امام الدین علیگ
حیدر آباد سینٹرل یونیورسٹی میں زیر تعلیم دلت ریسرچ اسکالر روہت ویملا کی
خود کشی پر پورے ملک میں نسلی امتیاز اور ذات پات کے خلاف غم و غصہ کی لہر
دوڑ گئی ہے۔ اس معاملے کی تہہ میں جاکر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی
ہے کہ یہ بھید بھاؤ اور نسلی امتیاز کا معاملہ ہونے کے ساتھ ساتھ منفی اور
نفرت آمیز سیاست سے بھی جڑا ہے۔ واضح رہے کہ روہت ویملا حیدر آباد
یونیورسٹی کے امبیڈکر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کاایک سرگرم رکن تھااور اسٹوڈنٹ
یونین کے گزشتہ الیکشن میں امبیڈکر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے آر ایس ایس کی
طلبا تنظیم اے بی وی پی کو شکست دیتے ہوئے اپنی جیت درج کرائی تھی ۔
امبیڈکر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی اس جیت میں مسلم طلبا نے فیصلہ کن کردار
نبھایا تھا۔ اے بی وی پی اس الیکشن کو ’ہندو بمقابلہ مسلم ‘کے رنگ میںلڑنے
کی آر ایس ایس کی سدا بہار حکمت عملی پر کاربند تھی لیکن دلت اور مسلم
طلبا کے اتحاد نے اے بی وی پی کی اس مذہبی تقسیم کو ناکام بنا دیا
تھا۔الیکشن کے بعد سازش کے طور پر روہت ویملا اور ان کے چار ساتھیوں پر اے
بی وی پی کے ایک لیڈر نے اپنے اوپر حملہ کرنے کا الزام بھی عائد کیا
تھالیکن اس وقت کے وائس چانسلر کے دور میں یونیورسٹی سطح پر ہوئی تحقیقات
میں روہت اور اس کے ساتھیوں کو اس معاملے میں بری الزمہ قرار دیا گیا
تھا۔بعد ازاں موجودہ وائس چانسلر نے بغیر کوئی وجہ بتائے اور بنا کوئی نئی
تحقیقات کیے اُسی معاملے میں روہت اور ان کے دیگر چار ساتھیوں کو ہاسٹل سے
نکالنے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے دیگر عوامی مقامات میں داخل ہونے پر
پابندی عائد کردی ۔
گزشتہ دنوں یونیورسٹی میں ’’مظفر نگر باقی ہے‘‘ نام کی ایک دستاویزی فلم کی
نمائش کے دوران بی جے پی اور اے بی وی پی کارکنوں کے ذریعہ کئے گئے حملے کی
امبیڈکر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے شدید مخالفت کی تھی اور ایک جلوس بھی
نکالا تھا۔اس کے علاوہ امبیڈکر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے یعقوب میمن کی
پھانسی کی بھی جم کر مخالفت کی تھی ۔ یعقوب میمن کی موت کے خلاف ہوئے
احتجاج میں بھی روہت ویملا پیش پیش تھا۔آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں اور اس
کے شدت پسند کارکنوں نے اس موقع پر امبیڈکر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کو علی
الاعلان ملک دشمن قرار دیاتھا۔ دادری میں پیش آئے محمد اخلاق کے قتل
معاملے میں بھی روہت ویملا نے احتجاج کیا تھا ۔ان حقائق سے یہ بات واضح
ہوجاتی ہے کہ روہت ویملا او راس کے ساتھی مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف ہونے
والے مظالم کی مخالفت کرکے’’ مسلم۔دلت اتحاد ‘‘کو مضبوط بنانے کا کام کررہے
تھے جسے آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیںکسی بھی صورت میں گنوارا نہیں
کرسکتی ہیں۔ خبروں کے مطابق اس معاملے میں بی جے پی کے لیڈر اور مرکزی وزیر
بڈارو دتاتریہ نے مرکزی وزیر تعلیم اسمرتی ایرانی کو ایک خط لکھا جس میں
انہوں نے حیدر آباد سینٹرل یونیورسٹی کو ملک دشمنوں کا اڈہ قرار دیتے ہوئے
مداخلت کرنے کا مشورہ دیا تھا۔خبروں میں یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ اے
بی وی پی اور مرکزی وزیر کے دباؤ میں آکر وزیرِ تعلیم اسمرتی ایرانی
نےیونیورسٹی کے وائس چانسلر کو اس سلسلے میں کارروائی کرنے کے لیے کئی خطوط
