بسم اﷲ الرحمن الرحیم
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے دورہ پاکستان کے دوران وزیر اعظم نواز
شریف، آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز سمیت دیگر اعلیٰ
حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔ اس دوران ایران سعودی عرب تنازعہ پر بات چیت کے
علاوہ داعش کیخلاف بننے والے 34ملکی فوجی اتحاد میں پاکستان کے کردار سے
متعلق بھی تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا۔سعودی وزیر خارجہ سے ملاقاتوں کے
بعد جاری کردہ اعلامیہ میں سعودی عرب کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف
اسلامی دنیا کے اتحاد کی واضح طور پر حمایت کی اور کہا گیا ہے کہ سرزمین
حرمین شریفین کو کوئی خطرہ ہوا تو پاکستان سعودی عرب کے شانہ بشانہ کھڑا ہو
گا۔پاکستان نے تہران میں سعودی سفارت خانہ پر حملہ کی ایک مرتبہ پھر مذمت
کی ہے۔ اسی طرح سعودی عرب وایران کے مابین کشیدگی کو باعث تشویش قرار دیتے
ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات مذاکرات سے ختم ہونے
چاہئیں۔سعودی وزیر خارجہ نے اپنے ایک روزہ دورہ پاکستان کے دوران دہشت گردی
کیخلاف اتحاد کی تفصیلات سے آگاہ کیا ۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے سعودی
وزیر خارجہ کے اس دورہ کو بہت مفید اور کامیاب قرار دیا ہے۔
سعودی وزیر خارجہ نے تین جنوری کو پاکستان آنا تھا لیکن دہشت گردی اور
بغاوت کے الزامات کے تحت شیعہ عالم شیخ نمر سمیت 47افراد کو پھانسیاں دیے
جانے کے بعد تہران میں سعودی سفارت خانہ جلائے جانے اور ایران کے ساتھ
کشیدگی بڑھنے پر انہوں نے اپنا دورہ ملتوی کر دیا تھا۔ موجودہ حالات کے
تناظر میں یہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ ایسے وقت میں پاکستان آئے
جب ایران اور عراق میں سعودی سفارت خانوں پر حملوں کے بعد سعودی عرب،
سوڈان، کویت اورقطرکی طرح بعض افریقی ممالک نے ایران سے سفارتی تعلقات
منقطع کرتے ہوئے اپنے سفیر واپس بلا لئے ہیں۔ ترک صدر طیب اردگان نے بھی
تہران میں سعودی سفارت خانہ پر حملہ کی مذمت کی اور سخت ردعمل ظاہر کرتے
ہوئے کہاہے کہ وہ لوگ جو شام کی جنگ میں شہریوں کی اموات پر خاموش تھے اب
سعودی عرب میں ایک شخص کی پھانسی پر ہنگامہ برپا کر رہے ہیں۔ بدقسمی کی بات
ہے کہ دنیائے کفر اس وقت پاکستان اور سعودی عرب سمیت تمام مسلم ملکوں کو
کمزور کرنے کیلئے خوفناک سازشیں کر رہا ہے۔ مسلم ملکوں میں تکفیر اور
خارجیت کے بیج بونے کیلئے بے پناہ وسائل خرچ کئے جارہے ہیں اور فرقہ وارانہ
قتل و غارت گری کو ہوا دی جارہی ہے۔ ان حالات میں چاہیے تو یہ تھا کہ
مسلمان ملکوں میں باہم اتحاد کی کیفیت پیدا ہوتی اور وہ سب مل کر دشمنان
اسلام کی سازشوں کا خاتمہ کرتے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ وہ خودآپس میں
دست و گریبان نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے بیرونی قوتوں کو مسلم ملکوں میں
اپنے مذموم ایجنڈے پورے کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ ترک وزیر اعظم کی یہ بات
درست ہے کہ سعودی عرب میں پھانسیاں ان کا اندرونی معاملہ ہے اس پر پرتشدد
ردعمل اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ ایران اور سعودی عرب میں کشیدگی صرف دونوں
ملکوں ہی نہیں پوری مسلم دنیا کیلئے سخت نقصان دہ ہے۔مسلمان ملک اس وقت
پاکستان کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ وہ آگے بڑھ کر ان اختلافات کے خاتمہ کیلئے
کردار ادا کرے۔ پاکستانی حکمران بھی بہت محتاط رویہ اختیا رکئے ہوئے ہیں
اور کوشش کی جارہی ہے کہ کسی طرح بات چیت کے ذریعہ اس تنازعہ کو ختم کیا
جائے۔ ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔ پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے جو یہ کردار ادا
کر سکتا ہے۔ تہران میں سعودی سفارت خانہ جلائے جانے کے بعد مسلم ملکوں کی
جانب سے اپنے سفیروں کی واپسی کے بعد ایرانی صدر حسن روحانی کا تہران میں
سعودی سفارت خانہ پر حملہ کی مذمت کا بیان سامنے آیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ
