بادشاہ سیٹھ اور ان کے جدی پشتی کنقریب' طے
شدہ بڑی مخلوق ہوتی ہے۔ اسی طرح ان کے بچے خلائی مخلوق ہوتے ہیں۔ ضرورت'
حالات یا حادثاتی کنکبوتی بھی تاریخ و ادب میں بڑے ٹھہرتے ہیں۔ گویا ان کا
بڑا ہونا پہلے سے طے شدہ ہے۔ کسی بھی شدہ پر کلام کی گنجائش نہیں ہوتی'
کیوں کہ ان کی حیثیت پہلے سے سمجھی سمجھائی ہوتی ہے۔ چوری خور مورکھ بھی ان
کے نام وہ کچھ لکھ جاتا ہے' جس کا انہوں نے خواب تک نہیں دیکھا ہوتا یا اس
نوع کا خواب سوچنے کی بھی گستاخی نہیں کی ہوتی۔ اگر اچھائی کی سوچ' ان کے
قریب سے بھی گزر جائے' تو جدی پشتی بڑوں کی صف سے ہی نکال باہر کیے جائیں۔
یا یوں کہہ لیں' اچھائی ان کے لیے ریورس کے دروازے کھول سکتی ہے۔
نان جدی پشتی بڑے' ضروری نہیں' بڑے شہروں محلوں یا بنگلوں میں جنم لیں۔ وہ
اپنی کوشش' زہانت' سچی لگن اور جہد مسلسل کے بل پر' بڑے قرار پاتے ہیں۔
انہیں زندگی کے ہر موڑ پر' تندی باد مخالف سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔ ان کی
ٹانگیں کھنچنے والے' اطراف میں موجود رہتے ہیں۔ اس کھنچو کھنچی میں' ان کا
قد بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ الله ان کی محنت اور خلوص نیتی کو' برکت عطا
فرماتا ہے۔ وہ کسی سرکاری' سیٹھی یا شاہی گماشتے کے' ناخواندہ اعزاز و
اکرام کے محتاج نہیں رہتے۔ اصل حقیقت یہ بھی ہے' کہ زمین کے کسی وڈیرے کی
عطائی برکی' ان کی فکری اپروچ کے لیے' سم قاتل سے کم نہیں ہوتی۔ سرکاری
برکی نے' فردوسی کو عوامی نمائندہ نہ رہنے دیا۔ اس کے کہے کو' اس عہد کی
شاہی جاہ و حشم کا گواہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسے عوام کے دکھ سکھ کا
شہادتی قرار دینا' اس کی عظمت پر کالک ملنے کے مترادف ہو گا۔
رفیق احمد نقش کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے' جو جھونپڑوں سے اٹھ کر بھوک و
پیاس کے اژدھوں سے' نبردآزما ہوتے ہوئے' محنت اور مشقت کی پرخار وادیوں سے
گزرتے' شناخت کے جلوہ کدوں میں اپنی اقامت کا سامان کرتے ہیں۔ محل منارے'
آج کی شان ہوتے ہیں اور کل کے کھنڈرات۔ کتے بلے ناصرف وہاں بسیرا کرتے ہیں'
بل کہ وہ ان کی غلاظت گاہ بھی ٹھہرتے ہیں۔ آتے وقتوں میں ان کے لیے
مرکب۔۔۔۔۔ سنا ہے۔۔۔۔۔۔ استعمال میں آتا ہے۔ ان کی شخصی پہچان ختم ہو جاتی
ہے۔ رفیق احمد نقش نے' جس بستی میں بسیرا کیا وہاں کی شناخت' گارے چونے سے
بنی عمارتیں نہیں ہیں بل کہ اس عہد' اس عہد کے لوگوں اور ان کے معاملات سے
متعلق شہادتیں ہوتی ہیں۔ لفظوں سے تعمیر ہونے والے یہ پیکر' حرفکر کی شناخت
ہوتے ہیں۔ ان کے سامنے تاج محل اور نور محل سی خون خور عمارتیں' شرمندگی کی
علامت بنی ہوتی ہیں۔
:اس ذیل میں رفیق احمد نقش کا یہ شعر ملاحظہ ہو
بہار میں جو گرائے درخت اب کے
کھدے ہوئے تھے کئی نام ساتھ ساتھ ان پر
درخت چھاؤں آکسیجن اور ہریالی فراہم کرتے ہیں۔ یہ حادثاتی طور گرے نہیں' بل
کہ گرائے گئے ہیں۔ لفظ درخت کا علامتی استعمال' بڑی گری تفہیم کا تقاضا
کرتی ہے۔
ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش' کا اردو کے بےدار مغز اہل قلم میں شمار ہوتا ہے۔
سب سے بڑی بات یہ کہ وہ شاہ یا شاہ کے کنکبوتیوں سے' دور کے شخص ہیں۔ وہ
کام اور کام پر یقین رکھنے والوں میں سے ہیں۔ میری اس بات ثبوت کتاب
۔۔۔۔۔۔ رفیق احمد نقش: افسانوی کردار' مثالی کردار۔۔۔۔۔۔
ہے اس کتاب کو دیکھتے اور پڑھتے ہوئے' اندازہ ہوتا ہے' کہ بندے نے کام کیا
ہے اور جان ماری ہے۔ انہوں نے' کتاب کو بڑے سلیقے اور ہنرمندی سے مختلف
حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