لکھے تھے۔اس دباؤ میں آکر یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر نے روہت اور
اس کے چار ساتھیوں کو سزا دینے کا فیصلہ کیا۔واضح رہے کہ سزا پانے والے
تمام طلبا کا تعلق دلت برادری سے ہے اور جس کام کے لئے انہیں ملک مخالف یا
ملک دشمن قرار دیا جا رہا تھا وہ دلتوں کے معاملے کو لے کر نہیں تھا بلکہ
وہ مسلمانوں سے جڑے ہوئے معاملات تھے ۔
آر ایس ایس کی اعلیٰ قیادت جو کہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں پر مشتمل ہے، یہ
بات اچھی طرح سے سمجھتی ہے کہ ملک میں دلت۔ مسلم اتحاد ان کی زہریلی سیاست
کے لیے موت کا پیغام ثابت ہوگا، کیوں کہ جمہوری نظام حکومت میں دو ڈھائی
فیصد برہمن تو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہوتے ہیں اور 12فیصد تک
محدود سبھی اعلیٰ ذاتوں کا اتحاد بھی کوئی خاص فائدہ پہنچانے میں ناکام
ثابت ہوگا۔ایسے میں حکومت حاصل کرنے اور اقتدار میں بنے رہنے کے لیے دلتوں
اور دیگر پسماندہ ذاتوں کو اپنے ساتھ ملانا اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی مجبوری
بن جاتی ہے۔ جمہوریت کی مجبوری نے انھیں دلتوں اور دیگر پسماندہ ذاتوں کا
ووٹ حاصل کرنے کے لیے تھوڑا سا جھکنے پر تو مجبور کردیا مگر اس کے باوجود
انھوں نے دلتوں کو کندھے سے کندھا ملانے اور برابری کا درجہ حاصل کرنے کی
اجازت نہیں دی کیوں کہ اس سے انکی برتری اور سماجی غلبہ ختم ہوجاتا، بلکہ
یوں کہاجائے کہ ان کا مذہب ہی خطرے میں پڑ جاتا جس کی بنیاد میں ہی انسانی
سماج کی تقسیم کو خاص جگہ دی گئی ہےتو غلط نہ ہوگا۔ لہٰذا اعلیٰ ذات کے
ہندوؤں نے اپنی اس کمزوری اور مجبوری پر ’’ہندو ایکتا‘ ‘اور ’’راشٹریہ
واد‘‘ کا خول چڑھا دیا ۔ اعلیٰ ذات کے ہندو ؤں نے اقتدار پر قبضہ کرنے ،
سماج پر اپنی برتری قائم رکھنے اور اس ہندو اتحاد کو منتشرہونے سے بچانے کے
لیے جھوٹ اور مکرو فریب کا سہارا لےکر مسلمانوں کو ان کے مشترکہ دشمن کے
طور پیش کیا اور وہ اپنی اس خطرناک سیاسی حکمت عملی پر استقامت کے ساتھ
کاربند ہوگئے ۔آر ایس ایس کی اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ گنے چنے عہدوں
کو چھوڑ کر آج ملک میں حکومت سے لے کر انتظامیہ اور عدلیہ تک بیشتر اعلیٰ
عہدوں پر اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کا قبضہ ہے۔ موجودہ سیاسی صورت حال میں آر
ایس ایس اور بی جے پی کی قیادت کو ہندو اتحاد بنائے رکھنے کے لیے ہر حالت
میں ہندوؤں کے سامنے مسلمان درکار ہیں۔ مسلمانوں کا خوف دلاکرہی آر ایس
ایس دلتوں ، قبائلیوں اور پسماندہ ذاتوں کا سیاسی استحصال کرپاتی ہے اور
انھیں قابومیں رکھ پاتی ہے۔ ایسے میں اگر مسلمان دلتوں اور قبائلیوں کے حق
کی بات کرنے لگیں ،ان کے مسائل کو زور شور سے اٹھانے لگیں اور دلت مسلمانوں
کے حق کی بات کرنا شروع کردیں تو آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں بھلا
کیوں کر گنوارا کر سکتی ہیں۔یہی وجہ تھی کہ حیدر آباد سینٹرل یونیورسٹی کے
دلت طلباء اور امبیڈکر اسٹوڈنٹس ایسو سی ایشن کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے
ایک مرکزی وزیر کو خط لکھنا پڑا اور یونیورسٹی انتظامیہ کو بنا کوئی وجہ
بتائے5دلت طلبا کے خلاف ایکشن لے لیاجس کے دباؤ میں آکر روہت ویملا نے
خود کشی کرلی۔ایک ایسا ماحول جہاں ہندو۔ مسلم کی بات نہ اٹھنے پائے ، جہاں
سبھی مظلوم ایک ہوجائیں اور ایک دوسرے کی مصیبت کو اپنا سمجھ کر ظالم کے
خلاف مل کر آواز اٹھانے لگیں تو ایسا ماحول بھلا آر ایس ایس اور اس کی
ذیلی تنظیمیں آخر کیسے برداشت کرسکتی ہیں۔یہی وجہ ہے آر ایس ایس کی واحد
