ایران ،سعودی عرب چپقلش،قصوروار کون ہے؟

ایران میں خمینی انقلاب سے پہلے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات انتہائی خوشگوار تھے۔ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی اور پراکسی وار کاتصورتک نہیں تھا۔ایران نے جب اپنا انقلاب دوسرے ملکوں میں ایکسپورٹ کرنا شروع کیا،تب سے ایران ان ملکوں میں متنازع بن گیا۔چنانچہ 1979کےایرانی انقلاب کے بعد جہاں مشرق وسطی میں ایرانی اثرورسوخ بڑھنا شروع ہوا،جس کا ہدف سعودی عرب اور حرمین تھا،وہیں پاکستان میں بھی ایرانی انقلاب کے بعد فرقہ واریت کی خوفناک کشمکش شروع ہوگئی۔ایرانی انقلاب کے بعد کئی بار ایران نے سعودی عرب میں دخل اندازی کی کوشش کی،لیکن سعودی عرب صبروتحمل کا مظاہرہ کرتارہا،لیکن حال میں سعودیہ نےاپنے 47 شہریوں کو دہشت گردی اور بغاوت کے جرم میں پھانسی دی،جس میں سعودی شیعہ عالم نمرالنمربھی شامل تھے،ایران نے اس شعیہ عالم کی سزا پرکڑی تنقید کی اور سعودی عرب کو سخت انتقام کا عندیا دیا۔اگر بات یہیں تک ہوتی تو معاملات اتنے خراب نہ ہوتے،لیکن ایران میں سعودی سفارت خانہ جلانے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات ختم ہوگئے۔سعودی عرب کے شانہ بشانہ اب تک بحرین،سوڈان،صومالیہ اور جبوتی بھی ایران سے تعلقات ختم کرچکے ہیں۔جب کہ کویت،امارات،اردن اور ترکی نے ایران سے سعودی سفارت خانہ جلائے جانے پر سخت احتجاج کیا اور کویت نے اپنا سفیر بھی ایران سے بلالیا۔

ایرانی انقلاب کے بعد سعودی عرب میں ایران کی دخل اندازی کا اندازہ ان واقعات سے لگایا جاسکتاہے۔یہ وہ واقعات ہیں،جن میں تحقیق کے بعد ایران ملوث پایاگیا۔

1980☆میں ایران نے سعودی عرب کے قطیف شہر میں موجودہ شیعوں کے ذریعے ھنگامے کروائے۔
1984☆میں دو ایرانی جنگی جہازسعودی عرب کے شہر جبیل میں بمباری کرنے آئے،جن میں سے ایک کو سعودی ایرفورس نے مارگرایا اور دوسرا بھاگ گیا۔
1986☆میں 110 کے قریب ایرانی حجاج گرفتار کیے گئے جن سے کیمائی مواد برآمد ھوا،انہوں نے اقرارکیا کہ ان کا مقصد مکہ مکرمہ میں خون ریزی تھا۔
1987☆میں ایرانی حجاج نے حرم مکی میں ھنگامہ کیا،جس میں سعودیوں سمیت 402 لوگ مارے گئے اور 649 زخمی ھوئے۔اس واقعے کے بعد پوری دنیا سے ایران کی مذمت کی گئی۔
☆اسی حادثے کے بعد ایران میں پہلی بار سعودیہ عرب کا سفارت خانہ جلایاگیا۔
1989☆میں ایرانی پشت پناہی میں حرم مکی میں بم دھماکہ کیا گیا،جس میں کئے جانیں ضائع ھوئیں۔
1990☆کے حج کے موقع پر ایرانی ایجنٹوں کی شرانگیزی سے 5000 کے لگ بھگ حجاج جاں بحق ھوگئے۔
1996☆میں سعودی شہر"خبر"میں ایران کی طرف سے کیے گئے بم دھماکے میں 19 لوگ جاں بحق ھوئے۔۔
2009☆میں جنت البقیع میں ایرانیوں کی طرف سے ھنگامہ کیا گیا،اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر سرعام تبرہ بازی کی گئی۔
2015☆میں سعودی عرب کے خلاف حوثی باغیوں کی پشت پناھی بھی ایران کررھا ہے،بین الاقوامی سطح پر سعودیہ نے اسے ایکسپوز بھی کیا ہے۔
2015☆کے حج کے موقع پر منی میں ہونے والی بھگدڑ میں ایرانی حجاج ملوث پائےگئے،جس سے 2500 کے قریب حجاج جاں بحق ھوئے۔
2016☆میں سعودی شیعہ عالم کی پھانسی کے بعد ایران میں سعودی سفارت خانہ جلایا گیا اور اب تک مسلسل سعودی عرب کےخلاف پروپیگنڈہ کیاجارہاھے۔