کتاب کا آغاز نعت و سلام سے کیا گیا ہے۔ یہ دونوں رفیق احمد نقش کے قلم کا
نتیجہ ہیں۔ عقیدت احترم اور آقا کریم سے محبت' اپنی جگہ لسانیاتی اعتبار سے
بھی' یہ دونوں قلم پارے کچھ کم نہیں ہیں۔ نمونہ کا فقط ایک شعر ملاحظہ ہو۔
اس ایک شعرسے' اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ زبان پر کس سطع کی دسترس رکھتے تھے۔
اسی کی ذات ہے ہر طرح سے تقلید کے قابل
کہ وہ محفل نشیں بھی ہے وہی خلوت گزیں بھی ہے
تکرار حرفی و تکرار لفظی کے ساتھ دو مرکبات' مصرع ثانی میں دو ہم صوت لفظوں
کا استعمال' جب کہ صنعت تضاد کا کمال خوبی سے استعمال کیا گیا۔ صرف اس ایک
شعر سے' اس امر کا باخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے' کہ مرحوم اردو زبان اور
اس کی جڑوں سے کتنا اور کس قدر قریب تھے۔
پہلا حصہ رفیق احمد نقش کی حیات اور یادوں سے متعلق ہے۔ اس میں ڈاکٹر
ذوالفقار علی دانش سمیت' اکتیس جید اہل قلم کی تحریریں شامل ہیں۔ انہیں پڑھ
کر' رفیق احمد نقش کی حیات اور عادات و اطوار سے متعلق' بہت سی معلومات'
دستیات ہو سکتی ہیں۔ ان تحریروں کی حصولی' جمع بندی اور ترتیب کے لیے انہوں
نے' بلاشبہ بڑی محنت اور خلوص نیتی سے کام لیا ہے۔ اس حوالہ سے' ان کی
تحسین نہ کرنا زیادتی کے مترادف ہو گا۔ چند اک اقتباس باطور نمونہ ملاحظہ
ہوں۔ ان مختصر ٹکڑوں کے مطالعہ سے' رفیق نقش کی شخصیت کے بہت سے پہلو'
بلاتکلف اور لگی لپٹی سے بالا سامنے آ جائیں گے۔
رفیق احمد نقش نے
پندرہ مارچ 1959 کو میرپور خاص میں جنم لیا۔ ص: 13
اردو زبان و ادب اور ہماری اعلا اقدار کا یہ روشن ستارہ اپنی روشنی سے
لوگوں کےقلوب واذہان منور کرکے 15 مئی 2013 کو دائمی ابر آلودگی میں چھپ
گیا۔ ص: 16
اردو ادب کے حوالے سے رفیق نقش کا بیش تر کام شاعری' ترجمے' تنقیدی و
تحقیقی مضامین' فنی تدوین اور ادارت سے متعلق ہے۔
سوانح نقش پر ایک نظر از ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش ص 16
وہ بڑے صاف گو بلکہ منہ پھٹ آدمی تھے۔ لگی لپٹی ہرگز نہیں رکھتے تھے۔ زمانہ
سازی انہیں ہرگز نہیں آتی تھی۔
رفتید ولے نہ از دل ما از ڈاکٹر یونس حسنی ص: 17
سوال: رفیق نقش کی موت کے بعد آپ کیا محسوس کرتے ہیں۔
جواب: اردو کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ لوگوں کو اس کا احساس نہیں ہے۔ یہ میں
جانتا ہوں۔ وہ لسانیات کے آدمی تھے۔ مجھے جب کسی لفظ کے بارے میں معلوم
کرنا ہوتا تو میں فون کرکے پوچھتا تھا کہ استاد یہ لفظ کس طرح ہے۔ وہ بتا
دیا کرتے تھے۔
شکیل عادل زادہ سے گفتگو' ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش ص: 23
رات گئے اچانک کوئی خیال آتا یا کسی کتاب کا سراغ ملتا تو ان حضرات سے
بلاتکلف تبادلہءخیال کرتا اور کبھی ان کے لہجے میں ناگواری کا تاثر محسوس
نہیں ہوا۔
دو درویش از سید جامعی ص: 29
وہ اکثر اتوار کو ریگل اور فریئر بال پرانی کتابیں خریدنے کے لیے جاتے تھے۔
کتابوں سے انھیں جنون کی حد تک شوق تھا۔ ان کی ذاتی لائبریری میں دس ہزار
سے زیادہ کتابیں اور رسالے ہیں۔
رفیق احمد نقش ازایک منفرد شخص ص: 35
اپنے رفیق نے تمام عمر' اپنی انوکھی' منفرد اور یکتا وسیع شخصیت کو جس لفظ
میں قید کرنے پر صرف کر دی' وہ لفظ تھا اصول۔
رفتید ولے نہ از دل ما از یعقوب خاور ص: 38
رفیق احمد نقش کتابوں کا تحفہ دینے کے معاملہ میں بڑے فراخ دل تھے۔ وہ اپنے
دوستوں کو ادب میں ہر وقت فعال دیکھنا پسند کرتے تھے۔
کاغذی ہے پیرہن از بشیر عنوان ص: 55
رفیق فل کمٹ منٹ کے آدمی تھے۔ ایک اچھے طالب علم اور ایک اچھے استاد' وہ
