دہشتگردی کی واردتوں کا سدباب کیونکر ممکن۔۔۔!

پاکستان کی یونیورسٹیاں کالجز و دیگر سرکاری تعلیمی ادارے ویسے ہی تعلیمی ، مالی اور انتظامی بحران کا شکار چلے آ رہے ہیں اوپر سے باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردی کے واقع نے انکے لئے مزید مسائل پیدا کر دئیے ہیں جسکی فوری سدباب کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی ۔ پاکستان میں یونیورسٹیاں تو دھڑا دھڑ بن رہی ہیں ، تعلیمی سرگرمیوں کے لیئے حکومت کے پاس فنڈز نہیں ہیں۔ اوپر سے اب انہیں اپنی سیکورٹی کیلئے بھی بھاری سرمایہ چاہئے۔ جو نہ تو حکومت فراہم کر سکتی ہے اور نہ ہی طالب علم۔ پھر کیسے ہمارے تعلیمی ادارے اپنی تعلیمی سرگرمیاں بھرپور طریقے سے جاری رکھ سکتے ہیں۔ حکومت اور ہمارے دیگر ذمہ دار سیکورٹی اداروں کو اس سلسلے میں سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ جب دہشت گرد تمام تر وسائل ، فورسز اسلحہ کے ہوتے ہوئے جی ایچ کیو پنڈی ، کارساز کراچی ، ڈیرہ بنوں جیل لاہور پولیس ٹریننگ سینٹر ز میں داخل ہو سکتے ہیں تو انکے لئے کسی بھی بڑے تعلیمی ادارے کو ٹارگٹ کرنا کونسا مشکل ہے۔ یونیورسٹیوں کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ کہ وہ اپنی تمام تر اراضی کو چاروں طرف سے جیل کی طرح محفوظ کریں۔ آج ان تعلیمی اداروں کے پاس اپنے ملازمین کو تنخواہ میں اپنے ملازمین کو دینے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ وہ سیکورٹی کا کروڑوں بجٹ کہاں سے لائیں۔؟

ویسے یہ حقیقت اب اقوام عالم کو بشمول پاکستان جو دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار ہے کو سمجھ لینا چاہئے کہ خود کش حملہ آور وں کا علاج ما سوائے اﷲ کی ذات کے کسی کے پاس نہیں ہے۔ جب امریکہ فرانس ، برطانیہ، سپین ، کینیڈا، اسرائیل جیسی عالمی طاقتیں جن کے پاس دنیاوی تمام تر اسباب یعنی سیکیورٹی کیلئے لوازمات ، فورسز موجود ہیں وہ اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے ان خودکش حملہ آوروں کا سد باب نہ کر سکے تو ہم کس باغ کی مولی ہیں۔ ہماری پولیس کے پاس نہ تو ہیلی کاپٹر ہیں اور نہ ہی جدید ترین کیمرے ، دوربین ، اسلحہ اور نہ ہی انکی ٹریننگ اس طرح کی ہے پھر کسی ادارے کے باہر کھڑے ہوئے چند سیکورٹی گارڈز سے یہ توقع کرنا کہ وہ خود کش حملہ آوروں کو کنٹرول کرلیں گے دیوانے کا خواب معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود چارسدہ اور دیگر کئی یونیورسٹیوں میں اور دیگر کئی واقعات میں سیکورٹی گارڈز کا مسائد حالات اور وسائل کے باوجود کمال بہادری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ملک میں دہشت گردی کے واقعات کا سد باب کرنا ہمارے حکمرانوں کی ذمہ داری ہے لیکن ہر واقعہ کے بعد ایک تو سیاسی جماعتوں کی جانب سے الزامات کی سیاست شروع ہو جاتی ہے۔ حالانکہ کوئی حکومت یا سیاسی جماعت یہ نہیں کہ سکتی کہ وہ یا انکا صوبہ ایسی کاروائیوں سے محفوظ ہے جب سب اسکا شکار ہیں توپھر انکا ایک Pageپہ آ نا کیوں ناممکن ہے ہمیں باچا خان یونیورسٹی واقع کو پٹھان کوٹ واقع کے تناظر میں دیکھنا اور جانچنا ہوگا۔ ہم نے بھارت کی فراہم کردا معلومات پر مولانا مسعود اظہر کونظر بند کر دیا ۔ مشکوک افراد کے خلاف کروائی شروع کر کے تمام تر اقوام عالم کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا لی ہے کہ شاید ہمارے ملک کی جہادی تنظیم ہی اسمیں ملوث ہے۔ ہماری مثا ل آ بیل مجھے مار والی ہے۔ اگر بھارتی حکومت نے کوئی ٹھوس ثبوت فراہم کیے تو ہمیں بھرپور کاروائی کرنی چاہئے ۔ ہماری مخلصانہ کاروائیوں کے باوجود بھارتی وزیر دفاع کی دھمکیوں کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا اور اسمیں کوئی شک نہیں ہے کہ بھارت نے افغان سرحد پر اپنے اڈے قائم کئے ہوئے ہیں ۔ جو پاکستان میں تخریبی اور دہشت گردی کی وارداتوں میں مصروف ہیں لیکن حکومتی سطح پر ڈنکے کی چوٹ پر اسکا کائی اظہار یا کاروائی نہیں کی گئی ۔ اب مذکورہواقعہ کے بارے میں بھی مبینہ طور پر سازش افغانستان میں بھارتی مدد سے تیار کی گئی ۔ ایک کالعدم تحریک کے کمانڈر کے دست راست کی کال ٹریس ہونے کے بعد کئی انکشافات ہوئے ہیں جس میں بھارتی کونسل خانے سے 30لاکھ بھارتی روپے باچا خان یونیورسٹی میں دہشت گردی کاروائی کیلئے وصول کرنا اور دہشت گردو ں اور افغانستان میں بیٹھے کمانڈروں کے درمیان روابط شامل ہیں ۔ ترجمان پاک فوج DIG آئی ایس پی آر لیفٹنٹ جنرل عاصم باجوہ کے بیان کے مطابق انہوں نے یہ معلومات حاصل کر لی ہیں کہ دہشت گرد کہاں سے آئے ، کس نے پہنچایا۔ انہوں نے یونیورسٹی میں موجود سیکورٹی گارڈز ، پولیس ، سیکورٹی فورسز کی بروقت کاروائی کی تعریف کی انکے مطابق اگر بروقت اور فوری کاروائی نہ ہوتی تو مزیدہلاکتوں کا اندیشہ تھا۔ انہوں نے چار دہشتگردوں کے سہولت کاروں کو بھی گرفتار کر کے میڈیا کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ لیکن ہماری حکومت حسب سابقہ بھیگی بلی بنی ہوئی ہے۔ ہم زبانی کلامی احتجاج کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ضرب عضب کے بعد سے دہشت گردی کی کاروائیوں میں کمی آئی ہے لیکن اب مرکز تبدیل ہو کرافغانستان سر حد پر چلا گیا ہے۔ جہاں پر انہیں بھارتی خفیہ ایجنسی را کی مکمل امداد حاصل ہے۔ APC حملہ کے بعد بھی ایسے ہی شواہد سامنے آئے تھے۔ اب ہماری حکومت کو چاہئے کہ وہ سخت احتجاج کرے ، عالمی سطح پر معاملے کو لے جائے جیسا کہ ثبوت حاصل کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم ایسے واقعات کے بعد چند دنوں میں کوئی ٹھوس کاروائی کی بجائے روٹین پہ آجاتے ہیں ۔ ہمارا نیشنل ایکشن پلان کہیں چل رہا ہے اور کہیں نہیں۔ ہر کوئی اپنا اپنا واویلا کرنے میں مصروف ہے۔ ہماری صوبائی حکومتیں اور جماعتیں کسی نہ کسی کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے پی کے کا یہ کہنا کہ جو اساتذہ اسلحہ لائسنس لینا چاہئیں انہیں دیا جائے گاتاکہ وہ دہشتگروں کا مقابلہ کر سکیں مطلب اب ہمارے اساتذہ کتاب اور قلم کی بجائے اسلحہ لے کر تعلیمی اداروں میں جائیں گے۔ ہمارا تعلیمی معیار اور شرح خواندگی پہلے ہی ناگفتہ بہ ہے ایسے حالات میں مزید کم ہونے کا اندیشہ ہے ہمیں دنیاوی تیاریوں کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیمی درسگاہوں ، تجارت ، سیاست، طرز حکمرانی کو اسلامی طریقوں سے پہ ڈھالنا ہوگا پھر مشکل کشا اﷲ کی مدد ہمارے ساتھ ہوگی۔ آج سے چند سال قبل پاکستان بھر کی مارکیٹوں، تجارتی مراکز میں دھماکے ہوتے تھے ان میں کمی کی بڑی وجہ وہاں پر لگنے والے رائے ونڈ تبلیغی مرکز کی ہدایت پر تعلیمی حلقے ہیں جب ہم اﷲ کو ساتھ لے کر چلیں گے اس کے دین کی مدد کریں گے تو اﷲ کا وعدہ ہے قرآن پاک میں کہ تم میری مدد کرو میں تمہاری مدد کروں گا۔ 2008 میں آنے والے زلزلے میں بالاکوٹ کے مقام پر تقریباً امارتیں زلزلے کا شکار ہو گئیں لیکن ایک امارت جہاں پر روزانہ اﷲ کا ذکر تعلیمی حلقہ کیا جاتا تھا محفوظ رہی۔ اب ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہمارے مسائل جدید ٹیکنالوجی، ٹریننگ ، اسلحہ، بارود وغیرہ سے حل ہوں گے یا اﷲ کی ذات سے۔۔۔!
Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 181 Articles with 138020 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.