اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے اس ما بعد
جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت تک کے تناظر میں اردو افسانہ نگاری کے منظر
نامہ میں زبردست تبدیلی رونما ہوئی ہے۔اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے
کہ اس ترقی یافتہ دور میں فرد،ہندوستانی تہذیب،معاشرہ اور انسانی رشتوں کے
معیار میں زبردست گراوٹ اور تبدیلی رونما ہوئی ہے اور اس کی آہٹ اور زندگی
میں ہو رہی تبدیلی کو شدت کے ساتھ محسوس کیا جا سکتا ہے۔اس نئی صدی میں
عالمی سطح پر سیاسی اور سماجی صورتِ حال بدل چکی ہے،انسانیت مٹ چکی ہے،
بازار میں خرید و فروخت کا دور جاری و ساری ہے اور آج کے ہندوستانی سماج
میں انسانی رشتوں کا معیار بدل چکا ہے۔ اس بدلتے ہوئے منظر اور فضا کا اثر
فنکار کے ذہن اور اس کی تخلیقیت پر بھی پڑ رہا ہے۔ آج کا حساس فنکار
آزادانہ طور پر کھل کر بڑی بیباکی کے ساتھ اپنے جذبات و خیالات کا اظہارکر
رہا ہے۔اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اسرار گاندھی انسانی رشتوں میں ہو
رہی کھٹاس اور زندگی میں ہو رہی تبدیلی کی آہٹ کو محسوس کرتے ہیں۔اس ضمن
اسرار گاندھی اپنے خیالات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ پچھلی تین چار دہائیوں میں کتنی تبدیلیاں
انسانی قدروں
میں آئی ہیں اور جس تیزی سے آئی ہیں پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ایسا نہیں
تھا کہ پہلے انسان خودغرض نہیں ہوتا تھا یا اس کے اندر بے حسی نہیں تھی۔
تھی اور ضرور تھی۔ لیکن یہ چیزیں زندگی پر حاوی نہیں تھیں۔ شاید یہی وجہ ہے
کی آج زیادہ تر شہروں میں Old Age Home کھل رہے ہیں اوراپنی اولادوں سے
عاجز والدین ان جگہوں پر زندگی کے آخری ایام گزارنے کے لئے مجبوراً داخل ہو
رہے ہیں۔
آج زندگی بہت ہی پیچیدہ ہو گئی، نتیجے میں لوگ نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو
رہے ہیں۔
اس کی جو سب سے بڑی وجہ نظر آتی ہے وہ کارپوریٹ لائف اور شہری زندگی ہے۔ اس
طرز زندگی نے ہم سے نہ جانے کیا کیا چھین لیا۔ آج زیادہ تر لوگ تنہائی کا
شکار ہو گئے ہیں اور انسان کے لئے مادی وسائل کی جستجومقصد حیات بن کر رہ
گئی ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم دوبارہ غیر مہذب ہوتے جا رہے ہیں۔
ایک گہرا اندھیرا ہر طرف چھاتا جا رہا ہے۔ اس اندھیرے کے درمیان سے گذرنا
کافی اذیت ناک ہو گیا ہے۔‘‘
(’غبار ‘ ص : 7اور 8)
اس ما بعد جدید یت سے نئے عہد کی تخلیقیت تک کے نئے افسانوں میں افسانہ
نگار کی اصل بغاوت خطیبانہ، شور وشر،رومانیت،جذباتیت اور فارمولا زدہ
کہانیوں سے،سیاہ اور سفید کی سطحیت سے،متوسط طبقے کی کھوکھلی اخلاقیات
اورنظریہ بازوں کی اشتہاریت سے ہے۔ اردو افسانہ نگاری میں ہو رہی تبدیلی کے
ضمن میں پروفیسر گوپی چند نارنگ اپنے پر مغز،معنی خیز ،بصیرت افروزاور فکر
آلود خیالات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’نئی کہانی نے اپنی سب سے بنیادی پہچان تصور حقیقت اور اظہار کے پیرایوں
میں تبدیلی سے کرائی۔ یعنی لفظ نرے لفظ نہیں تھے بلکہ ایسے استعاروں اور
علامتوں کے طور پر استعمال ہونے لگے، جن کے مفاہیم کو منطقی طور
پرPARAPHRASE کرنا ممکن نہیں۔ فرد کی فردیت،اس کے معمولی پن میں اس کی