ناصرف اپنی تدریسی ذمہ داریاں بڑی تن دہی سے نبھاتے بلکہ استادوں کی فلاح
کے لیے کام کرنے والی تنظیموں سے بھرپور تعاون کرتے۔
رفیقوں کے رفیق' رفیق احمد نقش از کرن سنکھ ص: 61
میں نے اپنی ساری زندگی میں صاف گوئی میں رفیق کا کوئی ہم سر نہیں دیکھا۔
برجستگی اس کے وسیع مطالعے کی مرہون منت تھی' جب کہ حق گوئی اس کے سچ اور
صرف سچ پر مکمل ایمان کا ثبوت تھی۔
رفیق احمد نقش کی صاف گوئی اور برجستگی از ڈاکٹر نصیر احمد ناصر ص: 63
رفیق کی زندگی میں جتنی بھی عورتیں آئیں وہ یا تو خوش فہم تھیں یا غلط فہمی
کا شکار ہوئیں۔ رفیق نے اگر کسی سے اچھا برتاؤ کیا تو غلط معنی اخذ کر لینا
یقینا بےوقوفی تھی اور ہے۔ جس طرح میری کوئی بھی بات رفیق سے پوشیدہ نہ
تھی' اسی طرح انہوں نے ہر چھوٹی بڑی بات سےباخبر رکھا۔ یہ رفیق کی عظمت تھی
کہ انھوں نے کبھی میری بڑی سے بڑی بھول پر بھی مجھے طعنہ نہ دیا' نہ خود سے
دور رکھا۔ آفرین ہے اس شخص پر' بہت بڑے حوصلے والا تھا۔
ہر چند کہیں کہ ہے۔۔۔۔۔۔۔ از زکیہ سلطانہ ص: 73
مسلسل مطالعہ' علم کی پیاس' دوسروں کو علم بانٹنا. اصول پسندی اور اجتماعی
سماجی خدمت جیسی خوبیوں نے رفیق احمد نقش کو علم و ادب کا حقیقی استاد بنا
دیا تھا۔
میرا دوست رفیق احمد نقش از احمد سعید قائم خانی ص: 77
وہ بےلوث' پرخلوص اور ہم درد انسان تھے۔ وہ حقیقی طور پر مولوی عبدالحق کے
جانشین نہیں تو اس کارواں کے ایک فرد ضرور تھے۔
کچھ یادیں از ڈاکٹر ممتاز عمر ص: 81
بلیک بورڈ پر روزانہ بہت خوب صورت' اشعار لکھا کرتا تھا۔ اس کی لکھائی بھی
بہت خوب صورت تھی۔ وہ اکثر میرپور خاص سے حیدرآباد آتا تھا اور سارے رستے
کچھ ناکچھ پڑھتا ہوا ہی آتا تھا۔ کتاب سے اس کی محبت کا اندازہ مجھے اس وقت
ہو گیا تھا۔ وہ ہمارا جونیر تھا۔
ماضی کے جھروکے از عفت بانو ص: 82
رفیق احمد نقش سے بہت سی باتوں پر اختلاف ہونا ممکن ہے۔ ان سے کچھ شکایتوں
کا ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ ان سے ناراض ہونے کی کئی وجوہ میں یقینا معقولیت
ہے' لیکن ان سب کے باوجود ہم اس لیے ان کی قدر کرتے ہیں' ان کا ذکر کرتے
ہیں' ان کی مثال دیتے ہیں کہ وہ کئی روائتوں کے امین تھے۔ انھوں نے ان کی
خدمت کی' ان کی حفاظت کی ہے۔ ان کے وقار کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ ان میں سے
ایک روایت پابندی وقت ہے۔
پاس دار از حسن غزالی ص: 17
نقش ایک کھلی کتاب تھے۔ جسے ہر شخص پڑھ سکتا تھا۔ ایک چشمہءرواں تھے' جس سے
ہر ایک بقدر ظرف سیراب ہو سکتا تھا۔ وہ محبتوں کا سفیر تھا اور شفقت' دریا
دلی' سچائی خلوص اور ہم دردی اس کا معتبر حوالہ تھیں۔
دل پہ نقش تری محبت کا نقش ہے از مجید ارشد ص: 116
میں نے رفیق نقش کو بس اس قدر سمجھا' آدمی کم مشین تھے۔
دید و بازدید از سلیم اقبال ص: 91
رفیق نقش ایک پرخلوص اور محبت بھرا دل رکھنے والے انسان تھے' پھر ان کی
علمی قابلیت نے ان کو مزید معتبر بنا دیا۔
آہ! رفیق احمد نقش از افروزہ خضر ص: 92
رفیق بھائی ایک ایسے شخص کا نام ہے جو مسلسل کسی نقطے' کسی علمی و ادبی
اصطلاح' کوئی سماجی پہلو' کسی شعر کی تفہیم اور اس قسم کے معاملات میں غور
و فکر کرتے دکھائی دیں گے۔ وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ سیکھنے سکھانے کی جستجو
میں رہتے تھے۔
دنیا ہے اک سرائے کہاں مستقل قیام از نوید سروش ص: 95
رفیق صاحب طنزومزاح کا ایک خاص ذوق رکھتے تھے۔ جب کبھی موڈ میں ہوتے تو خوب
لطیفے سناتے۔ انھیںبےشمار لطائف از بر تھے۔ آپ جب گفتگو کرتے تو محفل کشت