ایرانی صد رکی جانب سے یہ مذمتی بیان آنا خوش آئند ہے کیونکہ ساری دنیا
سمجھتی ہے کہ سفارت خانوں کو خصوصی تحفظ حاصل ہوتا ہے انہیں نشانہ بنانابین
الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے اور اخلاقی لحاظ سے بھی ایسے واقعات
سے ملکوں کی پوزیشن بہت کمزور ہوتی ہے۔سعودی عرب اور ایران کے مابین کشیدگی
تاحال کم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ مسلم ملکوں میں بھی بعض لوگ سعودی عرب
میں پھانسیوں کے معاملہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوششیں کر رہے ہیں جو
کسی صورت درست نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے کسی مسلم ملک کو تو کوئی
فائدہ نہیں پہنچے گا البتہ اسلام دشمن قوتیں اس کافائدہ ضرور اٹھائیں گی۔
اس لئے پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ سعودی وزیر خارجہ عادل
الجبیر کا دورہ پاکستان اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس دوران داعش
کیخلاف 34ملکوں کے اتحاد کے مقاصد اور آئندہ کے لائحہ عمل پر تفصیل سے
غوروفکر کیا گیا ہے۔ اس اتحاد کے حوالہ سے بھی بیرونی قوتوں کی کوشش ہے کہ
اسے متنازعہ بناکر فرقہ وارانہ رنگ دے دیا جائے۔ پاکستان میں بھی بعض سیاسی
و مذہبی جماعتیں مخصوص مفادات کی خاطر یہی کردار ادا کر رہی ہیں جسے کسی
صورت درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ وزیر اعظم نواز شریف، آرمی چیف جنرل راحیل
شریف اور دیگر پاکستانی حکام کی جانب سے جس طرح واضح طور پر اس اتحاد میں
شمولیت کا عندیہ دیا گیا ہے اس سے یہ گمراہ کن افواہیں بھی دم توڑ گئی ہیں
کہ سعودی عرب نے پاکستان کو اعتماد میں نہیں لیا اور ایسے ہی اس کا نام
مسلم ملکوں کے اتحاد میں شامل کر دیا گیا ہے۔ سعودی عرب کی زیر قیادت34ملکی
اتحاد کا مقصد داعش جیسی تنظیمیں جو مسلمانوں پر کفر کے فتوے لگا کر مسلم
معاشروں میں قتل و غارت گری پھیلارہی ہیں‘ ان کی دہشت گردی ختم کرنا ہے اور
یہ اس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مسلمان ملکوں کو بیرونی سے زیادہ اندرونی
خطرات درپیش ہیں اور دہشت گردی کا یہی و ہ فتنہ ہے جو پوری مسلم امہ کو
اندر ہی اندر کھائے جارہا ہے۔ اب تو ہیلری کلنٹن نے بھی واضح طور پر کہہ
دیا ہے کہ داعش بنانے میں ان کا ہی کردار ہے۔ اس کے بعد بھی مسلمانوں کی
آنکھیں نہ کھلیں تو اس پر افسوس کے علاوہ اور کیا کیا جاسکتا ہے؟۔پاکستان
اور سعودی عرب خاص طورپر اندرونی دہشت گردی کا شکار ہیں اور اس فتنہ پر
قابو پانے کیلئے کوششیں کر رہے ہیں۔ پاکستان کو چونکہ آپریشن ضرب عضب میں
زبردست کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اس لئے سب مسلمان ملک وطن عزیز پاکستان کی
اس اتحاد میں شمولیت پر خوشی محسوس کر رہے ہیں۔سعودی وزیر خارجہ کے دورہ
پاکستان کے دوران دفاع، سلامتی اور معیشت سمیت تعاون کے تمام شعبوں میں دو
طرفہ تعلقات کو مزید وسعت دینے اور مضبوط بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ اس موقع
پر سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کے دوران
خادم الحرمین الشریفین کا خصوصی پیغام پہنچایا اور پاکستان میں اہم شعبوں
میں سعودی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کیلئے کئے جانے والے اقدامات سے آگاہ
کیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے بھی کہاکہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین گہرے
اور دیرینہ تعلقات ہیں جو ہمیشہ قائم و دائم رہیں گے۔میں سمجھتاہوں کہ
سعودی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان اور سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقاتوں کے
دوران کئے گئے اہم فیصلوں سے جہاں دہشت گردی ختم کرنے کیلئے کامیابیاں حاصل
ہوں گی وہیں تمام مسلمان ملکوں کے مابین اتحاد ویکجہتی کیلئے کی جانے والی
کوششیں بھی ان شاء اﷲ ضرور کامیاب ہوں گی۔ ہمیں امید ہے کہ پاکستان کی
کوششوں سے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات بھی جلد بہتر ہوں گے اورکشیدگی کم
کرکے تمام مسائل کے سیاسی حل نکالے جاسکیں گے۔ |