UNIQUENESS،چھوٹے چھوٹے دکھ سکھ اور بنیادی صداقتیں،یعنی زندگی کی نوعیت
اور ماہیت ،خوشی اور غم کی حقیقت، وجود کا اختیار اور جبر،جنس کی
سچائی،عرفان ذات کی دہشت، نیز طرح طرح کے موضوعات کی رنگا رنگی کہانی کی
دنیا میں اپنی کیفیت دکھانے لگی۔ کہانی کی قدر شناسی کی سطح پر بڑی تبدیلی
یہ آئی کہ موضوع سے چونکہ ادب کی تشکیل نہیں ہوتی، اس لیے موضوع اور اظہاری
پیکر سے مل کر جو تخلیقی وحدت وجود میں آتی ہے،وہ افسانہ ہے۔یوں ہندوستان
اور پاکستان کے نوجوان باغی افسانہ نگاروں نے نئی فنی بلندیاں سر کیں اور
بہت سے ایسے افسانے لکھے جو تاریخ کا حصہ ہیں۔‘‘
(جدیدیت کے بعد، ص: 394 )
معاصر اردو افسانہ نگاروں میں اسرار گاندھی ایک اہم افسانہ نگار ہیں۔ جن کے
تخلیقی سفر کا آغاز 1974سے ہوتا ہے،جب ان کا پہلا فسانہ ’الجھی ڈور‘ نیا
دور ،لکھنؤ میں شائع ہوتا ہے۔ اس کے تقریباً چار برس کے بعد دوسرا افسانہ
’ہڈیاں‘کے عنوان سے 1978میں ’آہنگ‘ گیا سے شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد ان کے
افسانے قومی اور بین القومی سطح پر تمام رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔
اسرار گاندھی کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’پرت پرت زندگی‘ 1997 میں منظرِ
عام پر آیا۔ جس میں کُل پندرہ افسانے ہیں۔’بے بسی‘،’کہرے سے ڈھکی ایک
رات‘،’پرت پرت زندگی‘،’گہرے بادل‘، ’آڑے ترچھے دائرے‘،’وہ جو راستے میں
کھوئی گئی‘،’کھلی آنکھوں کا خواب‘،’ہڈیاں‘،’پست بلندی بلند
پستی‘،’پہئے‘،’دھند سے پرے‘،’دوسری گلی‘، ’بے جڑ کے پودے، ’منظر پس منظر
اور ’ایک جھوٹی کہانی کا سچ‘۔دوسرا افسانوی مجموعہ ’رہائی‘ کے نام سے 2004
میں شائع ہوا۔اس افسانوی مجموعہ میں کُل بارہ کہانیاں ہیں۔
’رہائی‘،’خلیج‘،’بلّی‘، راستے بند ہیں سب‘، نالی میں اگے پودے‘،’رنگِ گل و
بوئے گل ہوتے ہیں ہوا دونوں‘، ’نجات‘،’صیّاد اجل‘، ’اخباروں میں لپٹی
روٹیاں‘،’دھوئیں کے مارے ہوئے لوگ‘، ’چیرہ دست ‘ اور ’بلیک آوٹ‘۔ تیسرا
افسانوی مجموعہ1914 میں’غبار ‘کے عنوان سے منظرِ عام پر آ چکا ہے اور ادبی
حلقوں میں اُن کے افسانے داد تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ اس مجموعہ میں افسانہ
نگار کے کُل نو افسانے شامل ہیں۔’مفاہمت کا عذاب‘،’محو حیرت
ہوں....‘،’غبار‘،’شاور کا شور‘،’دھوپ چھاؤں‘،’خواب خواب
سفر‘،’کانٹے‘،’مارکیٹنگ‘ اور ’راستے‘۔
اسرار گاندھی کے ان تمام افسانوں میں زندگی کی تلخ حقیقت اور زندگی کی بے
رحم سچائی صاف طور پر نظر آتی ہے۔انھوں نے اپنے ارد گرد کے ماحول سے اپنے
افسانوں کی رنگ مالا بہت ہی خوبصورتی اور فنی لطافت کے ساتھ تیار کی ہے اور
اسے کامیابی کے ساتھ اپنے افسانوں میں برتا ہے۔اسرار گاندھی نے زندگی کے
مختلف رنگ کی عکاسی کی ہے ۔ انھوں نے آس پاس کے تمام موضوعات کو اپنے
افسانے میں جگہ دی ہے اور اپنے افسانوں کے ذریعہ نِت نئے نئے تجربے پیش کیے
ہیں۔ اُن کے افسانوں میں سیاسی، سماجی،جنسی اوررومانی رنگ کی جھلک صاف طور
پرنظر آتی ہے۔
جنسیات کے حوالے سے اسرار گاندھی نے متعدد افسانے لکھے ہیں۔ مثلاً
’ہڈیاں‘،’شاور کا شور،’ایک جھوٹی کہانی کا سچ‘ اور’ محو حیرت ہوں‘ وغیرہ
وغیرہ۔ جنسیات ایک نہایت ہی نازک موضوع ہے لیکن اسرار گاندھی نے بڑی مہارت
