قارئین محترم بیس جنوری بروز بدھ نو بجے
باچا خان یونیورسٹی میں درندہ صفت اورانسانیت کے دشمنوں نے نہتے طلباء کو
خون میں نہلا دیا۔باچا خان یونیورسٹی پر حملے میں انیس طالب علموں سمیت
اکیس افراد شہید اورساٹھ زخمی ہوئے ہیں۔اوریہ اے پی ایس پشاور حملہ کے بعد
دہشت گردی کا دوسرا بڑا واقعہ ہے۔اس سے ہر آنکھ اشکبار ہوئی ہے۔اور اس کی
جتنی مزمت کی جائے اتنی کم ہے۔اور قارئین یہ ایک بزدلانہ ،شرم ناک فعل
ہے۔جو لوگ ایسی کاروائیاں کرتے ہیں۔یہ اسلام سے خوارج ہیں۔ایسے لوگوں
کاکوئی مذہب نہیں اور اسلام کے نام پر دھبہ ہیں۔کسی افراد کو بے گناہ قتل
کرناکونسی انسانیت ہے ۔جیسا کہ اﷲ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ
ایک انسان کا قتل کرنا پوری انسانیت کا قتل ہوتا ہے۔اور ایک انسان کی جان
بچانا پوری انسانیت کی جان بچانا ہوتی ہے۔آج ان والدین پر کیا گزر رہی ہو
گی۔جن کے لخت جگر ان سے جدا ہو گئے ہیں۔ان ماؤں کے اندر کی کیا کیفیت ہو
گی۔جن کے بے گناہ بچے خون میں نہلا دیے گئے۔قارئین محترم سب سے پہلے تو میں
ان خاندانوں سے تعزیت کرتا ہوں جن کے عزیزو اقارب اور ان کے لخت جگر شہید
ہوئے ہیں۔اور میری دعا ہے اﷲ کریم ان کو جوارے رحمت میں جگہ دے۔اور ان کے
پسماندہ گان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔جو لوگ زخمی ہوئے ہیں۔اﷲ پاک ان کو
اپنے حبیب ﷺ کے صدقے کامل عاجلہ شفا عطا فرمائے۔ناظرین یہ درد ناک واقعہ اس
وقت پیش آیا جب باچا خان یونیورسٹی کے اندر مشاعرہ ہو رہا تھا۔اور دہشت
گردیونیورسٹی کی پچھلی دیوار پھلانگ کر اندر آئے اندھادھند فائرنگ شروع کر
دی۔سب سے پہلے انہوں نے دو سیکوٹی گارڈ کو زخمی کیا۔اس کے بعدکنٹین اور
ہاسٹل میں گھس آئے۔کچھ طلباء ہاسٹل میں تھے اور کچھ کنٹین میں ناشتہ کررہے
تھے۔تو اس وقت کنٹین کے مالک نے بڑی جرت کا مظاہرہ کیا۔اس نے طلباء کو کچن
کے اندر فرش پر لٹا دیا۔اورکچن کا دروازہ بند کر دیا۔حملہ کرنے کے کچھ دیر
بعدفوجی دستے بھی پہنچ گئے۔اور فوجی دستوں نے آپریشن شروع کردیا۔اور کچھ
دیر بعدچیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف اور کور کمانڈر پشاوربھی پہنچ
گئے۔فوجی دستوں نے چاروں دہشت گردوں کو یونیورسٹی کی سیڑھیوں پر مار
دیا۔چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے فو جی دستوں کو شاباش دی۔اس کے
بعد چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف اور کور کمانڈر پشاور نے لیڈی ریڈنگ
ہاسپیٹل پشاور میں زخمیوں کی عیادت کی۔وزیراعظم نوازشریف صاحب ان دنوں میں
سوئزرلینڈ کے دورے پر تھے۔انہوں نے بھی اس حملے کی شدید مزمت کی اوردوسری
تمام سیاسی جماعتوں نے بھی اس حملے کی شدید مزمت کی۔اور قارئین محترم میں
اس یونیورسٹی کے اسٹنٹ پروفیسرسید حامد علی صاحب کی کارکردگی سے بہت متاثر
ہوا کہ آخری دم تک دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے رہے۔جان قربان کر دی مگر دہشت
گردوں پر وار کرتے رہے۔اور تحریک طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر
لی۔اس میں کوئی شک نہیں ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ ضرب عضب آپریشن کی کاروائیوں
کا نتیجہ ہے۔کیونکہ ضرب عضب آپریشن سے دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔اور
یہی وجہ ہے۔کہ دہشت گرد اب ایسے اہداف پر حملے کی پلائنگ بناتے ہیں۔جو
تعلیمی اداروں میں تدریس ہوتے ہیں۔اور ایک بات یہ بھی سامنے آئی ہے۔گزشتہ
دنوں پٹھان کوٹ کے واقع پر بھارت کے وزیر دفاع نے ایک خوفناک بیان دیا
تھا۔کہ آئندہ چند دنوں میں پٹھان کوٹ کے سانحہ کا جواب مل جائے گا۔مگر سوال
یہ پیدا ہوتا ہے۔کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔سیکورٹی اداروں کا بھی یہ فرض
بنتا ہے۔اور اس کے علاوہ صوبائی اور وفاقی دونوں حکومتوں کی یہ ذمہ داری
بنتی ہے۔اپنے ادروں کی سیکورٹی کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنائیں۔تاکہ یہ
دہشت گرد اورانسانیت کے دشمن یہ بزدلانہ حرکت نہ کریں۔اور معصوم جانوں کو
بے گناہ نشانہ نہ بنائیں۔بلاشبہ سانحہ چار سدہ بہت درد ناک واقع ہے۔ان
والدین کا کیا قصور تھا۔جن کے پیاروں کو بے گناہ ان وحشی درندوں نے خون میں
نہلا دیا۔اس حادثے میں جو لوگ شہید ہوئے ہیں۔ان کے والدین سیکورٹی ادروں
اورحکومت پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔اور اسی لیے جب صوبہ خیبر پختون خواہ کے
چیف منسٹرتعزیت کے لیے اسٹنٹ پروفیسر سید حامد علی صاحب کے گھر گئے۔ان کے
گھر والوں نے ناراضگی کا اظہار کیا۔اس میں کوئی شک نہیں صوبے کا وزیر اعلیٰ
اپنے صوبے کا سر براہ ہوتا ہے۔اور آخر میں میری وفاقی اور صوبائی دونوں
حکومتوں سے اپیل ہے۔کہ اپنے اداروں کی سیکورٹی کو زیادہ سے زیادہ بہتر
بنائیں۔تاکہ آئندہ کوئی ایسا واقعہ پیش نہ آئے۔اور میں افواج پاکستان کو
خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔جوہر وقت ان کے ارادے پر عزم ہیں۔اور ہر مشکل وقت
میں ان دہشت گردوں کے خلاف اپنی کمر کسی ہوئی ہے۔ دعا ہے اﷲ پاک ان کو ہر
مشن میں کامیاب و کامرانی عطا فرمائے۔اور ان کوہر دشمن کی نظر سے محفوظ
رکھے۔آمیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اﷲ پاک ہم سب کا حامی و ناصر
ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ |