چین پاکستان کے بعد آزاد ہوا تھا لیکن آج
اقتصادی میدان دنیا میں پہلے نمبر ہے ۔ دنیا میں ایسے کتنے ہی ممالک ہیں
جنہوں نے پاکستان کے بعد آزادی حاصل کی لیکن انہوں نے ایک قوم کی حیثیت سے
اس قدر ترقی کی کہ آج ان کا دنیا عالمی سطح پر احترام سے لیا جاتا ہے ۔
لیکن پاکستان اپنی ابتداء سے ہی مفادپرست ٗ اقتدار پرست اور ملک دشمن عناصر
کا آلہ کار بننے والوں کے ہی ہاتھوں میں کھیلتا چلا آرہا ہے ۔ کہا تو یہ
جاتاہے کہ جمہوریت میں پاکستان کی بقا ہے لیکن حقیقی انداز میں دیکھاجائے
تو جو کام ایوب خاں ٗ ضیاء الحق اور پرویز مشرف دور میں ہوئے ہیں ان کا عشر
عشیر بھی جمہوری حکومتوں میں نہیں ہوسکا ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ بطور
خاص پاکستان میں جمہوریت تمام برائیوں کی ماں بن چکی ہے۔جس ملک میں کالا
باغ ڈیم جیسا کثیر الامقاصد قومی منصوبہ سیاست کی بھینٹ چڑھ جائے میں لعنت
بھیجتا ہوں ایسے سیاست پر ۔ پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنا گناہ کبیرہ
بنادیاگیا ہے ۔آدھا سال خشک سالی اور آدھا سال سیلاب میں گھیرے رہتے ہیں ۔فصلیں
پانی کے بغیر کسانوں کی برباد ہوتی ہیں اور سیلابی پانی میں ڈوبتے عوام ہیں
ڈیموں کی مخالفت کرنے والے اپنے اپنے بنگلوں میں محفوظ رہتے ہیں۔ حالانکہ
پانی ہی انسانی بقا اور قومی ترقی کا ضامن ہے۔اب چین کی اقتصادی راہداری پر
عملی طور پر کام شروع ہوا ہی ہے ۔تو ہر سیاست دن چاہتا ہے کہ اس کے گھر کے
سامنے سے نہ صرف اقتصادی راہداری گزرے بلکہ ا س کے گھر میں اب سے ہی
روشنیوں کے چراغ جلا دیئے جائیں ۔ عمران تو اڑھائی سال سے اپنی احتجاجی
سرگرمیوں اور دھرنے کی بدولت ملک دشمنی کرتا چلا آرہا ہے اب اس کا مہرہ(
پرویز خٹک) اپنے وجود سے بڑھ کر اقتصادی راہداری کی مخالفت کرکے اپنی سیاست
چمکا رہاہے ۔ صوبائی تعصب کی آڑ لے کر فضل الرحمن اور اختر مینگل جیسے مفاد
پرست بھی ہمنوا بنا لیے گئے ہیں ۔ پاکستانی سیاست دانوں کی چرب زبانی اور
زہر الود باتیں چین کے مقتدر حلقوں تک بھی پہنچ چکی ہیں ۔ جو پاکستان کا
حقیقی دوست ہے اور اپنے مفادات کے ساتھ ساتھ اسے پاکستانی قوم کی ترقی و
خوشحال بھی عزیز ہے ۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر اسی طرح پاکستانی سیاست دانوں نے
اقتصادی راہداری کے راستے میں روڑے اٹکائے رکھے تو کہیں یہ منصوبہ بھی کالا
باغ ڈیم کی طرح ختم نہ ہوجائے ۔ قدرت بار بار ایسے اچھے مواقع نہیں دیتی ہے
۔ اس لمحے جبکہ بھارت کھل کر اورامریکہ چھپے لفظوں میں اقتصادی راہدای کی
مخالفت کررہا ہے تاکہ پاکستان ہمیشہ کے لیے اس کے ٹکڑوں پر ہی پلتا رہے ۔
مخالفانہ بیانات دینے والوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے ۔صنعتی زون
بنانے کا فیصلہ صوبائی حکومتوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے ۔ ہمیں خوشی ہے
کہ بلوچستان میں ہزاروں میل نئی سڑکیں بن چکی اور مزید بن رہی ہیں ٗ ہم خوش
ہیں کہ حویلیاں سے کاشغر تک موٹرویز اور دیگر منصوبہ جات پر کام چل رہا ہے
لیکن پرویز خٹک کے پیٹ میں پنجاب کے خلاف مروڑ کیوں اٹھ رہے ہیں ۔ اگر وزیر
اعلی شہباز شریف غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مختلف ترغیبات دے کر سرمایہ کاری
پر آمادہ کررہے ہیں تو پرویز خٹک بھی ایسے منصوبے اپنے صوبے میں شروع
کرسکتے ہیں ۔ سندھ کے علاقے تھر میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں کراچی کے لوگ
پینے کے پانی کو ترس رہے ہیں شہر ی زندگی برباد ہوچکی ہے ۔تواس میں پنجاب
کے رہنے والوں کا قصور کیا ہے ۔قوم پرست اور متعصب سندھی بلوچی اور پختون
پنجاب دشمنی کی آڑ میں ملک دشمنی پر اتر آتے ہیں۔اب سمجھ آئی کہ پاکستان
68سالوں کے بعد بھی وہیں کھڑا کیوں دکھائی دیتا جہاں سے چلا تھا ۔ ہم آج تک
ایک قوم نہیں بن سکے اور منتشر افراد کبھی ترقی نہیں کرسکتے ۔ہم پہلے بھی
ہجوم تھے اور آج بھی ہجوم ہی ہیں ہماری قوم اور سیاست دانوں میں قومی سوچ
کی یکسر کمی ہے۔ان حالات میں پاکستان کا قیام بھی ایک معجزہ ہی دکھائی دیتا
ہے۔ نواز شریف حکومت کی جانب سے حد سے زیادہ لچک معاملات اورحالات کو خراب
کررہی ہے ۔ دوسری اقوام میں تو اتفاق رائے ہوسکتاہے لیکن پاکستانی قوم میں
اتفاق رائے ہونامعجزے سے کم نہیں ہے اگر پاکستان کی آزادی اتفاق رائے سے
مشروط ہوتی تو شاید یہ ملک بھی آزاد نہ ہوتا۔اگر اتفاق رائے کے بغیر
پاکستان بن گیا ہے تو اقتصادی راہداری سمیت کالا باغ ڈیم جیسے تمام قومی
منصوبوں کو ہر حال میں پایہ تکمیل تک پہنچنا چاہیئے کیونکہ ایسے منصوبوں کی
تکمیل قومی ترقی و خوشحالی کی ضامن ہے۔اس حوالے سے میڈیا کاکردار بہت ذمہ
دارانہ ہونا چاہیئے اور سچ دکھانے کی آڑ میں ملک کی بنیادیں کھوکھلی نہیں
کرنی چاہیئں۔ |