اور چابکدستی کے ساتھ اس ضمن میں سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی کی طرح
کامیابی کے ساتھ گزرنے کی سعی کی ہے جو قابلِ ستائش ہے۔ عام طور پر دیکھا
جاتا ہے کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے میں افسانہ نگار جھجھکتاہے، اس کو
اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ سماج کے لوگ کیا کہیں گے یا لوگ کیا سوچیں گے اور
کیا محسوس کریں گے، کیوں کہ اگر افسانہ نگار جنسی پہلو کو کامیابی کے ساتھ
اپنی تخلیق میں نہیں برتتا ہے یا کہانی افسانہ نگار کے اوپر حاوی ہو جاتی
ہے تو اس میں فنکار کی رسوائی ہوتی ہے اور افسانہ ادبی معیار سے گر جاتا ہے
اور وہ کہانی بازارو ہو جاتی ہے لیکن اسرار گاندھی نے جنسیات کے پہلو کو جس
نفسیاتی بصیرت اور فنی لطافت کے ساتھ اپنے افسانوں میں برتا ہے وہ ان کا ہی
خاصّہ ہے ۔ان کے غیر معمولی افسانوی فکر و فن نے ان کو بیباک افسانہ نگار
بنا دیا۔’ہڈیاں‘ اسرار گاندھی کا کامیاب افسانہ ہے۔ جس میں افسانہ نگار نے
abnormal sex کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے اور اس کو انھوں نے بہت ہی
خوش اسلوبی اور فنی مہارت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ان کی فنی چابکدستی کی تصویر
افسانے کے آخر میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جس میں افسانے کی ہیروئین اپنے جسم کی
آگ کو بجھانے کے لیے موم بتی کا سہارا لیتی ہے۔ اسی دوران بجلی چلی جاتی
ہے۔ وہ پسینے سے شرابور ہو جاتی ہے اور جھلا کر کہتی ہے ’’کم بخت بجلی کو
بھی آج ہی جانا تھا‘‘۔ افسانے کا آخری اقتباس خاطر نشیں ہو:
’’رات کے ابھی صرف دس بجے تھے کہ اچانک بجلی چلی گئی اور پورے گھر میں
اندھیراہو
گیا۔ ماچس کے سہارے کوئی شمعدان لینے کمرے میں گیا اور پھر دادی ماں کی
بڑبڑاہٹ
سنائی دی۔
پتہ نہیں شمعدان سے شمع کہاں چلی گئی۔ شام تک تو تھی۔ اب تو دوکانیں بھی
بند ہو
گئی ہوں گی۔
وہ چپ چاپ خموشی سے اپنے پلنگ پر لیٹی تیز تیز سانسیں لے رہی تھی اور پورا
جسم
پسینہ سے تر بتر ہو رہا تھا۔ وہ آہستہ سے بڑبڑائی۔
’’کمبخت بجلی کو بھی آج ہی جانا تھا۔‘‘
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں
’شاور کا شور‘ اسرار گاندھی کا شاہ کار افسانہ ہے۔ اس افسانہ کا مرکزی
کردار یونیورسٹی کا ایک پروفیسر ہے۔ جو آزاد خیال ہیرو ہے۔ اس کہانی کا
ہیرواپنے شاگردوں، بیوی،بچوں،محبوبہ شہناز،ڈاکٹر ابوالقیش ، عزیز دوست
ہاشمی صاحب اور سیمینار کے منتظمین کو بھی غفلت میں رکھتا ہے۔لمبی لمبی
ڈینگیں مارتا تھا۔ سب سے وہ جھوٹ بولتا ہے۔ اس کو اس بات کا خبط سوار رہتا
ہے کہ دنیائے ادب میں اس کا ڈنکا بج رہا ہے لیکن حقیقت سے سب واقف ہیں۔ اسی
جھوٹ بولنے کی وجہ سے اس کی زندگی میں ایک ایسا وقت آتا ہے جب بھی وہ جھوٹ
بولتا ہے تو اس کے کانوں میں کچھ آوازیں لہراتی ہیں اور دھیرے دھیرے اس کی
زندگی پریشان کن ہو جاتی ہے۔ وہ آوازیں صرف اس کو پریشان ہی نہیں کرتی ہیں
بلکہ اس کے اعصاب پر سوار ہو جاتی ہیں۔ ایک پروفیسر کی فطرت کو اسرار
گاندھی نے جس فنی حسن و جمال اور نفسیاتی بصیرت کے ساتھ ’ شاور کا شور ‘میں
نمایاں کیا ہے وہ قابلِ قدرہے۔ اسرار گاندھی اپنے آس پاس کے ماحول سے
