ریحام کا گانا اور خان کا بہانہ

بچپن میں سنی لوری کے سُر اچھے ہوں تو لوگ کلاسیکل گائیک بن جاتے ہیں اور بُرے ہو ں تو پاپ سنگر۔سنا ہے بچے اپنی مادری زبان میں روتے ہیں لیکن بعض بچے مادر ی سے زیادہ’’ پادری‘‘ زبان سمجھتے ہیں۔۔۔۔خاتون اول بننے کی سابق امیدوارریحام خان جس سیڑھی پر پاؤں رکھ کرآخری زینے تک پہنچنا چاہتی تھیں اس سے دھڑم گر پڑی ہیں۔وہ اپنے تئیں سانپ سیڑھی گیم کھیل رہی تھیں۔ اچانک99 پر سانپ کا ڈنک کھالیا۔گیم سے آوٹ ہو نے کا انہیں اچھا خاصا دکھ تھا۔عالم سوگواری میں ایک دن ریحام نے چترا سنگھ کی گائی ہو ئی غزل ’’عشق میں غیرت جذبات نے رونے نہ دیا‘‘گنگنائی۔غزل کی استھائی تو بالکل ٹھیک ٹھاک گائی لیکن جب انترا۔گایاتو ریحام کے گلے میں سوز و گداز اتر آیا

ریحام کی تصویر جب وہ گاتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں

بچپن میں اماں بھنڈیاں کاٹتی توبھنڈی کی ٹوپیاں چھری سے کاٹ کر الگ برتن میں رکھتی جاتی ۔ہم تھوڑی تھوڑی دیر بعد ماں کے پاس آتے ۔ برتن سے ٹوپیاں اٹھا کر ماتھے ، ناک ، ٹھوڑی اور گالوں پر چپکالیتے پھر بے وجہ اڑتے پھرتے۔اُڑان کے دوران بازوں کو ہم یوں کھلے رکھتے جیسے فلم ڈی ڈی ایل جے میں راج ( شاہ رخ ) ، سمرن(کاجول) کے لئے کھولے رکھتا ہے۔پورا دن ایسی ہی خر اور شر مستیوں میں گذر جاتا تو رات کو دادی یا نانی کے ہتھے چڑھ جاتے۔ دادیوں اورنانیوں کے پاس حالانکہ شہزادوں اور پریوں کی کہانیاں بھی ہوتی ہیں لیکن وہ ہمیں گود میں سمیٹ کر لوری سناتیں اور سُلانے کے بہانے اپنے سُر پکے کرلیتیں۔انہی کچی لوریوں کی وجہ سے میرے بڑے بہن بھائیوں کے کان پک گئے۔ہماری باری آئی تو سُر پکے ہو چکے تھے ۔میرے کان پکنے کے بجائے سُریلے ہو گئے۔لوگ گاتے بہت اچھا ہیں لیکن میں سُنتا بہت ہی اچھا ہوں۔بچپن۔ موت تک زندگی کا پیچھا کر تا ہے۔بچپن میں کہا ہوابندہ بھول جاتا ہے لیکن سُنا ہوا یا د رکھتا ہے۔حتی کہ ردھم اور لہجے بھی یاد رہ جاتے ہیں۔ میراثی کا بچہ سکول میں داخل ہوگیا۔
ٹیچر:دو کا پہاڑا سناؤ
بچہ شرما کر: مس جی تُسی فیر نکی نکی ڈھولکی بجاؤ۔

