حاصل پور سے ضلع رحیم یار خان کا سفر

 سنوگے حشرمیں توحشرہوگا
یہیں سن لوتوقصہ مختصر ہے
بتاریخ 13-10-2015بروزمنگل نماز فجر کی ادائیگی کے بعدہمارا سفر اپنے شہر حاصل پور سے شروع ہوا‘شہرحاصل پور جسے دریائے ستلج سے پندرہ کلو میٹر دور ایک پرانے دریائی نشیب ’’پاکھالا‘‘ کے کنارے جوگی خان گھمرانی نامی داؤد پوترہ سردار کے بیٹے حاصل خان نے اپنے نام سے 1725ء میں آباد کیا تھا‘ہمارے سفر کے رفقاء میں محترم زاہد مجید ‘راشد سلیم اورجاوید اکرم بھائی شامل تھے اور سائق کی ذمہ دار ی جاویدپاشا صاحب ادا کر رہے تھے۔طے شدہ پروگرام کے مطابق ہمیں سب سے پہلے صادق آباد پہنچنا تھا ‘ تقریبا صبح سات بجے ہم بہاولپور ناشتے کے لیے رکے اور داتا ناشہ ہاؤس سے ناشتہ کیا‘حاصل پور سے بہاولپور سو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ‘یہ حاصل پور کا ضلع ہے،دریائے ستلج کے جنوبی کنارے پر آباد ماضی کی ایک بستی ’’جھوک رانجھا‘‘آج کا بہاولپور ہے ‘ یہ ماضی کی ریاست بہاولپور کا دارالحکومت تھا۔ ریاست بہاولپور پہلی ریاست تھی جس نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔اس بستی کا نام نواب بہاول خان اول (1727-1749ء)نے 1748ء میں بہاولپور رکھا۔بہاولپور شہر کے قیام سے اکیس سال پہلے اس ریاست کاآغاز پرجانی داؤد پوتروں کے سردار صادق محمد خان اول(1727-1746ء)سے ہوتا ہے جس کا سلسہ نسب عباسیہ سے جا ملتا ہے۔ بہاولپور کا شمار پاکستان کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ بہاولپور میں زیادہ تر لوگوں کا پیشہ زراعت ہے۔ جس کی آبادی 408,395 بمطابق 1998 ہے،یہ ملتان سے 90 کلومیٹر لاہور سے 420ء کلومیٹر اور اسلام آباد سے 700ء کلومیٹر دور ہے۔

قریب قریب 8بجے ہم بہاولپور سے چل نکلے تھے اور الحمد ﷲ بخریت 11:30بجے صادق آبادپہنچ گئے صادق آباد ضلع رحیم یار خان کی ایک تحصیل ہے، صادق آباد کی بہت سی چیزیں ایشیاء میں مشہورہیں جیسے بھونگ کی مسجد جس کی خوبصورتی بے مثال ہے‘ ہمیں اسے دیکھنے کا اتفاق تو نہ ہو سکا مگر اسکی چند تصاویر نیٹ پر موجود ہیں جوہم نے ملاحظہ کیں ۔

ؑعلاوہ ازیں صادق آبادمیں FFC کھاد کی فیکٹری اور سجاول کی برفی پنجاب بھر میں معروف ہیں۔
صادق آبادمیں سب سے پہلے ہم راشد سلیم بھائی کے پھوپھا جان حاجی عطاء اﷲ صاحب جو ان کے فادرنسبتی بھی ہیں کے گھر پہنچے ‘حاجی صاحب بہت دلچسپ آدمی ہیں ‘ان کی عمر ساٹھ سال کے لگ بھگ ہے ‘بطور ڈسپنسر ملازمت سے ریٹائر ڈہیں‘راشد بھائی کے برادر نسبتی سمیع اﷲ صاحب نے پرتکلف ضیافت کا انتظام کیا ‘حاجی صاحب ضیافت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ خوب سیاسی ماحول پر روشنی ڈالتے رہے اور اپنی ملازمت کے دوران کے وہ کئی واقعات بھی ہمیں سناتے رہے جو ان کے ساتھ ہمارے علاقہ میں پیش آئے تھے۔ راقم تو بس سر ہلاتا رہا مگر زاہد مجید بھائی نے خوب سیاسی گفتگو میں حاجی صاحب کا ساتھ دیا۔اس وقت مجھے علامہ اقبال یاد آرہے ہیں:
اُٹھا کر پھینک دو باہرگلی میں……نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
الکشن، ممبری، کونسل،صدارت……بنائے خوب آزادی نے پھندے
میاں نجار بھی چھیلے گئے ساتھ……نہایت تیزہیں یورپ کے رندے