آنکھیں نہیں چراتے ہیں بلکہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرتے ہیں اور
ان کو افسانے کا موضوع بنا کرہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔’شاور کا شور‘
نفسیاتی حقیقت نگاری کی ایک عمدہ مثال ہے۔کہانی کا ہیرو عموماً جب بھی باہر
جاتا تو اپنے شاگردوں کو ریزرویشن کے لیے بھیجتا اور شاگرد بھی بیچارے گرمی
ہو، جاڑا ہو یا پھر برسات کا مہینہ اس کاریزرویشن کرواتے تھے لیکن چند خاص
مواقع پر وہ صاحب خود ہی ریزرویشن کرواتے۔ اس بار بھی حضرت خود ہی گرمی کے
موسم میں ریزرویشن حال میں داخل ہوتے ہیں۔ کافی جدو جہد کے بعد پسینہ پسینہ
ہو کر جیسے ہی وہ ٹکٹ لے کر باہر نکلتے ہیں شہناز کو فون کرتے ہیں کہ
سیمینار کے چوبیس گھنٹے پہلے میں پہنچ جاؤں گا اور میں نے سیمینار کے
منتظمین کو اپنے اور تمہارے پہنچنے کی تاریخ نہیں بتائی ہے۔ تم آ رہی ہو
نا؟جھوٹ بولنے میں کہانی کے ہیرو کو مہارت حاصل ہے۔ ہر مہینے ہونے والی
نشست میں شاگردوں کو اپنے گھر پر جمع کرتے ہیں ۔ طلبات اور طالبات پر رعب
جھاڑتے ہیں۔ان کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں اور پھر سیمینار کی کامیابی کا
سہرا اپنے سر باندھتے ہیں۔
’’میں جب بمبئی پہنچا تو سیمینار کے منتظمین مجھے دیکھ کر باغ باغ ہو گئے۔
دراصل انھیں
اپنے سیمینار کی کامیابی کا یقین ہو گیا تھا کہ میں اب سیمینار کی کامیابی
کی ضمانت بن گیا ہوں۔
منتظمیں نے میرے قیام کا انتطام ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں کر رکھا تھا۔
اسٹیشن سے ہوٹل تک
انھیں لوگوں نے مجھے اپنی کار سے پہنچایا۔‘‘
’’جھوٹ بولتے ہو۔ایسا کچھ نہیں ہوا۔ تم نے خود ٹیکسی لی تھی اور اپنے آپ
ہوٹل تک گئے
تھے۔ تمہیں تو اسٹیشن پر کوئی رسیو کرنے تک نہیں آیا تھا۔ اب یہ جھوٹا بلند
بانگ قصیدہ کیوں؟‘‘
اچانک ایک آواز اس کے کانوں میں آئی اور وہ اچھل پڑا۔
اس نے اپنے شاگردوں پر نظر ڈالی۔ وہ سب اس کی آواز پر ہمہ تن گوش تھے۔
’’کیا کسی نے کچھ کہا ؟‘‘
’’نہیں تو۔‘‘ ایک شاگرد بولا۔
’’تمہیں یقین ہے نا کہ کوئی کچھ نہیں بولا۔‘‘
’’جی ہاں سر۔ کوئی کچھ نہیں بولا۔‘‘ سارے شاگرد حیرت سے دیکھ رہے تھے۔
’’واقعی تم لوگوں نے کچھ نہیں سنا؟‘‘
’’قطعی نہیں۔‘‘ کئی شاگرد ایک ساتھ بولے۔
اسے وقتی اطمینان ہو گیا مگر آوازوں کا یہ سلسلہ چل نکلا۔ وہ جب جھوٹ بولتا
اور زیادہ تر
جھوٹ ہی بولتا تو اس طرح کی آوازیں اسے کچوکے لگاتیں اور گھنٹوں پریشان
رہتا۔‘‘
کہانی کے ہیرو کو اپنی مردانگی پر بھی بڑا ناز ہے۔
ہندوستانی سماج کے ایسے بد وضع اور بد کردار پروفیسر کو اپنے افسانہ کا
ہیرو بنا کر اسرار گاندھی نے قاری کو جھکجھور دیا ہے اور عوام کو سوچنے کے
لیے مجبور کر دیا ہے۔قاری کو کہانی کے ہیرو سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے یہاں
تک کی ہیرو کی محبوبہ شہناز کو بھی اس ریاکاری،مکاری اور نامردی کا علم ہو
جاتا ہے۔ اس کے یہ جملے ہیرو کی پوری حقیقت کوبیان کر دیتے ہیں۔ جب وہ یہ
کہتی ہے ’’تم پر اب عمر کا اثر ہو چلا ہے۔مجھے یاد ہے میرے ساتھ پچھلی بار
بھی ایسا ہی ہواتھا۔‘‘اور جب ہیرو یہ پوچھتا ہے کہ تمہارے شوہر کیسے ہیں ؟
‘‘ تو شہناز نے کہا ’’ ٹھیک ہیں۔ تم سے تو بہتر ہی ہیں۔‘‘اسرار گاندھی کا
