باچا خان یونیورسٹی چارسدہ پر دہشت گرد حملہ

دہشت گردی کے واقعات واقعی ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔ پشاور کی سرزمین چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر ہونے والا دہشت گردی کا یہ حملہ 2016ء کا بڑا اور اہم سانحہ ہے ابھی ایک ماہ قبل ہی تو ہم نے 16 دسمبر2014ء میں ہونے والے آرمی پبلک اسکول کے سانحہ کی یادوں کے چراغ روشن کیے تھے۔ ان معصوم اسکول کے بچوں اور دیگر شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا تھا کہ دہشت گردوں نے ہمیں نئے سال میں ایک اور ذخم لگا دیا۔ اس بار دہشت گردوں کا نشانہ معصوم اور چھوٹے بچے نہیں تھے بلکہ یونیورسٹی کے طلباء تھے جو کچھ ہی وقت میں اپنی تعلیم سے فارغ ہوکر اپنے اپنے شعبوں میں ملک کی ترقی کا حصہ بننے والے تھے۔ یہ ہمارا قیمتی سرمایا تھے۔ یہ ہمارا مستقبل تھے۔ دہشت گردوں نے اس بار ہمارے بڑے بچوں کو نشانہ بنایا ہے ۔ خاموشی سے، چھپ کر، نہتے وہ بھی بچوں پر اس طرح کی کاروائی واضح کرتی ہے کہ دشمن خواہ کوئی بھی ہے وہ انتہائی بذدل، کمزور ، کوتاہ اندیش، سِفلہ، کم ظرف ، فرومایہ ہے تب ہی تو معصوم بچوں اورنہتے طلباء و طالبات کو چھپ کر نشانہ بنا تا ہے اور وہ یہ عمل مسلسل ایک دیہائی سے زیادہ عرصہ سے کیے چلا جارہا ہے۔ ہم ہر بار اس کے بذدلانہ فعل کی مذمت کرتے ہیں، حوصلہ دینے کے رسمی جملوں سے ذخموں کو بھر نے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔بلند بانگ دعوے کرنے والے کہ انہوں نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے، ان کے تمام ٹھکانوں کا پتہ لگا لیا ہے، ان کا انفرااسٹرکچر تباہ کردیا ہے ۔کیا یہ سب کچھ زباسنی کلامی ہی ہے؟ شہید ہوجانے والوں کی ماؤں ،بہنوں ، بیٹیوں اور دیگر اہل خانہ سے کوئی پوچھ کر دیکھے کہ ان پر کیا گزررہی ہے۔ ہم آپ ہمدردی کے دو بول بول کر، دوصفحات کا ایک کالم لکھ کر یا برقی میڈیا پر غم زدہ منہ بنا کر افسوس کر اظہار کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض پورا کردیا۔شہیدوں کے لواحقین زندگی بھر اس امید پر اپنے آپ کو تسلی و تشفی دے رہے ہوتے ہیں کہ شاید ہماری حکومت اور ہمارے ذمہ داران اس بار کوئی ایسی حکمت عملی اختیار کر لیں جس کے نتیجے میں آئندہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی نہ ہو اوردہشت گرد اپنے انجام کو پہنچ جائیں لیکن ہر چیز کی کوئی حد اور کوئی انتہا ہوتی ہے۔ ناکامی اور کیا ہے، مجبوری کسے کہتے ہیں یہی تو ہے ۔ افسوس صد افسوس ہم اپنے آپ کو دنیا میں بڑے اسلامی ملک کو طور پر اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں، ہم ایٹمی قوت بھی ہیں،جمہوریت کے راگ الاپتے نہیں تھکتے ، طاقت ورترین ہماری افواج ہے، ہمارا نظام جدید اور اعلیٰ ہے لیکن ہمارا عمل کیا بتا رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکہ کا صدر جاتے جاتے سچ بول کر جارہا ہے کہ ’پاکستان کے کچھ حصوں میں آنے والی کئی دہائیوں تک بد امنی جاری رہے گی‘۔اوباما کے اس جملے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ سوچ بچار کی ضرورت ہے اور اس کا یہ عمل تحقیق طلب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکہ کو ہمارے مستقبل کا علم ہے یا پھر یہ جو کچھ دہشت گردی ہورہی ہے پاکستان دشمن قوتوں یا دہشت گردوں کے تانے بانے امریکہ سے تو کہیں نہیں مل رہے۔پڑوسی دشمن جس سے آج کل تعلقات گرم نہیں بلکہ سرد اور خوشگوار سے ہیں پر ہے تو دشمن ، اس پر اعتماد کرنا ، بھروسہ کرنا نادانی ہے۔ کہیں یہ سانحہ پٹھان کوٹ کا ردِ عمل تو نہیں۔تحقیقاتی عمل میں اس پہلو کو نظر نہیں کرنا چاہیے۔ باوجود اس کے کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندد مودی نے اس واقعہ پر افسو س اور دکھ کا اظہار کیا ہے ۔افغانستان بھی ہمارا پڑوسی اسلامی ملک ہے۔ بتا یا گیا ہے کہ دہشت گردوں کے پاس افغانستان کی سمز تھیں اور ایک دہشت گرد کے مرنے کے بعد بھی اس کے فون پر افغان سم سے کالیں آرہی تھیں۔ یہ بات واضح ہے کہ دہشت گردوں کا مرکز افغانستان ہے۔ وہاں سے بیٹھ کر کاروائیاں ہورہی ہیں۔

