبزے آثار بہت کم ہیں۔ ، سکول نہیں، ہسپتال نہیں، اس زندگی کا تصور نہیں جسکے ہم اور آپ عادی ہیں، پھر ان کچے مکانوں کے مکین طبی اور دیگر سہولتوں کی عدم مو جو دگی میں زندگی کیسے گزارتے ہوں گے ؟ اس بار یہ سب دیکھ کر میرے دل سے یہ صدا آئی۔ ہائے ہائے بلوچستان اور پاکستان کے لیڈرو ! آپکا خاندان اور بچے تو لندن ، دبئی ، کوئٹہ سٹی اور کراچی ڈیفنس میں زندگی کی بہاریں لوٹ رہی ہیں ۔ اور دوسری طرف پانی ، دوادارو اور تعلیم سے محروم غریب بے کس بلوچوں کے بچے مٹی کے کچے مکانوں میں زندگی کی صبح شام کرنے پر مجبور ہیں ۔ برسوں سے نہیں بلکہ شا ئد صدیوں سے اس حال میں ہیں ۔ بلوچستان کے ا س پہلو نے مجھے کافی اداس کیاتھا۔ ہمارے سیاستدانوں نے تو اپنی آنے والی چھ سات نسلوں کے لئے بہتر رزق اور اعلیٰ رہائش کا بندوبست کر لیا ہے لیکن سخت دُکھ اور تکلیف کی بات ہے کہ سر زمین بلوچستان کے سچے ، غیور اور محب وطن خاک بسر بلوچوں کے لئے ضروریات زندگی کا حصو ل سنگلاخ پہاڑوں سے اپنا سر ٹکرانے کے برابر ہے۔ لیڈرو ! یہ آپکی سنگ دلی ، بے انصافی اور ظلم ہے۔
خضدار کی باتیں۔۔۔

حیرانی ، خوشی اور د کھ کے ملے جلے جذ بات کے سا تھ ہم ایک بجے دوپہر خضدار پہنچے۔ کراچی سے خضدار کا فاصلہ تقریباََ تین سو ساٹھ کیلو میٹر ہے۔ صبح سات تا نو بجے کراچی سے جانے والی بسیں خضدارشہر کے قریب بارہ تادو بجے دوپہر ’’گدان ہوٹل‘‘ کے پاس ظہر کی نماز اور طعام کے لئے قیام کرتی ہیں۔ اسی طرح رات سات تا نو بجے کراچی سے جانے والی بسیں رات کو بارہ تا دو بجے تک ’’سٹاپ‘‘ کرنے کے لئے خضدار پہنچ جاتی ہیں۔ اگلے چار پانچ گھنٹوں میں آپکی بس کوئٹہ شہر پہنچ جاتی ہیں۔ خضدار سٹاپ سے متعلق یہ بات بہت اہم ہے کہ اگر آپ نے بطور مسافر خضدار سے کوئٹہ یا کراچی کا سفر کرنا ہے تو دن ہو یا رات ، دو بجے کے بعد نہ تو کوئٹہ کی طرف جانے والی بس ملے گی اور نہ ہی کراچی کیطرف جانے والی۔ خضدار شہر سے قلات ، مستونگ ، سوراب اور کو ئٹہ کے لئے صبح آٹھ تا عصر چار بجے تک لوکل ہائی ایس وین کی سہولت بھی دستیاب ہے۔ لیکن لوکل وین کی خواری سے بچنے کے لئے ’’گدان ہوٹل بس سٹاپ‘‘ بہترین انتخاب ہے۔

کوئٹہ شہر کے بعد بلوچستان کا دوسرا بڑا شہر ضلع خوضدار ہے۔ مو جودہ وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار ثناء اﷲ زہری صاحب کا تعلق بھی خضدار سے ہے۔ لیکن آفسوس اورحیرت کا مقام ہے کہ یہ اہم شہر، بلوچستان میں پیدا ہونے والی ’’سوئی گیس‘‘سے ابھی تک محروم ہے۔

