کالم چور
(Dr B.A Khurram, Karachi)
جیسا کہ قارئین جانتے ہیں کہ
سوشل میڈیا عوامی رابطے کا نہایت آسان اور سستا ترین ذریعہ ہے یہ ایک ایسا
ذریعہ ہے جس سے آپ کہیں بھی بیٹھ کر دنیا بھر کے مختلف لوگوں کی مصروفیات
سے با آسانی باخبر رہ سکتے ہیں ان سے براہ راست بات کرسکتے ہیں انہیں چلتا
پھرتا دیکھ سکتے ہیں تصاویر کا باہمی تبادلہ بھی کرسکتے ہیں چند ساعتوں میں
اِدھر سے ادھراور ادھر سے اِدھر کی باتوں سے محظوظ ہو سکتے ہیں گزشتہ روز
کولون جرمن میں مقیم پاکستانی شہری کالمسٹ شاہد شکیل نے عوامی اور سماجی
رابطوں کی ویب فیس بک پہ ایک پوسٹ شیئر کی جسے دیکھ کر بہت دکھ اور افسوس
ہوا اس پوسٹ میں احتجاج تھا اور بتایا گیا تھا کہ کس طرح پاکستان کے کچھ
لوگ بڑی مہارت اور آسانی سے پوری کی پوری تحریرہی چرا لیتے ہیں انہوں نے
اپنی پوسٹ میں بتایاکہ2015ء میں دل کے موضوع پہ لکھی ہوئی ان کی ایک تحریر
پاکستان کے نامور اخبارات کی زینت بنی اسی تحریر کوگزشتہ روز ایک روزنامہ
نے ایک نئے کالم نگار کے نام سے کلر صفحہ پہ شائع کیا ہوا تھاکولون جرمن
میں مقیم پاکستانی شہری نے بطور احتجاج کالم نگاری سے دست بردار ہونے کا
بھی عندیہ دیا واضح رہے کہ ان کے کالم روٹین سے ذرا ہٹ کے ہوتے ہیں ان کے
لکھے ہوئے کالم نہایت جاندار ،موئثراور معلوماتی ہوتے ہیں ان کی تحاریر سے
پاکستان کے لوگ مستفید ہوتے ہیں ہمارا انہیں مشورہ ہے کہ ’’کالم چوروں ‘‘
کے آگے گھٹنے ٹیکنے کی بجائے اپنا لکھنے کا سفر جاری رکھیں تاکہ لوگ آئندہ
بھی معلوماتی تحاریر سے فائدہ اٹھاتے رہیں ہم بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ ان
کا کالم راقم الحروف کی ویب یو این این پاکستان۔کام پہ پبلش ہو چکا ہے
اوریونی ویژن نیوز پاکستان کی توسط سے ان کے لاتعداد کالم وطن عزیز پاکستان
کے نامور اخبارات میں مسلسل پبلش ہو رہے ہیں ان کا کالم چوری ہوا اس کا
افسوس ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے یہ صحافت اور خود سے دھوکہ ہے ہم دوسروں کو
نہیں بلکہ خود کو دھوکہ دے رہے ہیں ایسی سستی شہرت درحقیقت انتہائی بے حسی
اور مردہ ضمیر کی علامت ہے "کالم چوروں" کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ان
کا کالم چوری ہوا جس کا اِنہیں دکھ ہوا ،ہونا بھی چاہئے یہاں اِن کی
معلومات کے لئے ’’چور‘‘ ہی کے حوالہ سے مختلف چوروں کو ذکر کرنا ضروری
سمجھتے ہیں جن سے پاکستانی عوام کو آئے روز واسطہ پڑتا ہے -
پیارے دیس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بے شمار قسم کے چور پائے جاتے ہیں
جیسے بجلی چور،ٹیکس چور،کام چور،دل کاچور(چوروں کی یہ رومانوی قسم عام طور
پہ پاکستانی اور انڈین فلموں میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے)پانی چور،الیکشن
کے نتائج چرانے والے چورپچھلے چند ماہ سے نئے چور بھی مارکیٹ میں دستیاب
ہیں جو سادہ لوح عوام کو موبائل پہ میسج کر کے لوٹتے ہیں گزشتہ دنوں راقم
کو بھی ایک ایسا ہی میسج موصول ہوا جس میں بڑی مہارت سے بیوقوف بنا کر رقم
لوٹنے کا منصوبہ تھا میسج کی عبارت کچھ یوں تھی ’’ بے نظیر انکم سپورٹ
پروگرام کی جانب سے آپ کانام 25000ہزار روپے کے لئے منتخب کر لیا گیا ہے
لہذا آپ درج ذیل نمبر پہ رابطہ کر کے اپنا انعام کنفرم کرالیں ‘‘انعام
نکلنے پہ ہمارا معاملہ خوشی سے پھولنے والا نہیں تھا بلکہ خوش اسلوبی اور
فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس سیل نمبر سے انعام کی نوید سنائی گئی تھی
اسی نمبر پہ کچھ یوں رپلائی دیا’’انعامی رقم ہماری جانب سے اپنی بہن کے
جہیز کے لئے رکھ لیں اور ایسی محبت سے ہم باز آئے،جو دل کو تڑپائے ،ستائے
