امیت شاہ کی تاجپوشی: بڑ ھتے ہوئے قدم کو نہیں روکتا کوئی

امیت شاہ پھر ایک بار بی جے پی کے صدر بن گئے ۔ اس سے پہلے انہیں راجناتھ سنگھ کے وزیر داخلہ بن جانے کے سبب درمیان میں صدارت کی کرسی سنبھالنی پڑی تھی لیکن اس بار وہ میقات کی ابتداء میں منتخب ہوئے ہیں ۔ وینکیا نائیڈو نے اس موقع پر کہا فی الحال ہم میں سب سے زیادہ باصلاحیت یہی شخص ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا کہ اگرزیادہ باصلاحیت کا یہ حال ہے تو کم صلاحیت کے حامل کیسے ہوں گے اوربے صلاحیت کا کیا حال ہوگا؟ کیا یہ امیت شاہ کا معمولی کارنامہ ہے کہ جس وقت صدر نہیں بنے تھے اتر پردیش میں ’’ہر ہر مودی گھر گھر مودی‘‘ کے نعرے لگتے تھے ۔ اب یہ حال ہے کہ اسی اتر پردیش میں ’’گوبیک مودی گوبیک مودی‘‘ کا نعرہ لگ رہا ہے۔ مودی جی میک ان انڈیا کی مالا جپتے ہوئے چینی ساخت کی ای رکشا بانٹ رہے ہیں اور جس روہت ویمولا کی خودکشی پر احتجاج کرنے والوں کو سبرامنیم سوامی آوارہ کتے کے لقب سے نواز تے ہیں مودی جی اس کی موت پر ٹسوے بہا رہے ہیں۔

امیت شاہ کو عہدۂ صدارت پر فائز کرنے کا یہ جواز پیش کیا گیا تھا کہ ان کی قیادت میں اترپردیش کے اندر بی جے پی نے ۸۰ میں ۷۲ نشستوں پر کامیابی درج کرائی ہے ۔ اگر کامیابی سے ہمکنار کرنا ہے ہی کسوٹی ہے تو انہیں اس بار ہٹا دیا جانا چاہئے تھا اس لئے کہ اس لئے کہ بعد کے ضمنی انتخابات اورحالیہ گرام پنچایت کے الیکشن میں اترپردیش کے اندر بی جے پی کو زبردست شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ وہ نہ صرف مودی جی کے اپنے حلقۂ انتخاب بلکہ ان کےاپنے گود لئے گاوں میں بھی ہار چکی ہے۔ اتر پردیش تو خیر دور کی بات ہے امیت شاہ اور نریندر مودی کے گجرات میں کانگریس نے قصبوں اور دیہاتوں میں بی جے پی کو دھول چٹا دی ہے۔ مغربی بنگال میں جہاں لمبے چوڑے خواب سجائے جارہے تھے سارے سپنے بکھر گئے ہیں ۔ دہلی میں جو کچھ ہوا وہی کیا کم تھا کہ بہار سے بھی وہ بے آبرو ہو کر لوٹے ہیں اور اپنے ساتھ مودی جی کی بھی مٹی پلید کروادی ہے۔ اس کے باوجود ان کا دوبارہ منتخب ہوجانا اس بات کی علامت ہے کہ وہ پچھلی مرتبہ بھی وزیراعظم کے اعتماد اور وفاداری کے سبب منتخب ہوئے تھے اور اسبار بھی ان کی کامیابی کے پسِ پشت وہی چاپلوسی کارفرما ہے۔ملک میں رائج موجودہ ضمیر فروش سیاست سےاسی کی توقع ہے کیونکہ بقول شاعر ؎
خودی، خود آگہی، خودرائی جس میں جلوہ گر ہوتے
وہ آئینہ تو پہلے دن ہی چکنا چور تھا ہم سے