زعفران بن جاتی۔ رنجیدہ ہونا' ان کے ہاں ممنوع تھا' وہ کسی کو دکھی
نہیںدیکھ سکتے تھے۔ ہر کسی کے مسلے کو اپنا مسگہ سمجھتے اور ہر ممکن مدد
کرتے۔
سب کا رفیق از صابر عدنانی ص: 125
وہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں حتی المقدور کوشش کرنی چاہیے کہ اردو بولیں تو
تمام گفتگو اردو ہی میں ہو
۔ انگریزی کے غیر ضروری الفاظ کے استعمال سے احتزاز کریں۔ اسی طرح اگر
انگریزی میں بات کی جا رہی ہو تو پھر تمام گفتگو انگریزی ہی میں ہو۔ آدھا
تیتر آدھا بٹیر والی بات نہ ہو۔
رفیق اردو۔۔۔۔ رفیق نقش از شکیل احمد بھوج ص: 131' 132
انھوں نے تادم مرگ طبقاتی فرق کو نہ صرف رد کیا بلکہ اس کا عملی ثبوت بھی
فراہم کیا۔
رفیق احمد نقش; چند تآثرات از عابد علی ص: 137
رفیق احمد نقش کی زندگی کے کئی پہلو تھے۔ مراسم کا خیال رکھنے والے' روایت
پرست اور مذہب کی اعلا روایات کا پاس رکھنے والے۔
کچھ یادیں نقش ہیں از عزیز احمد ص: 140
وہ جس انداز سے علم کو فروغ دے رہے تھے' کسی کو کتب فراہم کر رہے ہیں' کسی
کو کتابوں کی فوٹو کاپی کرا کے علمی معاونت کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا تھا کہ
علم و ادب کے ڈسٹری بیوٹر ہیں۔
عظیم محسن از رئیسہ شریف ص: 142
ان کی ایک ملاقات واقعتا ڈھیروں کتابیں پڑھنے کے مترادف تھی۔
ایک نقش خاص از عازم رحمان ص: 144
بھائی جان کم عمری میں مذہبی بھی رہے۔ وہ پانچ وقت کی نہ صرف نماز پڑھتے
تھے بلکہ مسجد میں ازان بھی دینے جاتے اورتبلیغی جماعت کے مرکز بھی جاتے۔
بچپن کی کچھ یادیں از رشیدہ ص: 146
کتاب کے دوسرے حصہ میں
منظوم خراج عقیدت کے نام سے' آٹھ شعری منظومات ہیں۔ ہر کسی نے انہیں ان کی
شخصیت اور ان کی علمی و ادبی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ یہ منظومات'
مقفی آزاد اور نثری ہیں۔ یہ منظومات رسمی نہیں ہیں۔ ان میں شاعر کی محبت'
عقیدت' شخصی تعلق اور مرحوم کی شخصیت سے متعلق' کوئی ناکوئی پہلو ضرور
موجود ہے۔ ان منظومات کو لکھوانے اور ان کی جمع بندی میں' ڈاکٹر ذوالفقار
علی دانش نے بڑے تردد سے کام لیا ہوگا۔ دو تین نمونے ملاحظہ فرمائیں۔
وہ گیا ایسا کہ سارے گھر کو سونا کر گیا
پیاسی آنکھوں کو وہ دے کے ہائے چشم تر گیا
قطعہ تاریخ شاعر مختار اجمیری ص: 147
بےساختگی' ورفتگی اور مرحوم سے قلبی تعلق' اس شعر پارے کا خصوصی وصف ہے۔
گنتی میں یہ شعر فقط نو ہیں لیکن کہے میں' سیکڑوں صفحات پر محیط ہیں۔ معنوی
حسن' اپنی جگہ لسانیاتی حظ بھی کمال کا ہے۔
ماہر اجمیری کا یہ شعر دیکھیں' کس کمال اور ہنرمندی سے مرحوم کی شخصیت کے'
اہم ترین پہلو کو واضح کر رہا ہے۔
میں کیا بتاؤں تمہیں کس قدر خلیق تھا وہ
رفیق نام تھا ہر شخص کا رفیق تھا وہ
خوشبو کی نظم۔۔۔۔۔۔۔ ایک عام آدمی کی موت۔۔۔۔۔۔ کی یہ سطور درد' کرب اور
ارضی اقامت کی گرہ کھول رہی ہیں۔
کبھی اس آس میں
کہ ایک دن وہ لمحہ آئے گا
جب وہ دنیا بھر کے جھمیلوں سے نجات پا کر
اپنی ایک نئی دنیا بسائے گا
اس کی یہ خواہش اس وقت پوری ہوتی ہے
جب تمام امیدیں دم توڑ جاتی ہیں
اور عام آدمی
......خاص و عام کی تخصیص سے ماورا ہو جاتا ہے
ص: 160
اس سے اگلا حصہ نگارشات نقش سے متعلق ہے۔ اس میں شعر و نثر سے متعلق مرحوم
کی کاوش ہا فکر درج کی گئی ہیں۔ شاعری میں
غزلیں 13
چو مصرعے یعنی قطعات 6
رباعی 1
شعر 1
آزاد نظمیں 2
شامل کتاب ہیں۔ ان کی شاعری' فکری و فنی اعتبار سے' ان کی شخصیت اور عصری
سماجی رویوں کی عکاس ہے۔ ہاں البتہ ان کی شعری زبان کا رویہ اور لوازمات
شعر روایت سے قدرے ہٹ کر ہیں۔
ایک غزل چھے لفظی ردیف پر استوار ہے۔ غزل کا مطلع دیکھیے۔