بات صرف لو ریوں پر انحصار کرنے کی ہوتی ہے۔لوری کے سُر اچھے ہوں تو لوگ کلاسیکل گائیک بن جاتے ہیں اور بُرے ہو ں تو پاپ سنگر۔سنا ہے بچے اپنی مادری زبان میں روتے ہیں لیکن بعض بچے مادر ی سے زیادہ’’ پادری‘‘ زبان سمجھتے ہیں۔یہ فارمولہ ایپلائی کیا جائے تو میراثیوں کا بچہ روتا بھی سُر میں ہے ۔کبھی اونچے نوٹ میں اورکبھی نچلے سُر میں۔نک چڑھی یہ نسل صرف کریلے گوشت کھانے کے لئےزندہ رہتی ہے۔ روسٹڈ قیمے کے اوپر ڈالے ہوئے ادرک کے قاشے ۔کی کرچ کرچ کے ساتھ ہی ان نزاکت نمایاں ہونے لگتی ہے۔انہیں گانے کے لئے تہوار یا فنکشن کا انتظار نہیں ہوتا ۔ عام گھرو ں میں جیسے تھوڑی تھوڑی دیر بعد بچے کچن میں جا کر فریج کی تلاشی لیتے ہیں۔ ایسے ہی مراثی تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ڈھولکی بجاتے رہتے ہیں۔حتی کہ پہاڑے بھی ڈھولکی پر یاد کرلیتے ہیں۔پیدائش سے لے کر موت تک ڈھولک ساتھ ہی رہتی ہے۔ بستر مرگ پر لیٹےسینئر میراثی کی عیادت کے لئے باقی ہمنوا اکھٹے تھے۔صبح سے دوپہر ہو گئی۔تو ایک میراثی بولا۔’’ویلے جو بیٹھے آں، پولی پولی ڈھولکی نہ وجا لیئے۔؟‘‘

بچپن کی لوریاں ہم جوانی چڑھتے ہی اپنے اوپر ایپلائی کر دیتے ہیں۔جوانی جسم پر ہمیشہ اکاس بیل کی طرح چڑھتی ہے۔انگ انگ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔کچھ اعضا سکھ جاتے ہیں اور چند نمایاں ہو جاتے ہیں۔ چہرے پر جوانی کی نشانی مہاسے ہوتے ہیں۔ جونہی مہاسے نکلتے ہیں ہر شخص کے گلے میں بھگوان بولنے لگتا ہے۔عام گھرانوں میں گانے کی سب سے زیادہ ریہرسل باتھ روم میں ہوتی تھی کیونکہ کُنڈی نہیں ہوتی تھی لیکن آج کل گھرانے کم ہوتے جا رہے ہیں۔۔موسمی گلوکار میدان میں اتر آئے ہیں۔ایک گلوکار نے اپنے ہمسائے کو شکایت کی۔
گلوکار: میں جب بھی گانا شروع کرتا ہوں آپ کا کتا بھونکنے لگتا ہے
ہمسایہ: اس میں کتے کا کیا قصور پہل تو آپ ہی کرتے ہیں۔

پہل کوئی بھی کرے ان بے سُروں نے ہمارے کان پکا دئیے ہیں۔ان عطائی گلوکاروں سے بھلی تو ٹریکٹر ٹرالی پر چلنے والی ٹیپ لگتی ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ ٹریکٹر ٹرالی پر لگی ٹیپ اور بڑھاپے کی شادی دوسروں کے لئے ہوتی ہے۔معروف سیاسی کنوارے شیخ رشید احمد نے تو اس دو شرطی جملے میں بنک کی نوکری بھی شامل کی ہے۔آپ پتہ نہیں اتفاق کریں گے یا نہیں لیکن اتفاق یہ ہےکہ موسم سرما میں باتھ روم کے اندر ہونے والی گلوکاری باہر بیٹھے لوگوں کو سردی اور ٹھنڈے پانی کی شدت کا احساس کرانے کے لئے ہوتی ہے۔نہاتے ہوئے منہ سے ’’راگِ بے ساختہ‘‘ پھوٹتا ہے اور جھاگ منہ میں جانے تک یہی راگ چلتا ہے۔صابن ملائم ہونے کے باوجود منہ سے ایم کیو ایم کےقائد الطاف حسین کے رِنگنے جیسے سُر نکلتے ہیں یا پھر کیفیت مارننگ شو کی ٹی وی اینکر عائشہ ثنا کے منہ سے نکلنے والے ’’جنتر منتر‘‘جیسی ہو جاتی ہےلیکن بعض لوگ نہانےاور گانے سمیت بہت سے کام بیک وقت کرنے کی خوبی رکھتے ہیں ۔