ہمارا پروگرام تھا کہ رات خضدار میں قیام کے بعد اگلے دن دو پہر کو بذریعہ بس عازم کوئٹہ ہو جا ئینگے۔ خضدار میں ہماری کمپنی کے ڈسٹری بیوٹر ایک بہت پیارے اور مہمان نواز بلوچ بھائی تھے۔ سلام دعا کے بعد پوچھے بغیر منرل واٹر کے بعد بہترین چائے اور فروٹ کیک کا انتظام کیا۔ میں نے یہ سوچ کر کہ دوپہرکا کھا نا نہیں ملے گا ،فروٹ کیک کے ذیادہ پیس کھا لئے۔ ہم نے ایک دوسرے سے حا لات کا پوچا ۔ انھونے کہا کہ اﷲ کا فضل ہے ۔گذشتہ کئی ماہ سے حالات بہت اچھے ہیں۔ ا من و سکون ہے۔ انکے ساتھ گفتگو کے دوران میں نے محسوس کیا کہ مذکرموئنث کی غلطی صرف پٹھانوں تک محدود نہیں بلکہ میرا مشا ہدہ ہے کہ کم پڑھے لکھے پنجابی، بلوچ، اور سندھی بھائی باہمی گفتگو میں مذکر موئنث کے قید و پابندی سے آ ذاد ہوتے ہیں ۔ مثلاََ سندھ بلوچستان میں آپ اس طرح کے جملے سن سکتے ہیں ’’جب آپکی فون آئی‘‘ ۔ یا ’’جب پیپلز پالٹی کا حکومت گیا‘‘۔ وغیرہ۔

آدھا گھنٹہ کے بعد ٹھیک دو بجے بلوچ بھائی نے اعلان کیا کہ اب ہم آپکے ساتھ دوپہر کا کھانا کھا ئینگے۔ میں نے اپنے ساتھی اسحاق صاحب کے کان میں کہا ’’ اوہو ! ڈنر بھی ہے۔ میں ایسے ہی ذیادہ کیک کھا گیا‘‘۔ وہ ہمیں اپنی و ٹز کار میں ایک اچھے اور صاف ستھرے ’’چمروک ہوٹل ‘‘ لے گئے جہاں ہماری تواضع روش اور چکن بروسٹ سے کی گئی۔ سبز قہوہ پینے کے لئے ہم واپس انکے آفس آ گئے۔ چار بجے تک بزنس کھاتوں کی چیکینگ اورکاروباری مصروفیت رہی۔ اسکے بعد میں عصر کی نماز مسجد میں اور عام خضداری ،بلوچ ا ور براہوی بھائیوں کے چہرے مہرے پڑھنے کیلئے قریب کے بازار میں گیا۔ رش کم تھا۔ سردی بھی ذیادہ نہیں تھی۔ میں اپنی پختوں روایات کے مطابق شلوار قمیض اور پشاوری چپل پہنے ہوے تھا۔ چلتے چلتے بازار کے بیچوں بیچ سڑک کنارے کنوں ، کیلوں اور امرود کا ایک رہڑہ نظر آیا۔ رہڑے کے مالک کے پاس ایک او ر بزرگ دکاندار بھی گپ شپ کے کئے کھڑا تھا۔ دونوں’’ کوئٹہ وال پشتون‘‘ تھے ۔ ان کے ساتھ بات چیت کا تذکرہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ وہ مجھ سے پشتو میں بات کر رہے تھے۔ لیکن انکی پشتو بلوچستان کوئٹہ کی تھی اور میری پشتو دیر سوات کی تھی۔ دونوں علاقوں کے درمیان سینکڑوں میلوں کا فاصلہ ہے ۔ اس فاصلے نے ایک ہی زبان کو کئے رنگ دیئے ہیں۔

عام خیال یہ ہے کہ سارے پٹھان ایک جیسی پشتو زبان بولتے ہیں ۔ لیکن یہ خیال غلط ہے۔ در اصل دیر، باجوڑ، سوات، مردان، چارسدہ، صوابی، نوشہرہ اور پشاور سمیت نواہی علاقوں میں ؂تقریباََ ایک جیسی پشتو بولی جاتی ہے لیکن قبائلی علاقوں مثلاََ کوہاٹ، بنوں ،کرک ، شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان لنڈی کوتل، ڈیرہ اسماعیل خان اور دیگر قریبی علاقوں میں اور طرح کی پشتو بولی جاتی ہے۔ افغانستان کے پشتونوں کی زبان پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بولی جانے والی پشتو کے قریب قریب ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے کوئٹہ ، پشین ، لو رالائی اور ژوب میں بولی جانی والی پشتو دیر، سوات اورپشاور میں بولی جانے والی پشتو سے مختلف ہے۔ یہ ضرور ہے کہ سب علاقوں کے پٹھان ایک دوسرے کی بات اچھی طرح سمجھ جاتے ہیں۔ اسی لئے جغرافیا ئی فاصلوں اور زبان کی ظاہری علاقائی فرق کے باوجود پختون جب آپس ملتے ہیں تو ٖبڑے فخر سے کہہ اٹھتے ہیں ’ ’ لَر او بَر یو افغان‘‘۔ مطلب یہ کہ با لائی علاقوں کے ہوں یا زیریں کے، سارے پٹھان ایک ہیں۔

