’’تیرے جلوے کا ہے جادو کہ خود تُو ہے جادو
رُوح بیتاب ہوئی کہ کیا ہے یہ جادو جادو
تُو جو آئے تو بنا برکھا ، بنے قوس قزح
اور اُٹھے سوکھی ہوئی مٹی سے خوشبو جادو
میں نے تاریکی شب میں اِنہیں دیکھا اُڑتے
کہکشاؤں کی طرح کرتے تھے جُگنو جادو
مجھ کو تاریک جہاں میں بھی نظر آئے رنگ
خوش گمانی کا کرے مجھ پہ وو خوش رو جادو
اس کو دیکھوں تو حسین لگتی ہے ہر چیز ندیم
ایسا لگتا ہے کوئی کر گیا ہر سُو جادو‘‘
آپ سوچ رہے ہونگے کہ یہ جادو جادو کیا ہے تو یہ جادو جادو گری والا جادو
نہیں ہے بلکہ خالق کائنات کی تخلیق کا جادو ہے جو بلا شبہ کسی کو بھی اپنی
گرفت میں کر لیتا ہے ایسے ایسے نظارے کہ بندہ سحر زدہ مقام میں کھو جائے جی
تو اصل بات یہ ہے کہ چند دن پہلے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں سیر و
سیاحت کرنے کا موقع نصیب ہوا ہم پانچ دوستوں نے بذریعہ ریل کار لاہور سے
راولپنڈی کی راہ لی رات کا سفر تھا سو کچھ سو کے گزرا کچھ جاگ کر سوائے
گھٹا توپ اندھیرے میں چاند کی چمکتی چاندنی کے کچھ دکھائی نہ دیتا تھا
پاکستان کی بہترین ریل سروس کی بدولت ہم ٹھیک چار گھنٹوں میں راولپنڈی پہنچ
گئے صبح کا ناشتہ کرنے کے بعد وہاں سے لوکل وین میں سوار ہو کر مری کی جانب
رواں دواں ہو گئے راستے میں قدرت کو بڑی قریب سے دیکھنے کا موقع میسر آیا
دُھلا ہوا نیلگوں آسمان، اُونچے اُونچے چیڑ،شاہ بلوط، دیودار اور الماس کے
پیڑ، سر سبز و شاداب وادیاں، پرندوں کی چہچہاہٹ، ندیوں کی سُریلی آوازیں ،
تازے پانی کے اُبلتے چشمے گویا ہر سمت سراپا حُسن مگر یہ بات بھی بالکل سچ
ہے کہ حُسن ہمیشہ سے خطرناک رہا ہے کوئی ہے جو اس کے سحر سے بچ گیا کئی
مقامات پر تو ہم خود حُسن کو دیکھتے دیکھتے کھائی میں گرنے سے بال بال بچے
مری پہنچ کر ہماری اگلی منزل ایوبیہ تھی (ایوبیہ مری سے 26 کلو میٹر کی
دُوری پر صوبہ خیبر پختونخواہ میں سطح سمندر سے 8000 فٹ کی بلندی پر واقع
ہے جو کہ پاکستان کے دوسرے صدر محمد ایوب خان صاحب کے نام پر موسوم ہے)
جہاں پر برف باری کا نظارہ کرنا تھا چنانچہ سب سے پہلے اپنی رہائش کا
انتظام ایک ہوٹل میں کیا ضروری چیزیں اپنے ساتھ لیں اور مری سے ایوبیہ جانے
کے لئے کیری ڈبہ بمعہ ڈرائیور کی خدمات حاصل کیں ڈرائیور صاحب پُر خطر
ڈرائیونگ کے ساتھ ساتھ ہماری رہنمائی بھی کرتا رہا ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے
بعد ہم مری سے ایوبیہ پہنچ گئے جہاں ہر طرف پہاڑوں نے برف کی سفید چادر
اوڑھی ہوئی تھی دُور وادیٗ کشمیر کا جنت نظیر نظارہ آنکھوں کو خیرہ کر رہا