12:30بجے حاجی عطاء اﷲ صاحب سے اجازت لے کرہم جامع مسجد اڈا منٹھار والی مسجد میں قاری نعیم صدیقی صاحب کے پاس پہنچے قاری صاحب راقم کے بڑے بھائی ہیں انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں چک75فتح میں حاصل کی اور پھر حاجی عبد الکریم صاحب جو کہ اس وقت اوڈانوالا میں زیر تعلیم تھے قاری صاحب کو ساتھ لے گئے ۔آپ نے کچھ دیر وہاں پڑھا اور پھر مولانا عبد اﷲ بہاولپوریؒ کے مدرسہ جامعہ محمدیہ شکار پوری گیٹ میں چلے آئے ‘وہاں سے حفظ قرآن کے بعدصادق آباد میں شیخ زاہدی صاحب کے جامعہ میں کتب کے شعبہ میں داخل ہو گئے ،حالات کی ناسازی کی بنا پر آپ اپنی تعلیم مکمل نہ کر پائے اور اڈا منٹھار والی جامع مسجد میں تاحال تدرسی فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

قاری نعیم صدیقی صاحب ظہر کی نماز کے لیے ہمیں جامع مسجدابو بکر 169/P میں لے گئے ‘اس مسجد کے ملحق الاصلاح سکول بھی تھا جو فضیلۃ الشیخ حافظ ثناء اﷲ زاہدی حفظہ اﷲ نے تعمیر کروایا تھا ‘نماز ظہر باجماعت ادا کی ‘ سکول کا وزٹ کیا ‘وہاں ہماری ملاقات حافظ ساجدصاحب سے ہوئی ‘ واپسی پر بھائی طلحہ بلال کی مسجدمیں بھی گئے جہاں بھائی نعیم کے استاد قاری نوازصاحب سے ملاقات ہوئی ۔پروفیسر یوسف ضیاء صاحب جو کہ علیل تھے ان کی عیادت وزیارت کے بعد دوپہر کاکھانا قاری نعیم صاحب اوربھتیجے عبد اﷲ نے بڑی محبت سے پیش کیا ‘ اﷲ تعالیٰ ان کے مال وجان اور رزق میں برکت عطا فرمائے۔

اب ہمارا قافلہ صادق آباد کی اہم ترین شخصیت فضیلۃ الشیخ حافظ ثناء اﷲ بن امام دین زاہدی حفظہ اﷲ کی زیارت کے لیے نکلا ‘قاری نعیم صاحب نے شیخ سے پہلے ہی سے وقت طے کر رکھا تھا ‘خیر ہم 2بجے کے قریب شیخ زاہدی صاحب کے مرکز ’’الاصلاح اسلامک ایجوکیشن سسٹم‘‘ میں پہنچے ‘علماء والی صفات سے متصف روحانی چہرہ آج پہلی بار اتنی قریب سے دیکھنے کاموقع ملا تھا‘شیخ کی محبت وعقیدت اور ضیافت زندگی کالمبا عرصہ یاد رہے گی‘شیخ نے بڑی محبت سے ہمیں طویل وقت دیا جماعتی زندگی اورہماری زبوں حالی پر خوب بات ہوئی۔ شیخ نے اپنا سکول ومدرسہ اور مکتبہ وزٹ کروایا ۔ اصل میں شیخ سرمایہ اہلحدیث ہیں،آپ نے دینی تعلیم جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ سے حاصل کی آپ کے اساتذہ میں سرفہرست مولانا ابو البرکاتؒ،مولانا اعظم ؒاور مولانا الیاس اثری صاحب امل ہیں،آپ نے ایم اے عربی پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اور مدینہ یونیورسٹی سے ۱۴۰۴ھ میں سند فراغت پا کر اپنے وطن واپس لوٹ آئے۔آپ نے تدریس کا آغاز جامعہ اثریہ جہلم سے کیا اور پھر 1996ء میں صادق آباد تشریف لا کر جامعہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی‘جس میں شعبہ تحفیظ اور شعبہ کتب کی تعلیم جاری کی ‘ 2009ء سے یہ ادارہ شہر سے باہر شارع عام پر منتقل ہو گیااوراب اس ادارہ میں دینی ودنیاوی تعلیم دونوں کوضم کر دیا گیا ہے اور اس ادارے کانام ’’الاصلاح اسلامک ایجوکیشن سسٹم‘‘ رکھا گیا ہے۔شیخ نے راقم کو وہ نصاب بھی دیکھایا جو شیخ اپنے اس ادارے کے لیے خود مرتب کر رہے ہیں اور کچھ کلاسز کے لیے ترتیب دے چکے ہیں شیخ کا کہنا تھا کہ اب ہم اس نئے انذاز سے تعلیمی میدان میں اتر رہے ہیں اور جلد اس اندازتعلیم کوہم صادق آباد اور اس کے گرد ونواح میں پھیلا دیں گے۔

