ایف آئی درج کروانے کے قانون کا پولیس کے ہاتھوں حشر
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
پاکستانی معاشرے میں معاشی اور سماجی اونچ
اور نیچ کی وجہ سے عوام بُری طرح پِس رہے ہیں نام نہاد این جی اوز ڈالر اور
پونڈ لے کر نہ جانے کون سے انسانی حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں یہ توصرف
زبانی جمع تفریق یا بڑے ہوٹلوں میں سیمینار اور میڈیا میں خود کو پروجیکشن
دینے کے علاہ کچھ بھی نہیں کر پارہی ہیں بھٹہ مزدوروں کے مسائل ، عورتوں کے
حقوق کے حوالے سے عملی اقدامات اور عام آدمی کے ساتھ ہونے والے ظلم میں یہ
کہاں نظر آتی ہیں ۔ اکیسویں صدی کے معاشرے میں بھی پاکستانی معاشرئے کو چند
ہزار لوگوں نے یرغمال بنا رکھا ہے اِن میں سیاست دانوں کے روپ میں جاگیردار،
وڈیرے اور بیوروکریٹ شامل ہیں۔ امن ناپید ہے اور انسانی خون اتنا ارزاں کے
پولیس سمیت تمام ادارئے بے بس۔ وطن میں جاری خود کُش حملوں نے پاکستان کے
سماجی ڈھانچے کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ پولیس فورس کا نام ذہن میں آتے ہی
یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ پولیس کا کام لوٹ مار کو تحفظ دینا ہے اور کچھ
بھی نہیں۔ ہمارئے معاشرئے میں پولیس صرف سیاستدانوں وڈیروں جاگیرداروں کے
لیے کام کرتی ہے یا پھر کوئی غریب ان سے انصاف کی توقع لیے بیٹھا ہے تو
شائد وہ خوابوں کی دُنیا میں ہے۔سی آر پی سی کے تحت پولیس کے پاس جو بھی
شخص کسی بھی جُرم کی بابت اطلاع لے کر آتا ہے تو پولیس اسٹیشن کا انچارج
اِس حوالے سے پابند ہے کہ وہ شکایت کنندہ کی شکایت پر کاروئی کرئے اور اُس
کاروئی کے لیے اےٖف آئی آر درج کرئے یا اگر وہ ناقابل دست اندازی جُرم ہے
تو اُس کی رپٹ درج کرنے کا پابند ہے۔ لیکن یہاں تو پولیس خود تو کُجا
ایڈیشنل جج صاحبان جو کے 22A,22B سی آر پی سی کے تحت ایس ائچ او صا حبان کو
ایف آئی کے اندراج کا حکم دیتے ہیں وہ مہینوں گزر جانے کے بعد میں تعمیل
پذیر نہیں ہو پاتا۔ اِس عالم میں عوام کا عدلیہ سمیت پولیس اداروں پر
اعتماد کا عالم کیا ہوگا۔ آئین پاکستان کتابوں میں لکھے ہوئے الفاظ کی حد
تک تو تمام شہریوں کا حقوق کا ترجمان ہے لیکن عدلیہ کے پاس قوت نافذہ نہ ہے
کیونکہ حکومتی ادارئے اپنی من مانی کرتے ہیں ۔اور عدلیہ کے احکامات کو
عدالت کے کمرئے میں ہی صرف تسلیم کرتے ہیں ۔ اِس سارئے معاملے میں عدلیہ
قصوروار نہیں ہے بلکہ حکومتی ادارئے ہیں۔قانون تو کہتا ہے کہ قابل دست
اندازی جرم کے وقوع پزیر ہونے کی بابت جب بھی کوئی تحریری یازبانی درخواست