سیاسی حکمت عملی ہمیشہ یہی رہی ہے کہ’’ ہندو بمقابلہ مسلمان‘‘ کا ماحول بنا
رہے۔ اسی واحد حکمت عملی کے تحت آر ایس ایس ہندواتحاد، اعلیٰ ذاتوں کی
برتری اور اقتدار پر ان کی گرفت کو مضبوط کرنےجیسے تمام مقاصد کو حاصل کرنے
میں کامیاب رہی ہے۔موجودہ جمہوری سیاست میں آر ایس ایس کی اس زہریلی حکمت
عملی سے اگر مسلم اور دلت دونوں طبقات کو نجات مل سکتی ہے تو وہ صرف
’’مسلم۔دلت سیاسی اتحاد‘‘ سے ہی مل سکتی ہے۔اس اتحاد سے دلتوں کو اعلیٰ
ذاتوں کے امتیاز سے بھی بڑی حد تک نجات مل جائے گی اور مسلمانوں کو آر ایس
ایس کی زہریلی سیاست سے۔ ملک کے مسلمان اور دلت جب اور جہاں بھی متحد ہوں
گے وہاںوہاں آر ایس ایس کی تمام چال بازیاں اور پینترے ناکام ہوجائیں
گےکیوں کہ 15،16فیصد مسلمانوں اور 18،20فیصد دلتوں کے اتحاد کے سامنے محض
12فیصد اعلیٰ ذاتوں کا اتحاد کچھ بھی نہیں کر سکتا ہے۔
ملک کی آزادی کے بعد سے ہی مسلمان ہر موقع اور ہر مقام پر آر ایس ایس کی
اس ’’ہندو بمقابلہ مسلم ‘‘سیاسی حکمت عملی کے سامنے ناکام نظر آئے ہیں،
بلکہ یوں کہا جائے کہ مسلمان انجانے میں آر ایس ایس کی اس حکمت عملی
کوکامیاب بنانے میں معاون کا کردار نبھاتے آئے ہیں توغلط نہ ہوگا ۔عام
مسلمانوں کو تو چھوڑ دیجیے، مسلم قیادت اور مسلم دانشوران بھی آر ایس ایس
کی زہریلی بیان بازیوں اور مسلم مخالف سیاست پر اپنی توانائی اور وقت ضائع
کرکے ہمیشہ ایک طرح سےآر ایس ایس کی چال اور حکمت عملی کوکامیاب بنانے کا
کام کرتے رہے ہیں ۔ جب کہ یہ بات واضح ہےکہ ملک کے مسلمان آر ایس ایس کی
مخالفت کرکے نہ تو آر ایس ایس کے نظریے کو بدل سکتے ہیں، نہ ملک کی سیاست
میں اپنا کوئی مقام بناسکتے ہیں اور نہ ہی اپنی سماجی پسماندگی اور ابتری
میں کوئی تبدیلی لا سکتے ہیں بلکہ ایسا کرنے سے ملک کی سیاست میں مسلمانوں
کے کسی مقام پر پہنچنے کا امکان بھی مفقود ہوجائے گااور اس سے آر ایس ایس
کو مضبوطی ملنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے حالات مزید بدتر ہوں گے۔آر ایس
ایس بھی یہی چاہتی ہے کہ ملک میں ہندو۔مسلم کا ماحول ہمیشہ بنا رہے۔ اگر
آرایس ایس کی نفرت آمیز ذہنیت اور اس کی زہریلی سیاست کو شکست دینا ہےتو
مسلم۔دلت اتحاد ناگزیر ہے۔ مسلمانوں اور دلتوں کو درپیش بیشترمسائل کا حل
"مسلم دلت اتحاد" سے نکل سکتا ہے اور اسی طریقے سے آر ایس ایس کی چال کو
ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ در حقیقت تمام دلت سیاستدان اور دانشواران بھی
اپنی سیاسی ضرورت کے تحت موجودہ وقت میں ’’مسلم۔"دلت اتحاد" ‘‘ کے خواہشمند
ہیں لیکن وہ برابری یا شراکت داری کی بنیاد پر نہیں چاہتے بلکہ وہ چاہتے
ہیں کہ مسلمان دلت قیادت زیر دست رہے جو کہ ممکن نہیں ہے۔ انھیں اس بات کا
علم ہونا چاہئے کہ کوئی بھی اتحاد" اس وقت وقت کامیاب اور پائیدار نہیں
ہوسکتا جب تک کہ اس کی بنیاد برابری اور انصاف پر مبنی نہ ہو۔ملک کی موجودہ
صورت حال میںسیاسی طور پر مسلمانوں کے بالمقابل دلت زیادہ مضبوط اور متحد
ہے ۔ لہٰذا اس بات کی بھی گنجائش ہے کہ دلت۔مسلم اتحاد سے فوری طور پر دلت
کو زیادہ فائدہ ملے گا لیکن اس سے مسلم قیادت کو بھی ابھرنے کا موقع ملے
گااور مسلمانوں میں نئی قیادت بھی پیدا ہوگی۔لہٰذا دلت-مسلم اتحاد سے فائدہ
اٹھانے کے لیے مسلم قیادت اور عام مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی صفوں
میں اتحاد پیدا کریں۔کیونکہ باہم متحد ہوئے بغیر دلت۔مسلم اتحاد سے بھی
سیاسی مضبوطی حاصل نہیں کی جا سکتی ہے۔امید ہے کہ عام مسلمانوں کے ساتھ
ساتھ مسلم قیادت اور دنشواران ِ قوم اس جانب بھی اپنی توجہ مبذول کریں گے۔ |