اب اگلاہدف کون؟

کوئی امریکا،روس اوران کے اتحادیوں سے پو چھے کہ سات سمندرپارسے ہزاروں میل کی مسافت طے کرکےکبھی مشرق وسطیٰ کبھی خلیج کی ریاستوں کبھی جنوبی ایشیااورسینٹرل ایشیامیں لاؤلشکراورسازشیں لیکرکیوں نازل ہوتے ہیں ۔اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قوتیں موت فروخت کرنے اورزندگی خریدنے آتی ہیں ۔ ان کی اس خواہش میں مہم جوئی توسیع پسندی مجرمانہ کاروبارطاقت کابیجااستعمال اورمذہبی جنونیت کاعنصربھی شامل ہے۔اگران قوتوں کوانسان اورانسانیت،امن وآشتی سے الفت ہوتی ، اگرانہیں غربت جہالت مفلسی بیماری سے نفرت ہوتی تویہ دنیاجنت کانظارہ پیش کررہی ہوتی ۔ ان مقاصد کوپانے کیلئےجنگ وجدال،آگ وخون کے سمندر سے دنیا کونہیں گزرناپڑتا ،نہ گولہ بارودکی ضرورت ہوتی بس صرف جیواورجینے دو،انسان اورانسانیت کے اعلیٰ اصولوں کی پاسداری طاقتوراور کمزور کابرابری کی بنیادپراحترام بلاامتیازرنگ ونسل ومذہب باہمی احترام کسی قوم کی آزادی اس کی سرحدوں کے تقدس کوتسلیم کرنابنیادی شرائط ہیں اور ایک اہم پہلویہ بھی ہے کہ کسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنابہت ضروری ہے مگرموت کے سوداگراورزندگی کے خریداریہ نام نہادامن و آشتی کے دعوے دارجنہوں نے اپنے ملکوں کے چاروں طرف طویل اور دیوقامت حفاظتی دیواریں اورفصیلیں بنا رکھی ہیں،ان میں بسنے والے انسان بھی نظر آتے ہیں اورانسانیت سے بھی واقف ہیں،آزادبھی ہیں اور گولہ بارودکے زہرسے محفوظ بھی۔ غریب بھوک وافلاس و بیماری کے مارے کمزور ناتواں انسان اورممالک بیچارے کیاان کی سرحدوں میں دراندازی کرسکیں گے۔ یہ ملکہ توان شکارکی تلاش میں محوپروازعقابوں کو حاصل ہے جوجہاں چاہیں حملہ آورہوجائیں اورانسان اورانسانیت کے جسم سے بوٹی بوٹی نوچ لیں ۔

