رَولا رضائی دا اے یا مال کمائی دا اے،
دنیا بھر کے تمام حکمرانوں میں سے واحد اور اکلوتے "صنعتکار حکمران "شریف
برادران ہر مسئلہ کوسرمایہ کی عینک سے دیکھتے ہیں یہ ان کی مجبوری ہے کہ ان
کے بزرگ تو ہندوستانی "جاتی امراء"میں چک کے سیپی دار تھے ۔ چک کے
لوہار،ترکھان،موچی ،نائی وغیرہ کو توزمیندارہرششماہی فصلوں پر فصلانہ ہی
دیا کرتے ہیں۔ اور انھیں پاکستان راس آگیا اور یہاں آکر لوہا کے صنعتکار بن
بیٹھے۔اور مزدروں کا اس طرح خون چوسا کہ وہ محاورہ بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔ کہ
خون مزدور شرابوں میں ملا دیتے ہیں تو بھی کانوں کان خبر نہ ہواب پاک چائنہ
معاشی راہداری کا مسئلہ کیا ہے ؟کیوں ہر صوبہ میں شور و غوغا ہے کہ راستہ
طے نہیں پارہا۔اس لیے کہ ان کے عزیز و اقارب و دوست احباب کروڑ سے کسی صورت
کم نہ کمانے والے دیہاڑی دار ہیں جس دن کروڑ نہ بچے تو یہ کہتے ہیں کہ
کاروبار "مندا"رہا ہے اور نقصان ہو گیا ہے۔یعنی کمانا کروڑ تھا اور کمایا
75لاکھ ۔یعنی 25لاکھ کا نقصان ہو گیا ہے انہوں نے خود ہی گدھوں کے ذبح کرنے
کی طرح راہداری کا مسئلہ کھڑا کر ڈالا ہے تاکہ لوگوں کو پتہ ہی نہ چل سکے
کہ یہ گرانڈ سڑک کدھر سے کدھر کو جائے گی تاکہ رائے ونڈ کی طرح اسکے
اردگردکی زمینیں کوڑیوں کے بھاؤ خرید سکیں اور پھر لاکھوں روپے مرلہ فروخت
کرسکیں ۔رائے ونڈ والی زمینیں بھی انہوں نے ایسے ہی لوگوں سے اونے پونے
داموں قبضہ کی تھیں بعد میں اسے ٹیکس فری زون قرار دے ڈالاصنعتیں لگنا شروع
ہو گئیں اور اربوں نہیں کھربوں کما لیے ۔اب چائنہ تو مخلص دوست ہو کر عوام
کی غربت دور کرنے کے لیے ہمدردی کر رہا ہے مگر یہ ٹھہرے سود خور سرمایہ
پرست اژدھے یہ اس کی اصل جگہ بتائے بغیر اسکی ارد گرد کی تمام زمینوں پر
قابض ہوکرپھر سانپ کی پٹاری کھولیں گے کہ یہ رہا سانپ اور اس راستہ پر سفر
کرے گا تاکہ اسکے قرب و جوارمیں انہی کی ملکیہ زمینوں پر کارخانے نصب ہوں
اور کوئی ہوٹل دوکان بھی بنے تو سڑک کے اردگرد 15ہزار روپے مرلہ خریدی گئی
زمین 5لاکھ سے کم فی مرلہ نہ بکے اور منافع کئی ہزاروں گنا وصول ہوان کے
تحت الشعورمیں یہ کہانی اٹکی ہوئی ہے کہ لودھراں کے ضمنی الیکشن میں ترین
کی جیت کی طرح اگلے انتخابات میں روپیہ پیسہ کا ہی مقابلہ ہو گا۔اور جس کے
پاس نوٹوں کے ڈھیر ہوں گے وہی آسانی سے غریب عوامی ووٹوں کے ضمیرکو خرید
سکے گا۔اسلئے شریفان رقم اینٹھنے میں زرداری جیسے شخص کو بھی ہر قیمت پر
پیچھے چھوڑ دینا چاہتے ہیں اور اس کے تمام حواریوں کو ملا کر بھی اپنا
سرمایہ سینکڑوں ہزاروں گنا زیادہ اکٹھا کرنا چاہتے ہیں تاکہ آئندہ انتخابات
ہر صورت سویپ کرسکیں عمران خان بھی تمام نو دولتیوں جاگیرداروں وڈیروں کو
جمع کرکے ٹکٹیں دے کرسیاسی دنگل میں اتارنا چاہتے ہیں تاکہ رنگ چوکھا آوے
اور ووٹوں کی بند ربانٹ ہی نہ ہوبلکہ صحیح ریٹ لگا کرووٹ لے سکیں اور
شریفوں کو ٹھینگا دکھا یا جاسکے مگر"تدبیر کندبندہ تقدیر زند خندہ "کہ
انسان تدبیریں بنا اور اپنی پلاننگ کر رہا ہوتا ہے اور تقدیر ہنس رہی ہوتی
ہے۔دراصل زمین پر حکمرانی صرف اﷲ وحدہ ٗ لاشریک کی ہی ہے وہ جسے چاہے
حکمران رکھے وہ شہنشاہ کو گدا کرڈالے اور گداؤں) فقیروں (کوشہنشاہ بنا ڈالے
کہ حکم صرف اسی کا ہی چلتا ہے آخر شہنشاہ ایران فرعون نمرود شدادکیا ہوئے۔
زمین پر خدائی کے دعوے کرنے والوں کو کیا حشر ہوا تاریخ اپنے آپ کو دہراتی
رہتی ہے۔ سکندر گیا تو دونوں ہاتھ خالی تھے اور کفن کی تو جیبیں بھی نہیں
ہوتیں حکمران تو ملکی خزانوں کو لوٹنے کے بعدچائنہ کی امدادیں بھی ہڑپ کرنے
کو تیار بیٹھے ہیں چائنہ خواہ یہاں پر خود ہی سرمایہ خرچ کرلے جواء بہر حال