ہر سانس ہے کراہ مگر تم کو اس سے کیا
ہو زندگی تباہ مگر تم کو اس سے کیا
پرلطف بات یہ ہے کہ قافیہ اور ردیف کا آخری لفظ فطری طور پر اور حسب ضرورت
ہم صوت ہے۔ اس سے غنا اور نغمیت میں ہرچند اضافہ ہوا ہے۔
ایک غزل کا ردیف پانچ لفظی ہے۔ اس میں پہلی صورت حال نہیں ہے۔ قافیہ اور
ردیف کا آخری لفظ ہم صوت نہیں ہیں۔ مطلع ملاحظہ ہو۔
آمد فصل گل پر ہوائے طرب ناک چلنے لگی' تیری یاد آ گئی
دھیرے دھیرے فضائے جہاں اپنی رنگت بدلنے لگی' تیری یاد آ گئی
پہلی غزل کا ردیف چہار لفظی اور ہی کچھ تھے' ہے۔ اس سے آہنگ اور غنا کا الگ
سے ذائقہ میسر آتا ہے۔ باطور نمونہ فقط ایک شعر ملاحظہ فرمائیں۔
رفتہ رفتہ ہر اک گھاؤ بھر جاتا ہے
پہلے پہل ہم تجھ سے بچھڑ کر اور ہی کچھ تھے
اس کے علاوہ ایک غزل چولفظی جب کہ دو غزلیں سہ لفظی ردیف رکھتی ہیں۔
تکرار لفظی کے ساتھ ساتھ صنعت تضاد کا استعمال ملاحظہ فرمائیں۔
سینے میں تھا درد مگر ہونٹوں پہ تبسم
باہر ہم کچھ اور تھے اندر اور ہی کچھ تھے
لفظ ہی تدبر کا متقاضی ہے۔
اب ذرا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں۔
جس کے سخن میں زہر سے زائد ہیں تلخیاں
اس کے لبوں میں شہد سے بڑھ کر مٹھاس تھی
دونوں مصرعوں کا' ہم صوت الفاظ سے آغاز ہوا ہے۔ لفظوں کی حسین ترتیب اور
پرذائقہ استعمال' بصیرتی اور بصارتی حظ میسر کرتا ہے۔
متعلق الفاظ
پہلا مصرع سخن
دوسرا مصرع لبوں
مترادف الفاظ
پہلا مصرع زائد
دوسرا مصرع بڑھ کر
متضاد الفاظ
پہلا مصرع زہر
دوسرا مصرع شہد
زہر ہلاکت کے ساتھ ساتھ کڑواہٹ کے لیے بھی عرف میں ہے۔
پہلا مصرع تلخیاں
دوسرا مصرع مٹھاس
سوچتا ہوں میں' یہاں سے کہ یہاں سے پہلے
اس مصرع میں' صنعت تکرار لفظی کا استعمال نقش کی زبان پر گرفت کو' واضح کر
رہا ہے۔ فصاحت اور بلاغت پر' کہیں ٹیڑھ پن طاری نہیں ہوتا۔ اس سے غنا اور
نغمیت میں اضافہ یوا ہے۔ تذبذب سوچ کے دائروں کو وسیع کر دیتا ہے۔
سوچتا ہوں میں'
یہاں سے
کہ یہاں سے پہلے
تفہیم کی ذیل میں' قاری جہاں لفظوں کی مہک سے لطف اٹھاتا ہے' وہاں وحدت
تاثر' اس کے سوچ کو رائی بھر ادھر نہیں ہونے دیتا۔ دوسرا مصرع اشتیاق پیدا
کرنے کے ساتھ تذبذب کی گھتی بھی کھولتا ہے۔
داستاں اپنی سناؤں تو کہاں سے پہلے
پہلے مصرعے میں یہاں' جب کہ دوسرے میں کہاں کے استعمال سے کیفیتی حظ میسر
آتا ہے۔ بلاشبہ داد سے بالاتر زبان کے پڑھنے کا اتفاق ہوتا ہے۔
اب دو بصارتی اطوار ملاحظہ فرمائیں
کبھی رو بہ رو کبھی خواب میں دیکھنا
دیکھنا
کبھی رو بہ رو
کبھی خواب میں
دونوں مصرعوں میں کبھی کی تکرار' جاری سلسلے کو واضح کرتی ہے۔ گویا سکوت یا
ٹھہراؤ کی صورت پیدا نہیں ہوتی۔
سرخ ہونٹوں کے اثر کو ترسوں
اثر کے تناظر میں' لمس سے متعلق یہ مصرع ملاحظہ فرمائیں۔ مرکب سرخ ہونٹ
بصارتی وارفتگی کو بڑھاوا دیتا ہے۔
اب ان کے چند مختلف نوعیت کے مرکبات ملاحظہ فرمائیں۔
رفتہ رفتہ
پہلے پہل
خوش بو کا ذائقہ
سوچ کے محور
الفاظ کی گرفت
ہونٹوں پہ تبسم
کھنڈر سا مکاں
کرب ذات
خواب نگر
نقش کی نظم تشنگی پر ایک نظر ڈالیں
تیری یاد اک بادل ہے
پر بادل سے
کب پیاس بجھی
پیاس کی ماری دھرتی تو بس
بارش کی
بوچھاڑیں مانگے
میرا دل بھی
پیاسی دھرتی
ساون بن کر آ جاؤ نا!
تشبہی طور دیکھیے
تیری یاد : اک بادل ہے
میرا دل بھی : پیاسی دھرتی
ممثالتی طور دیکھیے
دھرتی
دل
دھرتی : پیاس کی ماری
دل : پیاسی دھرتی
مطلوب
دھرتی : بارش کی بوچھاڑیں مانگے
دل : ساون مانگے
متعلق لفظوں کا استعمال دیکھیے
بادل : بارش
دل : یاد
آخری سطر گیت کا طور لیے ہوئے ہے۔
ساون بن کر آ جاؤ نا!