‘‘اصل میں اس انوکھی قسم کے چوروں کا سادہ لوح عوام کو لوٹنے کا طریقہ کچھ
ہوں ہوتا ہے پہلے میسج کے ذریعے انعامی رقم کی خوش خبری کیساتھ ہی ایک نئے
نمبر پہ رابطہ کا کہا جاتا ہے انعام کی خوشی میں انعام ہولڈر بتائے ہوئے
نمبر پہ رابطہ کرتا ہے تو اسے ایک اور نمبر پہ ایزی لوڈ کروانے کا کہاجاتا
ہے مرتا کیا نہ کرتا ،خوش نصیب اپنے بہن بھائیوں ، بیوی بچوں اور دوست
احباب سے چوری چوری ،آؤ دیکھتا ہے نہ تاؤایزی لوڈ کرواتا چلا جاتا ہے جب
جیب کا بوجھ کچھ ہلکا ہوتا ہے تب اسے احساس ہوتا ہے کہ ’’چور‘‘ اس کے ساتھ
ہاتھ کر گیا ہے اسی سے ملتی جلتی ایک اورواردات موبائل کا سہارا لے کر عوام
کی جیب کا صفایا کیا جاتا ہے ایک ہمدردانہ میسج سنڈ کیا جاتا ہے جس کی
عبارت تحریر کچھ یوں ہے ’’ میں اس وقت ہسپتال میں ہوں میرا یقین کریں میں
سخت مصیبت میں ہوں اﷲ اور اﷲ کے رسول کے واسطے صرف پچاس روپے کا بیلنس سنڈ
کر کے مدد کی جائے پہلی ہی فرصت میں آپ کی رقم واپس لوٹا دی جائے گی‘‘آپ
ایسے وارداتیوں کو ’’ہمدرد چور ‘‘ کا نام دے سکتے ہیں آپ یہ حق محفوظ رکھتے
ہیں رحم دل اور ہمدردانہ جذبہ رکھنے اور خداترس لوگ ایسے ’’ ہمدرد چوروں ‘‘
کے جال میں باآسانی پھنستے چلے جاتے ہیں جب موبائل اور میسج کا ذکر ہوتو اس
موقع پہ ’’موبائل چور‘‘ کا ذکر نہ کرنا بھی مناسب نہ ہوگا یہ وہ گروپ ہے جن
کا مقصد موبائل چھین کر گزربسر کرنا نہیں ہوتا بلکہ ان کا اصل مقصد شریف
اور معزز شہریوں کو پریشان کرنا ہوتا ہے یہ راہ چلتے لوگوں سے بڑی آسانی سے
موبائل چھین لیتے ہیں جب جیب کا ذکر ہوتو یہاں ’’جیب چور ‘‘ کا ذکر نہ کیا
جائے تو یقیناًیہ جیب چوروں کی حق تلفی کہلائے گی جیب چور جسے عرف عام میں
’’جیب کترا‘‘ بھی کہا جاتا ہے یہ چور بھی کمال کے لوگ ہوتے ہیں یہ اپنے فن
میں اتنے ماہر ہوتے ہیں کہ جب یہ اپنے ’’ہاتھ کی صفائی‘‘ دکھاتے ہیں تو
معزز شہری کو اپنی ’’جیب کی صفائی‘‘ کا تب پتا چلتا ہے جب وہ اپنا ہاتھ جیب
میں ڈالتا ہے انتخابی جلسے ،پبلک مقامات،زیادہ رش والی جگہیں،رکشہ،ویگن،بس
اسٹینڈز،بس اور ایئر پورٹ ان کے پسندیدہ مقامات ہوتے ہیں ایک اچھے اور ماہر
جیب چور کے لئے وقت کا درست تعین ہی اصل بات ہے عیدالفطر اورعیدالضحی جیسے
مواقع ان کے لئے کسی نعمت خداوندی سے کم نہیں ہوتے کبھی کبھار جیب چوروں کو
بونس کے طور پہ خصوصی مواقع بھی مل جاتے ہیں -
صحافت کو ملک عزیز میں چوتھا ستون سمجھاجاتا ہے اور صحافت سے وابستہ افراد
کا کام معاشرے میں مسائل کو اجاگر کرناہوتا ہے نہ کہ کسی دوسرے صحافی کی
محنت کواپنے نام منسوب کر کے مسائل پیدا کرنا ہے صحافت کے اس ’قلم قبیلہ‘‘
میں کچھ ایسے لوگ گھس آئے ہیں جن کا صحافت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے
لیکن یہ’’کالم چور‘‘ دوسروں کی محنت کو اپنے نام کر کے خود کو کالم نگار
سمجھ بیٹھے ہیں درحقیقت وہ خود فریبی میں مبتلا ہیں دوسروں کو نہیں اصل میں
خود کو دھوکہ دے رہے ہیں یہاں پہ ’’ادب کی دنیا‘‘ کے نامور ستون اشفاق احمد
کی کہی ہوئی بات یاد آ رہی ہے ان کا قول ہے کہ ’’ دھوکہ ایک ایسی چیز کانام
ہے جو اپنے اصل مقام کی طرف لوٹ کے آتا ہے ‘‘سلیس اردو میں یوں بھی کہا
جاسکتا ہے جو شخص دھوکہ دیتا ہے دھوکہ ایک وقت اسی شخص کی جانب لوٹا آتاہے
اس کالم کی وساطت سے صحافیوں اورکالم نگاروں کی تنظیموں سے موئد بانہ گزارش
کی جاتی ہے کہ صحافت کے ماتھے پہ کلنک کے ٹیکوں کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت
ہے’’کالم چور‘‘کو اپنے ’’قلم قبیلہ‘‘ سے باہر نکالنا ہوگا تاکہ جرمن میں
مقیم پاکستانی شہری کی طرح کسی اور کی دل آزاری نہ ہو۔ |
|