پاک چین اقتصادری راہدری منصوبہ ہر صورت مکمل کیا جائے ،قوم بیتاب ہے
(Sardar Asghar Ali Abbasi, )
اقتصادی راہداری منصوبہ دراصل وطن عزیز کی
ترقی اور خوشحالی کا وہ عظیم منصوبہ ہے جس کی مثال نہ ماضی میں کہیں نظر
آتی ہے اور نہ ہی مستقبل میں ایسے کسی منصوبے کی نوید سنی جا سکتی ہے ۔اقتصادی
راہداری منصوبہ کوئی مذاق نہیں بلکہ یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے جس کی تکمیل
کے بعد وطن عزیز کے رہنے والوں کو اندازہ ہوگا کہ یہ منصوبہ کس تیز رفتاری
سے انکی زندگیوں میں انقلاب بر پا کر سکتا ہے اس منصوبے کی تکمیل کیلئے
ابھی چند سالوں کا انتظار باقی ہے اس منصوبے کی خاطر حکومت نے ملک بھر میں
پولیس کو جدید خطوط پر استوار کر نے کی جدوجہد شروع کر دی ہے پولیس کو جدید
اسلحہ ،28بکتر بند گاڑیاں ملیں گی جبکہ اس منصوبے پر کام کرنیوالے ہمارے
دوست ملک چین کے انجنیئرز اور دیگر باشندوں کو جو اس عظیم راہداری کی تکمیل
کیلئے ہمارے اس سفر کا حصہ ہیں صوبہ پنجاب کی جانب سے راہداری منصوبہ پر
کام کرنیوالوں کیلئے 3ہزار708افسران اور اہلکاروں کی نئی بھرتی کی جا رہی
ہے اور ان افسران کوجدید ترین کورس کروائے جائیں گے تاکہ اس عظیم منصوبے کی
تکمیل میں سیکورٹی کے حوالے سے چینی انجنیرز اور دیگر باشندوں کو کوئی
مسئلہ درپیش نہ رہے پاک چین راہداری منصوبہ کی جلد از جلد تکمیل کیلئے
حکومت تیزی سے کام کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے اسوقت اس عظیم منصوبے پر کام
کرنیوالوں کی سیکورٹی پرپولیس کے متعدد افسران و اہلکاران ڈیوٹی دے رہے ہیں
ان افسران کو تین تین ماہ کے کورس بھی کروائے گئے ہیں تاکہ سیکورٹی کو مزید
مؤثر بنایا جا سکے ۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ قومی اور شفاف منصوبہ ہے اور پاکستان
کے تمام صوبوں کو اس کے ثمرات ملیں گے اور منصوبہ سے خطہ کے تین ارب لوگ
فائدہ اٹھائیں گے،حکومت کی جانب سے افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستیں کے
ساتھ بھی اس اہم منصوبے کے حوالے سے رابطے کئے جا رہے ہیں وزیراعظم پاکستان
کی جانب سے دورہ سری لنکا ،آذربائیجان اور دیگر وسطی ایشیاء کی ریاستوں کے
پاکستان میں تعینات قونصلرز اور سفیروں کو بھی اس اس منصوبے کے فوائد بارے
آگاہ کیا جارہا ہے تاکہ اس منصوبے کے زیادہ سے زیادہ ثمرات حاصل کئے جائیں
۔
گوادر بندرگاہ پر پہلے فری اقتصادی زون کی تعمیر کیلئے چین نے پاکستان
سے43سال کے لئے809ہیکڑ1999)ایکڑ )زمین لیز پر حاصل کر لی ہے ۔فری اکنامک
زون کے بنیادی ڈھانچے اور اقتصادی پروسسینگ زون کی تعمیر پر3ارب65کروڑ روپے
سے زائد(35ملین ڈالر) کی لاگت آئے گی ۔گوادر پورٹ اتھارٹی کیلئے تمام زمین
پاکستان بحریہ اور بلوچستان میں کنٹینر ڈپو سے حاصل کی گئی ۔گوادر پر اپنے
پہلی فری اکنامک زون کی تعمیر کی ضرورت کو مکمل کرنے کیلئے چین کو مزید
پانچ سو ایکڑز زمین لیز پر دی جائے گی ۔چین نے 40سال کی مدت کیلئے گوادر
پورٹ پر کام کرنے کے حقوق حکومت پاکستان سے حاصل کر لئے یہ بندرگاہ چین کو
خلیجی ممالک تک رسائی دے گی۔بیجنگ اور اسلام آباد کے درمیان46ارب ڈالر کے
اکنامک کوریڈور منصوبے میں سے82ارب روپے گوادر میں مختلف منصوبوں پر
استعمال کئے جائیں گے ۔جبکہ دنیا کے تیل کی تقریباً20فیصدگزرگاہ گوادر ہے ۔
گوادار منصوبے کے حوالے سے اسوقت نہ صرف پاکستان بین الاقوامی دنیا کی بھی
بھر پور نظریں ہیں کیونکہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد پاکستان میں معاشی
انقلاب آئے گا اور ہر پاکستانی کی زندگی معاشی اعتبار سے یقینا تبدیل ہوگی
پاکستان مخالف لابیاں اس عظیم منصوبے کی تکمیل میں روڑے اٹکانے کی بھر پور
کوششیں کریں گی تاہم حکومت کی جانب سے اس اہم منصوبے کے حوالے سے سیکورٹی
کے انتظامات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے حال ہی میں ہونیوالے اجلاس میں حکومت