فنی حسن و کمال یہ ہے کہ وہ کہانی کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑتے ہیں
اور کہانی کے آخر تک suspense کی کیفیت برقرار رہتی ہے ۔ وہ کہانی کا
اختتام بڑے ہی بیباکی اور دیانت داری کے ساتھ کرتے ہیں۔ جس میں افسانے کے
ہیرو کی حقیقی تصویر مکمل طور پر واضح ہو جاتی ہے۔
’’شہناز دیر ہورہی ہے،جلدی سے تیار ہو جاؤ۔ اسی وقت یہ ہوٹل چھوڑنا ہے۔
سیمینار کے منتظمین کو انتظار ہوگا، انہیں یہ اطلاع نہیں ہے کہ میں اور تم
کس
ٹرین سے آ رہے ہیں۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے میں تیار ہوں۔‘‘وہ کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔ وہ باتھ روم کے
دروازے پر اچانک رکی اور مڑ کر بولی۔ ’’ایک بات بتاؤ۔ وہ جو تمہارے کانوں
میں پریشان کن آوازیں آیا کرتی تھیں ـ‘ ان کا کیا ہوا؟‘‘
’’وہ آوازیں۔۔۔ وہ آوازیں اب نہیں آتیں۔ وہ مجھ سے شکست کھا کر ختم
ہو چکی ہیں۔دیکھو نا،۔ میں پورے وجود کے ساتھ تمہارے سامنے سالم و ہٹا کٹا
کھڑا ہوں۔‘‘ اس کی آواز میں بے چینی تھی۔
’’ڈھونگی تمہارے اندرسڑاندھ پیدا ہو چکی ہے۔ بو سے ناک پھٹی جاتی ہے۔
یہ تم کسے دھوکہ دے رہے ہو؟‘‘ اجنبی اجنبی سی ایک آوازے ایک بار پھر اسے
چور
چور کر دیا اور اس کے چہرے کا رنگ پیلا ہو گیا۔
شہناز اسے ہکا بکا دیکھتی رہی۔ اچانک وہ مڑ کر باتھ روم میں داخل ہو گئی۔
پھر فضا شاور کے شور سے بھر گئی۔‘‘
’ایک جھوٹی کہانی کا سچ‘ اسرار گاندھی کا کامیاب ترین افسانہ ہے۔ انھوں نے
انچھوئے موضوع کو اپنے افسانے میں جگہ دی ہے۔ جس کو پڑھ کر قاری کوتخلیقی
بصیرت افروزی و نفسیاتی آگاہی حاصل ہوتی ہے۔اس افسانے میں افسانہ نگار نے
jigalo یعنی call boy کو موضوع بنایا ہے۔ اس کہانی میں قاری مرد طوائف سے
رو برو ہوتا ہے۔ پہلے یہ چلن تو یوروپ میں عام تھا لیکن اب ہندوستان کے
تمام بڑے شہروں میں عام ہو گیا ہے جہاں رئیس گھرانے کی عورتیں جسمانی ضرورت
کو پورا کرنے کے لیے مرد طوائف کی خرید فروخت کرتی ہیں اور ان کو ہر طرح کا
عیش و آرام کی زندگی میسر کراتی ہیں۔ اس افسانے کے اہم کردار موہن اور جنیّ
ہیں۔ موہن اور جنّی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔جنّی تو موہن کے ساتھ گھر
بسانے کو راضی ہے لیکن موہن ایک بے داغ چادر کا خواہش مند ہے۔ یہ زندگی کی
حقیقی سچائی ہے جسے جنّی ’عورت ہونے اور نہ ہونے‘ کی بات کہہ کر سامنے رکھ
دیتی ہے اور ہم پاتے ہیں کہ اس نئی کائنات میں سیٹھانی تو اپنی جسمانی
ضرورت کو پورا کرنے کے لیے موہن کے ساتھ کھلاپن برت سکتی ہے اور عورتوں کے
حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے لوگ جنّی کوطوائف کی جگہ sex worker کا خطاب
دلا سکتے ہیں مگر یہی sex worker اپنی اس عزت افزائی کے باوجود گھر نہیں
بسا سکتی اور دوسری طرف ایک مرد ذلالت کے گٹر میں سو غوطے لگانے کے بعد بھی
اپنے لیے ایک کنواری بیاہتا کا خواہش مند ہے۔ مجبوری چاہے سیٹھانی کی ہو یا
پھر جنی کی۔ چاہے وہ شکار بنے یا پھر شکاری۔یہ زمینی سچائی ہے کہ خوشحال
زندگی بہر حال اس کے نصیب میں نہیں ہے۔بڑے گھرانے کی عورتیں اپنی جسمانی
ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہر قیمت دینے کے لیے تیار رہتی ہیں اور آج کے
