وَأَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ وَلَا تَنَازَعُوْا
فَتَفْشَلُوا وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللّٰہَ مَعَ
الصَّابِرِیْنَo
(سورہ الانفال:46)
”اوراللہ اوراس کے رسول ﷺکی اطاعت کرواور آپس میں جھگڑا نہ کرو،ورنہ کمزور
پڑ جاؤگے اور تمہاری ہوا اکھڑجائے گی اورصبر سے کام لو بے شک اللہ تعالیٰ
صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔“
ایک بہت مشہور اورپرانی کہاوت ہے کہ ایک بوڑھے کسان کے چاربیٹے تھے۔وہ آپس
میں لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔کسان ان کو سمجھاتا کہ آپس میں لڑو گے تو دنیامیں
تمہاری عزت ختم ہوجائے گی،تمہاری بات نہیں مانی جائے گی،پرائے لوگ تمہارے
اوپر غالب آجائیں گے لیکن اس کے بیٹوں کو یہ بات سمجھ نہ آتی۔
ایک دن کسان کے ذہن میں ایک ترکیب آئی، اس نے اپنے بیٹوں کو بلایا اوران کو
کہاکہ جنگل سے لکڑیاں اکٹھی کرکے لے کرآؤ۔ جب بیٹے لکڑیاں لے آئے تو اس نے
ان لکڑیوں کا گٹھابنایااور سب کو کہا کہ باری باری لکڑیوں کے اس گٹھے کو
توڑنے کی کوشش کریں،اس کے سبھی بیٹوں نے اس گٹھے کو توڑنے کی کوشش کی لیکن
ناکام رہے پھر کسان نے گٹھا کھول دیااور بیٹوں کو حکم دیا کہ اب ایک ایک
لکڑی کو توڑنے کی کوشش کریں۔اس دفعہ بیٹوں نے بڑی آسانی سے سبھی لکڑیوں کو
توڑ لیاتوباپ نے ان کو سمجھایا کہ جس طرح لکڑیاں گٹھے کی شکل میں مضبوط اور
ناقابل تسخیر رہیں،اسی طرح تم بھی اکٹھے رہو گے تودشمن تمہارا بال بھی بیکا
نہیں کرسکتااور جس طرح لکڑیاں علیحدہ علیحدہ ہوکر آسانی سے ٹوٹ گئی ہیں،اسی
طرح جب تم بھی اپنی جمعیت کو چھوڑ کر علیحدہ علیحدہ ہو جاؤ گے تو تمہارے
دشمن آسانی سے تمہارا شکار کرلیں گے۔
یہی بات ہے کہ جب تک امت مسلمہ خلافت کے پرچم تلے متحد رہی،فتوحات کا
دروازہ کھلا رہا۔ اسلام کا پھریرا پوری دنیاپر لہراتارہامگر جب ان کی وحدت
پارا پارا ہوئی تو وہ قومی،علاقائی،نسلی اور لسانی سرحدبندیوں میں جکڑے
گئے۔خلافت کاخاتمہ ہوگیا۔وہ جود نیا کو مفتوح کرنے نکلے تھے،خود اپنے ہی
علاقوں میں مفتوح ہوکر رہ گئے۔اپنوں کی بے وفائیوں اور اغیار کی سازشوں کی
وجہ سے خلافت عثمانیہ کاخاتمہ ہوگیاجس کے بارے میں شاعر مشرق علامہ اقبال
نے کہاتھا:
چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی بھی دیکھ
جنگ عظیم اول کے بعد امت مسلمہ مشرق ومغرب میں شدید مشکلات کاشکارتھی۔ کوئی
مملکت یا کوئی شخصیت ایسی نہ تھی جو قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے مسلمانوں
کو اس شدید بحران سے نکال کر پھر سے عظمت و رفعت کی راہوں پرگامزن
کردے۔عالم عرب اپنی ہی الجھنوں میں گرفتار تھا،اعلان بالفور کے تحت پوری
