آرمی چیف کا اعلان.... خوشیاں اور مایوسی

آرمی چیف نے آخر وہ اعلان کرہی دیا، جس کا بعض سیاست دان ایک عرصے سے مطالبہ کررہے تھے۔ بلاشبہ پاکستان کے مخصوص کلچر میں جہاں کوئی بھی شخص عہدے یا اختیارات سے دستبردار ہونے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوتا، وہاں جنرل راحیل شریف نے آرمی چیف جیسے طاقت ور عہدے کو مقررہ تاریخ پر چھوڑنے کا اعلان کرکے بڑی عزت کمائی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا پرویزمشرف اس عہدے کو اپنی کھال کہتے تھے اور انہوںنے اس سے چمٹے رہنے کے لیے ہر طرح کے جتن کےے تھے، لیکن انہیں عوامی دباؤ کے سامنے بے بس ہوکر بھیگتی آنکھوں کمانڈ دوسرے کو سپرد کرنا پڑی تھی۔

پاک فوج اپنے ڈسپلن اور پیشہ ورانہ مہارت کی بنا پر دنیا کی چند بہترین افواج میں سے ایک ہے، اس کا کمانڈر کوئی بھی ہو، کسی بھی خطے یا زبان سے تعلق رکھتا ہو، پوری فوج اس کا مکمل ساتھ دیتی ہے۔ اس ادارے میں کسی قسم کی گروپنگ کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو قیادت کی تبدیلی سے بطور ادارہ پاک فوج کو کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن اگر ہم اپنے ملک کے مخصوص سیاسی کلچر، ریاستی اداروں کے باہمی تعلقات اور شخصی رجحانات کے اداروں پر اثرات پر بات کریں تو واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی سیاسی گروہ یا ریاستی ادارے کی قیادت کی تبدیلی کے کچھ نہ کچھ اثرات بہرحال ضرور ہوتے ہیں۔

جنرل راحیل شریف نے انتہائی نازک حالات میں پاک فوج کی کمانڈ سنبھالی۔ ایک طرف ملک کو مسلح جتھوں کی یلغار کا سامنا تھا تو دوسری طرف بلوچستان میں بغاوت کی آوازیں بلند ہورہی تھیں۔ انہوںنے اپنی متحرک کمانڈ میں سیاسی قوتوں کو ساتھ ملاکر ان دونوں محاذوں پر کام کیا۔ آج جب انہوںنے اپنی رخصتی کا اعلان کیا ہے تو یہ دونوں معاملات بہت حد تک قابو میں آچکے ہیں، اب بلوچستان میں پہلے کی طرح بغاوت کا زور نہیں رہا اور دیگر عسکریت پسند بھی سکڑچکے ہیں۔ کراچی آپریشن بھی ان کے کریڈٹ پر ہے، آج کا کراچی چند برس پہلے تک کے کراچی سے کا فی پرامن ہے۔ قوم امن کے لیے ترس رہی تھی اور یہ امن اسے بہرحال جنرل راحیل کے ذریعے ہی ملا ہے، اس لیے وہ عوامی شخصیت بن چکے ہیں۔ بلامبالغہ عوام کی غالب اکثریت ان سے محبت کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل راحیل کے ریٹائرمنٹ کے اعلان سے عوام کو صدمہ پہنچا ہے۔ عام آدمی آئینی اور غیرآئینی کے چکر میں نہیں پڑتا، اسے تو صرف اپنے آرام و سکون سے غرض ہوتی ہے اور یہ سکون اسے جنرل راحیل نے دیا ہے، اسی لیے عام لوگوں کو خدشہ ہے کہ کہیں جنرل صاحب کے جانے کے بعد صورت حال بدل نہ جائے۔ یہ خدشات اتنے بے بنیاد بھی نہیں ہیں، کیونکہ ہمارے ہاں قیادت کی تبدیلی سے اداروں کا رخ تبدیل ہوتا رہا ہے، اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔

جنرل راحیل شریف کے اعلان پر سب سے زیادہ خوشی سیاسی راہنماو ¿ں کو ہوئی ہے، خاص طور پر پیپلزپارٹی تو بغلیں بجارہی ہے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ بھی پیپلزپارٹی نے ہی ایک منصوبے کے تحت اٹھایا تھا، اعتزاز احسن اور خورشیدشاہ ایک عرصے سے اس معاملے پر بیان بازی کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس طرح کی بیان بازی بڑھنے کے بعد ہی آرمی چیف کو اپنی پوزیشن واضح کرنا پڑی ہے۔ پیپلزپارٹی کی خوشی کا سبب صاف ظاہر ہے، جنرل راحیل نے مسلح گروہوں کے خلاف سخت موقف اپنایا، اس معاملے میں ساری سیاسی جماعتیں ان کے ساتھ تھیں، البتہ کراچی کے عسکری گروہوں کے معاملے میں بعض جماعتیں اگر مگر کرتی ہیں، لیکن پھر بھی بیشتر جماعتیں عسکریت پسندوں کے خلاف فوج کے ساتھ ہیں۔

دراصل عسکریت پسندی کے رجحان کا خاتمہ ملک کے مفاد میں تو ہے ہی، خود سیاست دان بھی ان عسکری گروہوں کے نشانے پر آئے ہوئے تھے، اس لیے انہوںنے ملک کا مفاد نہ سہی، اپنے تحفظ کے نقطہ نظر سے ان گروہوں کے خاتمے کے لیے فوج کا ساتھ دیا۔ یہاں تک تو معاملہ ٹھیک رہا، مگر جنرل راحیل کی اگلی بات نے سیاست دانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی۔ آرمی چیف نے کہا: ”دہشت گردی اور کرپشن کا گٹھ جوڑ ختم کرنا ہوگا، بری طرز حکمرانی بھی دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کا سبب ہے، اس کو بھی ٹھیک کرنا پڑے گا۔ “ یہ چیز بہت سے سیاست دانوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔ سیاسی جماعتوں کی خواہش ہے کہ فوج صرف عسکری گروہوں کا مکمل صفایا کرے، تاکہ ملک میں امن ہوجائے اور ان کے بھی جان میں جان آجائے، لیکن فوج اس معاملے سے آگے نہ بڑھے، کرپشن اور بیڈگورننس کے چکر سے فوج باہر رہے۔

آپ کو یاد ہوگا، یہی پیپلزپارٹی آرمی چیف پر واری نیاری ہورہی تھی، مگر جوں ہی رینجرز نے کراچی میں دہشت گردی اور کرپشن کے گٹھ جوڑ کو توڑنے کے لیے کارروائی شروع کی، پی پی راہنماو ¿ں کے تیور ہی بدل گئے، آصف زرداری کی خوں خاں ریکارڈ کا حصہ ہے۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ آرمی چیف کے بیان کا سیاسی حلقوں میں ”زبردست“ خیرمقدم کیا جارہا ہے، لیکن سچی بات یہ ہے عوام اس اعلان سے مایوس ہوئے ہیں۔ بلاشبہ آرمی چیف کا بیان آئین کی پاسداری کو ظاہر کرتا ہے اور انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے تھا، لیکن اگر اس سارے معاملے میں عوامی خواہشات کو مدنظر نہ رکھا گیا تو یہ عوام کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ آرمی چیف نے تو اپنی اخلاقی اور آئینی پوزیشن واضح کردی، لیکن حکومت کو چاہیے کہ وہ اس پر اندرونی طور پر خوشیاں منانے کی بجائے عوامی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کا اعلان کردے۔ اس بات میں تو کوئی شبہ نہیں کہ فوج کی آنے والی قیادت بھی دہشت گردی کے خاتمے پر کوئی سمجھوتا نہیں کرے گی، لیکن اس وقت زمینی حقیقت یہ ہے کہ قوم جنرل راحیل کو مزید عرصے کے لیے آرمی چیف کے عہدے پر متمکن دیکھنا چاہتی ہے۔
munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 110913 views i am a working journalist ,.. View More