عبادات میں اللہ سے بات کی جاتی
ہے اور اپنا رابطہ ازل سے جوڑا جاتا ہے مگر مراقبہ میں اپنے باطن کی اتھاہ
گہرائیوں میں جا کر اپنے اللہ کو سنا جاتا ہے اور کائنات کی حقیقت سے نا
صرف شناسا ہوا جاتا ہے بلکہ مشاہدہ قدرت بھی کیا جاتا ہے۔ مراقبہ کا نصب
العین (مقصد)صرف اور صرف آپ کے جسم، جذبات، اور ذہن کو یکجا کرنا ہے اور اس
اعلیٰ درجے کی یکسوئی کا مقصد صرف اپنے باطن میں مؤجزن آگہی کے بحر بیکراں
میں غوطہ زن ہونا ہے یہیں سے کشف و وجدان کے دھارے پھوٹتے ہیں۔
مراقبہ میں ذہن کی توجہ کسی ایک تصور پر مبذول کی جاتی ہے اور پھر آہستہ
آہستہ ترقی دی جاتی ہے، یہ ایک ایسا ہی عمل ہے جیسے ذرے کا تصور قائم کر کے
رفتہ رفتہ ذہن کو سورج تک پہنچا دیا جاتا ہے اور پھر اچانک چشم زدن میں ذہن
سورج سے جست کر کے کسی مطلق سچائی تک پہنچ جاتا ہے، اسے مکاشفہ کہتے ہیں،
یعنی کسی مسئلے پر غور کرتے وقت اچانک کوئی ابدی حقیقت واشگاف ہوجائے، کسی
راز کے چہرے سے پردہ اٹھ جائے، جبکہ کائنات کی ہر شے ذہن کو دعوتِ فکر دیتی
ہے۔
روحانی صلاحیت کی بیداری، ذہن کی بحالی، اعصابی نظام کی چستی، نفسیاتی صحت
مندی، قوت حافظہ کی بہتری، خود اعتمادی، ڈپریشن سے نجات، ٹینشن سے بچاﺅ اور
قوت ارادی کی مضبوطی کیلئے مراقبہ نور کی مشق انتہائی اعلیٰ نتائج کی حامل
ہے( البتہ مراقبہ کے موضوع پر مکمل تفصیلی معلومات اردوپوئنٹ، ای مرکز پر
موجود آپ میری کتاب “لذتِ آشنائی” سے حاصل کرسکتے ہیں)،اگر ایک طرف مراقبہ
کے عمل میں تصور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے تو دوسری طرف تنفسِ نور کی
مشق بھی اس عمل سے قبل انتہائی اہمیت کی حامل ہے البتہ اگر کسی بھی طرح کی
تنفس کی مشق نہ جانتے ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں، آرام سے وقفوں کے ساتھ صرف
چند گہرے سانس لینا ہی کافی ہے۔
مراقبہ نور شروع کرنے کیلئے کسی مخصوص نشست کی ضرورت نہیں اپنی سہولت کے
پیش نظر آرام دہ کرسی پر بیٹھ جائیں، یا پھر بستر پر لیٹ جائیں اور اپنے
جسم کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دیں، اب آنکھیں بند کرلیں اور تصور قائم کریں کہ
ایک تیز روشنی کا چمک دار شعلہ یعنی نورانی کرن بائیں پاﺅں کے انگوٹھے سے
جسم میں داخل ہو رہی ہے، آہستہ آہستہ یہ نورانی کرن یا شعلہ نور پاؤں سے
گزر کر پنڈلی کی طرف آرہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ آپ کو یہ بھی محسوس ہونا
چاہیے کہ اس نور کے شعلے کی وجہ سے پاﺅں میں خفیف سی گرمی کا احساس بھی ہے،
آپکا ذہن دونوں چیزوں کو پیدا کر سکتا ہے، بس ذرا سی توجہ درکار ہے۔
اب تصور کیجئے کہ پنڈلی میں جدھر سے شعلہ نور گزر رہا ہے گرمی اور روشنی
ہوتی چلی جارہی ہے۔ تصور میں اتنی پختگی کچھ عرصہ کی مشق سے حاصل ہوگی۔ اور
پھر تصور یہ ہوگا کہ اب شعلہ نور اسی آب و تاب اور چمک کے ساتھ بائیں پنڈلی،
گھٹنے اور ان سے گزر کر خون کو گرماتا ہوا بائیں پہلو اور سینے کی طرف آیا
اور آہستہ آہستہ قلب میں چمکنے لگا، یاد رہے کہ دل سینہ میں بائیں طرف واقع
ہے۔ اب دیدہ دل وا کیجئے اور اندر کی آنکھ سے یہ دیکھنے کی کوشش کیجئے کہ
دل میں یہ نوارنی شعلہ ستارے کی طرح چمک رہا ہے، پھر ذہن کو آگے کی طرف
بڑھائیے اب شعلہ نور دل سے گزر گردن سے ہوتا ہوا، دماغ کے بیچوں بیچ برقی
قمقمے کی طرح جگمگانے لگا، جب تک جی چاہے اور آسانی کے ساتھ ممکن ہو دماغ
کے وسط میں شعاعِ نور، شعلہ نور کا تصور قائم رکھیں، اس کے بعد یہ تصور
کریں کہ دماغ میں جگمگانے والی یہ روشنی جسم کے داہنے حصے کی طرف جارہی ہے،
لیجئے اب وہ داہنے حصہ دماغ سے گزر کر داہنے پہلو میں آگئی ہے اور آہستہ
آہستہ نیچے کی طرف جانے لگی ہے، اور پھر داہنے پاؤں کے انگوٹھے سے باہر نکل
گئی ہے۔
مراقبہ نور میں دل کے اندر اور دماغ کے وسط میں جتنی دیر تک نور کا تصور
قائم رہے گا اتنی ہی جلدی کامیابی نصیب ہوگی۔ دل ودماغ کو اتنی ہی فرحت اور
قوت نصیب ہوگی۔ مراقبہ نور میں روشنی کو حصہ جسم، نیچے، اوپر، داہنے اور
بائیں سے گزارا جاتا ہے۔ بعض خواتین و حضرات کو مراقبہ نور کرتے ہوئے اس
الجھن کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ روشنی کس رنگ کی ہو؟ ذہن کے اس ردعمل اور
منفی رحجان سے الجھنے کی بجائے ذہن کو صرف نور کے تصور کی ترغیب دیں کہ نور
کا تصور قائم ہوجائے۔ خواہ وہ چاند کا نور ہو یا شمع کا یا پھر برقی بلب کا
یا کسی چمک دار شے کا، ہر فرد کے ذہن میں نور کا تصور موجود ہوتا ہے بس اسی
تصور کو بروئے کار لانا اور استعمال کرنا مقصود ہے۔(یہ مشق تعمیر و تنظیمِ
شخصیت سے ماخوذ ہے)۔ مراقبہ کا عمل ایک تسلسل مانگتا ہے اور اگر مستقل
مزاجی میسر نہ ہو تو اس کے شروع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، البتہ اگر کسی
بھی قسم کی رہنمائی درکار ہو تو آپ رابطہ کر سکتے ہیں۔ |