پولیس اسٹیشن کے انچارج کو دی جائے توجو پولیس اسٹیشن کا انچارج ہوگا وہ اس
زبانی درخواست کو تحریرکرئے گا یا کسی کو ایساکرنے کیلئے کہے گا درخواست لے
کر آنے والے سے اُس کے اوپر دستخط بھی کروائے گا اس درخواست کی بابت اُس
کتاب میں اندراج کرئے گا جو صوبا ئی حکومت نے اُس انچارج پولیس اسٹیشن کو
اِس بابت دے رکھی ہے سیکشن 154سی آرپی سی کے تحت پولیس اسٹیشن کے انچارج کی
ڈیوٹی ہے کہ وہ قابل دست اندازی جرم کا اندراج اُس کتاب میں کرئے جسے ایف
آئی آر کہتے ہیں اور ناقابل دست اندازی جرم کااندراج جس کتاب میں میں کرئے
گا اُسکا نام روز نا مچہ ہے اور یہ کتاب اِس مقصد کے لئے صوبا ئی حکومت کے
ایما ء پر انچارج پولیس اسٹیشن کودے رکھی ہوئی ہے نا قابل دست اندازی جرم
کی بابت جو رپورٹ ، پولیس اسٹیشن کے انچارج نے درج کی ہوتی ہے عام طور پر
اُس کے حوالے سے کوئی ایکشن پولیس نہیں لیتی ہے تا ہم اگر ایس ایچ او درست
سمجھتا ہے کہ تفتیش کرنا مقصور ہے تو سیکشن 155کے سب سیکشن(2)سی آر پی سی
کے تحت اُسے مجسٹر یٹ سے آرڈڑ لینا پڑے گا اگر کوئی گرفتا ری وغیرہ عمل میں
لاتی ہے تو اِس مقصد کے لئے سیکشن 155سب سیکشن crpc(3)کے تحت ورانٹ گرفتا
ری مجسٹریٹ سے لینا ہوں گئے crpcسیکشن 156(1)یہ اختیار پولیس اسٹیشن کے
انچارج کودیتا ہے کہ وہ کسی بھی قا بل دست اندازی جرم کی تفتیش بغیر
مجسٹریٹ کے آرڈر کے کرسکتا ہے2005Pcr LJ906 کے مطابق154سیکشن crpcکے تحت
پولیس اسٹیشن انچارج کی ڈیوٹی ہے کہ وہ قابل دست اندازی جرم کا اندارج کرئے
اور سیکشن crpc156(1)کے تحت تفتیش کے لئے مجسڑیٹ کے حکم کی ضرورت نہ ہے
2000 P.Cr.L.j320کے مطابق سیکشن crpc154کے تحت پولیس اسٹیشن کے انچارج کا
فرض ہے کہ وہ قابل دست اندازی جرم کی ایف آئی آر کا اندارج لازم کرئے سیکشن
154کے تحت اگر نا قابل دست اندازی جرم ہے تو پھر اُس کی معلومات متعلقہ
رجسٹرمیں درج کرئے لیکن کسی بھی معاملے میں خواہ قابل دست اندازی جرم ہے یا
ناقابل دست اندازی جرم ہے یہ بات درست نہ ہے کہ وہ کیسی کو رجسٹر کرنے سے
انکا رکردے ۔ہر حال میں کیس کا اندراج ضروری ہےCMR424 کے سپریم کورٹ کے
فیصلے کے مطابق پولیس کو یہ اختیا ر نہیں ہے کہ وہ کیس کو رجسڑکرنے کی بابت
تاخیر کی مرتکب ہوPLD2000Lah78 کے مطابق کریمنل کیس کا تھانے میں اندراج کر
وانا متاثرہ شخص کا خود مختار انہ حق ہےPLD2005kar 621 کے مطا بقSHOکو کوئی
اختیار نہیں ہے کہ وہ FIRکے اندراج سے انکار کرئے ۔
(PLD2005kar40) کے مطابق ا اینٹی کار لفٹنگ سیل نے ایچ H) (مقام سے کار کو