میں نے دونوں ’’کو ئٹہ وال پٹھانوں ‘‘ کو سلام کیا اور ایک پاؤ امرود کا آرڈ ر دیا ۔ میری صاف اور سیدھی دیر، سوات والی پشتو سن کر بزرگ کوئٹہ وال خوش ہو کر میری طرف متوجوہ ہوئے۔ ’’ خان صیب ! تا سو د کوم ذائے نہ راغلی یئی ؟ (خان صاحب آپ کہاں سے آئے ہیں؟) میں نے اور بھی خوشگوار لہجے میں کہا ، ’’ میرا تعلق ضلع دیر سے ہے لیکن ہم گذشتہ بارہ سال سے کر اچی میں رہ رہے ہیں ۔‘‘ دونوں کو ئٹہ وال پشتونوں کی آنکھوں میں چمک آئی۔ بزرگ پُرمسرت انداز میں بولے۔ ’’ شہ شہ‘‘ ۔ ’’تبھی آپکی زبان پختون خواہ کے مخصوص علاقے کی ہے۔‘‘ سچ یہ ہے کہ مجھے اس ساٹھ سالہ بزرگ سے مل کر خوشی ہوئی۔ میں انکے سفید داڑھی اور گورے چہرے میں اپنے مرحوم والد کا عکس دیکھنے لگا ۔میں نے بڑی محبت اور ادب کے ساتھ بزرگ پختون کو امرود پیش کئے ’’ آپ بھی کھا لیں‘‘ ۔ لیکن انھوں نے ملائمت سے کہا ’’نہیں بیٹا ! آپ کھا ئیں۔ آپ ہمارے مہمان ہیں‘‘۔ٰؓٹٓ
اسکے بعد وہ بہت ما ہرانہ انداز میں کہنے لگے، ’’ میں کوہاٹ، بنوں، پشاور، مردان، سوات، دیر اور بٹ خیلہ تک گھوم آیا ہوں۔ وہاں کے لوگ اور وہ علاقے بہت خوب صورت ہیں ۔ بلو چستان کی زمین اور پہاڑوں کی نسبت خیبر پختون خواہ کی زمین اور پہاڑ ذیادہ تر سر سبز ہیں۔‘‘ یہ سن کر میں نے گفتگو میں لقمہ دیا ’’ وہاں کے لوگ زیادہ پڑھے لکھے ہیں۔ مکان بھی جدید طرز کے خو بصورت اور پکے ہیں‘‘۔ اس وقت تک میں امرود کھا چکا تھا۔ انھوں نے مجھ سے پیسے نہیں لئے۔ چو نکہ نماز کا وقت ہو رہا تھا، لہٰذا ہمیں اپنی گفتگو سمیٹنی پڑی۔ آخر میں جہاں دیدہ بزرگ نے ایک عجیب با ت کہی۔ ’’ خان صیب! اگر چہ اکثر جاگیردار ظالم ہی ہوتے ہیں لیکن پھر بھی پختون خواہ کے ’’خان‘‘ بلوچستان کے ’’ سرداروں‘‘ کے مقا بلے میں نرم دل اور اپنے لوگوں کے خیر خواہ ہیں۔‘‘ اسکے بعد عصر کی نماز پڑھنے ہم مسجد چلے گئے۔ نماز کے بعد کچھ دیر ادھر اودھر گھومنے کے بعد میں واپس اپنے ڈسٹری بیو ٹر کے دفتر آگیا۔ اب مغرب کا وقت ہو رہاتھا۔