خونی عقابوں کاٹولہ جوننگے بھوکے انسانوں کی لاش کوگولہ بارودمیں بھون کر نوچنے والے دہشتگردعقاب اپنے ہی ہاتھوں ستائے ہوئے انسانوں میں دہشتگرد تلاش کرکے شکارکرنے پرآمادہ اوربضدہیں ۔ ان دہشتگر دعقابوں کے اپنے بھی کوئی اصول نہیں ہیں اورشکارکی تلاش میں کبھی خودبھی دست وگریباں ہوتے رہے ہیں ۔۱۹۵۰ءمیں برطانیہ فرانس اورامریکا نے ایک سہ فریقی معاہدہ کیاتھا جس کے تحت مشرق وسطیٰ کی تمام سرحدوں کی سلامتی کی ضمانت اس شرط پردی گئی تھی کہ کوئی فریق جارحیت کاارتکاب نہیں کرے گامگرحرص وہوس کے مارے مغرب کوکہاں قرار۔چھ سال ہی اس معاہدے کوگزرے تھے کہ برطانیہ اورفرانس نے نہرسویزپرحملہ کردیا،یہ ایک الگ داستان ہے۔ سردست امریکااور اس کے موجودہ اتحادیوں کے تین بنیادی مفادات زیرِقلم ہیں۔پہلامفادیہ ہے کہ خلیج کے ممالک سے جہاں سے دنیا کی سا ٹھ فیصدتیل کی ضرورت پوری ہوتی ہے ان کے وسائل پرقبضہ کرکے اس علاقہ میں ان کی اجارہ داری قائم ہو۔ (اس دوڑ میں سوویت یونین بھی شامل رہا ہے) امریکی پالیسی کے تحت امریکااسرائیل کی سلامتی کی ضمانت فراہم کرنے کے علاوہ اس کی آزادی اوروجودکواس قدر مضبوط کرناچاہتاہے کہ اسرائیل کے خوف سے عرب ممالک پریشان اوردبے رہیں اوراس کی آڑمیں امریکی پالیسوں کوعربوں پرمسلط کیاجاتا رہےجبکہ دوسری حکمت عملی یہ ہے کہ بعض عرب ریاستیں جن میں سعودی عرب،مصر، اردن اور خلیج کی دیگربادشاہت اورحاکمیت پرمشتمل ریا ستوں کے اقدارکے تحفظ اوراسرائیلی خوف سے نجات دلانے کی یقین دہانی پرنام نہاد دوستی کے نام پر امریکا نے ان کی معیشت اقتصادیات اوردفاعی شعبوں پراپنی اجارہ داری قائم کرلی ہے،سلامتی کے خوف میں مبتلاسعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ریاستوں میں امریکی فوجیں موجودہیں ۔ایک طرف امریکی فوجوں اورساماں حرب کے اخراجات ان ممالک کوبرداشت کرنے پڑرہے ہیں تودوسری طرف امریکی فوجوں کی ان ریاستوں میں موجودگی اسرائیل کے لئے تحفظ اور سلامتی کاباعث ہیں۔

ایران میں انقلاب کے بعد امریکااپنے ایک معتمدسے محروم ہوگیا۔اس تبدیلی کے باعث امریکانے سریع الحرکت فوج تیارکی جس کامقصدخلیج اورساری دنیا میں اپنے مفادات کاتحفظ بذریعہ طاقت کرناتھا۔عراق،شام،لبنان امریکی تسلط سے آزاد مگرسوویت یونین کے زیراثرتھے۔ایران کوکھونے کے بعدامریکا نے عراق کو اپنے حصار میں لے لیاچونکہ ایران عراق میں سرحدی ودیگرایشوزپرشدید اور دیرینہ اختلافات اورتنازعات تھے،امریکااس کافائدہ اٹھا کر ایران کے انقلاب کو ناکام بنا نے کیلئےدونوں میں تصادم کراناچاہتا تھااوراسے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہوئی۔۸سالہ عراق ایران جنگ نے دونوں ملکوں کوشدیدجانی ومالی نقصانات سے دوچارکیاجبکہ اسلحہ سازفیکٹریاں رکھنے والے امریکاسمیت دیگر ممالک نے ان دونوں ممالک کو۸۳بلین ڈالرکا اسلحہ فروخت کیا ۔

ایران کوبھی سرحدی تنازعات اوردیگردعوؤں کی تکمیل کی صورت صدامی اقتدار کے خاتمے میں نظر آئی ۔ جنگ کی بساط بچھائی گئی ۔ خلیج کی ریاستوں کوعدم تعاون کاسگنل دیاگیا،خلیج سے باہراسلامی ملکوں کوجنگ میں شرکت کی دعوت دی گئی یاغیرجانب داررہنے کوکہاگیا۔مغربی اتحادیوں کے یہاں جنگ کا طبل بجایاگیا۔ریہرسل شروع کردی گئی۔خلیجی ریاستوں کواپنے تحفظ کے نام پر اسلحہ خریدنے کاحکم دیاگیا۔اس خلیجی جنگ کی وجہ سے امریکی دفاعی صنعتوں کوتقریباً۲۱۰بلین ڈالرصرف خلیجی ممالک کی طرف سے ملے تھے جس میں سعودی عرب نے تقریباً۶۰بلین ڈالرکااسلحہ امریکاسے خریدا۔