اُٹھایا جب کہ کیس Kمقام پر جاکر 5ماہ کے بعد درج کروایا اُس عدالت کی
اجازت کے بغیر جو کہ K مقام کے عدالت تھی۔ اِس طرح کا اختیا ر یونیفارم کا
غلط استعما ل ہے ۔اگر اِسکو نہ روکا گیا تو معصوم شہریوں کی زندگی قابل رحم
بن جائے گی ۔PLJ2004Lah102 کے مطابق 154 سیکشن CRPCمیں استعمال ہونے والے
یہ الفاظ کہ ہر قابل دست اندازی جرم کی اطلاعات کا مطلب یہ ہے کہ یہ مبینہ
جرم ہواہے یعنی صرف اطلاع ہے اِسکا مطلب یہ نہیں کہ جرم ہوا ہے یا نہیں اور
بعد میں کوئی قصوروار ٹھرتا ہے یا نہیں مطلب یہ ہے کہ اندراج ضروری ہے
154سی آر پی سی کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 199کے ساتھ اگر پڑھا جائے ۔
سیکشن 1992, P.Cr.L.Jکے مطابق پولیس آفیسر کی یہ قانونی ذمہ داری ہے کہ اگر
شکایت کنندہ قابل دست اندازی جرم کی اطلاع دیتا ہے تو وہ اِس شکایت پر کیس
رجسٹر کرئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے 1993scmr550کے مطابق یہ پولیس
کا لازمی فرض ہے کہ وہ کیس رجسٹرڈکرئے پی ایل ڈی 1972Lah493 کے مطابق اگر
پولیس آفسر اپنا فرض بابت رجسٹر کرنے ایف آئی آر ناکام ریتا ہے تو پھر
اِسکے آفسرجسکا وہ ماتحت ہے کہ وہ اِس کے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کے
حوالے سے اُس سے پوچھے۔1994MLD1736 کے مطابق کسی بھی واقعے کے مختلف نقطہ
نظر ریکا رڈ نہیں کیے جاتے لیکن جہاں یہ ضروری ہے کہ دونوں طرف کے نقطہ نظر
کے بغیر قابل عمل انکوائری ممکن نہیں جہاں ایک علحیدہ قابل دست اندازی جرم
ظاہر کیا جائے تو اِن حالات میں ایک اور ایف آئی آر درج ہونی چاہیے
۔PLJ2000 Pesh مطابق پولیس افسر کے خلا ف کیس درج ہوسکتا ہے اِ س فیصلے
کے مطابق متوفی کی والدہ نے پولیس ا فسر کے کردار کو اپنے بیٹے کے قتل میں
مزکورکیا ہے پولیس کو یہ حق حاصل نہ ہے کہ وہ صرف اِس وجہ سے کسی شہری کی
جان لے یا صرف اِس وجہ سے کسی کو قتل کردے کہ اُس پر کوئی الزام ہے یا وہ
سابقہ جرائم کی بابت ریکا رڈ ہو لڈر ہے پولیس کو یہ حکم دیا جا تا ہے کہ وہ
پولیس افسر کے خلا ف کیس درج کرئے ۔1999P.CR.LJ,1193 کے مطابق پولیس کا یہ
فرض کہ وہ کسی بھی کیس کی تفتیش انصاف کے تقاضو ں کے مطابق اور شفاف انداز
میں کرئے اِس حوالے سے اپنے افسران کو اثرانداز نہ ہونے دے۔ مندرجہ بال
عدالتی فیصلوں کے مطابق تو پولیس کو ہر اُس سائل کی درخواست پر ایکشن لینا
چاہیے جو پولیس کے پاس آتا ہے لیکن ایسا نہیں ہوپاتاکیونکہ ہمارئے معاشرئے
کو جو روشنی رب پاک نے نبی پاکﷺ کے ذریعے عطا فرمائی اُس سے فیض نہیں
اُٹھایا گیا۔ |
|