امیت شاہ کی مختلف ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت قائم کروانے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے اس موقع پر اس دعویٰ کا بھی ایک مختصر جائزہ لے لیا جانا چاہئے۔ اس عرصے میں بی جے پی کو سب سے بڑی کامیابی ہریانہ میں ملی ۔ ہریانہ کے اندر برسرِ اقتدار کانگریس کے تئیں زبردست بے چینی کی لہر تھی ۔ قومی انتخاب کی کامیابی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔ مودی جی کے حسین خوابوں کا خمار ابھی اترا نہیں تھا ۔ لوک دل کے سربراہ چوٹالہ جیل سے پیرول پر انتخابی مہم چلانے کیلئے باہر آئے تھے اور عآپ بھی قومی سطح پر اپنی زبردست شکست سے بوکھلائی ہوئی تھی ۔ ان سارے اسباب کا فائدہ بی جے پی کو ملا اور اپنے بل بوتے پراسے پہلی بار صوبائی اقتدار مل گیا لیکن اس کا کریڈٹ کبھی مودی جی تو کبھی شاہ جی کو دیا جاتا رہا ہے ۔ اس طرح کلیان جی آنند جی کی اس جوڑی نےعارضی طور پر توخوب خوشیاں منائیں لیکن آگے چل کراس سے نہ پارٹی کا کلیان ہوا اور نہ عوام کو آنند ملا۔

ہریانہ کے ساتھ ہی مہاراشٹرمیں انتخابات کا انعقاد ہوا۔ مہاراشٹر کے اندر امیت شاہ کی اولین ترجیح تو یہ تھی کہ اپنے بل بوتے پر شیوسینا کی مدد کے بغیر حکومت قائم کی جائے۔ اس کیلئے انہوں نے شرد پوار اور ان کے بھتیجے اجیت پوار کو سینچائی گھوٹالے کاخوف دلا کربلیک میل کیا۔ یہ سازش کامیاب رہی اور این سی پی نے کانگریس سے رشتہ منقطع کرلیا۔اس سے حوصلہ پاکر شاہ نے بھی ٹھاکرےکی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا لیکن بی جے پی کو واضح اکثریت سے ہمکنار نہیں کرسکے۔ شاہ جی کی دوسری ترجیح یہ تھی کہ این سی پی کے تعاون سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد شیوسینا کو توڑ دیا جائے اور اس کے باغی گروہ کو ساتھ لے کر شیوسینا کے بغیر حکومت تشکیل دی جائے جیسا کہ کانگریس نے بھجبل کے زمانے میں کیا تھا لیکن شاہ جی اپنی اس کوشش میں بھی ناکام رہے ۔ جب دیکھا کہ شیوسینا کے قلعہ میں کوئی دراڑ نہیں پڑ رہی ہے تو اس سے وزیراعظم کی توہین کیلئے عوامی سطح پرمعافی کا مطالبہ کیا گیا ۔ ادھو ٹھاکرےنے اس سے بھی انکار کردیا تو بی جے پی نے مجبوراً جھک کر اس کے ساتھ الحاق کرلیا۔

مہاراشٹراور مرکز میں شیوسینا اور بی جے پی کےاتحاد کے باوجود ان کے آپسی تعلقات بے حد کشیدہ ہیں۔ شیوسینا وزیراعظم نریندر مودی پر تنقید وتضحیک کا کوئی موقعہ نہیں گنواتی ۔ پاکستان کے حوالے سے شیوسینا کے جارحانہ رویہ کے آگے کانگریس کی تنقید کو بھی پھیکی نظر آتی ہے ۔ مختلف شہروں کے بلدیاتی انتخابات میں یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے خلاف انتخاب لڑتی ہیں اور خوب جوتم پیزار کے بعد بڑی بے حیائی کے ساتھ پھر سے بغلگیر ہوجاتی ہیں لیکن اکثر و بیشتر شیوسینا کا پلہ بھاری رہتا ہے۔ اب تو کانگریس نے بھی بی جے پی کے گڑھ سمجھے جانے والے ودربھ کے اندر گھس کر اس کو شکست دینی شروع کردی ہے۔ مہاراشٹر کے اندر کمل کی پتیاں بہت تیزی کے ساتھ بکھر رہی ہیں لیکن شاہ جی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے؟

