یہ کہانی ہے اِنتخاب کی ،ایک اِنسان
کی لگن کی۔ یہ واقعہ ہے ایک ‘‘عام اِنسان’’ کے خاص ہونے کا۔ قسمت بھی کیا
چیز ہے، کیا کیا گْل کھلاتی ہے۔ صبح کا شام میں بدلنا، چیزوں کا پیدا ہونا،
پھر شکلیں بدلنا۔ اِن سب میں ایک کردارہے اور یہی کردار تو اصل شے ہے۔سب
کچھ فنا ہونا ہے بقا تو کردار کی ہے۔یاد بھی کردار رہتاہے۔کردار ہی اوج
ثریا پر پہنچاتا ہے اور یہی کردار داغدار ہو تو تاریخ اسے میر صادق اور میر
جعفر کا نام دے دیتی ہے۔اس کی کہانی اس کی زبانی سنی۔۔وہ کہہ رہا تھا کہ وہ
اکیلا چلا تھا ،بڑے بڑے پیٹ اٹھائے سرکاری سورما اسے ہر روز مایوسی کی
گردان سناتے ،یہ پاکستان ہے امریکہ نہیں کے فقرے بھی کسے جاتے مگر وہ تو
اپنی دھن میں سوار آگے ہی آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔داتا دربار سے کئی روز پیٹ
بھرنے سے لے کر بغیر تنخواہ کئی ماہ گزارنے والے ڈاکٹر رضوان نصیر کو آج
دنیا جانتی اور ہر پاکستانی مانتا ہے جب بھی ریسکیو اور ایمر جنسی کی بات
ہوتی ہے ڈاکٹر رضوان نصیر کا نام زبان زد عام ہو جاتا ہے۔ہر ایم پی اے
ریسکیو 1122کی اپنے حلقہ انتخاب میں موجودگی کے لئے بے تاب دکھائی دینے لگا
تو ڈاکٹر رضوان نصیر کی آنکھیں بارگاہ ربی میں چھلک پڑیں۔۔اندھیرے سے روشنی
کا سفر تکمیل کو پہنچا ۔۔احساس ذمہ داری نے منزل دی تو طمانیت اور سکون قلب
کو صلہ جان لیا۔وہ اب پاکستان ریڈ کریسنٹ کے ساتھ ہیں ۔۔ادارہ بدلہ لیکن
ارادہ وہی۔۔جذبہ بھی وہی۔۔لگن بھی وہی۔۔کہتے ہیں کہ محفوظ و صحت مند
پاکستان کیلئے ہر شہری میں احساس ذمہ داری کو بے دار کرنا ہو گا۔ اقوام
عالم کے مقابلے کے لئے ہمیں آگے بڑھنا ہو گا۔آج ہم قوم کی بجائے افراد بن
چکے ہیں۔ اپنی اپنی سوچ ہے‘ اپنا اپنا طریقہ‘ اپنااپنا ہے چلن‘ کرپشن کو
اولین ذمہ داری سمجھا گیا ہے۔ ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالنے اور تنقید برائے
تنقید زور پکڑ رہی ہے۔ سیاست سے لیکر سروسز تک میں من پسندی‘ اپنوں کو
نوازنے کی روش بھی جڑ پکڑ چکی ہے۔ہم 68 سال سے وہیں کھڑے جہاں تھے۔ جمہوریت
والے آمریت کو قصور وار ٹھہرا کر خود بری الذمہ ہو کر ’’سالوں کا گند‘‘ ایک
دم صاف نہ کرنے کا بیان داغ دیتے ہیں اور آمریت کو دیکھیں تو آئین سمیت بہت
کچھ روندھا گیا ملتا ہے۔ ’’جمہوریت و آمریت‘‘ اپنی جگہ مگر ہر فرد یہ تو
سوچے کہ وہ اپنے اس عظیم ملک کے لئے کیا کچھ کر رہا ہے اور کیا کچھ کر سکتا
ہے۔ اس کالم کی تمہید کا مقصد ،افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر۔۔۔ہر
فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ کے مصداق انفرادی کردار کو اجتماعیت میں بدل
کر معاشرے میں تبدیلی لانے کا عزم ہے۔ آج 80 فیصد بیماریاں آلودہ پانی کے
