شام میں درندگی کا راج

 رات کی تاریکی تو اپنے مقررہ وقت پر چھٹ جاتی ہے، لیکن شام میں چھائی خوف ناک اور جان لیوا شب تاریک خدا جانے کب ختم ہوگی؟ ظلم و ستم کی شام وحشت ناک رات میں بدل چکی ہے۔ دور دور تک سویرے کی کرن پھوٹنے کا نام و نشان نظر نہیں آتا۔ شام میں گزشتہ پانچ سال سے عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں بے گناہ لوگوں کے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ روز ہزاروں افراد شام کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔ جو شام کو مستقر بنائے بیٹھے ہیں، وہ روز اپنی جانیں گنوا رہے ہیں ۔ خانہ جنگی کی بھینٹ چڑھنے والوں کی تعداد لگ بھگ تین لاکھ ہوچکی ہے، جن میں مردوں اور عورتوں کے علاوہ ہزاروں بچے بھی شامل ہیں۔ مجموعی طور پر ہر ماہ تقریباً 5 ہزار افراد ابدی نیند سو رہے ہیں۔ اب تک تقریباً چالیس لاکھ افراد شام سے دوسرے ممالک کی جانب ہجرت کرچکے ہیں، جن میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ تعداد بچوں کی ہے۔

شام کسی ایک ملک، گروہ یا تنظیم کے نشانے پر نہیں ، بلکہ یہ دنیا بھر کی طاقتوں کا کھاڑہ بنا ہوا ہے۔ شام میں طاقتور اقوام اپنی اپنی بالادستی کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ دوسروں کے مفادات کی جنگ میں شام کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ دنیا میں انصاف کا ڈھنڈورا پیٹنے والی عالمی طاقتوں نے شام کے معاملے میں ہمیشہ دوغلی پالیسی اختیار کی ۔ عالمی برادری کی اس دوغلی پالیسی کا خمیازہ شام کے عوام بھگت رہے ہیں۔ امریکا، اسرائیل، برطانیہ، روس، ایران، سعودی عرب،داعش، القاعدہ، حزب اللہ سمیت نجانے کون کون شام میں اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہا ہے۔ شام کا حل ڈھونڈنے میں امت مسلمہ کی نااہلی اور عاقبت نااندیشی باعث افسوس ہے۔ مسلم دنیا شام کے معاملے پرتقسیم ہے۔ بہت سے مسلم ممالک خاموش، جبکہ بعض خانہ جنگی کی آگ کو مزید بھڑکا رہے ہیں۔ مسلم حکمرانوں کے پاس نہ عزم ہے اور نہ ہی کوئی میکنزم ۔شام میں جو کچھ ہو رہا ہے، یہ مسلمانوں کے باہمی تضاد کا بھیانک نتیجہ ہے۔ اگر اسلامی ممالک اپنا فرض ادا کرتے تو شامی عوام پر ظلم کی یہ شب اتنی طویل نہ ہوتی۔

آج شام کے حالات یہ ہیں کہ کئی علاقوں میں بشار الاسد کی فوج نے کئی علاقوں کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ شامی عوام کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ۔ لوگ بھوک کی وجہ سے مر رہے ہیں اور اپنی جان بچانے کے لیے مردہ جانوروں کا گوشت تک کھانے پر مجبور ہیں۔ ایک معروف عالمی ادارے نے شام میں عوام کے بدترین حالات کی نشان دہی کرتے ہوئے بتایا کہ ایک قصبے میں لوگ بلیاں کھانے اور گھاس، پتوں کے استعمال پر مجبور ہو گئے ہیں، تاکہ خود کو زندہ رکھ سکیں۔ ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) کا کہنا ہے کہ یکم دسمبر سے اب تک مضایا قصبے میں موجود اس کے کلینک میں 23 افراد بھوک کی وجہ سے مر چکے ہیں، جن میں چھ ایک سال سے کم عمر بچے تھے۔ ایم ایس ایف نے مضایا کو ایک ”کھلا قید خانہ“ قرار دیا ہے، جہاں سے فرار ہونے کی کوشش کرنے والے افراد یا تو گولیوں سے زخمی ہوئے یا قصبے کے اردگرد بچھائی گئی بارودی سرنگوں میں مارے گئے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ شام میں دمشق کے مضافاتی علاقوں میں تقریباً چار لاکھ افراد محصور ہیں، جبکہ 42 ہزار افراد بغیر خوراک کے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