خضدار میں ہمار ے رات کے قیام کا بندو بست وزیر اعلیٰ سردار ثناء اﷲ صاحب کے قریبی دوست جناب میر منیر احمد قمبرانی کے ہاں کیا گیا تھا۔ میر صا حب میرے ہم سفر محمد اسحاق سیلرو صا حب کے دوست ہیں۔ دونوں کا سندھ کے شہر شہداد کوٹ سے بہت گہرا تعلق ہے۔ وہ آپس میں سندھی زبان میں گفتگو کرتے لیکن میری خاطر ذیادہ تر اردو میں بات کرتے تھے۔ رات کے کھانے میں ہماری تواضع مرغ پلاؤ ، مٹن قرمہ اور بڑی بڑی روٹیوں سے کی گئی تھی۔ مہمان خانے کے پکے فرش پر نرم قالین تھا۔ دسترخوان کے گرد بیٹھ کر ہم پٹھان ، بلوچ اور سندھی بھائیوں نے کھانا تناول کیا۔ ہم سب بہت خوش تھے۔ نہ گھر سے دوری کا احساس اور نہ ہی کسی قسم کا خوف۔ اسکے بعد ہم نے میر صاحب سے سیاسی اور سماجی امورپر گفتگو کرتے ہوئے سبز قہوہ نوش کیا۔میر صاحب نے ہمیں بتایا کہ خضدار سے سندھ کے شہر شہداد کوٹ کو ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک جاتی ہے۔ تقریباََ چھ سات گھنٹے کا فاصلہ ہے ۔ یہ فا صلہ صرف تین گھنٹو ں کا ہو سکتا ہے اگروہ سڑک پکی کر دی جائے۔ حکومت کی ذرا سی توجہ سے دو صوبوں کے عوام اس سڑک کے ذریعہ بہت قریب آ سکتے ہیں۔ انھوں نے ہمیں یہ بتایا کہ بلوچستان میں پیدا ہونے والی سوئی گیس خضدار میں ابھی تک نہیں دی گئی۔ میر صاحب نے اس نا انصافی کا ذمہ دار لیڈروں کو قرارار دیا۔ یہ سن کر مجھے سخت تعجب ہوا۔ اگر سینکڑوں میل دور لاہور، سیالکوٹ ، مری اور دیگر شہروں تک سوئی گیس کی سپلائی دی جاسکتی ہے تو خضدار شہر کو کیوں نہیں؟ کیونکہ جو وسائل جس صوبے کے ہیں، ان پر سب سے پہلے اسی صوبے کے عوام کا حق ہے۔ میر صاحب کو موجودہ حکومت سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ ا س رات گا ؤتکئے سے ٹیک لگائے اور قہوہ کی چسکیاں لیتے ہم یوں محسوس کر رہے تھے جیسے لیڈروں کے ستم رسیدہ عام شہری نہ ہوں بلکہ بلوچستان کے نواب یا سردار ہوں ۔ محفل ختم ہوئی۔ رات نرم نرم بستر پر گرم گرم ڈبل کمبل کی وجہ سے سرد ی کے تا بڑ توڑ حملوں سے ہم محفوظ رہے۔ نا شتہ صبح آٹھ بجے کیا۔ اسکے بعد کوئٹہ جانے کی تیاری کی۔ گیارہ بجے میر صاحب سے رخصت لی۔ میر صاحب کی مہمان نوازی، محبت اور خلوص کو ہم کبھی فرموش نہ کر سکیں گے۔

ڈسٹری بیو ٹر کا بیٹا ہمیں اپنی کار میں’’ گدان ہوٹل‘‘ بس سٹاپ تک چھوڑ آیا۔ ہم نے کچھ دیر انتظار کیا ، کراچی سے بسوں کی آمد شروع ہوئی۔ اور بارہ بجے ہم خضدار کی بہت ساری خو ش گوار یادیں لیکر اپنی اگلی منزل کو ئٹہ شہر کے لئے روانہ ہوئے۔
کوئٹہ کی دلداریاں۔۔۔