تھا ہر طرف اک سکوت سا تھا گویا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہم کسی اور ہی
دُنیا میں گھوم رہے ہیں کچھ دیر لُطف اندوز ہونے کے بعد ہم نے واپس مری کا
رُخ کیا اور آفتاب غروب ہوتے ہی مری کے مال روڈ پر مٹر گشت کے لئے نکل کھڑے
ہوئے ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بادِ شب نے ہم میدانی لوگوں کے قدم
اُکھاڑ دیے اور ہمیں رات بسر کرنے کے لئے واپس ہوٹل جانا پڑا چائے پینے کے
بعد ایسے بستر پر پڑے کہ صُبح آنکھ کھُلی نہا دھو کر ناشتے کی میز پر پیٹ
کو بھرا بازاری چائے کی چُسکی لی اور اگلی منزل پٹریاٹہ(پٹریاٹہ جو کہ نیو
مری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے مری سے 15 کلو میٹر کی مسافت پر سطح سمندر
سے 7500 فٹ بلندی پر واقع ہے) کے لئے کمر کَس لی چند ڈرائیور حضرات سے گفت
و شنید کے بعد مری سے پٹریاٹہ کا کرایہ طے پایا اور ہم روانہ ہو گئے
پٹریاٹہ کی جانب جہاں ہمارا سب سے پہلا کام چیئر لفٹ کی ٹکٹیں لینا
تھاکیونکہ بعض ہمسفروں نے مشورہ دیا تھا کہ چیئر لفٹ کی ٹکٹ لینے کے لئے
خاصا انتظار کرنا پڑتا ہے اس لئے پہلی فرصت میں ٹکٹ خرید لی جائیں چنانچہ
ہم نے وقت ضائع کئے بغیر چیئر لفٹ کی ٹکٹ خریدیں اور پھرپاکستان کی پہلی
بڑی چیئر لفٹ میں سوار ہو گئے( جو کہ 7 کلو میٹر یکطرفہ لمبائی پر محیط تھی
جس کا آدھا راستہ دو سواروں والی چیئر لفٹ اور آدھا حصہ آٹھ سواروں والی
کیبن کار پر مبنی تھا اور جس کا افتتاح 1990 ء میں اُس وقت کے وزیر اعلیٰ
پنجاب جناب میاں محمد نواز شریف نے کیا تھا ) بڑا دلچسپ نظارہ تھا اطراف
میں فلک بوس پہاڑوں کی اُونچائیاں اور نیچے زمین دوز کھائیاں جو کہ جا بجا
چیڑ،دیودار اور شاہ بلوط کے پیڑوں سے ڈھکی جاتی تھیں کچھ دیر یونہی پہاڑوں
سے اٹھکھیلیاں کرتی کیبل کار نے ہمیں ہماری منزل مقصود تک پہنچا دیا جہاں
سے ہم نے پا پیادہ سفر باندھا اور کشمیر پوائنٹ کی آخری چوٹی پر پہنچ گئے
(کشمیر پوائنٹ دو ہیں ایک مری کے مال روڈ پراور دوسرا پٹریاٹہ میں جہاں سے
کشمیر کی سفید پوش پہاڑیوں کا نظارہ کیا جاتا ہے) چند لمحے ان پُر فضاء
مقام پر گزارنے کے بعد آخر ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا۔بلا شبہ جہاں خالق
کائنات کی کاری گری کے بہترین نمونے دیکھے وہیں اشرف المخلوقات کی نوسر
بازی کے گُر بھی دیکھے سب سے پہلا گُر تو ہمیں ہوٹل بُک کرواتے ہوئے حاصل
ہوا جہاں ہوٹل ایجنٹ نے ہمیں وین سے اُترتے ہی ایسے لپکا جیسے لاہور میں
رکشہ والے لپکتے ہیں (کچھ بھی کر لو کہیں بھی چلے جاؤ لہور لہور اے) ایجنٹ
نے ہمیں تھری سٹار ہوٹل کے خواب دکھا کر بُکنگ کروالی ہم بھی خوشی خوشی