آپ کے شاگردوں میں شیخ مبشر ربانی ،عبد المنان راسخ ،غلام مصطفی ظہیر امن پوری ،الطاف الرحمن جوہر، عبدالقہار محسن،عبدالرزاق اظہر،منیر احمد وقار اور قمر الزمان المدینی وغیرہ شامل ہیں۔

موصوف اصول فقہ ومیراث میں خاصی دسترس رکھتے ہیں مجھے آپ کے صاحبزادے حافظ عبد المنان صاحب نے بتلایا کہ آپ اسی موضوع کی تدریس کے لیے اکثر بیرون ملک مصر اور کویت وغیرہ جاتے رہتے ہیں ‘آپ نے کئی ایک اسلامی ممالک کے علمی سفر بھی کئے ہیں جن میں مصر ،کویت ،سعودی عرب،عرب امارات،ترقی ،عراق،الجزائر،برطانیہ اور افریقہ وغیرہ شامل ہیں۔

مجھے چوک اعظم سے مولانا شفقت رندھاوا صاحب نے بتایا کہ آپ کی اصول فقہ پر ایک کتاب’’تلخیص الاصول‘‘ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ایم اے اسلامیات کے نصاب میں بھی شامل ہے اور عرب کے کئی اہل قلم نے اپنی فقہ کی کتابوں میں شیخ کی کتب کاحوالہ بھی دیا ہے۔نیز آپ کی معروف کتب میں تحقیق الغایۃ فی رواۃ نصب الرایۃ،تیسر الاصول،حاشیہ نورا لانوار(تین جلدوں میں)،نحو اللغۃ دلالۃ واستدلاًوغیرہ ہیں ۔

بعد از نمازمغرب راقم کا درس قرآن جامع مسجد اڈا منٹھار پر تھا ‘درس کے بعد دوستوں سے ملاقات ہوئی جن میں ریاض محمود بھائی ،قاری عبد الصمد صاحب وغیرہ شامل ہیں۔بعد از درس ہم نے صادق آباد کو الوداع کہا اور رحیم یار خان کی طرف رخت سفر باندھا ‘رحیم یار خان ضلع اور صدر مقام ہے‘انتظامی طور پر شہر 9 یونین کونسلوں میں منقسم ہے۔ 1998 ء کی مردم شماری کے مطابق، شہر کی آبادی میں 3.50 فیصد کی سالانہ ترقی کی شرح کے ساتھ 233.537 تھی 2009 کے مطابق یہ 340.810 کے قریب ہے۔شہر کے باشندوں کی اکثریت پنجابی بولتے ہیں، جبکہ سرائیکی ،اردواور انگریزی بھی کثرت سے بولی جاتی ہے۔ رحیم یار خان کے مختلف تعلیمی اور سرکاری اداروں میں اردو اور انگریزی زبان میں پڑھایا جاتا ہے۔نیز شہر کی معروف چیزوں میں شیخ زید میڈیکل کالج جو کہ متحدہ عرب امارات کے شیخ زید بن سلطان النہیان مرحوم حکمران کے نام پر رکھا گیا ہے۔شہر میں شیخ زید میڈیکل کالج کا قیام بین الاقوامی نقشے پر ڈالاگیاہے۔کالج پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی طرف سے تسلیم شدہ ہے۔اورشہر کی دوسری معروف چیزوں میں شیخ زید ہسپتال ہے وہ بھی عرب امارات کی طرف سے اہلیان رحیم یار خان کے لیے خاص تحفہ ہے۔