اسی کا ہوتا ہے جس کی جگہ ہو۔ہم تو سعودی عرب جیسے مخلص دوست کے ساتھ بھی
آنکھ مچولی کھیلتے ہیں کہ مکہ مدینہ اور خانہ کعبہ کی محبت جتلا کر زبانی
جمع خرچ کرکے رقوم لے کر ڈکار جاتے ہیں اور چند سینکڑے فوج بھجوا دیتے ہیں
اور عملاً کچھ نہیں کرتے ۔دوسری طرف فرینڈلی اپوزیشن کے راہنما ؤں کو شور
مچانے کا اشارہ کردیتے ہیں تاکہ پتہ ہی نہ چلے کہ ہماری دراصل خارجہ پالیسی
ہے کیا؟دراصل ہم نہ شیعوں میں ہیں نہ ھئیوں میں ایران بھی تو ہمسایہ ملک ہے
ہمیں ایران عرب اختلاف کو مٹانے کے لیے بطور مسلم برادراپنا کردار ادا کرنا
چاہیے تاکہ پورے عالم اسلام میں فرقہ واریت کی آگ نہ بھڑک اٹھے اگر ہم نے
بشمول دیگر غیر عرب مسلمان ممالک اپنا آج کردار ادا نہ کیا تو فرقہ واریت
کی جنگ کے شعلے عراق اورشام کی طرح ہمیں بھی بھسم کرڈالیں گے۔کہ ہم نے اپنی
کو تاہیوں سے اور اسلام دشمنوں نے بھی فرقہ وارانہ اختلاف کو ہمارے ہاں
پرورش کر رکھا ہے ہمارے حکمران ہر صورت ایسے اختلافات کو زندہ رکھ کر اپنا
اقتدار قائم رکھنا چاہتے ہیں ۔مگر بھاڑمیں پڑے سونا جو کانوں کو کھائے ہمیں
ایسے صنعتکار سود خور حکمران نہیں چاہئیں جو صرف مودی کا استقبال بھی ذاتی
مفادات کے تحت ہی کریں کہ کبھی بھاگ کر پناہ لینی پڑی تو ادھر ہی جا چھپیں
گے۔کہ اب توجاتی امرا ء سے بھی اڑکر گھنٹے میں ادھر جا اتریں گے ۔مگر قدرت
زلزلوں کے ذریعے انہیں مسلسل انتباہ کر رہی ہے کہ باز آجاؤ مگر انکے کان تک
جوں تک نہیں رینگتی خانہ خدا میں بیٹھ کر اسلامی نظام کا وعدہ کرکے مقتدر
ہوجانے کے بعدسودی نظام کے خاتمے پر اعلیٰ عدلیہ سے سٹے آرڈر جاری کروانے
اور وعدہ کرکے مکر جانے پرخدائی عذاب ان پر لازماً آئے گابھوک سے خود کشیاں
اور پاکستان بننے پر قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی آئندہ انتخابات میں جب گلی
کوچوں گوٹھوں سے اﷲ اکبر اﷲ اکبر کی صدائیں بلند ہوں گی تو ان کو دن کو
تارے نظر آنا شروع ہو جائیں گے اور ان کا جمع کردہ ڈھیروں سرمایہ راکھ کا
ڈھیرثابت ہو گا مسلمان ایک سوراخ سے دوسری دفعہ ڈسا نہیں جاسکتا ۔مگر یہاں
تو عوام دو نہیں بلکہ تین دفعہ ایک ہی سانپ کے ڈسے ہوئے ہیں۔ ستر سال سے جو
عوام دھوکے کھارہے ہیں انکے بپھرے ہوئے سیلاب کا بند لازماً 2018کے
انتخابات میں ٹوٹ جائے گا اور یہ خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے۔زرداری
،عمرانی اور شریفوں کے نعرے سن سن کر ہمارے کان پک چکے ہیں عوام تو ہندو
بنیوں نے جس گائے کے ذبح کرنے اور اس کا گوشت کھانے والوں کی قتل و غارت
گری شروع کر رکھی ہے اسی گائے کے نشان پر مہریں لگا کر اﷲ کی کبریائی کی
تحریک کو کامیاب بنانے کا عزم صمیم رکھتے ہیں تاکہ تمام ملکی مسائل مہنگائی
،بیروزگاری ،دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہو اور بنیادی ضروریات کی اشیاء بجلی
صاف پانی گیس علاج تعلیم مفت مہیا ہو سکے مزدور و محنت کش کم ازکم1600 روپے
دیہاڑی پاسکے اور اسکا ملوں اور کاروباروں کے منافع میں 10فیصد حصہ بھی
ہوغریبوں کو اﷲ اکبر ہو ٹلوں سے مفت کھانا ملے،غریبوں کو مفت اور دیگر
مسافروں کو1/3قیمت پر سفر اور بار برداری کی سہولت مہیا ہو۔کھانے کی تمام
ضروری اشیاء 5گناء کم قیمت پر اور ہمہ قسم تیل 3گناہ کم قیمت پر مل سکے
اقلیتوں کو مساوی حقوق میسر ہوں مذہبی رواداری ہو ۔فرقہ واریت کے سانپ کا
سر کچلا جائے یاد رکھیں کہ بھارت سے تعلقات معمول پر آجائیں تو حکمرانوں کے
الیکشنی نعرے ختم ہوسکتے ہیں اسلئے خوامخواہ جنگجویانہ صورتحال برقرار
رکھنے میں ہی ان کے اقتداری طوطے کی جان ہے۔ |