شام میں غذائی قلت کے سنگین بحران سے نمٹنے کی عالمی مساعی کے جلو میں انکشاف ہوا ہے کہ اقوام متحدہ نے شام میں بھوک سے پیدا ہونے والے انسانی المیے کا علم ہونے کے باوجود کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا، جس کے نتیجے میں مضایا اور دیگر شہروں میں محصور ہزاروں افراد کو بروقت امداد مہیا نہ کی جاسکی۔ شام میں غذائی قلت کے شکار شامی شہریوں بالخصوص بچوں کی تصاویر کے منظرعام پرآنے کے بعد اقوام متحدہ کو علم ہوگیا تھا کہ مضایا میں ہزاروں افراد غذائی قلت کے نتیجے میں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں اور مضایا میں غذائی قلت کے سنگین بحران کے بارے میں رپورٹس کئی ماہ قبل اقوام متحدہ کے دفاترکو ارسال کردی گئی تھیں، مگرانہیں قصداً مخفی رکھا گیا۔ شام میں غذائی قلت کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہو چکی ہے۔ بھوک کی وجہ سے لوگ آہستہ آہستہ موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ شامی فوج میں ایک سارجنٹ ابراہیم عباس کا کہنا ہے: ”کوئی مرد ہو، عورت ہو یا بچہ ،ہر کسی کا تقریباً 15 کلو وزن کم ہوگیا ہے۔ یہاں آپ کو کوئی ایسا بچہ نہیں ملے گا، جس کی آنکھیں بھوک کی وجہ سے اندر کو دھنسی ہوئی نظر نہ آئیں۔“ ایک عالمی سماجی تنظیم کے ایک کارکن کا کہنا ہے کہ میں نے ذاتی طور پر لوگوں کو بلیوں کو ذبح کرکے کھاتے دیکھا ہے، حتیٰ کہ درخت بھی پتوں سے خالی ہوگئے ہیں۔

شام ایک مبارک سرزمین ہے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں اس کی برکات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ اس سرزمین پر صحابہ کرامؓ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کے قدم پڑے ہیں۔ یہ سرزمین اللہ کے رسولوں کا ماویٰ ومسکن بنی رہی ہے۔ متعدد انبیاءکرام علیھم السلام کی قبور اسی ملک میں ہیں۔ شام حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں سلطنت اسلامیہ کے11 صوبوں میں سے ایک صوبہ تھا۔ 1616ءسے 1918ءشام خلافت عثمانیہ کا حصہ رہا۔ 2011 ءکے اوائل میں ، جب مشرق وسطیٰ میں حکمرانوں کے خلاف احتجاجی تحریکیں شروع ہوئیں تو اسے” عرب بہار“ قرار دیا گیا، جس کا دائرہ بڑھتا ہوا دمشق تک پہنچ گیا۔ یہ ”عرب بہار“ شام میں”عرب خزاں“ ثابت ہوئی، کیونکہ شام میں احتجاجی تحریک شروع ہونے کے بعد سے آج تک وہاں چہار سو موت کا راج ہے۔ شام کی اینٹ سے اینٹ بج چکی ہے۔ اس لڑائی میں بے گناہ عوام ہی مارے جارہے ہیں ۔ شام میں انسانیت زندگی کو ترس رہی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کس موڑ پہ اسے موت آ دبوچے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ شام میں ظلم و ستم کی شام ختم ہو کر کب امن و سکون کی صبح ہوگی؟
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701800 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.