سامان اُٹھائے کمرے میں داخل ہوئے یہ ادراک ہم پر بُکنگ کے بعد کُھلا کہ
کمرے میں صرف ایک بیڈ ہے تین بندوں کے لئے چنانچہ بحث کے بعد ہمیں سونے کے
لئے ایک میٹرس بمعہ زمین مہیا کر دیا گیا گیس ہیٹر کی بابت بھی جھوٹ بولا
گیا ہیٹر تو در کنار گرم پانی کا انتظام بھی صرف دن کے اوقات میں صبح7 سے
12 تک بذریعہ بالٹی تھا لہذا شام کے اوقات میں ہم نے باتھ روم جانے سے گریز
ہی کیا۔ دُوسرا گُر ہم نے کیری ڈبے والے سے سیکھا جس نے ہم انجان لوگوں کو
پرستان کی سیر کروانے کے عوض 2200 روپے سکہ رائج الوقت طے کیا جس میں
شانگلہ گلی، گھوڑا گلی، دریا گلی، خیرہ گلی سے ہوتے ہوئے ایوبیہ تک جانا
تھا لہذا خوشی خوشی سوار ہوئے اور کچھ ہی دُوری طے کرنے کے بعد ایک پوائنٹ
پر بریک لگا دی گئی اور کہا گیا کہ دس منٹ اس پوائنٹ پر سیر کر لو اک تجسس
کے تحت وین سے اُترے مگر دائیں بائیں آئیں شائیں سوائے کالے کووں کے کچھ
نہیں تھا سو وقت ضائع کئے بغیر دوبارہ سفر شروع کیا پہلے پوائنٹ کی طرح ایک
ہی راستے میں مختلف پوائنٹ آتے گئے ہم اٰترتے رہے سوار ہوتے رہے اندازہ
ہمیں اپنی آخری منزل ایوبیہ جا کر ہوا کہ مری سے ایوبیہ تک کا سفر صرف 26
کلو میٹر پر محیط ہے جس کے عوض ہم نے آنے جانے کے 2200 روپے دے دیے خیر پھر
ڈرائیور سے پنڈی پوائنٹ اور کشمیر پوائنٹ دکھانے کی بابت دریافت کیا تو
معلوم ہوا کہ وہ تو مری کے مال روڈ پر واقع ہے اور وہ ہمیں مزید پیسے لئے
بغیروہاں قریب اُتار دے گا ہم سب ڈرائیور کی اس دریا دلی سے خوش ہوئے اور
واپسی مری کی راہ لی پون گھنٹے میں ہمیں اُس جگہ اُتار دیا گیا جہاں سے ہم
سوار ہوئے تھے بقول شاعر!
’’لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے‘‘
ساتھ ہی ڈرائیور صاحب کی ڈائریکشن کہ یہاں سے سیدھے ہاتھ پیدل جائیں آگے
پنڈی اور کشمیر پوائنٹ آ جائے گاسو ہمیں غُصے کے ساتھ ساتھ اپنی بے وقوفی
پر ہنسی اور ڈرائیور کی چالاکی پر رشک آ رہا تھا۔ تیسرا گُر ہم نے پھر وین
والے سے سیکھا مگر اب کی بار دوسرے گُر سے کچھ استفادہ کیا اور لوکل وین پر
مری سے پٹریاٹہ جانے کا پروگرام بنا جس کے مطابق 150 فی کس کرایہ ویگن والا
وصول کرے گا سوویگن میں سوار ہو گئے کچھ دیر انتظار کیا پر ویگن نہ چلی سو
ویگن سے اُتر کر کرولا کار والے سے بات کی جس نے یکطرفہ 1000 روپے کرایہ
مانگا چنانچہ وقت بچانے کی خاطر معاہدہ طے پا لیا اور روانہ ہو گئے اگلی
منزل کی جانب منزل پر پہنچ کر پتہ چلا کہ مری سے پٹریاٹہ کا سفر صرف 13 کلو
میٹر پر محیط ہے اور ایک مقامی بندے نے بتایا کہ مری سے پٹریاٹہ کا لوکل
کرایہ صرف 30 روپے فی کس ہے!