ہم ستائیس دسمبر شام پانچ بجے کوئٹہ شہر پہنچے۔ خشک ہوا اور سردموسم نے خوش ٓمدید کہا۔ شہر کے باسیوں اور پہاڑوں پر نظر پڑتے ہی محسوس ہوا کہ میں اپنی کو ئٹہ آمد پر کافی جذباتی ہو رہا تھا۔ گائے خان چوک پر دراز قد اور دراز زلٖفوں والے صالح تاجک نے ہمار ا استقبال کیا۔ ہم انکی وٹزکار میں انکے گھر کیطرف چل پڑے جہاں ہم نے اگلی صبح نو بجے تک قیام کیا۔ وہ شام اور رات بھی بڑی دلچسپ اور یادگار تھی۔ تاجک برادری کی بیٹھک میں نشست و برخاست او ر ہمارے علاوہ انکے ایک دوسرے سے برتاؤ سے انکی تہذیب و ثقافت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کچھ دیر میں ہم گھر سے متصل مگر الگ ایک بڑے بیٹھک میں پہنچے ۔ جناب عبدرء ف تاجک اور قاری اسحاق تاجک نے ہمارا پر تپاک استقبال کیا۔

بیٹھک بہت بڑی تھی جسکی لمبائی چوڑائی تین کمروں کے برابر تھی۔ وسیع کمرے میں جدید گیس ہیٹر لگایا گیا تھا جو بیٹھک کے ما حول کو کافی گرم کر رہا تھا۔ فرش پر قالین اوراس پر تقریباََ پچیس گاؤ تکئے بہت نفاست ا ور ترتیب سے رکھے گئے تھے۔ باتھ روم صاف ستھرا، بہت بڑا تھا ۔ سب سے اچھی بات یہ کہ چوبیس گھنٹے گرم پانی بھی میسر تھا۔ ہم نے وضو کیا اور مغرب کی نماز پڑھی۔ کچھ دیر بعد سبز قہوہ کے ساتھ، بادام، پستہ،کشمش اور معیاری بسکٹ سے ہماری تواضع کی گئی۔ مزبان مہمان نوازی اور ہم مزبان نوازی میں ایک دوسرے کو مات دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ سا رے تاجک بھائی مجھ سے پشتو میں لیکن میرے ساتھی جناب محمد اسحاق سے اردو میں بات کر تے تھے۔وہ عشروں سے کوئٹہ میں رہائش پزیر ہیں۔یہ تاجک بھائی چاق و چوبند اور سرخ و سفید رنگت والے بہت مہمان نواز تھے۔ اکثر تجارت کرتے ہیں۔ انکی آپس کی محبت اور اتفاق بھی دیدنی تھی ۔ وہ اس طرح کہ مغرب کے بعد بیٹھک میں آنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھتی گئی ۔ جو بھی آتا ، گرم جوشی سے سلام کرتا اور سب سے ہا تھ ملاتا۔ یوں اس رات ہمیں تقریباََ بیس، پچیس لوگوں سے ہاتھ ملانے کا شرف حاصل ہوا۔ کھانے سے پہلے گرم پانی لا کر ہما رے ہاتھ دھلوائے گئے ۔ یہ پشتون ثقافت کا اظہار تھا ۔شائد تاجک روایت بھی یہی ہو۔