دنیا کے یہودیوں کو اکٹھا کرکے فلسطین میں بساکر عربوں کے قلب میں
خنجرگھونپا جارہاتھا۔پوری دنیا کے مسلمان پریشانی کاشکار تھے۔ ان حالات میں
برصغیر کے مسلمانوں میں بیداری کی لہر پیدا ہوئی،ان کو اللہ رب العزت کی
خاص توفیق اور نصرت سے ایسی قیادت میسرآئی جس نے ناامیدی اور مایوسیوں میں
گھرے مسلمانوں کو ایک ولولہ تازہ دیا اوران کے جذبات کو ابھار کر انہیں
آزادی کی راہ کا راہی بنادیا۔
برصغیرکے مسلمانوں کی قیادت جومسلم لیگ کی شکل میں تھی،نے نہ صرف
برصغیربلکہ پوری امت مسلمہ کی ترجمانی کاسلسلہ شروع کیا،وہ فلسطین کا مسئلہ
ہو یا خلافت کا،برصغیرمیں زبردست تحریکیں چلیں۔ برصغیر کے مسلمانوں نے
خلافت کے احیاکے لیے نہ صرف اخلاقی مدد کی بلکہ اپنا مال وزیور تک مسلمانوں
کی مددکے لیے بھیج دیا اورتحریک خلافت کے نام سے بہت زبردست احتجاج شروع کر
کے برطانیہ سے مسلمانوں کے مقامات مقدسہ اور شعائر کی حفاظت کی ضمانت چاہی۔
فلسطین کے مسئلہ پر مسلم لیگ نے 1933ء سے1946ء تک 18قرار دادیں منظور کیں۔
اس بے لوث قیادت نے برصغیر کے مسلمانوں کو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر اکٹھاکرکے
قیام پاکستان کے لیے بےمثال جدوجہدکی۔ لاکھوں قربانیوں کے بعد لاالٰہ
الااللہ کی اساس پر اس ملک کا قیام عمل میں آیا تو پوری دنیا کے مسلمانوں
کو امیدیں بندھنا شروع ہوگئیں کہ اب ہماری پکار پر بھی کوئی لبیک کہنے
والاہوگا۔ پاکستان نے بھی امت مسلمہ کو مایوس نہیں کیابلکہ اس مملکت خداداد
کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خاں نے اپنے بیان میں کہاکہ ”پاکستان کابننا
محض دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کااضافہ نہیں بلکہ یہ ملک مسلمان ممالک کے
ساتھ تعلقات اورتعاون کے لیے اپنا پورا زور لگائے گا۔“
پاکستان نے اقوام متحدہ کا رکن بنتے ہی اپریل 1948ء میں اقوام متحدہ کی
جنرل اسمبلی میں فلسطین کے مسئلے کو اقوام عالم کے سامنے بڑے مؤثرانداز میں
رکھااور اعلان بالفور کی مخالفت کی۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان نے وہ مسلمان
خطے جو ابھی تک قبضہ استعمار سے آزاد نہیں ہوئے تھے،ان کے معاملے کو اقوام
متحدہ میں اٹھانا شروع کردیا۔ لیبیااورانڈونیشیا وغیرہ کے مسائل کو اقوام
عالم کے سامنے رکھنے والاملک پاکستان ہی تھا۔
اسی طرح پاکستان نے دوڑدھوپ کرکے فروری 1949ء میں کراچی میں مسلم
ورلڈکانگرس منعقد کروائی۔ اس کی دوسری کانفرنس 1951ء میں ہوئی جس میں یہ
قرار داد پاس کی گئی کہ ”کسی ایک بھی مسلمان ملک پربیرونی جارحیت تمام
مسلمان ممالک پرجارحیت تصورکی جائے گی۔“
پاکستان کے وزیراعظم ناظم الدین نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہمسلمان
ایک جسم ہیں، اگراس کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم اس تکلیف
کو محسوس کرتاہے۔
1969ء میں مسجد اقصیٰ کو جلانے کی مذموم حرکت کی گئی توپاکستان نے اس
معاملے کو بھی اقوام عالم کے سامنے مؤثر انداز میں پیش کیا۔ 1973ء کی عرب
اسرائیل جنگ میں عربوں کی وکالت کرنے والا اوران کو مدد فراہم کرنے والاملک
پاکستان ہی تھا۔
اسی طرح اپنے قیام سے لے کر آج تک کشمیر کا پوری دنیامیں واحد وکیل پاکستان
ہی ہے۔ یہی ملک ہے جو کشمیریوں کی خاطر اپنے ہزاروں گھبرو قربان کرچکاہے۔
اسی مسئلہ کشمیرپرانڈیا سے جنگیں لڑ چکاہے۔
الغرض مشرق سے مغرب تک امت مسلمہ کی نمائندگی کرنے والا،ان کے مسائل کو
دنیاکے سامنے رکھنے والا،ان پرہونے والے مظالم پرسراپا احتجاج بن جانے
والا،ان کے دکھوں کامداوا،ان کی اخلاقی، مالی اورحتی المقدور عسکری مدد
کرنے والاملک پاکستان ہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب مئی1998ء میں پاکستان بھارت کے مقابلے میں ایٹمی دھماکے
کرتاہے تو اس کا جشن پوری امت مسلمہ مناتی ہے۔ مراکش کی گلیوں میں مٹھائیاں
تقسیم ہوتی ہیں۔سعودی عرب میں جشن کاسماں ہوتاہے۔ فلسطینی بچے اسرائیلی
فوجیوں سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ اگرچہ ہمارے ہاتھوں میں پتھرہیں مگر
ہمارے پاکستانی بھائیوں کے پاس ایٹم بم ہے۔پاکستان کے ایٹم بم کو اسلامی بم
کاخطاب دیاجاتاہے۔
مملکت خداداد پاکستان کا یہی وہ کردار تھاجس کی وجہ سے پوری دنیاکے مسلمان
پاکستان کو مسلم ممالک کا قائد سمجھتے ہیں۔پوری دنیامیں مسلمانوں کے خلاف
کوئی مسئلہ کھڑا ہوتاہے توسب کی نظریں پاکستان کی طرف اٹھتی ہیں۔پاکستانی
ایٹمی دھماکوں پر جشن منانے والا مظلوم فلسطینی بچہ مسجد اقصیٰ کے صحن میں
گریہ زاری کرتے ہوئے پاکستانی عوام اور افواج پاکستان کو ظالم اسرائیلی
درندوں کے خلاف اپنی مدد کے لیے پکارتاہے، کھیل کے میدانوں میں پاکستان کی
اپنے روایتی حریف پر برتری پہبھی فتح کے جشن منانے والاکشمیری طالب علم
ہندو بنیے کی درندگی اور سربیت کا راستہ روکنے کے لیے اپنے پاکستانی بھائی
کو آواز دیتاہے۔ کہساروں میں رہنے والا جفاکش افغانی اپنی مدد کے لیے
پاکستان ہی کی طرف دیکھتاہے۔
پوری دنیا کے مظلوم مسلمان پاکستان اور اہل پاکستان سے یہ امید رکھتے ہیں
کہ پاکستان ہی وہ ملک ہے جو قائدانہ کردارا دا کرتے ہوئے ان کو ظالموں کے
پنجہ استبداد سے نکال کر آزادیوں کی روشن صبحوں میں لے جائے گا مگر پاکستان
ہی کے بعض نام نہاد دانشور اور بزعم خود”خارجہ پالیسی کے ماہر“ پاکستان کو
اس قائدانہ کردار سے محروم کردیناچاہتے ہیں۔سب سے پہلے پاکستان…… اپنا
گھربچاؤ……پہلے اپناملک سنوارو……امن کی آشا…… دنیا کو اس کے حال پر چھوڑ و……
بس اپنی فکر کرو……!!