کہا جارہا ہے کہ چار دہشت گرد یونیورسٹی کے عقبی دیوان کے اوپر لگے خار دار دار وں کو کاٹ کر کیمپس میں داخل ہوئے۔ ان کا اصل ہدف جامعہ میں ہونا والا مشاعرہ تھا جس میں 600 کے قریب مہمان موجود طلباء کی تعداد 3000ہزار کے قریب تھی۔ وہ اپنے ہدف مشاعرہ گاہ نہیں پہنچ سکے ، ایڈمنسٹریشن بلا ک اور طلبہ ہاسٹل تک ہی پہنچے تھے کہ جامعہ کی سیکیوریٹی گارڈ اور انتہائی مختصر وقت میں پاک فوج جائے وقوعہ پر پہنچ گئی اس نے ان دہشت گردوں کو ان کے ہدف تک پہنچنے ہی نہیں دیا۔ اگر مشاعرہ شروع ہوچکا ہوتا اور مہمان و طلباء و اساتذہ وہاں موجود ہوتے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نقصان کس قدر زیادہ ہوتا۔ اﷲ تعالیٰ نے اس سے محفوظ رکھا لیکن جو نقصان ہوا وہ کیا کم ہے۔ اس کا جس قدر غم کیا جائے کم ہے۔ اس سانحہ میں طلبہ کے علاوہ ایک پروفیسرڈاکٹر حامد حسین نے کی بھی شہادت ہوئے۔ ایک ذخمی طالب علم کہا کہنا ہے کہ جیسے ہی گولیا چلنے کی آواز آئی سر حامد نے طلبہ کو کمرہ میں رہنے کی ہدایت کی اور خود پستول اٹھائے گولیا چلا کر دہشت گردوں کو طلبہ سے دور رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ اسی اثنا میں دہشت گردوں نے انہیں گولیوں کا نشانہ بنا یا اور وہ نیچے گر گئے اور جام شہادت نوش کیا۔ ڈاکٹر حامد حسین نے برطانیہ کی برسٹل یونیورسٹی سے شعبہ کیماء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی ، ان کا تعلق صوابی سے تھا ۔ ان کا تین سالہ بیٹا حاشر حسین ہے۔ڈاکٹر حامد نے شہادت نوش کر کے استاد کا سر فخر سے بلند کردیا ہے، انہوں نے قربانی کی اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔ڈاکٹر حامد نے یہ ثابت کردیا کہ استاد کی نظر میں اس کے طالب علم اس کے اپنے بچوں کی طرح ہیں ۔ وقت آنے پر وہ ان کی حفاظت اسی طرح کرتا ہے جس طرح اپنے بچے کی کرتا ہے۔ سانحہ آرمی اسکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی اور ایک استاد نے بھی اپنے اسکول کے بچوں کی جان بچاتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا۔ ڈاکٹر حامد کے علاوہ شہادت نوش کرنے والے جامعہ باچا خان کی لائبریری کے اسسٹنٹ لائبریرین افتخار بھی ہیں۔ افتخار نوجوان تھے تین روز قبل ان کی شادی ہونے والی تھی۔ شہید ہونے والوں کی تعداد 25 بتائی جارہی ہے جب ذخمیوں کی تعداد 60سے اوپر ہے۔جب کہ چاروں دہشت گرد بھی مارے گئے ۔

پاکستان ایک دیہائی سے زیادہ عرصہ سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اب تک55 ہزار سے زیادہ لوگ دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں اور ایک کھرب ڈالر سے زیادہ کا مالی نقصان ہوچکا ہے۔ دہشت گردی کی لپیٹ میں پاکستان ہی نہیں دنیا کے بے شمار ممالک حتیٰ کے امریکہ جیسا بڑا ملک بھی دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ کچھ ممالک دہشت گردوں سے مقابلہ کرتے کرتے اپنی معیشت کو تباہ و بر باد کر چکے ہیں ۔ دہشت گردی کا باقاعدہ آغاز نائن الیون کے بعد شروع ہوا۔امریکہ میں رونما ہونے والا9 ستمبر2001ء کا واقعہ دہشت گردی کا نقطہ آغاز کہا جاسکتا ہے۔