چین پاکستان اقتصادی راہداری ایک نظرمیں

ہم پاکستانی خو ش نصیب ہیں کہ مستقبل کی سپر پاور چین ہمارا بہت ہی اچھا ہمسایا، اور مخلص بھائی جیسا دوست ہے۔ اسے اگر ہماری کمزوریوں کا احساس ہے تو وہ ہماری جغرافیا ئی اہمیت سے بھی آگاہ ہے۔ چھیا لیس ارب ڈالر کی سرمایا کاری سے چین پاکستان اقتصادی راہداری ’’سی پی ای سی‘‘ کی مجو زہ تعمیر اسی سوچ کی عکاس ہے۔

لیکن بہت افسوس کا مقام ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت اس اہم ترین قومی منصوبے کو علاقہ پرستی اور تعصب کے بھینٹ چڑھا رہی ہے ۔ اس سلسلے میں اپنے طرز عمل سے نواز حکومت نے ثابت کیا ہے کہ ’ ’ وسط پنجاب مرکزیت ‘‘ پر مبنی جمہوریت یہ ماڈل چھوٹے صوبوں میں احسا س محرومی کو پروان چڑھانے کا سبب بن رہا ہے جو کہ اقتصادی راہداری کی تعمیر کے لئے خطر ناک ہے۔ منصوبے کے اصل نقشے میں خفیہ طور پر رد و بدل کر کے پختون خواہ اور بلوچستان سے گزرنے والی ’’مغر بی ر وٹ‘‘ کی بجائے وسطی پنجاب کا احاطہ کرنے والی’’ مشرقی روٹ‘‘ کو فو قیت دیکر نواز شریف حکومت، در اصل پاکستان کے وحدت اور فیڈریشن سے کھیل رہی ہے۔

یوں اس اہم ترین اقتصادی راہداری کے مختلف پہلو ؤں پر بات کرنا لازم ہے۔

اقتصادی راہداری منصوبے کی بنیاد :
2010 میں چین معیشت کے میدان میں عالمی سطح پر طاقتور ترین کھلاڑی بن گیا۔ تب چین نے اپنی تجارت کو دنیا بھر میں پھیلانے کا منصوبہ بنایا۔ دو سال بعد، 2012 میں چین کے ؂اس عالمی تجارتی منصوبے کی پوری تفصیل نقشوں سمیت منظر عام پر آگئی۔ کل سات راستے یا راہداریاں تعمیر ہونی ہیں۔ ان میں سے ایک راہداری کا تعلق پاکستان سے ہے۔ چین کی نظر میں اس راہداری کی بہت اہمیت ہے۔

چین کے پسما ندہ جنوبی علاقے:
چین کے جنوبی علاقے پاکستان کے گلگت بلتستان اور پختون خواہ سے ملحق ہیں۔ چین کے یہ علاقے اتنے ترقی یا فتہ اور خوش حال نہیں جتنے دیگر حصے ہیں۔ مسلم اکثریت پر مبنی یہ علاقے پسماندگی اور عدم استحکام کا شکار ہیں۔ چین کو معلوم ہے کہ اسکے جنوبی علاقوں میں جو دہشت گردی اور بد امنی پھیل رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ غربت اور پسما ندگی ہے۔ چین کی نظر میں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پختون خواہ اور بلوچستان کے چین سے ملحقہ علاقے بھی پسماندگی اور غربت کی وجہ سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا شکار ہیں ۔ چین اپنے جنوبی حصوں میں ا ستحکام ،خو ش حالی اور سکون کے ساتھ ساتھ ملحقہ پا کستانی علاقوں میں بھی استحکام اور خو شحالی چا ہتا ہے ۔ یوں اقتصادی راہداری کی تعمیر سے دونوں طرف کے غریب عوام کا ب فائدہ ہوگا۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری :
اقتصادی راہداری کی سڑک چین کے شہروں کاشغر اور زنجیانگ سے پاکستان کے گلگت، بلتستان، حسن ابدال ڈی آئی خان ، ژوب ، قلعہ سیف اﷲ، پشین ، کوئٹہ اور گوادر تک جا ئے گی۔ اس راستے کو ـ’’مغربی روٹ ‘‘کہا جاتا ہے۔ گوادر تا چین یہ زمینی را بطہ بذات خود اصل منزل نہیں بلکہ ترقی اور خوش حالی تک پہنچنے کا ’’راستہ ‘‘ ہے۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ چین کی سا لانہ بر آمدات ’’د و ٹریلین ڈالر‘‘ سے ذائد ہے۔ چین اس راہداری کے ذریعہ کم خرچے لیکن ذیادہ تیزی کے ساتھ دنیا بھر میں تجارت کرنا چا ہتا ہے۔
چین پاکستان میں اقتصادی راہداری کے سلسلے میں ’’چھیالیس ارب ڈالر ‘‘ کی سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے جس سے واقعی پا کستان کی تقدیر بدل جا ئے گی۔ یہ پا کستان کے لئے گیم چینجر پلان ہے۔ اس سے خو شحالی اور ترقی کا نا قابل یقین دور شروع ہو نے کا امکان ہے۔ شا ئد یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اور منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال پوری قوم کو بے وقوف بنا کر اصل نقشے میں من پسند رد و بدل کر کے’’ مغربی روٹ‘‘ کی ’’بجائے مشرقی روٹ‘‘ پر کام شروع کرا چکے ہیں۔

