ایک اور دہشت گرد حملہ،ایک اور سانحہ جو قیامت برپا کر گیا ۔ جو درجنوں
ماوں کے کلیجے چھلنی کر گیا۔جو پوری قوم کو دکھی اور غمزدہ کر گیا۔ جس سے
ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل زخمی ہو گیا۔وطن عزیز کے چپہ چپہ کی فضا سوگوار
ہو گئی۔ حادثہ ہی کچھ ایسا ہے ۔باچا خان یونیورسٹی جہاں تشنگان علم اپنی
علمی پیاس بجھانے کے لیے موجود تھے دہشت گردوں کی سفاکیت کی نذر ہو گئے۔ دل
دہلا دینے والے دہشت گردی کے اس اندوہناک واقعہ میں دہشت گردوں نے دو درجن
کے قریب معصوم اور بے گناہ طالب علموں کو ایک گوہر نایاب پروفیسر حامد حسین
سمیت جو علم و تحقیق کے بے تاج بادشاہ تھے سے زندگی کی بازی چھین
لی۔برطانیہ سے اعلیٰ تعلیمی ڈگری حاصل کرنے والے پروفیسر حامد حسین دو بچوں
کے باپ تھے انہوں نے اپنے لخت جگر کی زندگی کے ابھی تین سال ہی دیکھے تھے
کہ دہشت گردوں نے علم کے اس چراغ کو گل کر دیا۔اور دو ننھے پھولوں کے سر سے
شفیق باپ کا سایہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھین لیا۔ علاوہ ازیں دہشت گردوں کے
حملہ میں دو سیکیورٹی گارڈز سمیت بیس سے زائد افراد زخمی ہیں جنہیں طبی
امداد کے لیے ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے جہاں وہ زیر علاج ہیں ۔محو خیال ہوں
کہ قوم کب تک ایسے حادثات اور سانحات کے مناظر دیکھتی رہے گی۔وطن عزیز کے
نو خیز معمار کب تک ان وحشیوں کے جنون کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے ۔ارض وطن کی
سوگوار فضا کب تک دل سوز نغموں سے گونجتی رہے گی۔غربت کے لباس میں لپٹا
میرا وطن کب تک اپنے ناکافی وسائل دہشت گردی کی بھٹی میں جھونکتا رہے
گا۔پاک فوج کب تک اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے قوم پر حفاظتی سائبان
تانتی رہے گی ۔ کب تک ان درندوں کا مقابلہ کرتی رہے گی ۔کب تک ہماری آنکھوں
میں خوف کے سائے منڈلاتے رہیں گے ۔کب تک سیاستدان مذمتی بیان جاری کرتے
رہیں گے۔ کب تک متاثرین کو طفل تسلیوں سے بہلایا جاتا رہے گااور انتظامی نا
اہلی کی پردہ پوشی کی جاتی رہے گی۔مسلہ ایک اور بھی درپیش ہے یہ سوال کریں
تو کس سے کریں۔حکومت کے ہر قدم سے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ اس عفریت کو
جڑ سے اکھاڑنے کے لیے بے چین ہے ۔ دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے ضرب عضب
جاری ہے جس کو پوری قوم کی حمایت حاصل ہے ۔پولیس،رینجرز اور قانون نافذ
کرنے والے اداروں کی قربانیوں سے بھی اخبارات کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔پاک
فوج بھی ان گنت اور لازوال قربانیوں کی داستان رقم کر چکی ہے اور ہر پل،ہر
لمحہ چوکس و مستعد اپنے فرائض منصبی نہایت احسن انداز میں ادا کرنے میں مگن
ہے۔سیلاب کی تباہ کاریاں ہوں یا دشمن کی سیاہ کاریاں۔ ہمہ وقت اپنی خدمات
عوام الناس کے لیے وقف کیے ہوے ہے ۔پولیس سے بھی گلہ کیا کریں۔ تربیت یافتہ
ہے نہ ہی دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے میں ماہر۔ پھر بھی اپنے تئیں کچھ نہ
کچھ کرتے دکھائی دیتی ہے ۔ ہزاروں پولیس اہلکار بھی اس آگ میں جل چکے
ہیں۔سب حب الوطنی کی چادر اوڑھے قربان ہو رہے ہیں ۔پھر کیا وجہ ہے کہ ہم ان
مٹھی بھردہشت گردوں کے ہاتھوں بے بس ہیں بات در اصل یہ ہے کہ ہم اپنا حقیقی
دشمن پہچاننے میں ناکام ہیں۔دشمن اس مہارت سے چال چل رہا ہے کہ ہم اس کی
چال کا توڑ کرنے سے قاصر ہیں۔