استعمال سے پیدا ہو رہی ہیں۔ پانی ابال کر پینے سے ہم ان بیماریوں سے بچ
سکتے ہیں۔ ٹریفک حادثات میں سب سے بڑا سبب غفلت‘ لاپرواہی‘ کم عمری میں
ڈرائیونگ ‘ بے احتیاطی ہے۔ بارشی پانی کے ضیاع سے لیکر آلودگی کی بھرمار تک
حکومت اور عام آدمی دونوں کا کچھ نہ کچھ قصور توہے۔ ڈیم بنانا حکومت کا کام‘
کالی موت پھیلاتی فیکٹریوں اور گاڑیوں کیخلاف کارروائی بھی حکومت کا کام ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ فیکٹری مالکان یا گاڑی مالکان بھی اپنی ذمہ داری کو سمجھتے
ہوئے فضاء کو آلودہ کرنے والی دھوئیں کی اس بے تحاشہ مقدار کو کچھ کم تو کر
سکتے ہیں۔موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کو بھانپ کر اقدامات کرنے ہوں گے۔ مثبت
سرگرمیوں کے فروغ اور اپنی اپنی ذمہ داری نبھا کر ہمیں محفوظ و صحت مند
پاکستان بنانے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سب کچھ حکومت پر چھوڑ دینا
دانشمندی نہیں ۔حکومت کی طرف سے فراہم کردہ سہولیات سے فائدہ اٹھانااگر حق
ہے تو ان سہولیات کی حفاظت نہ کرنا بھی کسی جرم سے کم نہیں۔ سالڈویسٹ کو
موزوں طریقہ سے ٹھکانے لگانا ہو گا۔ سیوریج سسٹم کی بندش کا باعث بننے والے
اقدامات سے گریز کرنا ہو گا۔ اپنے ماحول کو صاف ستھرا اور خوشگوار بنانے
کیلئے شجرکاری‘ شجر پروری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہو گا۔جنگلات کا رقبہ
شرمناک حد تک کم ہے اسے بڑھانے کے لئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے۔۔ایک
آنگن ایک پودا کی مہم سے ہزاروں رضاکاروں کے ہمراہ شجر کاری کی جائے گی۔وہ
کہتے ہیں کہ شعور و آگہی کی مہم چلا کر ہم بہت سے نقصانات‘ بیماریوں‘ خطرات
سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔وہ پاکستان بھر میں نیشنل کیڈٹ کور طرز کی ریڈ کریسنٹ
کور کے خواہاں ہیں ۔۔ہر گھر میں ایک فرسٹ ایڈر کی موجودگی ان کا خواب ہے جس
کی تعبیر اب دور نہیں۔۔کہتے ہیں کہ ریفارمرز کبھی ناکام نہیں ہوتا۔۔
ادراک والی قومیں ہی ترقی کرتی ہیں۔۔ہانگ کانگ ہو یا ملائشیا ۔۔چین ہو یا
کوریا ۔۔ہم سے بعد آزاد ہوئے اور آج تماتر مسائل سے آزاد ہیں اور ہم
جمہوریت اور آمریت کو کوس کوس کر تنزلی کا شکار ہیں۔ایک فرد کی زندگی میں
تبدیلی اس کی کامیابی مانی جاتی ہے اور یہاں تو پاکستان ریڈ کریسنٹ کے پلیٹ
فارم سے صحت مند ، محفوظ پاکستان کی مہم شروع کی جارہی ہے جس کی کامیابی کے
لئے صدق دل سے دعا مانگی گئی اور ایک عہد بھی کیا گیا کہ اپنے اپنے حصے کا
کردار بطریق احسن نبھایا جائے گا۔۔میرے یہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ بھی اس کردار
کا حصہ ہیں جس کے لئے میرے دل ، زبان سے آمین ثم آمین کی صدا نکلی تھی۔ |