اقتصادی راہداری کے حوالے سے کچھ مفید معلومات اور ا سطلا حات کا ذکر بے جا نہیں ہوگا:
۱۔ اربوں روپے کی ٹرانزٹ فیس:
اگر چین اس اقتصادی راہداری کو اپنی ’’دو ٹریلین ڈالر‘‘ بر آمدات میں سے صرف پندرہ فیصد کے لئے بھی استعمال کرے تب بھی پاکستان کو ’’اربوں روپے ٹرانزٹ فیس ــــ‘‘ کی مد میں ملتے رہیں گے۔ اس سے پاکستان کی معیشت پر دور رس اور خو شگوار اثرات مرتب ہوں گے۔
۲۔مغربی روٹ :
ا قتصادی راہداری کی وہ سڑک جو چین کے سنکیانگ سے پختون خواہ کے گلگت، حسن ابدال ، میاں والی، ڈی آئی خان سے ہو کر بلوچستان کے ژوب ، قلعہ سیف اﷲ، پشین ، کوئٹہ اور گوادر بندرگاہ تک جائے گی۔
۳۔مشرقی روٹ :
گلگت بلتستان ، ایبٹ آباد، حویلیاں ، اسلام آباد، لاہور، فیصل آباد، ملتان، رحیمیارخان سے ہو کر سندھ کے سکھر، رتو ڈھیروسے بلوچستان گوادر ۔
۴۔ اقتصادی راہداری اور مشتر کہ مفادات کونسل:
پہلے مغربی روٹ بنے یا مشرقی ، آئین کے مطابق اس ایشو کا تعلق مشترکہ مفادات کی کونسل سے ہے لیکن نہ تو نواز شریف حکومت اور نہ ہی خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کی حکومتیں اس آئینی فورم کو استعمال کر رہی ہے۔ اس طرح راہداری کی تعمیر کے سلسلے میں نواز شریف حکومت کو من مانی کر نے کا موقع مل رہا ہے۔
۵۔چین بڑا بھائی یا پنجاب؟
ایک طرف چین کے مدبر لیڈرز ہیں جو پاکستانی قوم کے بارے میں ایک مخلص بڑے بھائی کے سے جزبات رکھتے ہیں ۔ وہ اربوں ڈالر خرچ کر کے جنوبی چین کے پسماندہ علاقوں کی ترقی کے ساتھ ساتھ گلگت، پختون خواہ اور بلوچستان کے پسماندہ اور ترقی سے نا اشنا عوام کو خو شحال اور ترقی کے دوڑ میں شامل کرنا چاہتے ہیں ۔ جبکہ دوسری طرف اسلام آباد کا تنگ نظر اور علاقہ پرست حکمران ٹولہ پختون خواہ اور بلوچستان کو خوش حال او ر آباد نہیں دیکھ سکتا۔ یہ ٹولہ اقتصادی راہداری کے منصوبے میں من پسند تبدلیاں کر کے پختون خواہ اور بلوچستان کے حق پر ڈاکہ ڈالنا چاہتا ہے۔

نواز حکومت انتہائی رازداری سے ’’مغربی روٹ ‘‘ کو نظر انداز کر کے ر اہداری کی سڑک کو وسطی پنجاب سے گزارنے کے لئے ’’ مشرقی روٹ ‘‘ پر کام شروع کر چکی ہے۔۔ اس طرح پختون خواہ اور بلوچستان کو ترقی سے محروم کرنے کا عملی مظاہرہ کوئی اور نہیں خود منتخب و زیر اعظم پاکستان انجام دے رہا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نوز شریف صرف وسطی پنجاب کے وزیر اعظم ہیں؟