پاکستان کو اس جانب توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے کہ جب بھی ہندوستان میں دہشت
گردی کی کوئی کاروائی ہوتی ہے تو اس کے فوری بعد پاکستان کی سرزمین دہشت
گردوں کی کاروائیوں سے کیوں گونج اٹھتی ہے۔اور عمومی طور پر ان وارداتوں
میں نشانہ عام شہری بنتے ہیں جس میں بالخصوص تعلیمی ادارے شامل ہیں اور پھر
تحقیق کی روشنی میں ان دہشت گردوں کے تانے بانے افغانستان کے دہشت گردوں سے
جا ملتے ہیں جہاں پاکستان کے تفتیشی ادارے غیر موثر ہو جاتے ہیں اور بال
افغانستان حکومت کی کورٹ میں چلی جاتی ہے جو شاید خود دہشت گردی کے عذاب
میں اس قدر گھری ہوئی ہے کہ ان معاملات کو سلجھانے کی اہل نہیں ہے ۔اور
دوسری جانب گزشتہ کچھ سالوں سے افغانستان میں بھارتی اثرورسوخ بھی کسی سے
پوشیدہ نہیں ہے ۔ اگر دہشت گردوں کے رابطوں کی تحقیق اپنے منطقی انجام کو
پہنچ پائے تو واضح دکھائی دے گا یہ روابط براستہ افغانستان سیدھا ہندوستان
کی دہلیز تک جاتے ہیں ۔ اور ان دہشت گرد حملوں کی اصل محرک را ہے جس نے
پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری سرد مہری کا فائدہ اٹھاتے ہوے پہلے
افغانستان میں قدم جمائے اور وہاں دہشت گردوں سے روابط استوار کیے اور اب
جب چاہتے ہیں اپنے ان کارندوں کے ذریعہ پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں
کرواتے ہیں اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ماضی میں
متعدد مرتبہ پاکستان نے ہندوستان کی مذموم کاروائیوں کے ثبوت غیر ملکی
طاقتوں کو مہیا کیے ہیں جن میں امریکہ سر فہرست ہے لیکن اس مسلہ کا کوئی
مناسب حل تجویز نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان تا حال ہندوستانی ریشہ دوانیوں
کا شکار ہے ۔
پاکستان کو جہاں ہمسیایہ ممالک سے بہتر تعلقات کی ضرورت ہے وہیں بھارت جیسے
ازلی دشمن کی چالوں،سازشوں اور کرتوتوں سے بھی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے
۔کیونکہ تاریخ گواہ ہے بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا کوئی بھی موقع
ضائع نہیں کرتا ۔ اب خیبر پختونخواہ میں ہونے والے حالیہ دہشت گردی کے دو
دلخراش واقعات کی کڑیاں بھی افغانستان کے ذریعہ ہندوستان میں جا ملتی ہیں
اس لیے پاکستان کو اندرونی شر پسند عناصر کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ سرحد
پار دشمن کی سرگرمیوں پر بھی گہری نگاہ رکھنی چاہیے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ
ہندوستان دوستی دشمنی کی آنکھ مچولی میں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا
کھیل کھیلتا رہے اور ہم دوستی کے گیت ہی گاتے رہیں۔ہر با شعور پاکستانی کی
خو اہش ہے کہ ہندوستان سے برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات ہونے چاہییں
لیکن اگر بھارت پاکستان سے متعلق اپنے دل سے کدورت،نفرت اور کینہ دور نہ
کرے تو پاکستان یہ رویہ کب تک برداشت کرے گا۔ ان حالات میں بھارت سے دوستی
نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ابن رضا کے چند اشعار حاضر خدمت ہیں۔
ارض وطن پہ خوں کے دریا بہا رہے ہیں
یہ کون ہیں درندے اور کیوں ستا رہے ہیں
معصوم اور نہتے لوگوں پہ وار کر کے
کیا سسکیوں سے دیکھو وہ حظ اٹھا رہے ہیں
آئے کوئی مسیحا لاٹھی خد ا کی بن کر
کوئی تو ان کو روکے کیا ظلم ڈھا رہے ہیں
مستی میں ڈوبے لوگواجڑے گھروں میں جا کر
دیکھو کہ لوگ کیسے آنسو بہا رہے ہیں |