اس طرح کی فضول اورلایعنی باتیں کرکے پاکستان کے اس کردار پر شکوک وشبہات
پیدا کردیئے گئے۔ پھر اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یہ ”ماہرین بین
الاقوامی تعلقات“پاکستان کے موجودہ مسائل کی بھی اسی کو گردانتے ہیں۔اس طرح
کے لوگوں کا پروپیگنڈا ہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے کونوں کھدروں سے آج
کل اس طرح کی آوازیں سننے کو ملتی ہیں کہ اب ہم نے سارے عالم کے مسلمانوں
کا جو ٹھیکہ اٹھا رکھاہے اس کو چھوڑ کر بس اپنی فکر کرنی چاہئے۔
امت مسلمہ مظالم کاشکار ہوتی ہے توہوتی رہے، مسلمان ملکوں پرصلیب کے قبضے
ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں، شعائر اسلامی کی توہین ہوتی ہے توہوتی رہے،
مسلمانوں کی سب سے مقدس ہستی محمدرسول اللہeکی حرمت پامال ہوتی ہے توہوتی
رہے، یہودی اورصلیبی درندے امت مسلمہ کی عصمتیں نوچتے رہیں،ہمیں اس پر کوئی
فکر نہیں ہونی چاہئے۔ ہمیں ان کے غم میں ہلکان ہوکر عملی اقدامات کرنے کی
بجائے اپنے ملک کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اپنے ملک کے عوام کی بہتری کے لیے
تدابیر اختیار کرنی چاہئے۔
ایسے ”دانشوروں“ کی خدمت میں عرض ہے کہ کبھی”مغربی سیاسی افکار“ سے نکل کر
قرآن وحدیث، منہج سلف اور اسلامی سیاسی افکار بھی پڑھ کر دیکھیں کہ ایسے
معاملات میں اسلام ہماری کیارہنمائی کرتاہے۔ بحیثیت ایک آزاد اورخودمختار
ملک ہم پر کیاکیا بھاری ذمہ داریاں واجب الادا ہیں۔ ہم چند پہلوؤں سے ان
غلط فہمیوں کا جائزہ لے کر اس بحث کو سمیٹتے ہیں کہ پاکستان کی بقا عالم
اسلام کے ساتھ جڑکراوران کے مسائل کواپنے مسائل سمجھ کر ان کو حل کرنے میں
ہے یاتنہارہنے میں ہے۔
سب سے پہلی بات اللہ رب العزت قرآن پاکمیں بارہامقامات پرمسلمانوں کو
اکٹھار ہنے اور فرقہ فرقہ یا علیحدہ علیحدہ رہنے سے بچنے کاحکم دیتے ہیں۔
سورہ الانفال میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَأَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوا
وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَo
(سورہ الانفال:46)
”اوراللہ اوراس کے رسول ﷺکی اطاعت کرواور آپس میں جھگڑا نہ کرو،ورنہ کمزور
پڑ جاؤگے اور تمہاری ہوا اکھڑجائے گی اورصبر سے کام لو بے شک اللہ تعالیٰ
صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔“
یہاں سے بھی پتاچلتاہے کہ اسلام امت مسلمہ کو دنیا میں رہنے کے لیے کس طرح
کانظام دیتاہے کہ اگر گروہوں میں بٹوگے توتمہاری ہوااکھڑجائے گی۔ دنیا سے
تمہارا رعب ختم ہوجائے گااور جب کسی کا رعب ختم ہوتا ہے تونہ پھر اس کاغلبہ
رہتاہے،نہ ہی اس کے فیصلے دنیا میں چلتے ہیں۔ آج ہم نے علاقائیت،نسل پرستی
اور لسانیت کی سرحد بندیوں میں قید ہوکر دیکھ لیا کہ اتنے زیادہ اسلامی
ہونے کے باوجود حملے مسلمانوں پرہوتے ہیں۔ مساجد مسلمانوں کی گرائی جاتی
ہیں،قبضے مسلمانوں کے علاقوں پر ہوتے ہیں، قرآن مسلمانوں کاجلایاجاتا ہے
اور توہین مسلمانوں کے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ہوتی ہے۔
اسی طرح اللہ مسلمانوں کو واضح حکم دیتے ہیں کہ جب کوئی مسلمان تم سے دین
کے معاملے میں مدد طلب کرے تو تمہارے اوپر اس کی مدد کرنالازم ہوجاتاہے۔
وَإِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ
النَّصْرُ۔(الانفال:72)