پوری نظم پر ورفتگی کی کیفیت طاری ہے اور سماعی حظ میسر کرتی ہے۔
خیر اور سکھ کی فراہمی' اتنا آسان کام نہیں۔ نقش کے ہاں اس امر کا اظہار
کمال کی شیفتگی رکھتا ہے۔
جو بھی سایہ مہیا کرتا ہے نقش
جھیلنی پڑتی ہے اس کو کڑی دھوپ
قربانی
بعض شعر تو' ورفتگی اور بےساختگی میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ بےساختہ منہ سے
واہ واہ نکل جاتا ہے۔ مثلا
پیڑوں کو کاٹنے سے پہلے خیال رکھنا
شاخوں پہ کوئی غنچہ حیران رہ نہ جائے
لفظ حیران کو مستعمل معنوں سے ہٹ کر لیا گیا۔
مرے کچے مکان کو نقش' ڈھا کر
ہوائے شہر اب کس لہر میں ہے
لہر کی تفہیم سٹریٹ کے بول چال کے مطابق لی جائے۔ معاملہ بھی سٹریٹ کا ہے۔
اب ذرا یہ دو شعر ملاحظہ فرمائیں
سندر لڑکی
یوں تو خاموش ہی رہتی ہے وہ سندر لڑکی
سخنور لڑکی
بات کرنے میں نہیں اس سی سخنور لڑکی
اس کے دل میں بھی کبھی نقش محبت جاگے
پتھر لڑکی
موم ہو جائے کسی روز وہ پتھر لڑکی
لڑکی ایک' تین صفتی لاحقے استعمال ہوئے ہیں۔
نثر میں' دیوان غالب کے نسخہء خواجہ سے متعلق' چار تنقیدی مضمون شامل ہیں۔
جن کے عنوان کچھ یوں ہیں۔
غالب اور جعل سازی
نسخہءخواجہ یا نسخہ لاہور
ضمیر کی خلش
تفو بر تو اے چرخ گرداں۔۔۔۔۔۔
یہ مسلہ متنازعہ تھا اور آج بھی ہے۔ میں نے بھی اس موضوع پر کچھ لکھا تھا'
یاد نہیں کہاں شائع ہوا۔ اصل مسلہ نسخہءخواجہ یا نسخہ لاہور نہیں' کوئی اور
تھا۔
اس کے بعد کچھ مختصر تحریریں اداریے اور ابتدایے وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے بعد
نقش کے فارسی' انگریزی' سندھی اور پنجابی نظموں کے کچھ ترجمے شامل کیے گیے
ہیں۔ ایک نظم شاعر کی موت کے عنوان سے شامل ہے۔ اسے دیوناگری سے اردو لیپی
میں منتقل کیا گیا ہے۔ خدا لگتی تو یہ ہی ہے' کہ یہ تراجم صاف' سادہ' واضح'
سلیس اور شعری لوازم سے مالا مال ہیں۔ ان پر طبع زاد ہونے کا گمان گزرتا
ہے۔ باطور نمونہ فقط ایک نظم ملاحظہ ہو۔
کھڑکی کھلی
کھڑکی بند ہوئی
ہوا'
ہوائے دل پذیر تھی
مگر میرا قدیم دل کہاں گیا
شاعر: محمد زہری
انگریزی' سندھی پنجابی اور سرائیکی سے چار افسانوں کے اردو ترجمے کیے ہیں۔
رما کانت کے ایک افسانے کو دیوناگری سے اردو رسم الخط میں منتقل کیا ہے۔
تراجم کو پڑھ کر' اندازہ ہوتا ہے کہ مرحوم کو' ناصرف اردو زبان پر قدرت
حاصل تھی بل کہ دیگر زبانوں یعنی فارسی' انگریزی' سندھی' پنجابی اور
سرائیکی پر بھی گرفت رکھتے تھے۔ اسی طرح وہ دیوناگری رسم الخط کو' اس کی
باریکیوں کے ساتھ جانتے تھے۔ ان کے یہ تراجم' زیب سماعت و بصارت ہیں۔ اسی
طرح' انتخاب میں بھی ملکہ رکھتے تھے۔ اس امر سے باخوبی اندازہ لگایا جا
سکتا ہے' کہ نقش مرحوم کا ذوق کیسا اور کس نوعیت کا تھا۔ باطور نمونہ اور
ان کی اردو پنجابی پر گرفت کے حوالہ سے' بیدی کے پچیس سطری پنجابی افسانے
کی چند چنیدہ سطریں ملاحظہ فرمائیں:
لڑکی نے اپنی نظریں نیچی کر لیں اور اپنے ابرو' اپنی ہی پلکوں کی پرچھائیوں
میں مسکراتی ہوئی ہنسی۔۔۔۔۔ اندر ہی اندر گٹکتی رہی۔
ہوں' لڑکے نے سوچا اور چلا گیا
یہ ترسی ہوئی دھرتی' وہ ساون کا بادل۔۔۔۔۔ اور بہاروں کی فضا۔۔۔۔۔
..............