ہمارے سائق جاویدپاشا صاحب بڑی تیز رفتاری کے ساتھ گاڑی چلا رہے تھے کیونکہ ہمیں نماز عشاء کے بعد صاحبزادہ مولانا ثناء اﷲ شاہد قصوری صاحب کے پاس مرکز منھاج الاسلام میں درس دینا تھا۔ نہر کنارے پر واقع خوبصورت مرکز منھاج الاسلام اہلحدیث میں نماز عشاء ادا کی اور چند منٹ وعظ ہوا اور پھر قصوری صاحب کے ہاں ضیافت سے محظوظ ہوئے۔،قصوری صاحب عالم باعمل ،فاضل نوجوان اور ہر دلعزیز پنجابی کے خطیب ہیں مولانا عبد المنان راسخ صاحب کے بہنوئی اور مولانا مظفر شیرازی صاحب کے ہم زلف ہیں ،موصوف 29رمضان المبارک 1975ء کو پیدا ہوئے ، ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقہ تحصیل پتوکی میں حاصل کی اور حفظ قرآن اپنے والد محترم قاری عبد الرحیم میر محمدی صاحب سے مدرسہ ریاض الجنہ بونگہ بلوچاں پھول نگر میں کیا‘پھر دینی تعلیم کے لیے گوجرانوالہ کا رخ کیا ‘ جامعہ اسلامیہ اور جامعہ محمد یہ کے شیوخ سے فیض حاصل کیا ‘آپ کے شیوخ میں مولانا حافظ عبد اﷲ صاحب ‘مولانا الیاس اثری صاحب،مولاناامین محمدی صاحب،حافظ عبدا لمنان نور پوری صاحب اورمولانا عبد الحمید ہزاروی صاحب وغیرہ سر فہرست ہیں۔ 1996ء میں آپ نے جامعہ محمدیہ جی ٹی روڈ گوجرانوالہ سے سند فراغت حاصل کی ‘ ابو تراب طب اسلامی کالج بوہڑچوک لاہورم سے دو سال طب کا کورس کیا ‘میٹرک گوجرانوالہ بورڈ سے کیا‘ مکمل وفاق المدارس کے امتحانات جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں دیے۔
تعلیم سے فراغت کے بعد آپ دعوت وتبلیغ کے میدان میں اتر آئے ‘کچھ عرصہ موڑ کھنڈااور ضلع شیخوپورامیں خطابت کے فرائض سرانجام دئیے ‘پھرجولائی 1998ء شہر رحیم یارخان تشریف لے آئے ‘پہلے خطابت وامامت کے ذمہ داری جامع مسجد مبارک مسلم بازار میں دی ‘ پھر ستمبر2006ء نہر کنارے منٹھار روڈ نزد وائیر لیس پل مرکز منھاج الاسلام اہلحدیث میں منتقل ہو گئے‘ اس جگہ اک شاندار مرکز کی تعمیر کا آغاز کیا ‘2009ء کو اس مرکز کی تعمیر مکمل ہوئی اور پروفیسر عبد الستار حامد صاحب نے اس مرکز کا باقاعدہ افتتاح کیا‘جو اب الحمد ﷲ ایک خوبصورت ادارے کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔جس میں شعبہ حفظ اور طالبات کے لیے کتب کا شعبہ جاری ہے‘قصوری صاحب تنظیمی آدمی ہیں آجکل کئی ایک ذمہ داریوں پر فائز ہیں مثلا ناظم اعلی مرکزی جمعیت اہلحدیث تحصیل رحیم یار خان،نائب ناظم تعلیمات مرکزی جمعیت اہلحدیث صوبہ پنجاب،رکن مجلس شوری مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان،ممبر گورنمنٹ امن کمیٹی ضلع رحیم یار خان……!