امریکی ایماءپراسرائیل عراق سے چھیڑچھاڑاورفلسطینیوں پرمظالم کی رفتار بڑھاچکاتھا۔ ماسوائے دوتین ممالک کے تمام خلیجی ریاستیں عراق کے خلاف امریکاکے پہلومیں کھڑی تھیں۔امریکی ایماءپرکردوں کی تحریک میں تیزی آ چکی تھی۔امریکی خفیہ ایجنسیاں اورادارے فرقہ وارانہ صوبائیت لسانیت اور علاقائیت کے سوئے ہوئے فتنے کوجگانے میں کامیاب ہوچکے تھے ۔عراقی تینوں افواج میں نفاق کی سازشیں کامیاب ہوچکی تھیں سیکولرازم اوراشتراکیت کا پرچارکرنے والے صدام حسین کاخیال تھا کہ وہ مختلف المذاہب اورفرقہ واریت اورصوبائیت کے فتنے کوختم کرکے ایک عراقی قوم پرست عوام تیارکرچکے ہیں ۔ اظہاررائے کی آزادی سے محروم عراقیوں کے اندرپکنے والالاواتب سامنے آیاجب امریکاجوعراق پرایٹمی وکیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کاالزام لگاکر(جو برآمدنہ کرسکا،جس پرٹونی بلیئرنے معافی مانگ کراپنی غلطی کااعتراف بھی کر لیاہے)اپنی پوری قوت اورطاقت کے ساتھ عراق پرحملہ آورہوا،اورعراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی پوراعراق آگ وخون میں نہلادیاگیا۔ہزاروں عراقی بلاامتیاز بوڑھے،جوان،بچے خواتین بے رحمی سے شہیدکردئیے گئے مقدس مقامات کو نشانہ بنایاگیا۔مظالم کے ایسے خوفناک پہاڑتوڑے گئے کہ ساری دنیانے ابوغریب جیل میں مسلمانوں کی غیرت کے جنازے نکلتے دیکھے۔

عراقی فرقہ واریت صوبائیت اورعلاقائیت کی بنیادپرباہم متصادم ہوئے۔عراقی عوام یکجہتی برقرارنہ رکھ سکے اورعراق کی افواج نے صدام حسین سے غداری کی۔تمام جہاز،میزائل اورسامان حرب دھراکادھرارہ گیا۔امریکاکو لتاڑنے پرصدام حسین کوپھانسی پرچڑھادیا گیا ۔تین دہائیوں کے بعدمصرمیں منتخب حکومت نے اپنی خودمختاری کاجونہی احساس دلایافوری طورپراس کادھڑن تختہ کرکے اپنانمائندہ سامنے لے آئے۔اب ایران کے جہاں سرحدی تنازعات ختم ہوچکے ہیں وہاں امریکااورمغرب کے ساتھ ایٹمی پروگرام پربھی اس کی مفاہمت ہوچکی ہے۔خلیجی ریاستوں کے بادشاہوں اورحکمرانوں کے اقتدار کواس وقت تک کوئی خطرہ نہیں جب تک وہ امریکااورمغرب کے تابعدارہیں البتہ یمن کے مسئلے پرایران اورعرب ممالک میں مستقل مخاصمت برقرار رکھی جائے گی اوراب اچانک داعش کاجن بھی بوتل سے باہرنکل آیاہے لیکن حیرت انگیزطورپر اس جن سے اس خطے میں امریکی اوراسرائیلی مفادات کوقطعاًکوئی خطرہ نہیں ہے۔اب دیکھنایہ ہے کہ امریکااوراس کے اتحادیوں کااگلاہدف کون ہے؟
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 362031 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.