اس درمیان جھارکھنڈ میں انتخابات ہوئے ۔ شاہ جی کو یقین تھا کہ جھارکھنڈ مکتی مورچہ اور کانگریس کے اختلاف کا فائدہ اسے ملے گا اور بی جے پی کو اکثریت حاصل ہوجائیگی لیکن وہ بھی نہیں ہوسکا ۔ ۸۸ ارکان پر مشتمل اسمبلی کے دنگل میں شاہ صاحب ۴۴+ کا نعرہ بلند کرکے اترے تھے لیکن ان کا رتھ ۳۷ پر ٹھہر گیا۔ بی جے پی کیحلیف جماعت اے جے ایس یو نے ۸ میں ۵ نشستوں پر کامیابی درج کروائی اس کے باوجود ۲کی کمی رہ گئی جسے آزاد ارکان کی مدد سے پورا کیا گیا اور مرتے پڑتے حکومت قائم ہوگئی ۔ بہار کی طرحکااتحاداگر جھارکھنڈ میں بھی ہوجاتا تو کانگریس اور جے ایم ایم مل کر بی جے پی کو آسانی کے ساتھ دھول چٹا سکتے تھے لیکن خیر اس وقت شاہ صاحب کے ستارے عروج پر تھے اس لئے کسی طرح ان کی ناؤ پار لگ گئی۔
اس کے بعد کشمیر کاصوبائی انتخاب کا اعلان ہوا۔ اس بار امیت شاہ کو یہ خوش فہمی تھی کہ وادی کشمیر کے اندر بی جے پی کا کھاتہ کھل جائیگا لیکن مودی اور شاہ کی جوڑی کو اس میں ناکام رہی ۔ جموں کے اندر بے شک بی جے پی نے غیر معمولی کامیابی درج کروائی اور اس بات کا امکان تھا کہ پی ڈی پی، این سی اور کانگریس کے انتشار کا فائدہ اٹھا کر وہ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھر ےگی ۔ ایسا نہ ہو سکا اور وہ پی ڈی پی کے مقابلے ۲ نشستوں سے پچھڑ گئی۔ شاہ جی پی ڈی پی کو مرکز میں چارہ ڈال کر جموں کشمیر پر اپنا وزیر اعلیٰ مسلط کرنا چاہتے تھےلیکن مفتی محمد سعید نےاس حربے کو ناکام بھی کیا اور بی جے پی کو مستقل صدر راج نافذ کرنے کا بہانہ بھی نہیں دیا۔ ایک طویل انتظار کے بعد مایوس ہوکر بی جے پی نائب وزیراعلیٰ کے عہدے پر راضی ہوگئی۔

مفتی صاحب کے انتقال کے بعد ان کی بیٹی محبوبہ مفتی نے بی جےپی کیلئے مزید مسائل کھڑے کردئیے اور نائب وزیراعلیٰ کے عہدے کو ہی ختم کرنے کےفراق میں ہیں ۔ دراصل محبوبہ مفتی کے سامنے نتیش کمار کی مثال ہے۔ بی جے پی سے تعلق توڑنے کے بعد پارلیمانی انتخاب میں نتیش کمار کا نقصان ضرور ہوا لیکن صوبائی سطح نہ صرف وہ اپنا اقتدار بچانے میں کامیاب رہے بلکہ ریاستی انتخاب میں بھی انہوں نے بی جے پی شکست فاش سے دوچار کردیا۔ اگر نتیش کمار بی جے پی کا ساتھ نہ چھوڑ تے تو ان کا حشر ادھو ٹھاکرے سے برا ہوتا۔ مطلب نکل جانے پر بی جے پی اپنے حلیفوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتی اگر کوئی جاننے کیلئےہریانہ میں بنسی لال کے بیٹے کلدیپ بشنوئی کی حالت دیکھ لو۔؁۲۰۱۴ کے قومی انتخاب میں بی جے پی نے ہریانہ جن ہت دل کے ساتھ الحاق کرکےحصار کی نشست انہیں دی لیکن جب وہ دشینت چوٹالہ سے ہارگئے تو تین ماہ بعد منعقد ہونے والے انتخاب میں ان کے ساتھ اتحاد تو دور ملاقات تک نہیں کی گئی ۔ محبوبہ مفتی نے اگر ان واقعات سے عبرت پکڑ کر بی جے پی سے ناطہ توڑ لیاتو شاہ جی کوایک اور جھٹکا لگے گا۔