اسی حوالے سے محترم نذیر ناجی صاحب اپنے نو جنوری کے کالم میں لکھتے ہیں ـ:
ــ’’ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں، چین کے اصل منصوبے میں بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کی تعمیر و ترقی کو، جنوبی چین کی ترقی سے منسلک کیا گیا تھا۔ لیکن اس منصوبے پر اسلا م آباد کے اجارہ دار قبضہ کر کے بیٹھ گئے۔ وہ اپنی مرضی سے بنیادی نقشے میں تبدیلیاں کر کے، خیبر پختون اور بلوچستان کو ماضی کی طرح پسما ندگی کے اندھیروں میں رکھنا چا ہتے ہیں۔ اور چین جو کثیر سرما یہ، ان دو صوبوں کی ترقی کے لئے دے رہا ہے ، اسکا غا لب حصہ خود کھا پی کر ہضم کرنا چاہتے ہیں‘‘۔

نواز شریف حکومت نے ’’مغربی روٹ ‘‘ کو چھوڑ کر وسط پنجاب سے گزنے والی ’’ مشرقی روٹ‘‘ پر کام کا آغاز زور و شور سے شروع کرا دیا ہے۔یہ دو چھوٹے صوبوں کے ساتھ بہت بڑا ظلم اور ذیادتی ہے جو پسماندگی اور غربت کا شکار ہیں۔ اگر اصل منصوبے کے مطابق اس راہداری پر چھ رویہ موٹروے بن جاتی ، جسکے ارد گرد ریلوے ٹریک، فا ئبر آفٹک اور صنعتی زون بھی بننے تھے تو اس سے دو صوبوں کے عوام کی تقدیر بدل جاتی۔

اس سلسلے میں بلوچستان اور خیبر پختوں خواہ کے نام نہاد قوم پرست اور مذہبی لیڈرز۔۔۔ اسفندیار ولی خان ،سراج الحق، فضل الرحمان، عمران خان، پرویز خٹک ، محمود خان اچکزئی اور سردار ثناء اﷲ ۔۔۔ بھی نواز شریف اور احسن اقبال کے ساتھ اس ظلم میں برابر کے شریک ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں نواز شریف حکومت کیساتھ شریک اقتدار ہیں۔ان میں سے کسی نے بھی’’ مغربی روٹ‘‘ کے لئے کوئی موئثر آواز اُٹھا ئی۔ ان سب نے اپنے عوام کی نمائندگی کا حق ادا نہیں کیا۔

جب میڈیا میں اس سلسلے میں خبریں آنا شروع ہوئیں اور پختون خواہ اور بلوچستان میں احتجاج شروع ہوا تو وزیر اعظم نے آٹھائیس مئی 2014 کو ’’آل پارٹیز کانفرنس‘‘ بلا لی۔ جس میں انھوں نے قوم کے سرکردہ سیاسی لیڈرز کے سامنے وعدہ کیا کہ اقتصادی راہداری کے ’’ مغربی روٹ ‘‘ پر فوری کام شروع کیا جائیگا۔لیکن ایک سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وزیر اعظم نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا۔ نواز شریف اور منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال نے قوم اور سیاسی لیڈرز کو بے وقوف بنایا۔ اس دوران وعدے کے مطابق نہ تو ’’مغربی روٹ ‘‘ کی فیزیبلٹی رپورٹ بنی ، نقشہ بنا اور نہ ہی فنڈز کا اعلان ہوا۔ ا یک بار پھر شدید احتجاج شروع ہوا۔ بے اعتمادی،کنفیوژن اور شکوک و شبہات کا طوفان اٹھا۔ میڈیا بھی چیخ پڑا ۔ چینی بھائی بھی پریشان ہو گئے۔ حتیٰ کہ چین کی حکومت کو کہنا پڑا کہ پاکستان کی حکومت اور سیاسی پارٹیاں ا قتصادی راہداری پر اتفاق رائے پیدا کرے۔

اسی بے یقینی اور بے چینی کی فضاء میں 15 جنوری 2016کو ایک بات پھر وزیر اعظم نواز شریف نے ــ ’’آل پارٹیز کانفرنس‘‘ منعقد کی ۔ جس میں وزیر اعظم نواز شریف نے ’ ’’مغربی روٹ ‘‘ سن 2018 تک تعمیر کرنے کا پھر سے وعدہ کیا اور اس کی تعمیر کے لئے فنڈز کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ لیکن اصل منصوبے کے مطابق چھ لین موٹر وے کی بجائے مغربی روٹ اب چار لین کی ایکسپرس وے بنے گی۔ سچ یہی ہے کہ گزشستہ دو سال سے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت اس عظیم قومی منصو بے کے سلسے میں مسلسل غلط بیانیوں اور اصل روٹ میں خفیہ طور پر تبدلیوں کی مرتکب ہو رہی ہے۔