رات کے کھا نے پر تقریباََ پندرہ لوگ قالین پر دستر خوان بچھاکر کھانا کھانے لگے۔ چکن کابلی پلاؤ ، مٹن قرمہ، موٹی موٹی گول گول روٹیوں ،سلاد اور کولڈ ڈرنک کا بہت مزا آیا۔ میں نے نوٹ کیا کہ وہ روٹی اور چاول دونوں کا ایک ہی نوالہ بنا کر کھا رہے تھے۔ سب نے کھانے کے بعد سبز قہوہ شوق سے پیا۔ دیوار پر بڑی ایل سی ڈی لگی تھی جس پر پاکستانی او ر کبھی کبھی افغان چینل نظر آنے لگتا۔ میں نے محسوس کیا کہ بیٹھک میں موجود افراد کے تین حصے بن گئے ہیں۔۔ ایک حصہ ٹی وی چینل دیکھ رہا تھا، ایک حصہ ٓاپس میں گپ شپ میں مشغول تھا اور ایک حصہ ُلڈو کھیلنے لگا۔ سمارٹ مو بائل پر فیس بک کا بے دریغ استعمال بھی ہو رہا تھا۔ میں ایک کونے میں مشاہدے میں مصروف تھا او ر تاجک ثقافت اور بیٹھک کے عجیب اور یادگار ما حول کو انجوا ئے کر رہا تھا۔ جوں ہی رات کے گیارہ بج گئے ، ایک کے بعد ایک فرد جانے لگا۔ ساڑھے گیارہ بجے تک بیٹھک میں تین افراد رہ گئے۔۔میرا علاوہ اسحاق صاحب اور ہمارے اصل مزبان جناب عبدورء ف تاجک۔ بارہ بجے تک قالین پر ہی سخت قسم کے بستر لگائے گئے۔ میں نے لائٹ اور ٹی وی تو آف کرا دیا ، لیکن پھر بھی کافی دیر تک نیند نہیں آ ئی۔ میں گرم کمبل میں بستر پر لیٹے لیٹے سوچ رہا تھا کہ اگرچہ ہم جغرافیائی اور لسانی طور پر الگ الگ شناختوں کے حامل ہیں لیکن اسلام کی نعمت نے کس خوبصورتی سے ہم سب مسلمانوں کو ایک تسبیح میں پرو دیا ہے۔ یہ سوچ کر میں گہری نیند سو گیا۔ صبح اٹھ کر نماز پڑھی اور تیار ہو کر ناشتہ کر کے ’’ کواری روڈ‘‘ چلے گئے۔ وہاں دن بھر کاروباری مصروفیت رہی۔ پہاڑوں پر برف نہیں تھی ، لہٰذا سردی میں وہ شدت نہیں تھی ، جسکا ہمیں ڈر تھا۔ ’’کواری روڈ‘‘ کی مارکیٹ میں جہاں جاتے سبز قہوہ ضرور پلایا جاتا۔ شام تک، چھ چھ کپ پینے کے بعد مذید قہوہ پینے کی ہمت نہیں تھی۔ رات کا پر تکلف کھانا جناب حاجی عبدوالقیوم کی طرف سے تھا۔ وہ ایک مشہور پولٹری بزنس مین ہیں۔ ژ وب شہر میں پیدا ہوئے اور کوئٹہ شہر میں رہتے ہیں۔ بڑے ملنسار اورمہمان نواز ہیں۔ حاجی صاحب رات کے کھانے کے لئے ہمیں مسجد روڈ کے قریب’’ توغی روڈ‘‘ لے گئے۔ اسکے بعدوہ ہمیں ہمارے ہوٹل تک چھوڑنے آئے۔ ہم نے مسجد روڈ کے قریب ایک اچھے ، صاف ستھرے ہوٹل میں قیام کا بندوبست کیا تھا۔ اگلے دو دن تک ہم نے لیاقت بازار، عبدوستا روڈ ،سبزی منڈی اور ایئر پورٹ روڈ کی سیر کی۔ پہاڑوں کا نظارہ بڑا دل کش تھا ۔ کوئٹہ کے قریب ایک گاؤں بھی دیکھنے گئے۔ پہاڑوں کے دامن میں چند گھروں پر مشتمل وہ گاؤں بہت پیارا لگ رہا تھا۔ اس سے اگلے روز بادام، پستہ، اور دیگر چیزوں کی شا پنگ کی۔تاجک بھائی اور حاجی صاحب روزانہ ہوٹل ملنے آتے اور ساتھ انکے بیٹھک میں چلنے پر اصرار کرتے لیکن ہم نے ہوٹل رہنا پسند کیا۔ کو ئٹہ میں قیام کے دوران ہم نے سجی سمیت بہت گوشت کھا یا۔ لیکن وہاں کے پانی میں کھانا ہضم کرنے کی بہت طا قت ہے۔ کھانا کھاتے، تھوڑا سا پانی پیتے اور کچھ وقت گزرنے کے بعد پھر سے بھوک محسوس ہونے لگتی۔ آفسوس کہ ان چار دنوں میں وہاں برف باری نہیں ہوئی۔ لہٰذا ہم برفباری اور شدید سردی کا لطف نہ اٹھا سکے۔ہم اکتیس دسمبر صبح آٹھ بجے سریاب روڈ بس ٹرمینل سے اَل نصیب کوچ کے ذریعہ واپس کراچی کے لئے روانہ ہوئے اور شام پانچ بجے خوشی خوشی کراچی پہنچ گئے۔

akbarkhan
About the Author: akbarkhan Read More Articles by akbarkhan: 10 Articles with 15107 views I am MBA Marketing and serving as Country Sales Manager in a Poultry Pharmaceutical Pakistani Company based at Karachi. Did BA from Punjab University... View More