لڑکی کے ماتھے پر سات بل پڑے ہوئے تھے۔ لڑکے نے اسے دوسروں کی طرح ہی نک
چڑھی' مغرور سی لڑکی سمجھا اور چلا گیا۔
حالاں کہ بات صرف اتنی سی تھی۔
تو نے پہلے کیوں نہ مجھے بلایا
وہ ازل سے اکیلی۔۔۔۔۔ وہ ابد تک اداس ۔۔۔۔۔
اور سامنے کچھ بچے کھیل رہے تھے۔
افسانہ ۔۔۔۔۔۔ بہانہ ص 231' 232
ایک انگریزی اور ایک سندھی مضمون کا ترجمہ' کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔
دونوں مضمون بڑے کام کے ہیں۔ پہلا مضمون قرتہ العین حیدر کے ناول ۔۔۔۔۔
چاندنی بیگم ۔۔۔۔۔ سے متعلق ہے۔ بڑا اچھا اور غیرجانبدارنہ قسم کا مضمون
ہے۔ دوسرا مضمون ۔۔۔۔۔ آزاد کشمیر کی زبانیں۔۔۔۔۔ مختصر مختصر ہوتے' اپنے
عنوان کے تعارف کے ضمن میں کامیاب اور کارکشا ہے۔ ہر دو مضامین' کی زبان
ترجمہ کی زبآن نہیں ہے۔ براہ راست تحقیق و تنقید کی زبان ہے۔ کہیں ناہمواری
اور ابہامی صورت پیدا نہیں ہوتی۔ یہ امر نقش مرحوم کی' ہر سہ زبانوں پر
گرفت کا غماز ہے۔ گویا وہ جہاں اچھے شاعر اچھے نثار ہیں' وہاں شعر و نثر کے
اچھے مترجم بھی تھے۔
پانچ اہل قلم کے نام لکھے گیے خطوط بھی کتاب کا حصہ بنائے گیے ہیں۔
بشیر عنوان کے نام سات خط
یعقوب خاور کے نام چار خط
قاسم رحمان کے نام دو خط
حسن منظر کے نام ایک خط
ذوالفقار دانش کے نام ایک خط
گویا تعداد کے اعتبار سے یہ کل پندر خط ہیں۔ ڈاکٹر ذوالفقار دانش کے نام خط
کی عکسی نقل پیش کی گئی ہے۔ خطوط میں' بےتکلفی' برجستگی اور والہانہ پن
پایا جاتا ہے۔ یہ خطوط ادبی حوالہ سے بھی کمال کے ہیں۔ باطور نمونہ دو ایک
مثالیں پیش ہیں۔
کہتے ہیں کہ کسی کی قدر مرنے کے بعد ہوتی ہے اور یا چلے جانے کے بعد۔ اب
مجھے احساس ہوا کہ دونوں صورتوں کے علاوہ ایک تیسری صورت بھی ہے' جس کے
ظہور پذیر ہونے کے بعد کسی کی قدر و قیمت کا احساس ہوتا ہے اور وہ صورت ہے
جدائی کی! عارضی نہیں طویل جدائی کی۔
خط رفیق نقش بنام بشیر عنوان ص: 251
اچھا اب واقعی خدا حافظ
خط رفیق نقش بنام بشیر عنوان ص: 252
کشمیری صورتوں کو گلاب کے بجائے آم سے تشبیہ دینے پر میں تم پر لکھ واری
لعنت بھیجتا ہوں۔
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں! ایک بار پھر لعنت
خط رفیق نقش بنام یعقوب خاور ص: 272
روٹی جب تک میسر ہے' اس وقت تک نئی باتیں سوجھتی ہیں اور جب روٹی کا حصول
مشکل ہو جائے تو حصول نان جویں ہی واحد مسلہ رہ جاتا ہے۔ اس موقع پر عشق
وشق سب دل و دماغ سے محو ہو جاتے ہیں۔ غالبا شیخ سعدی نےاس تجربے کو بیان
کیا ہے۔
چناں قحط سالی شد اندر دمشق
کہ یاراں فراموش کر دند
خط رفیق نقش بنام قاسم رحمان ص: 276
رائٹ برادران کا بنایا ہوا ہوائی جہاز آج کے جدید طیاروں کے مقابلے میں
بچوں کا کھلونا معلوم ہوتا ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ہوائی جہاد کے
وجود میں آئے بغیر موجودہ طیاروں کا وجود میں آنا ممکن نہیں تھا۔
خط رفیق نقش بنام ذوالفقار دانش ص: 280
کتاب کے آخر میں ۔۔۔۔۔ تیرے فن میں حسن کےاعلا ہیں نقش۔۔۔۔ کے عنوان سے نو
تحریریں شامل کتاب کی گئی ہیں۔ ان میں ایک ڈاکٹر انورسدید کا خط بنام رفیق
احمد نقش ہے۔ خط کے دو جملے درج ہیں۔ مستعمل میں بدل گڑبڑی کا باعث بنتا ہے
دوسرا گلی اسے قبول نہیں کرتی ہے۔ قلفی عرف میں ہے اس لیے قفلی قبولیت کی
سند نہ پا سکے گا۔ خیر یہ دو جملے دیکھیے۔
ایک ذاتی گزارش یہ ہے کہ میرا نام انور سدید معرف ہے لیکن آپ اسے نئے اصول
و ضوابط کے تحت سدید انور درج فرماتے ہیں۔ درخواست ہے کہ اسے انور سدید ہی
درج کیجیے۔
خط انور سدید بنام رفیق احمد نقش ص: 283
باقی آٹھ تحریریں ان کے فن سے متعلق ہیں۔
ان کی شاعری کے بارے پروفیسر انوار احمد زئی کا کہنا ہے۔
رفیق نقش باطور شاعر
رفیق نقش کے شاعرانہ نقوش میں محاکات اور تماثیل کے ساتھ منظرنامے بھی ایسے
مصور ملتے ہیں کہ ان کی شاعری' فکری گیلری اور شعری تصویر خانہ معلوم ہوتی
ہے۔ میرے نزدیک وقت کے نئے پن کے مضمون کے بعد' تشبیہ و تمثیل کا اچھوتا
اور نیا پن' رفیق نقش کی شاعری کا دوسرا بڑا کمال ہے۔
نقش آئینہءمسرت میں از روفیسر انوار احمد زئی ص: 285