نے اس منصوبے کی سیکورٹی کو فول پروف بنانے کیلئے کمانڈوز فورس کو تعینات
کرنیکا بھی فیصلہ کیا ہے جبکہ میرنیز بھی اس اہم منصوبے کی سیکورٹی کو
سنبھالیں گے اور پاکستان نیوی گوادر پورٹ کی سیکورٹی ذمہ داریوں کو نبھائے
گی ایک طرف حکومت کی جانب سے تیزی سے اقدامات کئے جا رہے ہیں تو دوسری جانب
وطن عزیز میں اپوزیشن کی جانب سے اس منصوبے پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے جس
نے نہ صرف عام پاکستانی بلکہ خود چین کو بھی پریشانی کا شکار بنا دیا ہے
مختلف صوبوں کے چیف ایگزیکٹو کی جانب سے یہ خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ
اس منصوبے میں وفاق انکے حقوق کا خیال نہیں رکھ رہا اور ان کے ساتھ کئے گئے
وعدے پورے نہیں کئے جا رہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جو روٹ اس راہداری
کے حوالے سے سب صوبوں نے ملکر فائنل کیا تھا اب اس روٹ کے بجائے حکومت نے
کوئی نئی حکمت عملی بنا لی ہے جبکہ دوسری جانب حکومت کی جانب سے بار ہا یہ
کہا جا رہا ہے کہ اس عظیم راہداری منصوبے پر کسی صوبے کا حق نہیں چھینا جا
رہا اگر ایسا ہی ہے تو پھر اپوزیشن جماعتیں اتنا واویلا کیوں کر رہی ہیں
اور اگر ایسا نہیں تو پھر حکومت کو سوچنا چاہئے ایک عظیم منصوبہ جو ابھی
ابتدائی مراحل میں ہے اس پر اتنی قدغنیں کیوں لگائی جا رہی ہیں عوام تو صرف
یہ چاہتے ہیں کہ وفاق اور صوبے آپس میں باہمی تعاون کے ساتھ اس منصوبے کو
تیز رفتاری سے تکمیلی مراحل کی جانب جانے دیں تاکہ انکی زندگی میں بھی کوئی
انقلاب آئے اور وہ بھی سکھ کا سانس لیں موجودہ حالات میں تمام جماعتوں کو
چاہئے کہ متحد ہو کر اس اہم منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ایک دوسرے
کی مدد کریں اور کوئی جماعت بھی اس پر سیاست نہ چمکائے کیونکہ ایسا کرنے سے
نقصان عوام کا ہوگا نہ کہ کسی جماعت کا حکومت کو بھی چاہئے کہ شفاف طریقے
سے اس منصوبے پر جو جماعتیں تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں انکے ساتھ مذاکرات
کا راستہ اپنائیں اور جلد سے جلد انکے تحفظات کو دور کریں اور سیاسی
جماعتوں کوچاہئے کہ وہ میڈیا پر آکر تنقید کرنے کی بجائے مذاکرات کی میز پر
بیٹھ کر اپنے تحفظات کا اظہار کریں اور حکومت ان تحفظات کو دور کرے تاکہ یہ
منصوبہ کسی سازش کا شکار ہو کر خدانخواستہ تعطل کا شکار نہ ہو جائے کیونکہ
حکومت کی جانب سے ایک وفاقی وزیر نے اس امر کا اظہار کیا ہے کہ چین کے ایک
تھنک ٹینک کے سربراہ نے سوال کیا ہے کہ ہم پاکستان میں اتنا اہم منصوبہ لے
کر جا رہے ہیں مگر وہاں پر تنازعات کھڑے کئے جا رہے ہیں اگر باہر سے
آنیوالے ہر سرمایہ کار کو تحفظات ہی رہے تو پھروطن عزیز کیسے ترقی کر سکتا
ہے کس طرح سے ہم زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھا سکتے ہیں پہلے ہی انرجی بحران
نے ہمارے ملک کو جن معاشی مسائل سے دو چار کیا ہے وہ ماضی اور حال میں اپنی
مثال آپ ہیں ملک کی گارمنٹس انڈسٹری تباہی کے دہانے پر جا کر کھڑی ہو گئی
ہے اور گیس بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے صنعتکاروں کی چیخیں نکال دی ہیں اب اگر
حالات بہتری کی جانب جانے کا کوئی راستہ نظر آرہا ہے تو اس راستے پر سب مل
کر چلیں اپنی انا کا مسئلہ یا پھر سیاسی مصلحت کو آڑے آنے دینا کوئی حب
الوطنی نہیں تاہم جو بھی کرنا ہے حکومت اور اپوزیشن کو کرنا ہے دونوں کو
چاہئے کہ انصاف پر مبنی مذاکرات اور اقدامات کریں تاکہ کسی صوبے کی حق تلفی
نہ ہو اور یوں یہ عظیم منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ کر اس ملک کے باسیوں کی
تقدیر بدل دے ۔وفاق اور صوبوں کی مقتدر شخصیات کو مل بیٹھنا چاہئے تاکہ
چینی دوست جو ہمارے ملک میں معاشی انقلاب لانے کے درپے ہیں کو مثبت پیغام
جائے اور وہ تحفظات کا اظہار کرنے کی بجائے اپنی تمام ترتوجہ اس منصوبے کو
پایہ تکمیل تک پہنچانے پر دیں۔ |
|