آج ایران سعودیہ کشیدگی دشمنی میں بدلتی نظر آ رہی ہے۔
شیعہ عالم دین نمر النمر کی سزائے موت کے بعد ایران اور سعودی عرب کے نہ
صرف سفارتی تعلقات منقطع ہو چکے ہیں بلکہ ان ممالک کے اتحادی بھی انکے ساتھ
آکھڑے ہوئے ہیں۔سعودی عرب کو آج ایک بار پھر شدت سے پاکستان کی یاد آرہی
ہے۔جمعرات کو سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے پاکستان کا مختصر دورہ کیا۔
انہوں نے جنرل راحیل شریف، وزیر اعظم نواز شریف اور مشیرِ خارجہ سرتاج عزیز
سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔انکی واپسی کے دوسرے روزسعوی عرب کے وزیرِ دفاع
اور نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان السعود پاکستان پہنچے جہاں انھوں نے
پاکستان کے وزیرِ اعظم محمد نواز شریف اور پاکستان فوج کے سربراہ جنرل
راحیل شریف سے ملاقات کی۔ ان ملاقاتوں کے مقاصد سے ہر کوئی آگاہ
ہے۔پاکستان کی طرف سے سعودی سلامتی کو لا حق خطرات کی صورت میں سعودی عرب
کو اسکے شانہ بشانہ ہونے کا یقین دلایا ہے۔ یمن پر سعودی عرب کی یلغارکے
بعد وزیراعظم نواز شریف نے پاک فوج کی خدمات پیش کی تھیں مگر معاملہ
پارلیمنٹ میں گیا تو حکومت کو اپنے وعدوں سے پسپائی اختیار کرکے شرمندگی
اُٹھانا پڑی تھی۔اب پھر سیاسی اور عسکری قیادت جذباتی بیانات دے رہی
ہے۔معروضی حالات میں فیصلے سوچ سمجھ کر کرنے ضرورت ہے۔کوئی ملک کھل کر
ایران کی حمایت کرے تو سعودی عرب کی آنکھوں میں کھٹکے گا،سعودی عرب کے
حامی ایران کیلئے قابلِ برداشت نہیں ہونگے۔ہمارے مشرقی اور مغربی بارڈر
اپہلے ہی غیر محفوظ ہیں۔ کیا ایران کے ساتھ بھی پاکستان بارڈر کو غیر محفوظ
بنانے کا متحمل ہوسکتا ہے۔ آج پاکستان نہ صرف اندرونی اور بیرونی محاذ پر
شدید مشکلات سے دوچار ہے بلکہ ان مشکلات میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔بھارت
کیساتھ پاکستان کے تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے۔کانگریس کی حکومت کے
دوران کشیدگی نسبتاً کم رہی ہے،مگر اس امر کوبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کی
پاکستان کے مفادات کو ناقابلِ تلافی نقصان کانگریسی حکومتوں کے دوران ہی
پہنچا، کشمیر کو نہروکی کانگریسی حکومت کے دوران مقبوضہ بنایا گیا اور انکی
پتری اندرا گاندھی کی کانگریسی حکومت کے دوران پاکستان کو دولخت کیا گیا۔یہ
الگ بات ہے اپنے شدت پسندانہ نظریات اوراشتعال انگیز بیانات کے باعث بی جے
پی خود کو پاکستان کس کا سب سے بڑا دشمن باور کراتی رہی ہے اور اب بھی
کرارہی ہے۔نریندر مودی تو وزارتِ عظمیٰ کے سنگھاسن تک بھی پاکستان کیخلاف
زہر اگل اگل کر پہنچے ہیں مگر پاکستان کے حوالے سے انکے لہجے میں
نرمی،تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی خواہش اور پاکستان کے اچانک دورے
سے مودی کی اصلیت جاننے اوران کو بھارت کے سب سے بڑے منصب تک لانیوالے چونک
