چند روز قبل ایوان صدر سے دعوت نامہ موصول
ہوا کہ صدرپاکستان ممنون حسین 5جنوری کو کشمیر کے ’یوم حق خود ارادیت کے
موقع پر کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔اس کے بعدصدر مملکت کے پرنسپل
سیکرٹری ڈاکٹر ندیم شفیق ملک نے ٹیلی فون پر اس تقریب کی تفصیل سے آگاہ کیا
اور تقریب سے ایک دن پہلے ایوان صدر میں ملاقات اور عشائیے کے لئے بھی مدعو
کیا۔یہ بھی معلوم ہوا کہ ہم عصر برادران عارف بہار،طارق نقاش اور اسلم میر
کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ہم چاروں کشمیر ہاؤس سے ایوان صدر اسلام
آباد کی دو گاڑیاں میں سوار ہو کر ایوان صدر کے مرکزی دروازے پہنچے ۔ معمول
کی سیکیورٹی کے بعد ایک لفٹ میں سوار ہوئے اور ایک خوبصورت راہداری عبور
کرتے ہوئے پرنسپل سیکرٹری کے آفس پہنچے جہاں ہمارا استقبال کیا گیا۔اس موقع
پر مختلف دلچسپ اوراہم امور پر بات چیت ہوئی ۔پرنسپل سیکرٹری نے صدر مملکت
کے دورہ مظفر آباد سے اتفاق کرتے ہوئے بتایا کہ صدر ممنون حسین جلد آزاد
کشمیر کے صدر مقام مظفر آباد کا دورہ کریں گے۔
اگلے روز ساڑھے گیارہ بجے دن ایوان صدر پہنچے تو مہمانوں کی آمد کا سلسلہ
شروع ہی ہوا تھا۔تقریب میں حریت رہنما غلام محمدصفی،محمد فاروق
رحمانی،محمود احمد ساغر،طاہر مسعود ،فیض نقشبندی،صدر آزاد کشمیر سردار محمد
یعقوب خان،وزیر اعظم آزاد کشمیر چودھری عبدالمجید،اپوزیشن لیڈر راجہ فاروق
حیدر خان،ڈپٹی اپوزیشن لیڈر چودھری طارق فاروق،امیر جماعت اسلامی آزاد
کشمیر عبدالرشید ترابی،سابق صدر آزادکشمیر سردار محمد انور خان ،سیکر ٹری
کشمیر لبریشن سیل زاہد عباسی ،سیکرٹری آزاد کشمیر حکومت فرحت علی میر،وفاقی
وزیر امور کشمیر چودھری برجیس طاہر،سیکرٹری خارجہ،سیکرٹری کشمیر کونسل اور
پاکستان کے مختلف اداروں کے نمائندے شریک ہوئے جبکہ شیخ تجمل الاسلام،عارف
بہار،طارق نقاش ،اسلم میر اور راقم "opinion makers" کے طور پر شریک
ہوئے۔سردار عتیق احمدخان،بیرسٹر سلطان محمود چودھری،سردار خالد ابراہیم ،پیر
عتیق الرحمان فیض پوری اور مولانا یوسف شاہ دعوت کے باوجود تقریب میں شریک
نہیں ہوئے۔صدر ممنون حسین وقت مقررہ پر تشریف لائے۔صدر ممنون حسین نے خطاب
کرتے ہوئے بتایا کہ آج کی یہ تقریب5جنوری ،کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے
حوالے سے قائد اعظم محمد علی جناح کی تقریبات کے سلسلے میں منعقد کی گئی
ہے۔صدر ممنون حسین نے کہا کہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کے اصولی موقف میں
کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور پاکستان کشمیر کے مظلوم عوام کی حمایت جاری
رکھے گا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت ہماری
خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے ۔صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان کشمیر کو برصغیر کی
تقسیم کا نامکمل ایجنڈا سمجھتا ہے ۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح
نے کہا تھا کہ پاکستان میں ’ک‘ کا مطلب کشمیر ہے اور جب تک کشمیر پاکستان
میں شامل نہیں ہوتا پاکستان نا مکمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر پاکستانی کے
لیے قائد اعظم کا یہ قول مشعلِ راہ ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔صدر
ممنون حسین نے کہا کہ پاکستان نے ہر سیاسی اور سفارتی فورم پر کشمیریوں کے
لئے آواز اٹھائی ہے اور وہ یہ فریضہ مستقبل میں بھی ادا کرتا رہے گا۔ انہوں
نے کہا کہ کشمیر میں اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں
ہوگی ۔انہوں نے کشمیریوں کو یقین دلایا کہ وہ حکومت پاکستان،وزیر اعظم نواز
شریف پر بھر پور اعتماد رکھیں،کشمیریوں کے مفاد اور ان کی قربانیوں کے
منافی کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا۔
صدر ممنون حسین نے اپنی گفتگو کے بعدشرکاء کو اظہار خیال کی دعوت
دی۔مشاورتی اجلاس کی طرز پر منعقدہ اس تقریب میں کیا باتیں ہوئیں،تقریب کی
تفصیلات کیا رہیں،اس بارے میں تفصیل بیان کرنا میرے خیال میں اس وقت مناسب
نہیں۔یہ تقریب اس نوعیت کی نہیں تھی کہ جس کی مکمل تفصیل میڈیا میں پیش کی
جاسکے۔حریت رہنماؤں نے پاکستان کی واضح کشمیر پالیسی پر زور دیا اور اس
متعلق صورتحال کی بہتری لانے کی ضرورت پر بات کی۔کشمیری رہنماؤں،نمائندوں
نے پاکستان کی کشمیر پالیسی کو مستحکم اور موثر بنانے کی ضرورت پر زور
دیا۔پاکستان مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر کے صدرراجہ فاروق حیدر خان نے پٹھانکوٹ
کے حالیہ واقعہ میں کشمیریوں کو ملوث کرنے کی کوشش پر تشویش کا اظہار
کیا۔تقریب میں کشمیر کاز کے حوالے سے تجاویز کے حوالے سے میں نے پاکستان
اور کشمیریوں کے درمیان تعلقات کو مختلف حکومتی،سرکاری شعبوں کے ذریعے وسعت
دینے اور باقاعدہ بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔وزارت خارجہ،وزارت اطلاعات و
نشریات،’آئی ایس پی آر ‘ کے ساتھ باقاعدہ طور پر رابطے،مشارت سے کئی حوالوں
سے بہتری لائی جا سکتی ہے جس کے کشمیر کاز،تحریک آزادی کشمیر پر بلا واسطہ
مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان اور کشمیریوں کے درمیان تعلقات کو
مختلف حکومتی،سرکاری شعبوں کے ذریعے وسعت دیتے ہوئے اسے مستقل شکل دی جائے۔
حکومتی اداروں کے ساتھ کشمیریوں کے باقاعدہ طور پر رابطے،مشارت سے کئی
حوالوں سے بہتری لائی جا سکتی ہے۔ سرکاری اداروں کے ساتھ کشمیریوں کے رابطے
اور مشاورت کا مستقل سلسلہ شروع کیا جائے۔ آزاد کشمیر حکومت کے تحریک آزادی
کشمیر کے کردار کی بحالی پر بھی زور دیا دیتے ہوئے کہا گیا کہ آزادکشمیر
میں بااختیار اور باوقار حکومت کے قیام کی ذمہ داریاں پوری کی جائیں۔ اس
مشاورتی اجلاس میں حریت کانفرنس کی طرف سے غلام محمد صفی،محمود احمد
ساغر،میر طاہر مسعوداورفیض نقشبندی نے اظہار خیال کرتے ہوئے تجاویز
دیں۔تقریب میں صدر آزاد کشمیر سردار یعقوب خان ،وزیر اعظم آزاد کشمیرچودھری
عبدالمجید،اپوزیشن لیڈر راجہ فاروق حیدر خان،امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر
عبدالرشید ترابی ،وفاقی وزیر امور کشمیرچودھری برجیس طاہر،سابق صدر آزاد
کشمیر سردار محمد انورجبکہ opnion makersکے طور پر شیخ تجمل الاسلام،اطہر
مسعود وانی اور طارق نقاش نے مختلف تجاویز پیش کیں۔
گزشتہ کچھ عرصے سے اس بات کا تذکرہ کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ
مشاورت، باقاعدہ رابطے کا سلسلہ نہ ہونے کی وجہ سے کشمیریوں میں ایک احساس
پایا جاتا ہے اور اس سے کشمیر کاز اور صورتحال کی بہتری میں کوئی مدد نہیں
مل رہی لہذا یہ بات شدت سے محسوس کی جاتی ہے کہ کشمیریوں کے ساتھ پاکستان
کے رابطوں کو باقاعدہ اور موثر شکل دی جا ئے۔ یہ دیکھا جاتا رہا ہے کہ
وزارت خارجہ میں مشاورت کے نام پر کشمیری نمائندوں کو سالہا سال بعد بریفنگ
دی جاتی تھی جبکہ اس طرح کی بریفنگ وزارت خارجہ میں صحافیوں کو ہفتہ وار دی
جاتی ہے۔صدر پاکستان ممنون حسین کی طرف سے 5جنوری 2016ء کو کشمیریوں کے
’یوم حق خود ارادیت‘ کے موقع پر ایوان صدر اسلام آباد میں کشمیری رہنماؤں
اورنمائندوں کواس تقریب میں مدعو کرتے ہوئے کشمیر کاز کے حوالے سے مشاورتی
اجلاس کے طور پر منعقد کیا گیا۔بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایوان صدر اسلام
آباد میں منعقدہ یہ تقریب صرف باتیں کرنے،ظہرانے اور فوٹوسیشن کے لئے
تھی۔تصاویر دیکھ کر اندازے لگانے والوں کو اس اہم اجلاس سے متعلق مکمل
معلومات نہیں ملتیں۔میری رائے میں صدر پاکستان کی صدارت میں منعقدہ یہ
اجلاس کشمیر کاز کے حوالے سے دوررس اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ان کوششوں میں ایک
اہم پیش رفت ہے جو کشمیریوں اور پاکستان کے کشمیر کاز کے حوالے سے اشتراک
عمل اور پاکستان کی کشمیر پالیسی اور حکمت عملی کو موثر بنانے کے لئے کی جا
رہی ہیں۔ |