بلوچستان میں پاکستان کی توانا آواز جناب محمود خان اچکزئی کا لاہور ہائی کورٹ بارمیں خطاب
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
پاکستانی معاشرئے میں جس طرح بے
چینی ہے اُس کا اندازہ اِس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر شعبے سے منسلک
افراد کی سوچ اِس طرح کی بن چکی ہے کہ صرف اور صرف پیسہ بنانا ہے۔ اِن
حالات میں پاکستانی معاشرئے میں دردِ دل کے حامل لوگوں کی کمی تو نہیں لیکن
ایسے لوگ مایوسی کا شکار ہیں۔ پچھلے تیس سالوں سے ملک میں بے روزگاری نے جس
طرح جنم لیا ہے اور جس طرح لوگ بے چینی کا شکار ہوئے ہیں ۔ اور معاشرئے میں
نجی چینلزنے پوری سو سائٹی کو مارکیٹ اکانومی کا اہم عنصر بنا ڈالا ہے۔ یوں
ہمارئے معاشرئے میں حسد لالچ کی انتہا ہوچکی ہے۔ رشتوں کی پامالی کا عالم
یہ ہے کہ ماں باپ کا احترام بھی بہت کم ہوچکا ہے۔ زندگی کے مختلف شعبے میں
زوال پذیری عروج پر ہے۔ محبت فاتح عالم کا نسخہِ کیمیاء ہمارئے معاشرئے کے
لیے شائد کارگر ہونے سے معذور ثابت ہو رہا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ بار کے
تاحیات ممبر ہونے کی حثیت اور شریک چیئرمین انسانی حقوق کمیٹی لاہور ہائی
کورٹ بار، راقم ملکی دانشوروں کی گفتگو سے اکتساب کرتا رہتا ہے۔ محمود خان
اچکزئی نے لاہور ہائی کورٹ بار سے بروز پیر 18-1-2016 کو خطاب کیا۔ راقم نے
جناب محمود خان اچکزئی کی گفتگو سنی ۔ محمود خان اچکزئی نے اپنے خطاب میں
کہا کہ پاکستان بنانے کے پیچھے جو محرک تھا وہ یہ ہی تھا کہ پاکستان میں
تمام طبقات کو برابری ملے۔ جناب محمود اچکزئی نے اپنی گفتگو میں انسانی
آزادیوں کی ضرورت پر زور دیا۔محمود اچکزئی کی گفتگو واقعی اِس قابل ہے کہ
وہ لاہور ہائی کورٹ بار سے خطاب فرماتے۔ جناب محمود اچکزئی نے فرمایا کہ
پاکستان بنانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ یہاں صرف اور صرف جمہوریت ہو۔ کسی قسم
کی ڈکٹیٹر شپ کی ہمارئے معاشرئے میں کوئی گنجائش نہیں۔ جناب محمود اچکزئی
ہمیشہ سے ایک وطن پرست اور جمہوریت کے علمبردار کی حثیت سے جانے جاتے ہیں۔
مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب دنیا کے سو عظیم آدمیوں میں جن جن شخصیات کا ذکر
کیا ہے اُن شخصیات میں زیادہ پُر اثر وہی رہی ہیں جنہوں نے اپنے پیرو کاروں
اور اپنے ساتھیوں سے اچھا برتاؤ کیا ہے اور اُن کی رائے کو اہمیت دی ہے۔
نبی پاک ﷺ کو مائیکل ہارٹ نے پوری دنیا میں سب سے زیادہ اثر رکھنے والا شخص
گردانا ہے جن کی شخصیت کے اثرات بنی نوع انسان پر سب سے زیادہ ہیں۔ نبی پاکﷺ
چونکہ نبی آخر الزمان ہیں اُن کا فرمایا ہوا ایک ایک لفظ اﷲ پاک کا فرمایا
ہوا ہے اُس کے باوجود نبی پاکﷺ اپنے صحابہ اکرام ؓسے مشاورت فرماتے ۔ دنیا
کی سب سے محترم ترین ہستی جس کو ایک غیر مسلم بھی سب سے بڑا انسان مان رہا
ہے وہ بھی اپنے ساتھیوں کی رائے کو انتہائی مقدم رکھتے۔ جناب محمود خان