یہ وہ جرائم ھیںجوایران نے سعودی عرب کے خلاف کیے،جب کہ سعودی عرب نے ایران کے خلاف کبھی پرتشدد کاروائی نہیں کی۔بلکہ سعودی عرب ہمیشہ ایران کی ان کاروائیوں کو بین الاقوامی سطح پر اٹھا کر احتجاج کرتا رہاہے۔کچھ ناسمجھ پھر بھی کہتے ھیں کہ سعودی عرب اور ایران دونوں غلط ھیں،دونوں امت مسلمہ میں تفریق ڈالنا چاھتے ھیں۔بعض کم علم تو یہ بھی کہتے ھیں کہ ایران مظلوم ھے۔پاکستان کے خلاف کیے گئے ایرانی جرائم کی تفصیلات بھی کچھ اس سے کم نہیں ہیں،لیکن یار لوگ پھر بھی کہہ رھے ھیں کہ یہ سعودیہ اور ایران کا معاملہ ھے پاکستان کو اس سے دور رھنا چاھیے۔حالاں کہ ایران کی نہ صرف سعودی عرب بلکہ پورے عالم اسلام میں تخریب کاری اور دخل اندازی دنیا کے سامنے واضح ہوتی جارہی ہے۔حال ہی میں صومالیہ نے اسی بناپر ایران سے سفارتی تعلقات ختم کیے کہ ایران ان کے ملک میں شیعہ سنی فسادات کروارہاہے۔صومالیہ کی طرح کئی دیگر افریقی ممالک بھی ایران سے اسی وجہ سے نالاں ہیں۔

ان حقائق کی روشنی میں باآسانی فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ حالیہ ایرانی اور سعودی چپقلش میں کون قصووار ہے؟اس میں کوئی دورائے نہیں کہ آج کے دور میں جنگیں مسائل کا حل نہیں ہیں،مذاکرات ہی واحد حل ہیں باہمی چپقلشوں کو مٹانے کا،لیکن جب مدمقابل مذاکرت کو پاؤں تلے رونددے اور ہٹ دھرمی پراترآئے تو آج کی دنیا میں اسے سیاسی تنہائی کا شکار کرنا بہت ضروری ہے،تاکہ وہ اپنے رویے پر غور کرکے سدھر جائے۔ امریکہ ایران کے ایٹمی پروگرام پر یہ تجربہ آزماچکا ہے۔سعودی عرب کے ساتھ دیگر کئی ملکوں نے ایران سے سفارتی تعلقات ختم کرکے اچھی روش اپنائی ہے،دیگر اسلامی ملکوں کو بھی اس روش پر چلنا چاہئے۔شاید کہ اس طرح ایران دوسرے ملکوں میں دخل اندازی سے باز آجائے۔پاکستان کو ضرور اپنے تعلقات پر غور کرنا چاہئے،ختم نہیں تو کم ازکم محدود کردینے چاہئیں،ان شاءاللہ اس سے ملک میں فرقہ واریت اور بلوچستان میں دہشت گردی کی آگ میں ضرور کمی آئی گی۔

Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 43 Articles with 32236 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.