دور میں اپنے مردوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر تقریباً ستر فیصد عورتیں
غیر مردو ں سے جسمانی لذت حاصل کر رہی ہیں۔ اسرار گاندھی نے اکیسویں صدی
میں زندگی میں ہورہی تبدیلی کی آہٹ کو محسوس کیا ہے اور اسے بہت ہی
خوبصورتی کے ساتھ برتا ہے۔ اس اقتباس کے ذریعہ ہندوستانی سماج کی ننگی
تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔
فون کی گھنٹی پھر بجی تو یادوں کی بھیڑ تتر بتر ہو گئی۔ اس نے برا سا منھ
بنایا لیکن رسیور اٹھا کر
بڑی شائستگی سے بولا۔۔ ’’موہن دِس سائڈ‘‘
’’گھر پر ہی ہو‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی۔
’’اوہ جنّی تم۔ کہو کیسی ہو؟‘‘
’’بس ٹھیک ہی ہوں۔ بور ہو رہی تھی سوچا تمہیں بھی بور کروں۔‘‘
’’گھنٹہ،دو گھنٹہ ! ارے میں تو پورے ویک کے لیے فری ہوں‘‘ وہ زور سے ہنستی
ہوئی بولی۔
’’سنو جنّی،تو پھر ایسا کرو کہ یہیں چلی آؤ۔ دیر تک غپ لڑے گی۔‘‘
’’اچھا آتی ہوں۔ میرا انتظار کرو۔‘‘ دوسری طرف فون کاٹ دیا گیا۔
اس کی نظروں میں جنّی کا چہرہ گھوم گیا۔
جنّی۔۔۔۔۔ ایک سیکس ورکر۔ دولتمند مردوں میں خاصی مقبول۔ چہرے پر اب بھی
معصومیت کی دھندلی دھندلی سی پرچھائیاں۔ اس سے اس کی ملاقات کسی محفل میں
پہلی بار ہوئی تھی۔
پھر وہ دونوں بہت اچھے دوست بن گئے تھے۔ وہ جب بھی چاہتی اس کے یہاں بے
کھٹکے چلی آتی۔
گھنٹوں رہتی۔ نہ جانے کہاں کہاں کی باتیں کرتی۔ کبھی اپنے تجربے بتاتی۔کبھی
اس کے سنتی۔ کبھی اس کے
دکھوں میں شامل ہو جاتی کبھی اپنی پریشانیوں میں اسے شامل کر لیتی۔
جنّی جب بھی آتی،اسے بے حد خوشی ہوتی۔ آج بھی ایسا ہی ہوا۔ جنّی آئی تو وہ
کھل اٹھا۔
’’اچھا ہوا جنّی جو تم آ گئیں۔آج موڈ بہت خراب تھا۔‘‘
’’کیوں کیا ہوا؟‘‘
وہ اسے سیٹھانی کے فون کے بارے میں بتانے لگا۔
’’سالی کہہ رہی تھی تم میرے نوکر رہ چکے ہو۔‘‘
اسی طرح اسرار گاندھی کے رومانی افسانوں میں ’خو اب خواب سفر‘،’خلیج‘ اور
’بلیک آؤٹ‘وغیرہ ہیں۔ ان افسانوں میں رومانی رنگ کی جھلک صاف طور پر دکھائی
دیتی ہے۔سیاسی کہانیوں میں ’گہرے بادل‘ اور فسادات کے حوالے سے ’آڑے ترچھے
دائرے‘،’کھلی آنکھوں کا خواب‘،’دوسری گلی‘ اور ’راستے بند ہیں سب‘ کامیاب
افسانے ہیں۔سماجی افسانے بھی اسرار گاندھی نے بہت ہی خوبصورتی اور کامیابی
کے ساتھ پیش کیے ہیں۔ سماجی افسا نوں کی جھلک ’ رہائی‘،’صیاد ازل‘، ’
بلّی‘، ’وہ جو راستے میں کھوئی گئی‘،’اخباروں میں لپٹی ہوئی روٹیاں‘،’بے جڑ
کے پودے،‘’بے بسی‘،’کہرے سے ڈھکی ایک رات‘ اور ’پست بلندی بلند پستی‘وغیرہ
میں دیکھی جا سکتی ہے۔ سماجی حالات کے ضمن میں اسرار گاندھی کی کہانی ’وہ
جو راستے میں کھوئی گئی‘ میں نظریاتی صورت بہت حد تک واضح ہو گئی ہے۔ صدیوں
سے دبا ،پسا اور کچلا جانے والا دلت طبقہ آج کے اکیسویں صدی کی دوسری دہائی
کے تناظرمیں بھی ہندوستانی سماج میں کس طرح آزاد ہوا ہے اور پھر سرکاری اور
سماجی دعووں کے باوجود،دلت طبقہ برہمنی اور بالا دست نظام سے کہاں رستگاری
حاصل کر سکا ہے؟ اس کی سب سے ہولناک اور دہشت خیز ترجمانی اسرا گاندھی کے
افسانے ’وہ جو راستے میں کھوئی گئی میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ معاشرتی کوائف
و احوال صحافت گزیدہ نہیں ہے بلکہ یہ طبقاتی عصبیت کی آگ ہے جو کلبسیا کے