سارے دن کے سفر کی تھکان نے سب کو جھولناشروع کر دیا تھا ،سب ساتھی استراحت فرمانے لگے ‘ راقم نے کچھ دیر قصوری صاحب سے حالات حاضرہ‘ جماعتی احباب اور دعوت دیں کے کام کے انداز پر تبادلہ خیال کیا اور پھراپنے جسم کاحق دینے کے لیے بسترپرنیندکے لیے دراز ہوگیا۔قصوری صاحب کے پاس بتائی ایک رات یقینا ساری زندگی بھلائی نہیں جائے گی۔

نماز فجر سے پہلے ہی الگے دن کی مصروفیت آواز دینے لگی ۔بھائی عبد الرحمن ہمیں لینے کے لیے پہنچ چکے تھے عبد الرحمن بھائی آج کل ایف اے کے سٹوڈنٹ ہیں ‘ دینی تعلیم مکمل کر چکے ہیں انہوں نے ابتدائی دینی تعلیم ام القریٰ رحیم یار خاں سے ہی لی‘جامعہ الدعوۃ الاسلامیہ مرکز طیبہ مرید کے سے سند فراغت حاصل کی ‘،عبد الرحمن بھائی پروفیسر عطا ء اﷲ غلزئی صاحب کے صاحبزادے ہیں‘ غلزئی صاحب مولاناعبد اﷲ بہاولپوری aکے شاگردوں میں سے ہیں‘ آج کل کامرس کالج رحیم یارخاں میں اسلامیات کے لیکچرار ہیں۔
مولانا قصوری صاحب سے اجازت لے کر ہم نے نماز فجرجامع مسجد باب السلام میں ادا کی ‘مختصر بیان ہوا ‘ عبد الرحمن غلزئی کے ساتھ مرکز ام القری جو کہ جناح پارک کے ساتھ ہے اسکا وزٹ کیا ‘ محترم عطاء اﷲ غلزئی صاحب کے گھر پرتکلف ناشتہ ہوا‘ناشتہ کے دوران دینی دنیاوی کئی ایک موضوعات پر باہم تبادلہ خیال ہوا۔
ناشتہ کے بعد عبد الرحمن بھائی ہمیں مرکز القادسیہ نیازی کالونی لے گئے وہاں مرکز کے مدیر جناب معاویہ بھائی سے ملاقات ہوئی جامعہ کا وزٹ کیا اور قصر (محل)ابو ظہبی یا صحرا ابو ظہبی کی طرف نکل گئے۔یہ شہر سے کوئی 25کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بہت بڑی سیر گاہ ہے جو خاص طور پر پاکستان اور عرب دوستی پر بنائی گئی ہے اس میں شیخ زید بن سلطان النہیان متحدہ عرب امارات کے سابق صدر کے محلات ہیں‘یہ ان کے بیٹے اور جانشین خلیفہ بن زید النہیان کی ملکیت ہیں‘تقریبا 35مربع کلومیٹرپر محیط یہ رقبہ مکمل طور پر فوج کے کنڑول میں رہتا ہے ۔چودہ سے پندرہ مربع میل پر مشتمل ایک لمبی شکار گاہ بھی بنائی گئی ہے جہاں صرف عر ب مہمان ہی شکار کر سکتے ہیں۔اس کے متصل شیخ زید انٹر نیشنل ائر پورٹ بھی بنایا گیا ہے۔سیاحت کے لیے آئے مہمانوں کے لیے اس کے پاس ایک وسیع وعریض دلکش مناظر سے بھر پور ہوٹل بھی ہے جہاں سے عبد الرحمن بھائی نے ہمیں اونٹنی کے دودھ کی چائے بھی پلائی جو وہاں کی سپیشل سوغات تھی۔بھائی زاہد مجید، راشد سلیم اور جاوید اکرم بھائی نے وہاں کے بہت سے خوبصورت مناطر کو اپنے موبائل کیمروں میں بند کئے ۔
اب دن ڈھلنے کے قریب تھا ہم نے عبد الرحمن بھائی کا شکریہ ادا کیا اور خان پور کی طرف سفر شروع کر دیا۔ خان پور رحیم یار خان سے45کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ہمیں قریب قریب پونا گھنٹہ لگا اور ہم شہر خان پور میں داخل ہو گئے۔