اروناچل پردیش میں شاہ جی نے کانگریس میں پھوٹ ڈال کر اقتدار کو ہتھیانے کی ناکام کوشش کی ۔ اروناچل پردیش چین کی سرحد سے متصل ریاست ہے جس میں سیاسی استحکام کی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے لیکن افسوس کہ شاہ جی اس نزاکت کو سمجھے بغیر وہاں جوڑ توڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ ارونا چل پردیش کی جملہ ۶۰ نشستوں میں سے ۴۷ کانگریس کے پاس ہیں۔ بی جے پی نے ۲۱ کانگریسی ارکان کو ورغلا کر اپنے ساتھ کرلیا جبکہ کانگریس کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس رشوت ستانی کے ثبوت ہیں اس طرحبی جے پی کے گیارہ ارکان نے کانگریسی باغیوں کے ساتھ مل کر اکثریت کا دعویٰ کردیا ۔ اس سازش میں گورنرکو شامل کرکےاسمبلی سیشن وقت ازوقت بلوایا گیا اور باغی ڈپٹی اسپیکر کو صدارت کرنے کی ہدایت کی جبکہ کانگریس اس کو برخواست کرچکی تھی۔ اس ڈپٹی اسپیکر اسمبیل ہال کے بجائے ایک کمیونٹی سینٹر میں اجلاس منعقد کرکے وزیراعلیٰ کوبرخواست کر دیا ۔ گورنر کی اس دھاندلی کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو جسٹس رشی کیش رائے نے یہ تسلیم کیا کہ بظاہر گورنر کے فیصلے دستور کی دفع ۱۷۴ اور ۱۷۵ کے خلاف ہیں ۔ اس کے بعد ایک ہمگامی پارلیمانی اجلاس میں ارونا چل پردیش کے اندر صدر راج سفارش کی گئی جس پر برنب مکرجی نے وضاحت طلب کرلی یعنی بلا واسطہ مستر کردیا ۔ کانگریس صدر راج کے خلاف بھی عدالت میں جارہی ہے ۔ارونا چل کے وزیر مملکت کرن رجیجو اور شاہ جی کو ابھی تک اس کھیل صرف رسوائی ہی ہاتھ آئی ہے اور آگے بھی یہی امکان ہے ۔اس لئے کہ ایوان بالا کے اندر چونکہبی جے پی اقلیت میں ہے اس لئے اسے منظور ی ہی نہیں ملے گی۔