انجام کی شکل میں آج کے نام نہاد آزاد معاشرہ میں بھرپور طور پر منکشف ہوتی
ہے۔ ہندوستانی تہذیب کی سفاک حقیقت کو اسرار گاندھی نے جس خوش اسلوبی اور
فنی قدرت کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کیا ہے وہ قابلِ قدر ہے۔ ’وہ جو راستے
میں کھوئی گئی‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’سر سے پیر تک ننگی کلبسیا سب سے آگے چل رہی تھی۔ اس کے پیچھے ٹھاکر کا
داہنہ ہاتھ
راگھو پنڈت بندوق تانے چل رہا تھا۔ اس کے ڈراونے چہرے پر پھڑکتے ہوئی
موچھیں
اس کی خوفناکی کو بڑھا رہی تھیں۔ اس کے برابر ایک بھیانک سا آدمی چل رہا
تھا۔ جس کے
ہاتھ میں کسی پیڑ سے تازی توڑی ہوئی ایک سنٹی تھی۔ کلبسیا کے قدم جب رکنے
لگتے تو سنٹی
اس کے ننگے کولہے پر زور سے پڑتی پھر ایک چیخ کے ساتھ اس کی سست پڑتی رفتار
کچھ تیز
ہو جاتی۔‘‘
اسی سلسے کی ایک اور سماجی اور فنی عکاسی اسرار گاندھی کے افسانے ’بے بسی ‘
میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ جہاں نتھو کی سادہ توحی اور بھگوان سے اس کی
عقیدت، پنڈت جی کے نمائشی عقیدت پر نہ صرف حاوی نظر آتی ہے بلکہ ہندوستان
میں اعلیٰ طبقہ کی اس طبقاتی نفرت کا بھی راز منکشف کر دیتی ہے جو پسماندہ
طبقے کے لیے اس ورناشرم نظام کی زائیدہ اور پروردہ ہے ،جہاں شودر کی تخلیق
کردہ مورتی مندر میں قائم تو کی جا سکتی ہے لیکن اس مورتی کی تخلیق کرنے
والے حسن کار کو مندر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس
مورتی پر اپنی والہانہ عقیدت کے پھول چڑھا سکتا ہے کیوں کہ مورتی کار کے
مندر میں داخل ہونے اور عقیدت کے پھول چڑھانے سے ہندو دھرم کے ناپاک ہو
جانے کا خطرہ ہے۔ یہ ہندوستانی سماج کا المیہ ہے جس کودلت نتھو کے کردار کے
ذریعہ اسرار گاندھی نے زندگی کی تلخ حقیقت،بے رحم سچائی اور ہندوستانی سماج
کی کھوکھلی تصویر کو آئینہ بنا کر بہت ہی فنی حسن و جمال اور اقداری کمال
کے ساتھ پیش کیا ہے۔اس افسانے کا آخری اقتباس خاطر نشان ہو:
’’بھیڑ جب ختم ہو چکی تھی۔ وہ اپنے ساتھ لائے ہوئے پھولوں کو لیے ہوئے
آہستہ آہستہ
مندر کے دروازے کی طرف بڑھا لیکن اس سے پہلے کہ وہ مندر میں داخل ہوتا،پنڈت
جی
کی نظریں اس پر پڑ گئی۔ وہ تیزی سے نتھو کی طرف بڑھے اور اسے دروازے سے
باہر ہی
روکتے ہوئے بولے’’نتھو تم ! تم مندر کے اندر کیسے آ رہے ہو؟‘
’’کیوں کیا میں اپنی بنائی ہوئی مورتی پر پھول بھی نہیں چڑھا سکتا؟ نتھو
بولاْ۔
’’ہاں تم اب اپنی بنائی ہوئی بھگوان کی مورتی پر پھول نہیں چڑھا سکتے کہ یہ
اب
مندر کی ہے۔‘‘ پنڈت جی نے نتھو کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’لیکن پنڈت جی اسے بنایا تو میرے ہی ہاتھوں نے ہے۔‘‘
’’ہاں بنایا تو تمہارے ہی ہاتھوں نے ہے۔ پر اسے اب پوتر کر لیا گیا ہے۔
تمہارے ہاتھوں
سے پھول ڈلوا کر اسے اپوتر نہیں کیا جا سکتا ۔ تم گھر چلے جاؤ نتھو۔‘‘
’’نہیں میں تو بھگوان کی مورتی پر پھول چڑھائے بنا نہیں جا سکتا۔ اب وہ
سمئے لد چکا ہے
پنڈت جی۔‘‘
نتھو کی بات سن کر پنڈت جی غصے سے سرخ ہو گئے۔ وہ زور سے چیختے ہوئے
بولے۔۔۔
’’ میں جانتا ہوں کہ تم کہاں سے بول رہے ہو لیکن تم یہ سمجھ لو یہ مندر ہے
سرکاری نوکری نہیں۔