خانپور شہر اور یہاں کی آبادی قدیم ہے اس شہر کی باقاعدہ بنیاد سابق والیِ ریاست بہاو لپور نواب بہاول خان عباسی نے 1806 ء میں رکھی‘ جب انہوں نے ایک ذیلی ریاست گڑھی اختیار خان کواپنی ریاست میں شامل کیا تو اس کا نام بھی اپنے نام کی نسبت سے خانپور رکھا ۔ محل وقوع کے لحاظ سے یہ شہر کافی اہمیت کا حامل ہے‘ لا ہور اور کراچی کے وسط میں ہو نے سے مین ریلوے لائن اس شہر کے اندر سے گزرتی ہے جو 1880 ء کی دہائی میں بچھائی گئی تھی ۔ یہاں پر کافی عرصہ تک ( 1905ء سے لیکر 1985 ء تک ) ریلوے جنکشن رہاہے جو بعد میں ختم کر دیا گیا ۔

خانپور کوخان پور کٹورہ کہتے ہیں کہ اسکی دو روایات ہیں ایک یہ کہ ماضی میں یہاں کے بنائے ہوئے کٹورے پورے برصغیر میں مشہور تھے دوسرا یہ کہ جغرافیائی لحاظ سے شہر کٹورہ کی مانند ہے اور سیلابی پانی کٹورہ کی طرح جمع ہوجاتا تھا 1927ء میں ہیڈپنجندشروع ہونے کے بعدسیلابی پانی بند ہوگیا ‘1973ء کے سیلاب میں پانی سیدھا خانپور میں کٹورے کی طرح جمع ہوگیا۔

سابق ریاست بہاولپور کے دور میں خان پور کا شہر اس ضلع کا صدر مقام رہ چکا ہے‘مگر 1934ء میں رحیم یارخان کو ضلعی ہیڈ کوارٹر بنا دیا گیا جس کی بناء پر اس کی اہمیت میں کمی واقع ہو گئی ،تاہم اب بھی وہ تحصیل ہیڈ کواٹر ہے اور میونسپل کمیٹی کا درجہ رکھتا ہے۔

خانپور تحصیل کی آبادی 1998 ء کی مردم شماری کے مطابق 1,20,382 نفوس پر مشتمل ہے جس میں اب تک کا فی حد تک اضافہ ہو چکا ہے جو اب بڑھ کر اندازاً 1,58,784 افراد تک پہنچ چکاہے۔کچے کھو ئے کے پیڑے اور ججہ عباسیاں کی کھجوریں یہاں کی مشہور سو غات ہیں ۔

خانپور شہر کو تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ ایک خاص اہمیت رکھتا ہے خانپور کے نزدیک قصبہ دین پور شریف تحریک آزادی کے حوالہ سے بہت مشہور رہا ہے جب یہ قصبہ تحریک ریشمی رومال کا گڑھ تھا اور مولا نا عبیداﷲ سندھی ؒ اس کا خاص کر دار تھے مو لا نا عبیداﷲ سندھیؒ کا مدفن بھی دین پور شریف میں ہے جہاں معروف عالم دین صوفی غلام محمد ؒ اور حضرت عبداﷲ درخواستی ؒ بھی مدفون ہیں۔