پطرس بخاری کے کسی عزیز کا نکاح تھا۔ نکاح پڑھانے کے لئے مولوی کی تلاش تھی۔ بہت مشکل سے ایک دُبلا پتلا سا شخص ڈھونڈ کر لایاگیا ۔ پطرس صاحب دیکھ کر بولے۔ نکاح کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔نکاح خواں کی اور چھوہارے کی۔ ماشااللہ آپ میں دونوں صفات موجود ہیں۔

یہ ساری تمہید ایک ایسی غزل کی وجہ سے باندھی گئی ہےجوپچھلے دنوں خاتون اول بننے کی سابق امیدوار ریحام خان نے گائی تھی۔ریحام جس سیڑھی پر پاؤں رکھ کر خاتون اول کے زینے تک پہنچنا چاہتی تھیں اس سے دھڑم گر پڑی ہیں۔وہ اپنے تئیں سانپ سیڑھی گیم کھیل رہی تھیں۔ جب بھی دانا پھینکتی سیڑھی چڑھ جاتیں۔ اچانک99 پر پہنچ کر سانپ کا ڈنک کھایا اورمنہ کے بل آ گریں۔گیم سے آوٹ ہو نے کا انہیں اچھا خاصا دکھ تھا۔عالم سوگواری میں ایک دن ریحام سے گانے کی فرمائش ہوئی تو انہوں نے بھارتی شاعر سدھرشن فاکرکی لکھی ہوئی غزل جسے چترا سنگھ نے گایا تھا گُنگنائی ۔غزل کے بول ہیں’’عشق میں غیرت جذبات نے رونے نہ دیا‘‘۔غزل کی استھائی تو بالکل ٹھیک ٹھاک گائی لیکن جب انترا ’’ورنہ کیا بات تھی کس بات نے رونے نہ دیا‘‘۔گایاتو ریحام کے گلے میں سوز و گداز اتر آیا۔میں تو منتظر تھا کہ ریحام کا ردعمل غزل کےمقطع پر کیسا ہوگا۔؟ لیکن مقطع پر پہنچنے سےقبل ہی محفل رنجیدہ اور ریحام آبدیدو ہوگئیں۔مقطع یہ ہے
ایک دو روز کا صدمہ ہو تو رو لیں فاکر ؔ
ہم کو ہر روز کے صدمات نے رونے نہ دیا

ریحام خان کی یہ غزل’’ون پاؤنڈ فش ‘‘ کی طرح جلد ہی وائرل ہوگئی۔لوگوں نے بہت پسند کیا لیکن مجھے کوئی خاص حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ جب عمران خان نے وزیر اعظم نواز شریف کوالیکشن لڑنے کا چیلنج کیا تھا تب ریحام ’’ آ دیکھیں ذرا کس میں کتنا ہے دم‘‘۔بھی گا چکی ہیں۔بھارتی فلم میکر راکیش اوپدھیا کے ساتھ مل کرانہوں نے فلم بنانے کا اعلان بھی کررکھا تھا پشتو فلم بنانے کا خواب بھی انہوں نے دیکھ رکھا تھا۔ لیکن ’’عشق میں غیرت جذبات نے رونے نہ دیا‘‘۔گانے کی شہرت عمران خان تک بھی پہنچ چکی تھی تو انہوں نے کہا’’سنا ہے بہت سے لوگ روئے ہیں اور گانا بھی اچھاگایا۔‘‘تاہم عمران خان نے کہا ’’میں بھی گا سکتا تھا مگر لوگ بہت روئیں گے اورکہیں گے خدا کے واسطے گا نا بند کردو ۔‘‘

روسی ادیب ٹالسٹائی کہتے ہیں کہ’’موسیقی ۔جذبات کاشارٹ ہینڈ ا ظہار ہے اور جارج برناڈ شاہ کہتے ہیں کہ ’’جہنم اناڑی گلوکاروں سے بھری پڑی ہے ۔‘‘ عمران خان نے گانا ۔گانے سے انکار کر کے خود کو جہنمی ہونے سے بچا لیا ہے اور ہمارے کان بھی پکنے سے بچ گئے۔!
ajmal malik
About the Author: ajmal malik Read More Articles by ajmal malik: 76 Articles with 95056 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.