رفیق احمد نقش اور ترجمہ نگاری
رفیق احمد نقش طبعا کاملیت پسند تھے۔ وہ جو بھی کام کرتے' پوری ذمہ داری سے
کرتے تھے' یہی خوبی ان کے تراجم میں بھی نمایاں ہے. وہ ترجمے کے فن کو قدر
کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان فن کو حقیر سمجھنے والی سوچ کے سخت خلاف تھے۔
رفیق احمد نقش ترجمے کے فن کے افادی اہمیت کے قائل تھے۔
رفیق احمد نقش بہ حیثیت مترجم ازبشیر عنوان ص: 302
رفیق احمد نقش کا طور تنقید
رفیق نقش دھیمے' پراثر مگر انتہائی جرآت مندی کے ساتھ تنقید کرنے کا حوصلہ
رکھتے ہیں۔ ان کی بےباکی کسی ظاہری عہدے یا بڑےپن سے خائف نظر نہیں آتی'
مگر وہ عزت و احترام کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ پہلے کسی معاملے کے اصل
پہلو کو اجاگر کرتے ہیں' پھر جزئیات کے سہارے اسے ابھارتے ہیں۔ جہاں کہیں
غلطی کا احتمال ہوتا ہے دست نشان دہی کرتے ہیں۔
رفیق احمد نقش کا تنقیدی شعور از ڈاکٹر ممتاز عمر ص: 314
رفیق احمد نقش اور اردو املا
املا کےحوالے سے رفیق نقش کا زیادہ تر زور اس بات پر رہا ہے کہ جو بولو'
وہی لکھو۔ لکھاوٹ میں تلفظ کی تقلید ان کے لیے لازمی تھی۔
رفیق احمد نقش اور اردو املا از انصار احمد شیخ ص: 331
رفیق احمد نقش کا تحقیقی مزاج
رفیق نقش پوری یک سوئی سے تحقیق کی جانب راغب نہیں ہو سکے' وہ اس شعبے کو
اپنانا چاہتے تھے اور اردو ادب کی کئی حقیقتوں سے پردہ کشائی کرنے کے
خواہاں تھے مگر موت کی حقیقت نے ایک اعلا پائے کے محقق ہونے سے محروم کر
دیا۔
رفیق احمد نقش کا تحقیقی مزاج از ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش ص: 350
رفیق احمد نقش بہ حیثیت مدیر
رفیق نقش صاحب آغاز ہی سے بہ تر سے بہ ترین کے خواہاں تھے۔ وہ آخری دم تک
معیار کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ آغاز ادارت ہی سے معیار کے بارے میں ان کا
نقطہء نظر واضح تھا۔
رفیق احمد نقش بہ حیثیت مدیر از ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش ص: 353
رفیق احمد نقش بہ حیثیت مدیر کے بعد' رفیق احمد نقش کے ہاتھ سے بنی ہوئی
کچھ چیزیں ہیں۔ آخر میں رفیق احمد نقش کے ایک خط بنام بشیر عنوان کی عکسی
نقل ہے۔ خط کے انتخاب میں بےشک سمجھ بوجھ اور تردد سے کام لیا گیا ہے۔ اس
خط میں کئی ایک خاص نوعیت کی باتیں کی گئی ہیں بل کہ انہیں اصول کا نام
دینا زیادہ مناسب ہو گا۔ مثلا
میں تمہاری بات سے متفق نہیں ہوں کہ انسان جس قدر خود کؤ جانتا ہے' وہ
دوسروں کے جاننے کی بہ نسبت زیادہ مستند ہے۔ یہ بات عین ممکن ہے کہ دوسرے
ہم سے کہیں زیادہ ہمارے بارے میں جانتے ہوں۔۔۔۔۔۔
میرا خیال ہے کہ اخباروں میں نام چھپنا' نشستوں کی تعداد میں نام نہاد
اضافہ وغیرہ معیار کی کمی کا باعث ہے۔
اس خط میں' ایک ذاتی حوالہ بھی ہے' جو تین طرح سے بڑے کام کا ہے۔
ان کی شدہ زندگی کیسی اور کس نوعیت کی تھی۔
ان کی زوجہ محترمہ کا مرحوم اور مرحوم کے معاملات سے کتنا اور کس نوعیت کا
عمل دخل تھا۔
مثالی جوڑے کی زندگی کیسی اور اس کے اطوار کس نہج اور سطع کے ہونا چاہیں۔
خط کا یہ ٹکڑا ملاحظہ فرمائیں۔
شادی نے میری زندگی میں ایک اطمینان بھر دیا ہے۔ ذکیہ سے بہتر ساتھی ملنا
بےحد مشکل تھا۔ میں اب اپنی بہنوں کے مستقبل کی طرف سے بےفکر ہوں۔ ان کی
تعلیم اور تربیت میں ذکیہ کردار ادا کر رہی ہے۔۔۔۔۔۔ بڑی بات یہ کہ ہم لوگ
روایتی میاں بیوی نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔ اب بھی اکثر لوگ ہمیں ساتھ دیکھ کر مشکل
ہی سے یقین کرتے ہیں کہ ہم دونوں رشتہء ازدواج میں منسلک ہیں۔
ان تحریروں کے علاوہ رفاقت علی شاہ کا مضمون۔۔۔۔ رفیق احمد نقش: بطور تدوین
کار۔۔۔۔ اور اجمل کمال کا ایک خط کتاب میں شامل ہیں۔ لسانیاتی حوالہ سے یہ
خط بڑے کام کا ہے۔
ڈاکٹر دانش کی یہ ادبی کاوش' قاری کو پہلی اور آخری نظر میں' خوش آتی ہے۔
علمی و ادبی کام کرنے والوں کے لیے' یہ کتاب عملی نمونے سے' کسی طرح کم
نہیں۔ میں ڈاکٹر دانش کے اس کام کو' قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ الله ان کے
ادبی ذوق کو برکت عطا فرمائے۔
|