ہم نے نماز ظہر جامعہ محمدیہ اہلحدیث میں ادا کی جس کی امام کعبہ محمد بن عبد اﷲ السبیل صاحب نے سنگ بنیاد اپنے دست مبارک سے رکھی تھی یہ ادارہ مولانا قاری عبد الوکیل صدیقیؒکے نام سے ملک بھر میں جانا جاتا ہے کیونکہ اس ادارے کا آغاز صدیقی صاحب نے ہی۱۹۸۶ء میں کیا تھا۔موصوف اصل ہری پور ہزارہ کے رہنے والے تھے،1955ء میں پیدا ہوئے ،چوہان برادری سے تعلق رکھتے تھے ، ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی اور مزید دینی تعلیم کے لیے گوجرانوالہ کی زرخیز سرزمین کا انتخاب کیا ‘ جامعہ محمدیہ اورجامعہ اسلامیہ کے شیوخ مثلاحافظ محمد گوندلوی ،مولانا ابو البرکات احمد مدراسی ،مولانا عبد اﷲ ،مولاناحافظ عبد المنان نورپوری اور عبد الحمید ہزاروی صاحب وغیرہ سے فیض یاب ہوئے ‘اپنی دعوت وتبلیغ کا مرکز خان پور کو چنا،آپ ۲۷ جولائی ۱۹۷۴ء کو خان پور تشریف لائے او ر ساری زندگی جہاں ہی بسر کر دی، ساٹھ کے قریب مساجد خان پور اور اس کے گردونواح میں تعمیر کروائیں‘آپا ایک نڈراور بے باک خطیب تھے ‘آپ نے دنیا بھر کے تبلیغی دورے کئے جن میں سعودی عرب ،برطانیہ، افغانستان،مصر،بنگلہ دیش،متحدہ عرب امارات اور ترقی وغیرہ شامل ہیں‘ آپ نے یکم مارچ 2013ء بروز جمعۃ المبارک کو انتقال فرمایا‘ وصیت کے مطابق آپ کو آپ کے آبائی علاقہ ہری پور میں دفن کیا گیا‘یقینا آج آپ اس دنیا میں موجود نہیں ہیں مگرآپ کا جامعہ آپ کی نیکیوں کا ایک ایسا دفتر ہے جو کبھی بند نہیں ہو گا بلکہ آپ کے لیے ہمیشہ صدقہ جاریہ رہے گا۔
پھر اس کے جاتے ہی یہ دل سنسان ہوکر رہ گیا
اچھا بھلا اک شہر تھا ویران ہوکر رہ گیا

جامعہ محمدیہ خان پور میں ہمارا استقبال جامعہ کے شیخ مولانا حافظ محمد عاصم شاہین صاحب نے کیا‘قاری عبد الصمد صاحب کے بھانجے قاری سیف اﷲ صاحب جو کہ جامعہ میں مدرس بھی ہیں نے ہماری بڑی محبت سے ضیافت کی ‘شاہین صاحب نے ادارے کا وزٹ کروایا اور ساتھ ساتھ بتایا کہ جامعہ کا رقبہ تین ایکٹر پر مشتمل ہے جس میں للبنین اور للبنات دونوں شعبوں میں تعلیم کا سلسلہ جاری ہے طلباء وطالبات کی مجموعی تعداد چھ سو کے قریب ہے ‘ معلمین ومعلمات کی تعداد ۴۵ ہے۔جامعہ کی وسیع لائبریری کو دیکھ کر اہل جامعہ کی علم دوستی کا ذوق بھی دیکھنے کو ملا، شاہین صاحب نے مزید بتلایا کہ جامعہ میں کئی ایک شعبہ جات میں کام جاری ہے جیسے شعبہ تحفیظ،شعبہ درسی نظامی ،شعبہ دعوت واصلاح،شعبہ تعمیر مساجد،شعبہ خدمت خلق،شعبہ دارالافتاء اور فری ڈسپنسری وغیرہ۔

سورج بڑی تیز ی سے اپنی روشنی مدھم کرتا ہو امغرب کی طرف رواں تھا مگر ہمارا سفر مشرقی جانب احمد پور شرقیہ کی طرف تھا‘ ہم مولانا حافظ محمد عاصم شاہین صاحب اور قاری سیف اﷲ صاحب سے اجازت لے کراحمد پور شرقیہ کی طرف نکل پڑے ‘اب ہمیں اوچ شریف کی ایک جانب سے گزر کرہتھیجی (صدیقہ آباد )پہنچنا تھا جو ہماری جامع مسجد کے مدرس قاری ابو بکر صاحب کاگاؤں ہے،5بجے کے قریب ہم قاری صاحب کے گاؤں میں پہنچ گئے ‘قاری صاحب کے والد محترم جناب حضور احمد صاحب جو کہ محکمہ ہیلتھ سے ریٹائرڈ ہیں ،ہم سے بڑی محبت کرتے ہیں اکثر رمضان المبارک کا آخری عشرہ ہمارے پاس آکر حاصل پور میں گزارتے ہیں آپ ان کی دینی محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے کل چھ بیٹے ہیں قاری ابو بکر،حافظ عمر ،حافظ عثمان،حافظ علی،حافظ انس اورمعاویہ ،معاویہ کے علاوہ سب کے سب حافظ قرآن ہیں ‘ معاویہ بھی حفظ کر رہا ہے‘ حافظ علی اور حافظ انس درس نظامی مرکز البدر بہاولپور میں کر رہے ہیں،اﷲ تعالیٰ ان کے تمام بچوں کو دین کا عالم اور خادم بنائے‘ اپنے والدین کا تابعدار اور خدمت گزار بنائے ۔