’’زخم کھانے سے یا کوئی دھوکہ کھانے سے ہوا
بات کیا تھی میں خفا جس پر زمانے سے ہوا
میں غلط یا تم غلط تھے چھوڑو اب اس بات کو
ہونا تھا جو کچھ وہ جیسے اک بہانے سے ہوا‘‘
ایک بات جو یہاں بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ مری سے ایوبیہ کے سفر کے دوران
جونہی ہم نے پنجاب کی آخری حد پار کی اور صوبہ خیبر پختونخواہ کی سرحد میں
داخل ہوئے ایک نمایاں تبدیلی محسوس کی جس کا نعرہ اکثر سُننے کو ملتا ہے
تبدیلی یہ تھی کہ سڑک خستہ حال اور اطرافی تنبیہی بورڈوں سے بے زار تھی سڑک
کنارے لگے حفاظتی بندھ جا بجا جگہوں سے غائب تھے بعض جگہ پر ریفلیکٹر سِرے
سے ہی موجود نہیں تھے جس کی بناء بڑے حادثات رونما ہونے کا خطرہ درپیش ہے
اس لئے یہاں پر میں خیبر پختونخواہ ٹورازم کارپوریشن، پنجاب ٹورازم
ڈویلپمنٹ کارپوریشن اور وزیر اعلیٰ پنجاب، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ اور
وزیر اعظم پاکستان سے اپیل کرتا ہوں کہ پاکستان بہت خوبصورت ملک ہے مگر
یہاں پر سیاحت کا فقدان ہے سیاحت کے نام پر سیاست کی جارہی ہے سیاحتی
علاقوں کو سیاست سے دور رکھیں اور فوری طور پر سیاحتی مقامات کی از سر نو
بحالی کے لئے کوئی لائحہ عمل طے کریں اور یہ جو سرحدوں کی حد بندیاں ہیں ان
کو دوسرے ممالک تک ہی محدود رکھیں تو بہتر ہے یہاں پر پاکستانی سیاحت کو
فروغ دیا جائے نہ کہ صوبائی سیاحت کو اور اس کے ساتھ ساتھ جو مقامی لوگ من
مانے کرایے وصول کرتے ہیں جن کو پوچھنے والا کوئی نہیں اُن کو جرمانے کئے
جائیں اور لوکل ٹرانسپورٹ مہیا کی جائے تا کہ لوگ سستی تفریح حاصل کر سکیں
، وہاں کے اسی فیصد ہوٹلوں کی پانی کی ٹینکیوں کے ڈھکن نہیں ہیں جس کی وجہ
سے مختلف امراض لاحق ہونے کا اندیشہ رہتا ہے، پٹریاٹہ میں موجود کیبل کار
کا ٹکٹ 400 فی کس ہے جو کہ بہت زیادہ ہے اسے کم کر کے 200 روپے تک کیا جائے
تا کہ زیادہ سے زیاد ہ لوگ استفادہ حاصل کر سکیں، ہوٹلوں میں استقبالیہ پر
مہیا کردہ سروس کے مطابق ریٹ لسٹ بورڈ آویزاں کئے جانے کے ساتھ ساتھ اصول
وضع کئے جائیں جس کے تحت وہ مقررہ ریٹ سے زیادہ وصول نہ کر سکیں، سیاحوں کے
لئے گائیڈنگ سسٹم شروع کیا جائے جس کے تحت اندرون و بیرون ملک سے آنے والے
لوگ مکمل رہنمائی حاصل کر سکیں اس کے علاوہ سیاحتی مراکز پر ششماہی بنیادوں
پر سیاحتی و ثقافتی میلوں کا انعقاد کیا جائے تا کہ لوگ بیرون ملک جانے کی
بجائے اپنے ملک کی آزاد فضاء میں بنا کسی روک ٹوک کے آسانی کے ساتھ سیر و
تفریح کر سکیں اور باہر سے لوگ پاکستان میں سیاحت کی غرض سے آئیں جس سے ملک
میں زر مبادلہ بھی آئے گا اور پاکستان کا تشخص بھی اُجاگر ہوگا آئیں ہم سب
مل کر اپنے ملک کی سیاحت و ثقافت کو فروغ دیں *** |