اقتصادی راہداری منصوبے سے متعلق نقشہ سمیت ہر چیز خفیہ رکھی جا رہی ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس رازداری کی وجہ کیا ہے؟ پختون خواہ اور بلوچستان کے متعلقہ علاقوں کے نمائندوں اور وہاں کے عوام حق ہے کہ اگر یہ راہداری ان کے علاقوں سے گزرنی ہے ، اور وہاں صنعتی ذون بھی بننے ہیں تو پھر اس راہداری کی تعمیر کے نقشے انکے حوالے کیوں نہیں کئے جاتے؟ یہ رازداری نواز حکومت کی بد نیتی اور قوم کے ساتھ دھوکہ د ہی کی نشان دہی کر رہی ہے

عمران خان اور پرویز خٹک کی مجرما نہ غفلت:
عمران خان اپنے دھرنا والے دنوں میں اقتصادی راہداری کا مزاق ا ڑایا کرتے تھے۔ انہیں دنوں چین کے معزز صدر نے پاکستان آکر اس منصوبے سے متعلق معا ملات طے کرنے تھے لیکن دھرنے کی وجہ سے یہ دورہ کنسل ہوا جسکی سیاسی قیمت عمران خان اور پی ٹی آئی نے بدنامی صورت میں ادا کی اور آئیندہ بھی کرتی رہے گی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وزیر اعظم نواز شریف او ر منصوبہ بندی کے وزیر منصوبہ بندی ا حسن اقبال اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ میں تبدیلی کر کے پختون خواہ کے حق پہ ڈاکہ ڈال کر وسطی پنجاب کو نوازنے کے لئے مشرقی روٹ پر کام کرتے رہے تو عمران خان اور پر ویز خٹک کہاں تھے؟ وہ تو اس دوران پختون خواہ کے حکمران اور اس صوبہ کے حقوق کے نگہبان تھے اسکے با وجود وہ دو سال تک اس واردات سے بے خبر کیوں رہے؟ پختون خواہ میں پی ٹی ٓئی کی حکومت اتنی غافل اور نا اہل کیسے ہو سکتی ہے کہ وزیر اعظم کی پچھلے اے پی سی میں کئے گئے وعدے کے مطابق پختون خواہ میں جب مغربی روٹ کا آغاز ہی نہیں ہوا تو وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ا قتصادی راہداری منصوبے کے بجٹ سے ’’لاہور اورنج لا ئین ٹرین‘‘ پر کام کس طرح شروع کیا؟ بڑی خا مو شی مگر چا لاکی سے اس ٹرین پروجیکٹ کو چین پاک راہداری کے ساتھ جب زبردستی نتھی کیا جا رہا تھا تو پختون خواہ حکومت اس علاقہ پرستی اور شریف حکومت کی اس قوم پرستی کے خلاف آواز کیوں نہ اٹھا سکی؟ عمران خان اور پی ٹی آئی اس ایشو کو لیکر پارلیمنٹ میں کیوں نہیں گئے؟

اگرچہ اقتصادی راہداری کے حوالے حالیہ ’’اے پی سی‘‘ میں وزیر اعظم نے ایک با ر پھر پرویز خٹک، فضل الراحمان، سراج الحق، محمود اچکزئی اور دیگر رہنما ؤں کو مغربی روٹ کے تنازعے پر ایک موٹے سے شیشے میں اتار لیا ہے ۔لیکن حکومت اصل روٹ میں عملاََ رد بدل کر کے علاقہ پرستی ا ور ’’پنجابی اسٹیبلشمنٹ‘‘ کی بالادستی کے تصور کو مستحکم کرتی نظر آرہی ہے ۔ جس کی وجہ سے مستقبل میں کنفیوژن اور اختلافات کا ایک طوفان سا اُٹھتا نظر آ رہا ہے ۔

مستقبل قریب میں بلوچستان اور پختون خواہ کے پسماندہ ’’مغربی روٹ‘‘ کے باشندے جب ’’مشرقی روٹ‘‘ کے خو شحال علاقوں سے گزریں گے تو انکے احسا سات و جذبات احساس کمتری کے مارے بہت مجروح ہوں گے ۔
akbarkhan
About the Author: akbarkhan Read More Articles by akbarkhan: 10 Articles with 15105 views I am MBA Marketing and serving as Country Sales Manager in a Poultry Pharmaceutical Pakistani Company based at Karachi. Did BA from Punjab University... View More