قاری صاحب کے گاؤں میں تمام برادران نے بڑی محبت اورخلوص سے پرتکلف کھانا پیش کیا ، قاری صاحب کے دیگر اعزواقارب مثلامحمد نواز صاحب ،غلام رسول صاحب اورمحمد عدنان صاحب سے بھی ملاقات ہوئی ‘قاری صاحب کے والد محترم نے تحائف کے ساتھ ہمیں دعائیں دیتے ہوئے مغرب کے بعد رخصت کیا ‘اﷲ تعالیٰ ان کے گھر بار میں ہمیشہ رحمتوں برکتوں کا نزول فرمائے ۔آمین

ہتھیجی سے اب بہاولپور کی طرف سفر شروع ہو چکا تھا ،تقریبا ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ہم بہاولپور میں عیدگاہ کے قریب مولانا عبد اﷲ بہاولپوری ؒ کی یاد گار ادارے جامعہ محمدیہ میں پہنچ گئے۔وہاں ہمیں استاد محترم شیخ عبداللطیف بن عطاء اﷲ حفظہ اﷲ سے ملاقات کرنی تھی ‘استاد محترم اس وقت جامعہ محمدیہ مرکز البد رشکار پوری گیٹ کے شیخ الحدیث اور مدیرہیں‘ جماعۃ الدعوۃ کی طرف سے جنوبی پنجاب کے تمام مدارس کے نگران بھی ہیں‘آپ کوٹ گجراں ملتان کے رہنے والے ہیں،گجر برادری سے تعلق رکھتے ہیں، آپ نے ابتدائی دینی تعلیم جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے حاصل کی اور پھر مدینہ یونیورسٹی سعودی عرب سے کلیۃ الحدیث میں سند فراغت حاصل کی ‘آپ نے ملتان سے ایم عربی( گولڈ میڈلسٹ) کیا‘اور ہمارے اس میگزین کے سر پرست اور مفتی بھی ہیں،اﷲ تعالیٰ آپ کے علم وعمل میں برکت عطا فرمائے۔آمین!

مرکز البدر میں پہنچتے ہی ہماری ملاقات محترم حبیب الرحمن بھائی سے ہوئی جو تیرہ سولنگ یزمان سے تعلق رکھتے ہیں ‘ آجکل محترم رانا عمر فاروق صاحب کے سائق کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں‘ شیخ صاحب نے بڑی محبت کے ساتھ کولڈ ڈرنک پیش کرتے ہوئے وقت دیا ‘کچھ دیر باتیں ہوئیں اور ہم شکریہ ادا کرتے ہوئے واپسی اپنے شہر حاصل پور کے لیے روانہ ہوگئے ۔اس دو دن کے سفر میں ہر ساتھی کا ایک ہے شکوہ تھا:
اتنی مدت میں تو کلیاں بھی نہیں مر جھاتیں
ادھر آئے ہو ،اُدھر کوچ کی تیاری ہے
اورراقم نے بھی زبان حال سے یہ کہہ کر اپنا سفر جاری رکھا :
اڑتے ہوئے پرندوں کو کوئی قید نہیں کر سکتا فرازؔ
جو اپنے ہوتے ہیں وہ خود ہی لوٹ آتے ہیں
بحرحال ہم الحمد ﷲ بخریت رات 10بجے اپنے گھرحاصل پور پہنچ چکے تھے۔
Azeem Hasalpuri
About the Author: Azeem Hasalpuri Read More Articles by Azeem Hasalpuri: 29 Articles with 45388 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.