بی جے پی کی خامی یہ ہے کہ وہ اپنی غلطی سے سبق نہیں سیکھتی ۔ پچھلے سال یوم جمہوریہ کے موقع پر اوبامہ کو بلا کر دہلی کے رائے دہندگان کو متاثر کرنے کوشش کی گئی لیکن اس میں بری طرح ناکامی کے باوجود اس سال فرانس کے صدر ہولنڈی کی مدد سے پنجاب کا انتخاب جیتنے کی حماقت دوہرائی جارہی ہے۔ ہولنڈی کواسی سیاسی مقصد کے تحت چندی گڑہلے جایا گیا فرانسیسی آرکیٹیک کا ڈیزائن بنانا تو ایک بہانہ ہے ۔ چندی گڑہ کے جس ’راک گارڈن‘ میں مودی اور ہولنڈی کی ملاقات ہوئی ہےاس کے خالق نیک چند کے بیٹے انوج سینی کو وہاں سے نکال کر بی جے پی نے یہ بتا دیا کہ وہ ہندوستانیوں کی کیسے ناقدری کرتی ہے حالانکہ سینی نے بذاتِ خود اس تقریب کے اہتمام بہت زیادہ محنت کی تھی۔ نیک چند نے یہ باغ اپنی ذاتی زمین پر لگایا کراپنی زندگی اس کو سجانے سنوارنے کیلئے جھونک دی۔ اسی لئے غالباً انوج سینی کہا پڑا کہ ’’ مجھے ایسا لگا کہ گویا میں اپنے گھر سے نکال دیا گیا ہوں ‘‘۔

چندی گڑھ ہریانہ کے ساتھ ساتھ پنجاب کا بھی دارالخلافہ ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ فرانکوئس ہولنڈی کا استقبال کرنے کیلئے صرف گورنر، ہریانہ کے وزیراعلیٰ اور بی جے پی کی ایم پی کرن کھیرہوائی اڈے پر آئے۔ ایک بھی سکھ وہاں موجود نہیں تھا ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا پنجاب کے گورنر پرکاش سنگھ بادل بھی آتے لیکن وہ بیمار تھے اس لئے ان کے بیٹے نائب وزیراعلیٰ سکھبیر کو آنا چاہئے تھا لیکن وہ بھی نہیں آئے ۔ وزیراعظم کا استقبال کرنے کیلئے اکالی دل کے وزیرغذا کیرون کا تقرر کیا گیاجو بی جے پی اور اکالی دل کے درمیان پنپنے والی کشیدگی کا واضح ثبوت ہے۔ مودی جی شایداسی لئے پرکاش سنگھ بادل سے ملاقات کیلئے اسپتال گئے۔ فرانس کے اندر سکھ طلباء کو پگڑی پہن کر اسکول جانے کی اجازت نہیں ہے جس کے خلاف وہ احتجاج کرتے رہے ہیں ۔ اکالی دل کی جانب سے ہولنڈی کے فاصلے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے سکھ رائے دہندگان کو ناراض نہیں کرنا چاہتےلیکن بی جے پی نے اپنی نافہمی کےسبب سکھوں کے زخموں پر نمک لگانے کا کام کرہی دیا ہے۔

بی جے پی کے اپنی غلطی سے سبق نہیں سیکھنے کی ایک مثال آندھرا پردیش میں سامنے آئی۔ سنا ہے روہت کی پھانسی کے بعد جب ہنگامہ بڑھا تو وزیراعظم نےمرکزی وزیر بندارو دتاترےسے استعفیٰ لینے کا من بنا لیا تھا لیکن آرایس ایس آڑے آگئی ۔ بندارو آرایس ایس کے قدیم کارکن ہیں اور انہیں وزیر بنانے کی سفارش خاص طور پر ناگپور سے آئی تھی ۔ آرایس ایس کا خیال ہے کہ روہت کے بہانے اے بی وی پی کو گھیرا جارہا ہے اور وزیرکے استعفیٰ سے اس کے حوصلے پست ہوں گے۔ مودی جی نےسنگھ کے آگے سپر ڈال دی نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اترپردیش دورے پر روہت کا گہن لگ گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود لکھنؤ میں وزیراعظم کے خلاف نعرے لگانے والے طلباء کے ساتھ وہی سلوک ہوا جو روہت اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اب اگر خدانخواستہ ان میں سے کوئی کچھ کرگذرے تو اس کا سیدھا الزام وزیراعظم پر آئیگا۔ ان لوگوں کو صرف زخموں پر نمک پاشی آتی ہے مرہم لگانا نہیں آتا ورنہ یہ نہ ہوتا کہ وائس چانسلر اپا راؤ کو چھٹی پر بھیج کر روہت کو سزا دینے والےوپن سریواستو کو ان کی جگہ بٹھا دیا جاتا جبکہ سریواستو پر ؁۲۰۰۸ میں خودکشی کرنے والے سینتھل کمار کو ہراساں کرنے کا بھی الزام ہے۔

اس سال جن ریاستوں میں انتخاب ہورہے ہیں ان میں کامیابی کا امکان بہت کم ہے اس لئے سمجھداری کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اس موقع پر صدارت کی باگ ڈور کسی اور تھما دی جاتی ۔ ایسا کرنے پر بھی نتیجہ کم و بیش وہی آتا لیکن لوگ سوچتے کہ اگر پارٹی کی کمان امیت شاہ کے ہاتھوں میں ہوتی تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا اور اس مشکل میں بھی کوئی نہ کوئی چمتکار کر ہی دیتے۔ اس طرح مارگ درشن کمیٹی کے نامزد کردہ کسی رہنما کو بلی کا بکرہ بنا نے کا نادر موقع مودی جی نے گنوا دیا ۔ اگر ایسا ہوتا تو دوسال بعد شاہ جی کو واپس لانے کا مطالبہ زور شور سے سامنے آتا اور آئندہ قومی انتخاب کے موقع پر پارٹی کی کمان شاہ جی کے ہاتھوں میں ہوتی لیکن اب تو اس بات کا بھی امکان ہے کہ ان دوسالوں میں ہاتھ آنےوالی ناکامیوں کیلئے شاہ جی ذمہ دار ٹھہرا کر اگلی بار ان کی چھٹی کردی جائے اور وزیراعظم ہاتھ ملتے رہ جائیں ۔

امیت شاہ کے دوبارہ صدر منتخب ہوجانے پر بی جے پی کے صدر دفتر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے بی جے پی کی خوشیوں میں امت مسلمہبھی شریک ہوتی ہو لیکن اس بار یہ ہونا چاہئے۔ شاہ جی نے اپنی ڈیڑھ سالہ کارکردگی سے یہ ثابت کردیا ہے کہ بی جے پی کے زعفرانی پرچم کو پاتال کے اندر دفن کرنے کی جو صلاحیت ان میں ہے کسی اور میں نہیں ہے۔ اٹل جی کو بی جے پی کا مکھوٹا کہا جاتا تھا لیکن خوش قسمتی سےامیت شاہ کے چہرے پر کوئی نقاب نہیں ہے؟ ان پر بلڈرس سے تاوان وصولی سے لے کر انکاوئنٹر(قتل) تک کا الزام ہے۔ انہیں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا ۔ وہ جیل کی ہوا بھی کھا چکے ہیں اور اپنی ریاست سے تڑی پار ہونے کا شرف بھی انہیں حاصل ہے۔ سیاسی اثر و رسوخ سے جو’ کلین ‘چٹ انہوں نے فی الحال حاصل کررکھی ہے وہ اقتدار سے محرومی کی صورت میں’ ڈرٹی‘ بھی ہوسکتی ہے۔ سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ شاہ جی دوبارہ بلکہ سہ بارہ بھی صدر بن جائیں تو کیا مودی جی کو دوبارہ کامیاب کرواسکیں گے ؟ اور اگر نہیں( جس کا قوی امکان ہے) تو جب مودی جی اقتدار سے بے دخل کردئیے جائیں گے تو شاہ جی کو جیل جانے سے کون بچائے گا؟ اس وقت ممکن ہے شاہ جی مظفر حنفی کا یہ شعر گنگناتے نظر آئیں؎
یہ زمانہ لگا ہے کہ اب جسم میںخار کے واسطے قطرہ ٔ خوں نہیں
ایک وہ وقت بھی تھا کہ چلتے تھے ہم راستے بھر کو گلنار کرتے ہوئے
 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2118 Articles with 1380475 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.