اچکزئی عمر کے جس حصے میں ہیں یقینی طور پر پاکستانی سیاست کے نشیب و فراز
اُن کے سامنے ہیں۔ اُنھوں نے پاکستانی معاشرئے کے تمام نشیب و فراز دیکھے
ہیں۔بلوچستان کی سرزمین حریت پسندوں کی سر زمین ہے بلوچستان کے سردار
پاکستانی ریاست کے لیے ہمیشہ ہر اول دستے کے کردار کا حامل رہے
ہیں۔پاکستانی معاشرئے میں بد اعتمادی کی جو فضا قائم ہوئی تھی موجود دور
میں جنرل راحیل شریف اور نواز شریف کی کوششوں سے اُس میں کافی بہتری آئی ہے۔
صوبوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا بہت بڑی کامیابی ہے۔جناب اچکزئی
پاکستانی معاشرئے میں اتحاد و اتفاق کا ایک نشان ہیں۔ قانون کی حاکمیت کی
بات کرنا بہت آسان ہے لیکن قانون کی حاکمیت کو ماننا یقینی طور پر سرداروں،
وڈیروں سیاستدانوں کے لیے اتنا آسان کام نہیں ہے کیونکہ جس طرح کی تاریخ
پاکستان کی ہمارئے سامنے ہے اِس سے تو یہ ہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔
ہمارا دین ہے ہی رواداری کا نام۔ بلوچستان کی ایک توانا آواز جناب محمود
خان اچکزئی کی پاکستان سے محبت بھارتی سازشوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ حضرت
علامہ اقبال ؒ نے اسلامیان ہند کو پیغام خودی دیا اور ایک قوم کی شکل میں
متشکل کر دیا ۔ حضر ت قا ئد اعظم ؒ نے اسلامیان ہند کو اپنی تقاریر ،
خطابات ، اور علمی اور قانونی نظریات وارشادات کی روشنی میں انگریزوں اور
ہندؤں کی استعمار پسند انہ اور تشدد آمیز رویوں سے آگاہ کرتے رہے اور انہیں
اپنی اسلامی اقدار و رو ایا ت اور تاریخ کی روشنی میں تیار رہنے کی ہدایت
کرتے رہے۔ حضرت قائداعظم ؒ نے اسلامیان ہند کے قلوب واذہان میں آزادی کی جو
لو لگائی وہ الاؤ بن کر سامنے آئی اور پاکستان دنیائے انسانیت کے نقشے پر
بڑی شان وشوکت کے ساتھ ظہور پزیر ہوا۔ قرآن حکیم نے استفسار فرمایا: خدا
تعالیٰ نے تم سب کو تخلیق فرمایا ‘ پھر تم میں سے ایک گروہ نے بلند و بالا
اور عالمگیر انسانیت سے انکا کردیا ‘ اور دوسرے گروہ نے اسے تسلیم کر لیا۔
((64/2 یہی وہ انسانیت کی تفریق اور امتیاز کا میعار ہے جو قرآن حکیم
انسانوں کے لیے پیش کرتا ہے۔ اسی کے مطابق دواقوام واضح ہوتی ہیں ایک دوسری
غیر مسلم ۔ ایک مومن اور دوسری کافر یہی وہ فلسفہ فکر نظر تھا کہ حضرت نوح
ؑ اپنے سے الگ ہو گئے اور حضرت ابراہیم ؑ اپنے باپ سے علیحدہ ہو گئے۔
کیونکہ دونوں کی حقیقی کیفیت میں نظریٔہ حیات مبنی بروحی سے ہم رمگ اور ہم
آہنگ نہ تھا قرآن کے حوالے سے حضرت ابر اہیم ؑ کو کہنا پڑا۔ (یعنی تم میں
اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کے لیے کھلی عداو ت اور نفرت رہے گی۔)چنانچہ تاریخ
اسلام گواہ ہے کہ اسلامی ریاست وحکومت میں شامل نہ گیا۔ حضور پاک ﷺ کی مجلس
شوریٰ میں کبھی کوئی غیر مسلم نہ تھا۔ خلفائے راشدین رضی اﷲ علیم اجمعین کی
مجلس شوریٰ اور پارلیمان میں کوئی غیر مسلم کا داخل نہ تھا ۔ بلکہ کافر یا
غیر مسلم ، ملت اسلامیہ کا ف رد ہی نہیں تھا لہٰذا اسلام اور قرآن کے نزول