تم یہاں نہیں گھس سکتے ۔نتھو تم یہاں سے چلے جاؤ۔‘‘ پنڈت جی کی چیخ سن کر
وہاں موجود دوسرے
لوگ بھی آ گئے۔
پھر جب نتھو نے پنڈت جی کو ہٹا کر مندر کے اندر جانے کی کوشش کی تو سبھی نے
مل کر اسے پکڑ لیا۔
جہاں وہ گرا تھا وہاں سے اسے بھگوان کی مورتی صاف نظر آ رہی تھی۔ بھگوان سر
سے پیر تک پھولوں
سے ڈھکے ہوئے تھے۔ ان کے چہرے پر ویسے ہی مسکراہٹ تھی لیکن نہ جانے کیوں
بھگوان کی
روشن روشن آنکھوں میں نتھو کو بڑی بے بسی نظر آئی۔‘‘
اسرار گاندھی کی کہانی ’رہائی‘ میں بھی سماجی پہلو جلوہ گر ہے۔ جس میں
افسانہ نگار نے مختلف پہلوؤں کے ذریعہ کہانی میں جان ڈالنے کی بہترین کوشش
کی ہے۔ ہندوستانی سماج میں طبقاتی فرق اورزندگی میں نِت نئی ہو رہی تبدیلی
کو افسانے میں افسانہ نگار نے بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ایک طرف
حامد کی لڑکی عطیہ کا سعید کے ساتھ بھاگ جانے پر حامد کے اوپر نہ تو خود کی
بدنامی اور نہ ہی قصبہ کی بے عزتی یا سماج کا ڈر ہے اوردوسری طرف رام اوتار
کی لڑکی کا گھر سے بھاگ جانے پر رام اوتار کو گاؤں چھوڑنے پر مجبور کر دیا
جاتا ہے اور آخر کار رام اوتار گاؤں چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بڑے
میاں کے خاندان میں عالیہ کے بھاگ جانے پر بدنامی کے ڈر سے ریشم کی رسی سے
گلا گھوٹے جانے کی تصویر افسانہ نگار نے پیش کی ہے۔ افسانے کے آخر میں بڑے
میاں کا یہ کہنا کہ ’’خدا کا شکر ہے عطیہ کسی ہندو کے ساتھ نہیں بھاگی۔‘‘
یہ زمینی سچائی ہے جسے افسانہ نگار نے بڑے میاں کے اس ایک جملے کے ذریعہ سے
افسانے میں جان ڈال دی ہے اور اس جملے کے ذریعہ افسانہ نگار نے اپنے نقطۂ
نظر کو واضح کر دیا ہے۔ جس کے ذریعہ وہ قاری کو اپنی طرف متوجہ کر لیتاہے
کہ آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں بڑے شہروں میں یہ بات عام ہو گئی ہے
کہ ہندو کی لڑکی مسلمان کے ساتھ بھاگ جاتی ہے اور شادی کر لیتی ہے۔ اسی طرح
مسلمان لڑکی بھی ہندو لڑکے کے ساتھ بھاگ کر شادی کر رہی ہے۔
اسرار گاندھی نے عصر حاضر کے تقاضوں اور ضرورت سے اپنی آنکھیں نہیں چرائی
ہیں بلکہ انھوں نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کی ہیں اور اپنے ارد گرد
کے ماحول کے ساتھ ساتھ زندگی کے نِت نئے تجربات سے بصیرت و آگاہی حاصل کی
ہیں اور ان کو اپنے افسانے کا موضوع بنا کر پیش کیا ہے۔انھوں نے عورت اور
مرد کے گھریلو جھگڑوں سے بھی اثرات قبول کیا ہے اور ان موضوعات کو بھی
انھوں نے اپنے افسانے میں بہت ہی عصری آگہی اور فنی بصیرت کے ساتھ پیش کیا
ہے۔ اس کی جمالیاتی تصویر کشی اور زندگی کی تلخ حقیقت افروزی ان کے افسانے
’پرت پرت زندگی‘،’پہئے‘، ’منظر پس منظر‘،’دھند سے پرے‘ اور ’دھوپ چھاؤں‘
وغیرہ میں نظر آتی ہے۔جو قاری کو چونکاتی ہے،اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور
بیک وقت جمالیاتی مسرت اور انسانیاتی بصیرت عطا کرتی ہے۔اسرار گاندھی کے
افسانوی آئینہ خانہ میں اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے سفاک حقائق ، اسرار
اور مختلف اور منفرد کرداری امتیازات تخلیقی اور اقداری سطح پر مکشوف نظر
آتے ہیں جو ان کے غیر معمولی افسانوی فکر و فن میں معاصر
تخلیقیت،عصریت،معنویت اور فنیت کو بھرپور طور پر چراغاں کرتے ہیں۔ |