جسے9/11 کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔نائن الیون کے بعد پاکستان میں دہشتگردی کے بے شمار واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2003ء سے 2015ء کے درمیان 55900 سے زیادہ پاکستانی دہشت گردی کا نشانہ بنے، 2002ء سے 2015ء کے درمیان پاکستان میں کل415 خود کش حملے ہوئے ، مجموعی طور پر6000 بم دھماکے ہوئے۔ ایک سروے کے مطابق ان سالوں کے درمیان ملک بھر میں6104 خود کش حملے اور دھماکے ہوئے ۔ مختلف بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں جام شہادت نوش کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے۔28اکتوبر2001 ء میں بہاولپور میں چرچ پر حملہ ، بے نظیر بھٹو پر ہونے والا حملہ ،کراچی میں سابق گورنر معین الدین حیدر کے بڑے بھائی احتشام الدین حیدر گولیوں کا نشانا بنا یا جانا، کوئٹہ میں بلیرڈ ہال دھماکہ، پشاورمارکیٹ بم حملہ ، 8 جون شیعہ زائرین کی بس ایران سے کوئٹہ آتے ہوئے بس پر حملہ ہوا، اسی روز کراچی ائر پورٹ پر دہشت گردوں کے ہاتھوں 30 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتادیا گیا،2 نومبر واگہہ بارڈر پر خود کش حملہ، صفورہ چورنگی کراچی میں بس پر حملہ، لیکن16 دسمبر2014ء کی صبح رونما ہونے والا دہشت گردی کا واقعہ اپنی نوعیت کا شاید پہلا واقعہ تھا جس میں دہشت گردوں نے معصوم بچوں ، اسکول کے پرنسپل، اساتذہ اور دیگر لوگوں کو نشانہ بنا یا۔سات دہشت گرد بھی افواج پاکستان کے ہاتھوں مارے گئے۔ یہ دن ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا ۔دل کو ہلا دینے ، خون کو گرمادینے ، دماغ کو ماعوف کردینے والا دن۔ آرمی پبلک اسکول پشاورکے معصوم پھولوں کو دہشت گردوں نے بے دردی، سفاکی اور بے رحمی سے خون میں نہالا دیا۔132 معصوم بچے اوردیگر 9 افراد شہید کر دیئے گئے۔ایک ماہ قبل ہی ہم نے اس واقعہ کے ایک سال گزرجانے کی یاد تازہ کی اور شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا تھا ۔ ہم نے دیگر دہشت گردی کے واقعات سے کیا سبق حاصل کی؟ کیا حکمت عملی اپنائی؟ کیا منصوبہ بندی کی؟نیشنل ایکشن پلان پر کس قدر عمل درآمد ہوا، بلند بانگ دعووں، بہادری کے بیانات، منصوبے کاغذوں پر تو ضرور بنائے گئے لیکن عمل کہی نظر نہیں آیا جس کا نتیجہ 20جنوری کوپاکستان کے دشمنوں ،دہشت گردوں نے خیبر پختونخواہ کے شہر چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی کے طلباء، اساتذہ اور عملے کو نشانا بنایا۔

ضرور ت اس امر کی ہے کہ سیاسی اور عسکری قوتیں سنجیدگی کے ساتھ دہشت گردی کے اس ناسور کا سدِ باب کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں۔ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جا ئے۔ اشارے اس جانب کیے جارہے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل درآمد نہیں ہورہا۔ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی ضروری ہے، شواہد اور بے شمار دہشت گرد گرفتار بھی کیے جاچکے ہیں۔ آخر ان تمام ثبوتوں کی روشنی میں اصل حقائق کیوں سامنے نہیں آرہے۔ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ اس طرح کے حملوں کو روکنا جس میں خود کش حملہ آور اپنی جان دینے کامصمم ارادہ کرچکا ہو کو روکنا مشکل ہوتا ہے۔ دہشت گردی کی وجوہات اور دہشت گردوں کے سربراہوں، اداروں اور تنظیموں کے خاتمے کے بغیر دہشت گرد حملے بند نہیں ہوں گے۔ جب سب کچھ معلوم ہوگیا کس نے بھیجا ، کہاں سے کنٹرول ہوا تو پھر دہشت گردوں کے سرغناؤں تک پہنچنے میں کیا قباہت ہے۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1287902 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More