کے ساتھ ہی بنی انسان دو مختلف نظریات اور حتمی طبقات میں تقسیم ہو گئے۔
ایک نظریہ ایمان نہ لانے والوں کا ۔ چنانچہ اولاد آدم دو کیمپوں میں تقسیم
ہو گئی شرار بو لہبی ایک جانب اور چراغ مصطفیٰ ﷺ دوسری جانب ، اس نظریے نے
خون اور حسب و نسب کی نفی نھی کردی ۔ برادری ، قبیلے اور ذات پات کو ملیا
میٹ کر کے رکھ دیا ۔ اس کی بہترین مثال جنگ بدر اور جنگ اْحد ہے جس میں نبی
الزماں حضور اکرم ﷺ دوسرے صحابہ کرام کے قریبی رشتہ دار دشمن کے صف میں
براجماں تھے، چنانچہ قرآن نے کافروں اور منافقین کے ضمن میں ملت اسلامیہ کو
بڑی سختی سے متبنہ کیا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے نظریٔہ پاکستان کا آغاز ،
تشکیل ، اور تراویح برصغیر میں اس وقت ہوئی جب مسلمانوں کو انتشار و افتراق
اور زوال و انھطاط کا سامنا کرنا پڑا اور ہندوں کی اصل فطرت کے شاہکار وں
کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان کے مظالم کا گھناونی سازشوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔
بالخصوص 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد کی بڑی دلدوزداستان ہے، جسے غربی اور
شرقی مفکرین و مصنفین نے خوب بیان کیا ہے یہ اپنے طور پر ایک طویل داستان
ہے۔ مولانا ابولکلام آزاد کی کتاب india wins freedom ولیم ہنٹر کی کتاب
indian mussalmans عبدالوحید خان کی کتاب تقسیم ’’ہند‘‘ اور ان کی دوسری
کتاب ’’ مسلمانوں کا ایثار اور آزادی کی جنگ‘‘ کالنز اور لاپیئر کی کتاب
'freedom at midnight' اور پروفیسر منور مرزا کی کتاب Dimension of
Movement اور دیوار’’ برہمن‘‘ کا مطالعہ کرلیں۔ ان شنکرو ں ، دیالوں ،
بگوپالوں ، مہاجروں، ساہنیوں ، دھوتی پرشادوں ، چٹیا گھنٹانوں ، ایڈانیوں ،
ملکانیوں، مشراوں، بال ٹھاکروں، من موہنوں اور بڑے بڑے مہاپرشوں نے اسلام ،
پاکستان ، نظریہ پاکستان دو قومی نظریہ اور مسلمان دشمنی میں کسر اٹھا رکھی
اور یہ سلسلہ ہنوز جاری وساری ہے۔ ہمارے سابق مشرقی پاکستان اور مغربی
پاکستان کے غدار سیاستدانوں نے ہماری تاریخ اسلام کو منسخ کر کے دیا۔ جو
ایمانی اور ایقانی روح سے محروم تھے۔ جو قرآنی جرات و استقامت سے سرمایہ
دارا نہ تھے۔ ہمارے جسم کا ایک بازو کٹ گیا چنانچہ اندر گاندھی نے زور
خطابت کے نشے میں یہ کہا ’’ آج ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا
ہے، ہم نے ایک ہزار سال کا بدلہ لے لیا ہے۔ لیکن ہم نے اندرا گاندھی اور ان
کے مخلص چیلوں چانٹوں اور حواریوں اور ان کے حاشیہ برداروں کو اسی وقت باور
کرارہے ہیں اور کراتے رہیں گے کہ جب تک ایک مسلمان بچہ بھی برصغیر پاک و
ہند میں زندہ ہے اسلام اور کفر کی جنگ جاری رہے گی، اسلام کا جھنڈا موجود
رہے گا ۔ جناب محمود خان اچکزئی یقینی طور پر پاکستان اور پاکستانیوں کے
لیے ایک امید کی حثیت رکھتے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ بار میں اُن کے خطاب کی
دل سے قدر ہے۔ |
|