مولانا مسعود اظہر اور پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیاں

جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو حفاظتی تحویل میں لینا حکومت پاکستان کا بجائے خود ایک بڑا فیصلہ ہے جس پر انڈین میڈیا نے سب سے زیادہ خوشیوں کے ڈھول پیٹے۔ حکومت پاکستان نے یہ مشکل فیصلہ یقینا بھارتی حکومت او ر بھارتی میڈیا کے دباؤ پرکیا ہے تاہم اب تک کی اطلاعات کے مطابق مولانا اظہر سے بھارتی علاقے پٹھان کوٹ پر حملے کے کوئی تانے بانے نہیں ملے ہیں۔پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے ماضی میں مولانا اظہر کے حوالے سے ایک خاص اسٹانس اختیار کر رکھا تھالیکن ایسا پہلی بار ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کا بیانیہ تبدیل ہو رہاہے اور ہر سطح پر فکر و عمل میں تبدیلی آ رہی ہے۔ ایک طویل عرصے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی ہے اور ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جب دونوں میں سے کسی ایک ملک میں دہشتگردی کا کوئی واقعہ ہوا ہو اور اس کے ڈانڈے متاثرہ ملک نے دوسرے ملک کے ساتھ نہ جوڑے ہوں ۔ بھارت میں جب بھی کسی دہشتگردی میں بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کا اشارہ دیا جاتا ہے تو اس سے مراد پاکستان ہوتا ہے اور جب بھی پاکستان میں کوئی بڑا دہشتگردی کا واقعہ ہوتا ہے تو اس کا آخری سرا بھارت سے ملانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اکثر اوقات یہ خدشات درست بھی ہوتے ہیں۔ بھارتی میڈیا اور حکومت کی طرف سے پٹھان کوٹ میں ہونے والی دہشتگردی کے واقعے کی جڑیں پاکستان میں تلاش کر لی گئیں۔اب یہ وقت ثابت کرے گا کہ بھارتی حکومت اور میڈیا اپنے داعوں میں کتنا سچا ہے لیکن اس بار معجزاتی طور پر دونوں ملکوں کی حکومتوں اور عسکری قیادتوں نے کمال بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت تحمل سے کام لیا ہے اور ایک دوسرے کی باتوں اور الزامات کو برداشت کرتے ہوئے مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔مولانا مسعود اظہر کے حوالے سے بھارتی حکومت نے حکومت پاکستان کو کچھ شواہد فراہم کئے ہیں اور انھیں پٹھان کوٹ واقعے میں ملوث قرار دیا ہے جس کے جواب میں حکومت پاکستان نے پہلی بار جرات مندانہ اقدام اٹھاتے ہوئے مولانا مسعود اظہر کو حفاظتی تحویل میں لیا ہے ۔ ظاہر ہے ہمارے ملک کی سیاسی قیادت میں اتنا اہم ترین فیصلہ از خود کرنے کی صلاحیت تو نہ ہونے کے برابر ہے لہذا یہاں یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس فیصلے میں ملک کی فوجی قیادت کی مرضی و منشا شامل حال ہے اور گمان غالب ہے کہ یہ فیصلہ حال ہی میں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں کیا گیا جس میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف سمیت فوج کی اعلی قیادت نے شرکت کی تھی۔ یہاں اہم سوال یہ ہے کہ کیا کل تک ملک کے اثاثے قرار دیئے جانے والے ’’جہادی ‘‘اب کسی اور فہرست میں شمار کیے جانے لگے ہیں؟ اور اگر یہ بات درست ہے تو پھر وہ دن بھی دور نہیں کہ مستقبل میں پاکستان اور بھارت شیر شکر ہو جائیں اور دونوں ممالک کے درمیان تمام دیرینہ او ر حل طلب مسائل حل ہونا شروع ہو جائیں۔کیونکہ بھارت کی قیادت کا موقف ہے کہ پاکستان اور بھارت کے بیچ میں سب سے زیادہ مشکلات ان ہی عناصر کی وجہ سے پید اہوئی ہیں۔ یہ عناصر اگرچہ غیر ریاستی عناصرہیں لیکن کسی نہ کسی سطح پر ریاست کے کچھ اداروں کی انھیں سرپرستی اور حمایت حاصل رہی ہے۔دوسری طرف بھارت نے بھی پاکستان کے ساتھ ہر سطح اور طریقے سے دشمنی نبھائی ہے اور پاکستان کے خلاف کوئی سازش کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔یہاں یہ بات بھی حیران کن ہے کہ ایک ماہ قبل تک پاکستان کیخلاف سخت ترین پروپیگنڈہ کرنے والے نریندر مودی کا رویہ اچانک کیسے تبدیل ہو گیا کہ پٹھان کوٹ جیسے واقعے کے بعد بھی پاک بھارت مذاکرات کی گنجائش موجود ہے اوربھارتی حکومت اور اسٹبلشمنٹ پاک بھارت مذاکرات کے حوالے سے کوئی منفی بات کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتی۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیرنی نے بھی اس بار بر وقت مداخلت کرتے ہوئے پٹھان کوٹ کے واقعے کے حوالے سے پہلی بار براہ راست از خود ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے معاملات کو بہت زیادہ بگڑنے سے بچایا ہے اور بھر پور کوشش کی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اس بار بات بہت زیادہ خراب نہ ہونے پائے ۔علاوہ ازیں اس بار چین نے بھی اپنا وزن مذاکرات جاری رکھنے کے حق میں ڈالا ہے اور اپنی سطح پر اس نے بھی کوشش کی ہے کہ معاملات انتہائی حد تک بگاڑنے کے بجائے دونوں ممالک کوئی درمیانی راستہ نکالیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کی قیادتوں نے نہایت برد باری کا ثبوت دیتے ہوئے بیانات کی شدت کو کنڑول میں رکھا ہے۔ اگرچہ بھارتی میڈیا اور حکومت نے ابتدا میں اپنی پرانی روش اختیار کی لیکن فوری طور پر بیانات اور رد عمل میں تبدیلی آتی دکھائی دینے لگی اور نریندی مودی کے ساتھ ساتھ بی جے پی بھی کوئی بہت زیادہ انتہا پر نہیں گئی اور اب اظہر مسعود کو حفاظتی تحویل میں لئے جانے کے بعد ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے بھارتی حکومت ، بی جے پی اور بھارت میں موجود پاکستان مخالف قوتوں کی دیرینہ آرزو پوری ہو گئی ہے اور انھوں مولانا مسعود اظہر کو گرفتار کرو کر کابل ہائی جیکنگ کیس اپنی حزیمت کا بدلہ لے لیا ہے۔لیکن دوسری طرف مولانا مسعود اظہر کو حفاظتی تحویل میں لینے کے بعد پاکستانی حکومت اور پاکستان کے سیکیورٹی ادارے کس حد تک جا کر پاکستان کے حوالے سے عالمی بیانیہ تبدیل کر وا سکتے ہیں ، اس سوال کا جواب آنا ابھی باقی ہے؟
Riaz Ajiz
About the Author: Riaz Ajiz Read More Articles by Riaz Ajiz: 27 Articles with 17717 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.