دوسری بات ہمارے ہادی رہبرجناب محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
بھی ہمیں اس بات کادرس دیاہے کہ ہم مسلمانوں کی تکلیف پرتڑپ اٹھنے والے
ہوں۔اگرچہ وہ مسلمان دنیاکے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتاہو۔آپ صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا:
المسلم اخوالمسلم کجسد الواحد ان الشتکی منہ الشی وجدالم فی سائرجسدہ
مسلمان مسلمان کابھائی ہے اوریہ ایک جسم کی مانند ہے اورجب جسم کے کسی حصے
میں تکلیف ہو تو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتاہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ
کے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مسلمان مسلمان کابھائی ہے،نہ اس پرظلم کرتا ہے اورنہ اس پرظلم ہونے دیتاہے
ایک اور حدیث مبارکہ ہے۔
تیسری بات یہ نام نہاد دانشور پاکستان کے عوام کو ان باتوں پرورغلاتے ہوئے
بانیئ پاکستان محمدعلی جناحؒ کے کردار اور فرامین کو بھی فراموش کردیتے
ہیں۔ محمدعلی جناحh قیام پاکستان سے قبل ہی عالمی حالات پرکڑی نظر رکھتے
تھے اور دنیابھر میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پرخاموش نہیں
بیٹھتے تھے۔ مسئلہ فلسطین پرآپ نے دو ٹوک مؤقف اختیار کیا اور واضح کیا کہ
اگر اس کو حل نہ کیا گیا تو پوری امت مسلمہ میں آگ لگ جائے گی۔
اسی طرح اپریل1943ء میں آپ نے قیام پاکستان کے مقصد کوواضح کرتے ہوئے کہا
کہ”پاکستان ایک ایسابیس کیمپ ہوگا جہاں ڈاکٹرز،انجینئرز،سائنسدان اور ایسے
ماہرین تیار ہوں گے جوپوری مسلم دنیا میں پھیل جائیں گے اورایک تیسرا مضبوط
بلاک وجود میں آئے گا جو نہ تواشتراکی ہوگااورنہ سرمایہ دارانہ بلکہ وہ
مسلم بلاک ہوگا۔
اسی طرح قیام پاکستان کے بعد1948ء میں عیدالاضحی کی مبارکبار دیتے ہوئے آپ
نے کہاکہ میرا یہ پیغام تمام مسلم ریاستوں کے بھائیوں کے لیے ہے کہ بڑی
طاقتیں جوڈرامہ فلسطین،کشمیراور انڈونیشیا وغیرہ میں سٹیج کر رہی ہیں۔اس پر
ایک اسلامی اتحادبناکر اس کامقابلہ کرنا ہو گا۔
قارئین کرام! بانیئ پاکستان توایک مضبوط مسلم بلاک کاخواب دیکھتے تھے اوراس
کے لیے تگ ودو کرتے تھے اورآج ان کے جانشین قوم کو مسلم بلاک کے ساتھ ملنے
کی صورت میں اپنے نقصانات گنواتے نہیں تھکتے۔
چوتھی بات،پاکستان کی خارجہ پالیسی اسلام کی بنیاد پربنائی جاتی ہے جس کے
بنیادی اصول ہی یہی ہیں کہ مسلمان ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور تعاون
ہوگا اور ان کو باقی ممالک پر ترجیح دی جائے گی۔
ایک بہت اہم بات کہ آج بہت سے مسلم اور غیرمسلم سکالر بھی یہ پیشین گوئی
کررہے ہیں کہ دنیا تیزی سے تہذیبوں کے ٹکراؤ کی طرف بڑھ رہی ہے اور تہذیبیں
دو ہی ہیں،ایک اسلام اور دوسری کفرہے۔ آج اگر پاکستان اپنے آپ کو عالم
اسلام اوراس کے مسائل سے علیحدہ کرلیتاہے توآنے والے دنوں میں اس کی سا
لمیت کو بہت سارے خطرات لاحق ہوں گے۔ لہٰذا اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے
آپ کو عالم اسلام کے ساتھ نتھی کر کے رکھے اور آنے والے دنوں میں اسلامی
بلاک کے قائد کی حیثیت سے اخوت وایثار کی ایسی مثال بنے کہ
اخوت اس کو کہتے ہیں کہ چبھے کانٹا جو کابل میں
تو برصغیر کا ہر پیرو جواں بے تاب ہو جائے
پھر امت مسلمہ کی حفاظت کے لیے پاکستان اس انداز سے سارے اسلامی ممالک کو
لے کر چلے کہ ؎
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر |