نیشنل ایکشن پلان ۔۔۔۔۔کرپشن کی سیاست ؟

ہمارے ملک میں جمہوریت بحال ہوئے آٹھ برس ہونے کو آئے ،جمہوریت ہمارے آئین میں دیا گیا طرز حکومت ہے ،ماضی میں آمرانہ حکومتیں جمہوریت کے خلاف رائے عامہ تیار کیا کرتی تھیں،اگر ہم نے آمریت سے واقعی جان چھڑالی ہے تو اب نظام حکومت کے طور پر جمہوریت مذمت بھی ختم ہونی چائیے،کسی حکومت ،سیاسی جماعت یا سیاسی راہنما کی مخالفت میں کوئی مضائقہ نہیں بلکہ حقیقی جمہوریت کے لئے ایسی تنقید اور جواب دہی نہایت ضروری ہے تاہم ان عناصر کی خبر لینی چائیے جو مختلف مسائل کی آڑ میں ’’جمہوری نظام ‘‘کو گردن زدنی قرار دیتے ہیں اور اپنا کوئی مفروضہ نطام مسلط کرنا چاہتے ہیں ،کرپشن دیمک کی طرح ریاستی وسائل اور عوام کے میعار زندگی کو تباہ کرتی ہے کرپشن کی نشان دہی بھی کرنی چائیے اور سرکوبی بھی ۔۔۔لیکن کچھ خیر خواہوں نے کرپشن کو سیاسی عمل کی مذمت کا ہتھیار بنا رکھا ہے ۔ہمیں واضح کرنا چائیے کہ جمہوریت سے انحراف بذات خود ’’بد عنوانی ‘‘کی ندترین صورت ہے ،1958ء سے قوم کی جڑوں پر کرپشن کا کلہاڑا چلا رہے ہیں ،یہ کرپشن کے خاتمے کا نہیں کرپشن کے تسلسل کا نسخہ ہے ،جمہوریت کا یک ہی متبادل ہے اور وہ ہے آمریت ۔۔۔آمریت کالی پگری پہن کر آئے یا چمڑے کے بوٹ پہن کر آئے ناقابل قبول ہے ۔۔۔محب وطن اور درد دل رکھنے والی سیاسی شخصیت خلیل الرحمن خان کاکڑ کا کہنا تھا کہ۔۔۔پاکستان ہماری قومی ریاست ہے اور ہمارے صوبے اس وفاق کی اکائیاں ہیں ،صوبائی حقوق کی آواز اٹھانا اور کسی صوبے کے عوام کی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے سیاسی عمل میں شریک ہونا عین آئینی ہے تاہم جو لوگ قومی ریاست کی سرحدوں کو بے معنی قرار دیتے ہیں یا تبدیل کرنا چاہتے ہیں وہ ہماری ریاست کے دوست نہیں ۔۔۔۔۔ہمیں اپنے تعلیمی نصاب ،ذرائع ابلاغ اور سیاسی مکالمے میں پاکستان کو قومی ریاست کے آئنی خدوخال کو بنیادی حقیقت قرار دینا چائیے،ہم نے جدید دنیا کے آئینی اور سیاسی منظرنامے کا حصہ بن کر آزادی حاصل کی تھی۔۔۔۔۔ہماری ریاست قوموں کی برادری میں بغاوت ،انحراف اور مخاصمت کا نشان نہیں ہمیں دوسری قوموں کے ساتھ تعاون ،تعامل اور تجارت کی مدد سے اپنے معاشی اور سیاسی مفادات کا تحفظ کرنا چائیے ،امریکہ کسی عرب ملک ،ایران اور بھارت یا پھر کوئی اور ملک ہو کسی ریاست کے ساتھ مستقل دشمنی یا حقیقی دوستی کا مفروضہ نہیں پالنا چائیے کیونکہ دوسری قومیں اپنے اپنے مفادات پر آنکھ رکھتی ہیں تو ہمیں اپنے مفادات کا خیال رکھنا چائیے۔۔۔۔۔ہم تاریخی اور جغرافیائی طور پر کسی خلائی سیارے کی مخلوق نہیں ہیں ،ہماری زبانوں ،افکار اور رہن سہن پر دوسری قوموں کے گہرے اثرات ہیں ،جدیدیت اور قدامت کی آوازیں اس دھرتی کی تصویر کا حصہ ہیں ۔۔۔۔ہمیں ایک دوسرے کی سوچ اور طور طریقوں کو اجنبی اور ناقابل قبول قرار دینے کی روش کو چھوڑ کر غور کرنا چائیے کہ ہم رواداری کی ثقافت اور معاشی ترقی کو کیسے یقینی بنا سکتے ہیں ،معیشت کی منطق ناقابل مزاحمت ہوتی ہے اور اس کی بنیادٹھوس حقائق پر ہوتی ہے ،ہمیں معیشت کو نظریاتی واہموں کا اسیر بنانے سے گریز کرنا چائیے ،اقتصادی راہداری کا راستہ معیشت کی طرف جا رہا ہے کھوکھلے سیاسی نعروں اور نا انصافی پر مبنی معاشرت کی موجودگی میں معیشت کے امکانات کو برؤے کار نہیں لایا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ابھی مشرق وسطی کا خلجان موجود تھا کہ پٹھان کوٹ میں پرانی کہانی دہرائی گئی ،یہ اسکرپٹ اب پٹ چکا ہے ،ہندوستان نے تحمل کا مطاہرہ کیا تو پاکستانی قیادت نے بھی جرات دکھائی ہے ،کالعدم جیش محمد کے خلاف کاروائی کا فیصلہ 6 جنوری کو ہی ہو گیا تھا ۔۔۔باخبر حلقے کہتے ہیں کہ 3جنوری کو بھارت نے پٹھانکوٹ دہشت گردی واقعہ کے بعد بھارت کی جانب سے کالعدم جیش محمد کے ملوث ہونے کے شور شرابا شروع کر دیا جس کا ثبوت مبینہ طور پر ایک ٹیلی فون کال تھی جو اس واقعہ میں ملوث دشت گرد نے اپنی والدہ کو وہاں کے ایس پی کے فون سے کی کہ وہ جہاد پر جا رہا ہے اس کے لئے دعا کریں ۔۔۔۔بھارت کی جانب سے دباؤ تھا کہ پاکستان اس حوالے سے کاروائی کرے،اس حوالے سے کالعدم جیش محمد کے خلاف متوقع کاروائی کے لئے پہلے سے تیاری کر لی گئی تھی اور اس حوالے سے خفیہ ذرائع بتاتے ہیں کہ پانچ اور چھ کو ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی رائے محمد طاہر نے بہاولپور کا خفیہ دورہ کیا اور سی ٹی ڈی کے افسران میٹنگ کی اور ممکنہ طور پر جیش محمد کے خلاف کاروائی کے معاملے کا جائزہ لیا گیا ۔۔۔وزیراعظم کی طرف سے بنائی گی تفتیشی ٹیم کے کنونیر بھی رائے طاہر ہیں ۔۔۔۔جیش محمد 2000ء مارچ میں بنی جس کے سربراہ مسعود اظہر تھے اس کا ہیڈ آفس کراچی میں بنایا گیا تنظیم میں عبدالروف،امداد اﷲ مکی شامل تھے اس تنظیم پر 2003ء میں بھارت پارلیمنٹ حملے کے بعد پابندی لگائی گئی تھی مولانا مسعود اظہر کے 6بھائیوں میں سے چار بہاول پور میں جبکہ دو کراچی/افغانستان میں رہائش پذیر ہیں ۔۔۔۔مولانا پر تھانہ بی ڈویثرن ڈی جی خان میں 16ایم پی اوز تھانہ سول الائنز بہاولپور میں 395جبکہ تھانہ کوتوالی گوجرانوالہ میں 120B/7ATA/149/148کے تحت ایف آئی آرز درج ہوئی تھیں ۔۔۔۔اہم خبر کے پنجاب کے سولہ اضلاع میں رینجرز تعینات کی جارہی ہے جو دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف پولیس کے ساتھ ملکر ان کے خلاف آپریشن کرے گی۔۔۔۔کیا رینجرز کو کرپشن کے خلاف بھی کام کرنے کا اختیارہو گا۔۔؟
Dr M Abdullah Tabasum
About the Author: Dr M Abdullah Tabasum Read More Articles by Dr M Abdullah Tabasum: 63 Articles with 43941 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.