گئے۔ممبئی طرز پر پٹھان کوٹ ایئر بیس پر دہشتگردی ہوئی توبھارت کے میڈیا
اور سیاسی اشرافیہ کے ردِ عمل میں وہ شدت نہیں تھی جو عموماً ایسے واقعات
کے بعد دیکھی جاتی ہے۔ بھارتی حکومت کی طرف سے فوری طور پر پاکستان کیخلاف
براہِ راست الزام لگانے سے گریز کیا گیا۔ مودی کے رویے میں یہ تبدیلی شاید
پاکستان کے ساتھ مذاکرات کیلئے امریکی دبائوتھامگر عجب صورتحال تھی، امریکہ
بھارت کی زبان استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو کہہ رہا تھا کہ وہ پٹھان کوٹ
حملہ میں ملوث لوگوں کے خلاف کارروائی کرے۔پٹھان کوٹ حملے کے بعد بھی
سیکرٹری سطح پر شیڈولڈ مذاکرات کا انعقاد ممکن نظر آرہا تھا امریکہ کے
ایسے بیانات پر ان مذاکرات کا مستقبل اب مخدوش نہیں تو غیر واضح ضرور ہوگیا
ہے۔اب بھارت نے سیکرٹری خارجہ کے مذاکرات پٹھان کوٹ حملہ میں ملوث ملزموں
کے خلاف کارروائی سے مشروط کردیئے ہیں۔پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت نے ابھی
اس حملہ کے بارے میں مکمل معلومات نہیں دیں۔ بھارت اب پاکستان کے ساتھ
تعلقات کشیدگی کی اُسی سطح لانا چاہتا ہے جس پر وہ نومبر 2008ء ممبئی حملوں
کے بعد لے گیا تھااور ان حملوں کے بعد کئی سال تعلقات میں کشیدگی اور تلخی
برقرارر ہی جس کا بھارت کوفائدہ ہوا کہ مسئلہ کشمیر پر مذاکرات میں اسے چھ
سات سال ٹال مٹول کا موقع مل گیا۔اب پٹھان کوٹ حملہ کو لے کر دیکھیں بھارت
اور کتنے سال مسئلہ کشمیر پر مذاکرات سے راہِ فرار اختیار کرتا ہے۔بھارت
کیساتھ جب تک کشیدگی رہے گی پاکستان کا مشرقی بارڈر محفوظ نہیں ہوسکتا۔ادھر
افغانستان کیساتھ پاکستان کا بارڈر بھی غیر محفوظ ہے۔بھارت افغانستان کو
اپنے مقاصد اور پاکستان میں مداخلت کیلئے استعمال کرتا ہے۔ افغانستان میں
ان دہشتگردوں کی پناہ گاہیں ہیں جو پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث رہتے
ہیں۔ ہم اندرونی محاذ پر ضربِ عضب میں مصروف ہیں۔ یہ ہماری بقا کی جنگ
ہے۔اسے ادھورا چھوڑا جاسکتا ہے نہ اس میںجیت کے سوا کوئی دوسری رائے یا
راستہ ہے۔پاکستان چین راہداری کو دشمن متنازعہ بنا کراس کی تعمیر کی راہ
میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کیلئے سازشوں کے جال بن رہا ہے۔ہمارے کچھ سیاستدان
حکومت کے نادانی پر مشتمل رویئے کے باعث نادانستہ ہی سہی دشمن کے آلہ کار
بنے ہوئے ہیں۔حکومت اور فرینڈلی اپوزیشن کی شہرت رکھنے والی پارٹیاں اپنی
توانائیاں مخالفانہ سرگرمیوں اوربیانات پر صرف کررہی ہیں۔ اپوزیشن راہداری
پر تحفظات کا اظہار کرتی ہے تو حکومت ان کو دور کرنے کے بجائے سوتنوں کی
طرح طعن و تشنیع پر اتر آتی ہے۔راہداری کا سارا خرچہ چین نے دیناہے کچھ
لوگ کمیشن میں حصہ نہ ملنے پر سیخ پا ہیں تو کچھ سارے کا سارا کمیشن ہضم
کرنے لئے کسی کی کوئی بات تحمل سے سننے پر تیار نہیں۔ |