بدآمنی کے چنداہم وجوہات۔۔۔جو قابل توجہ ہے

پاکستان کے قیام کا مقصد ایک ایسا مثالی معاشرہ تشکیل دینا تھا جس میں بحیثیت مسلمان ہم سب اﷲ اور اس کے رسولؐ کے احکامات پر عمل پیرا ہو کر دُنیا و آخرت میں سرخرو ہو سکیں لیکن بدقسمتی سے انتہائی کٹھن اور ایک طویل جدوجہد سے آزادی پانے والے اس ملک میں آج جس طریقے سے ہر پاکستانی مختلف مسائل کے حوالے سے جس کیفیت میں مبتلا ہے اس کا مثال آپ کو دُنیا کے کسی بھی کھونے میں بمشکل ہی نظر آئے گا جبکہ ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ ان بنیادی مسائل کو روزاول سے ہی اس حد تک نظرانداز کئے جا رہے ہیں کہ رفتہ رفتہ اب یہ پوری ملک میں بدآمنی کا شکل اختیار کر گیا جس کا خمیازہ آج پورا ملک بھگت رہا ہے (سوائے سیاسی آکابرین کے)۔ اگر ہم گزرے ہوئے حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی کوشش کریں تو یہ بات صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس پاک سرزمین کو آج اس غیر متوقع مقام تک لے آنے میں وزارت عظمیٰ سے لے کر ایک ادنیٰ سا سرکاری ملازم تک ہر کوئی برابر کا شریک ہے یہاں پر آج چند ایسے مسائل کے حوالے سے بات کرتے ہیں جو ایک پُرآمن اور خوشحال پاکستان بنانے میں سب سے بڑی رُکاوٹ ہے میں بحیثیت ایک عام شہری وزیرصحت صاحب کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ آپ کے دعوؤں کے باوجود آج سرکاری ہسپتالوں میں بد نظمی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ مریض دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے جبکہ ان کا کوئی پُرسان حال نہیں لیکن آپ کو شائد آج تک اس کا اندازہ اس لئے نہیں کہ آپ تو سرکاری ہسپتال سے ذاتی علاج معالجہ کرانا اپنا توہین سمجھتے ہیں اسی حالت میں آپ یہاں کے مسائل کیسے محسوس کر سکیں گے؟؟ اب ذرا سوچئیں یہاں پر آپ کا اخلاقی اور قانونی حق نہیں بنتا کہ آپ اپنی ناکامی کا باقاعدہ اعتراف کرلیں؟اگر دوسری طرف تعلیمی میدان پر تھوڑا سا نظر ڈالا جائیں تو اس حوالے سے میں متعلقہ وزارت پر فرائضی منصبی سرانجام دینے والے سے صرف اتنا کہونگا کہ اگر سرکاری اساتذہ جو کہ بقول آپ کے انتہائی کوالیفائیڈ ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں تو پھر ایسی کونسی وجہ ہے جس کی بناء پر آپ جیسے معززین اپنے بچوں کو ان تعلیمی اداروں سے دور رکھ کر پرائیویٹ تعلیمی ادروں پر ہی اکتفا کرتے نظر آتے ہیں؟؟ یہاں پر آپ کا اخلاقی اور قانونی حق نہیں بنتا کہ آپ اپنی ناکامی کا باقاعدہ اعتراف کرلیں؟؟ جس ملک میں ریلوے کے وزیر ریل گاڑی میں عام لوگوں کے ساتھ سفر کرنا اپنا توہین سمجھتا ہو تو یہ ادارہ خاک ترقی کر سکیں گا؟؟ ہر گز نہیں وہ اس لئے کہ آپ ان مسائل میں الجھنا اپنی شان کی مترادف سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ بے روزگاری کے حوالے سے اگر بات ہی نہ کی جائیں تو بہتر ہے کیونکہ یہ ان لاکھوں بلکہ کروڑوں بے روزگار افراد کی زخموں پر نمک پاشی جیسی ہوگی جو اس مملکت خداداد میں دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں۔ اگر ہم اس موضوع کو تھوڑا سا وسعت دے کر قانون کے حوالے سے بات کریں تو اس حقیقت سے کوئی بھی عام شہری انکار نہیں کرسکتا کہ ہمارے ہاں انصاف فراہم کرنے والے ادارے بھی جس سست روی کے شکار ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر انصاف کے تقاضوں پر پورا اُترنا بھی ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ حق رائے دہی کو دیکھ لیجئے دوران الیکشن بہت سے حلقوں میں اپنی مرضی کی نمائندوں کو موقع فراہم کرنے کیلئے ان کی سلیکشن جس طریقے سے ہوتی ہے اسے دیکھ کر آپ حیران رہ جائینگے کہ یہ الیکشن صرف اور صرف ایک روایت کو برقرار رکھنا ہے باقی پہلے سے ہی سلیکٹ کئے گئے نمائندوں کو سامنے لائے جاتے ہیں۔ تو جب ان صاحب اقتدار کو الیکشن کے بجائے سلیکشن کے فارمولے کے تحت موقع فراہم کرانا ممکن ہو تو اسی صورت میں ایک عام آدمی کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے کیونکہ عوام بچاروں کے پاس اپنی دل کو تسلی دینے اور خوش رکھنے کیلئے یہ ایک واحد آپشن موجود ہوتا ہے جو کہ اب اس کی اہمیت ختم ہو چکی ہے۔اور عوام کی طاقت کے بجائے اگر ایک نمائندہ اپنی ذاتی اثررسوخ سے اس اہم مقام تک پہنچ سکتا ہے تو پھر انہیں عوامی خدمت کیلئے بھاگ دور کی کیا ضرورت ہے؟؟

قارئین کرام! اگر درپیش مسائل کا بغور جائزہ لیا جائیں تو یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ متعلقہ وزرأ اور ارباب اختیار کے طرف سے ایسے بہت سارے خود ساختہ مسائل ہیں جس کی وجہ سے آج ہم بد آمنی جیسے موضی مرض کے شکار ہیں اور انہیں مسائل کے ہوتے ہوئے بدآمنی سے نجات کسی بھی صورت ممکن نہیں کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر آپ کسی ملک میں بدآمنی پھیلانا چاہو تو اس کے لئے آپ کو عام لوگوں میں غربت پھیلانے کی ایجنڈے پر کام شروع کرنا چاہئے جو کہ ملک سے متنفر ہونے بلکہ بغاوت کرنے کیلئے آسان راستہ ہے جس پر ہمارے ہاں کافی محنت کیا جا رہا ہے۔اس کے برکس میرے خیال میں جب تک کسی معاشرے میں انصاف کا بول بالا نہ ہو، مساوات کا فقدان ہو، ایک عام شہری کی تحفظات دور کرانے کی بجائے انہیں مذید ذہنی اذیت میں ڈالنے جیسی روایات برقرار ہو تو اسی صورت میں ایک پُرآمن اور خوشحال پاکستان کا خواب کسی بھی صورت شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
Haider Ali
About the Author: Haider Ali Read More Articles by Haider Ali: 4 Articles with 2295 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.