پاکستان وہندوستان کے تعلقات میں موجود بیرئیرز کوپالش کرنے والے عناصرکو کیا بھارت نکیل ڈال پائے گا؟

 دنیامیں ’’ہم خیال‘‘بنانے اوروسائل کی جنگ اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ کبھی سرد اورکبھی گرم اندازمیں جاری رہتی ہے ۔حیرت تو اس بات پر ہے کہ مذہبی لوگوں کو قدامت پرست کہنے والایہ روشن خیال طبقہ سائنس کو اس قدرمنفی انداز میں استعمال کرتاآیاہے کہ آج بین الاقوامی منظرنامہ اس قدربدل چکاہے کہ سوافراد کوحق دلوانے کی خاطردوسوکی جان کو خطرہ لاحق ہوجاتاہے مگرکیااس خوف سے حق کی پالیسی سے دستبردارہوجاناچاہیئے ؟کیامظلوم کوبے آسراچھوڑدیناچاہیئے؟کیاکینسرکے مریض کو اس لیئے لاعلاج چھوڑ دیاجائے کہ اس رقم سے ہزاروں ’’بخار‘‘کے مریضوں کاعلاج ہوسکتاہے؟

وزیراعظم محترم نواز شریف نے اقتدارسنبھالتے ہی بھارت کی جانب قدم بڑھایااورمودی سرکارکی تقریب حلف برداری میں دامے درنے سخنے جاپہنچے ۔مودی سرکارکارویہ سردرہا۔پھریہ بادل اسوقت چھٹتے محسوس ہوئے جب ’’سشماسوراج‘‘پاکستان آئیں اورکہاکہ امن کا پیام لائی ہوں جبکہ بھارت جاکروہی ’’اٹوٹ انگ‘‘والی رٹ لگاتی رہیں پھربھارتی معیشت کوآسمان تک لیجانے کی خواہش رکھنے والے مودی نے کابل سے رائے ونڈ تک کاسفرکرکے عوامی حلقوں کو حیران وپریشان کردیاجب کہ باخبرحلقے جانتے تھے کہ یہ سب پاپڑافغانستان کالوہالیجانے کی خاطربیلے جارہے ہیں۔درحقیقت بھارت کو افغانستان کالوہادکھانے کاخواب ’’زمینی پاورز‘‘نے دکھایاہے جسے لیجانے کیلئے پاکستان سے زمینی راستہ درکارہے۔

بھارت وپاکستان قریبی ہمسایہ ممالک ہیں ۔ان کی عوام کے صدیوں پرانے رشتے ہیں جنھیں تقسیم بھی تقسیم نہ کرسکی۔دونوں ممالک کے مابین دشمنی کازہرعوامی غربت کی اذیت ناک تصویربنتاجارہاہے۔اس بات سے بھی انکارممکن نہیں کہ قریبی ہمسایوں کے ساتھ پرامن وخوشگوارتعلقات ہی اس خطے کوایک طاقت ورمعیشت میں بدل سکتے ہیں مگرکیااس حقیقت سے انکارممکن ہے کہ دونوں ممالک کے عوام کوملانے والی سمجھوتہ ایکسپریس کے ملزم بھارت کے اندر ہیں؟کیااس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ سرکریک ‘سیاچن ‘اورکشمیر کے مسئلے کے بغیر حالات ہمیشہ کیلئے معمول پرآجائیں گے ؟ابھی کچھ عرصۂ قبل ہی 2010سے بھارت کی جانب سے کشمیرکے ترجمان پروفیسررادھاکمارنے کہاکہ بھارت کو سوچناہوگاکہ کشمیری 27اکتوبرکو’’بلیک ڈے کیوں مناتے ہیں ‘یہ وہ دن ہے جب بھارت کی افواج کشمیرمیں داخل ہوئی تھیں ۔انہوں نے کہاکہ یہی صورتحال رہی تو آئندہ دس برس تک کشمیربھارت کے ہاتھوں سے نکل جائیگا۔کیااس حقیقت سے انکارممکن ہے کہ آج کشمیرکے سکھ بھی کشمیری مسلمانوں کے ساتھ احتجاج میں شامل ہورہے ہیں ؟

بھارتی وزیراعظم کی رائے ونڈیاترابھارتی وزیرخارجہ ‘سشماسوراج کی آمد‘اورپاکستانی قومی سلامتی کے مشیر ریٹائڑد جنرل ناصرجنجوعہ اور انڈین سلامتی کے مشیر اجیت دوول کی بنکاک ملاقات یہ سب تانے بانے اس بات کی غمازی کررہے تھے کہ دونوں جانب اسلحہ پرخرچ ہونے والاخزانہ اب عوام پرخرچ ہوگامگرپھرکیاہواکہ پٹھان کوٹ کاواقعہ پیش آگیا۔پاکستان میں اعلی سطحی میٹنگزہوئیں‘بھارت کی جانب سے شواہد دیئے گئے‘پاکستان کی جانب سے ایک کالعدم مذہبی جماعت جیش محمد کے خلاف بڑے پیمانے پرکریک ڈاؤن ہوا‘اس جماعت کے سربراہ کو حفاظتی تحویل میں لیاگیالیکن بھارتی ہٹ دھرمی یاچالاکی کی وجہ سے نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔جب پاکستان نے اعلان کیاکہ پاکستان کی جانب سے تفتیشی ٹیم بھارت جائے گی تو اس کاخیرمقدم کیاگیامگربعد میں بھارتی وزیردفاع جناب منوہرپاریکرنے بیان داغاکہ اب ہماری قوتِ برداشت جواب دے چکی ہے اوردنیادیکھے گی کہ ایک سال کے اندرکیاہوگا‘‘۔بھارت کی جانب سے پاکستانی تفتیشی ٹیم کو شواہدلینے یاموقع واردات دیکھنے کی پابندی عائد کردی گئی۔

بعض تجزیہ نگاریہ کہہ رہے ہیں کہ منوہرپاریکرکایہ بیان بی جے پی کی ’’سیاسی ضرورت‘‘کی وجہ سے دیاگیاجب کہ بعض حلقے اس بات کی تائید کررہے ہیں کہ بھارت میں موجود’’اینٹی پاکستان لابی‘‘کے زیراثرایسے بیانات آتے ہیں یاپٹھان کوٹ کے حملے ہوتے ہیں تاکہ دونوں ممالک کو دوررکھ کراپنا’’سودا‘‘بیچاجاسکے۔تعصبات سے بالاترہوکردیکھاجائے تودونوں جانب کچھ ایسے عناصرومسائل موجود ہیں جن کی بنیادپردونوں ممالک کے مابین غلط فہمیاں آسانی سے پھیلائی جاسکتی ہیں۔کچھ حلقے اس بات پرزوردیتے ہیں کہ فی الحال کشمیرجیسے مسئلے کوبھی پس ِ پشت ڈال کرباہمی تجارت کو فروغ دیاجائے ۔بھارت سے تجارت کی مخالف سودمندنہیں مگراندھی تجارت ضرورضرررساں ہے ۔اگر اس تجارت پر غورکیاجائے تو 2008سے09میں 719-85ڈالرخسارہ 2015تک دوبلین ڈالرتک پہنچ چکاہے۔بھارت وپاکستان کی تجارت میں بھارت کی جانب سے ایسے بہت سے ٹیرف اورنان ٹیرف بیرئیرز ہیں جنھیں کم کرنے کے بجائے بھارت بڑھاتارہتاہے۔حالیہ تجارت میں بھارت نے اپنی سپننگ انڈسٹری کو اتنی رعایت دی کہ جب انھوں نے اپنامال پاکستان میں ٹھونساتوپاکستانی سپننگ انڈسٹری کوخسارہ ہوا۔پاکستان سے انڈیاکو کپڑابڑے پیمانے پر بھیجاجاسکتاہے مگربھارت نے ایسے غیرضروری ٹیسٹ مقررکیئے ہیں کہ یہ کام تقریباناممکن ہوکررہ گیاہے اوراس ضمن میں یورپی یونین کے ٹیسٹ کی شیٹ بھی مستردکردی گئی ہے بھارت کی جانب سے۔اسی طرح ’’ڈیمرج ‘‘چارجز‘نقل وحمل کیلئے ٹرانسپورٹ اورسیمنٹ کی مد میں غیرضروری ٹیسٹ بھی تجارت کو روک لگارہی ہیں اوربھارت نے اس ضمن کبھی سنجیدہ اقدامات نہیں کیئے۔
سیاسی منظرنامے کی صورتحال بھی مختلف نہیں بھارت نے آزادکشمیرمیں ہونے والی عالمی کشمیرکانفرنس میں مقبوضہ وادی کے حریت رہنماؤں کو شرکت کی خاطرویزاجاری کرنے سے انکارکردیاہے۔جس پر آزادکشمیرکے صدریعقوب خان نے پاکستان ‘مشرقی وسطی اوردیگر ممالک کے دانشوروں اورسیاسی قائدین سے معذرت کرتے ہوئے کانفرنس کو غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کردیاہے۔بھارت کوچاہیے تو یہ تھاکہ اس عمل کو تقویت دیتاتاکہ مسئلہ کشمیرکاکوئی مناسب حل تجویز ہوتااوردونوں ممالک کے بیچ تناؤ میں کمی واقع ہوتی مگر اس کی ہٹ دھرمی کاکیاکیاجائے جو کشمیرمیں کشمیری مجاہدین کی سرگرمیوں کو اخلاقی امداددینے پرپاکتسان کو کراس باڈرٹیراررزم کاالزام دیتاہے اور’’آزاد کشمیر‘‘کومقبوضہ کشمیرکہتاہے۔

دوسری جانب اگر پٹھان کوٹ مسئلے کاقانونی جائزہ لیاجائے تو بین الاقوامی قانون کے ماہراحمربلال صوفی کاکہناہے کہ پاکستان وبھارت کے مابین ملزمان کی حوالگی کا کوئی قانون اب تک موجود نہیں ہے۔البتہ اسلام آباد کاڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملزم کو کسی دوسرے ملک کے حوالے کرسکتاہے بشرطیکہ حکومت اس کے سامنے ٹھوس شواہد رکھے اوراس معاملے میں سپریم کورٹ بھی مداخلت کرسکتی ہے۔مگرظاہرہے شواہدلینے کیلئے جائے وقوعہ کامعائنہ ضروری ہے جسے بھارت رد کرچکاہے ۔حکومت پاکستان کیلئے اب رمزی یوسف کی طرح کسی کی حوالگی کاتصوربھی ممکن نہیں ۔دوسری جانب کالعد م تنظیم کے سربراہ حفاظتی تحویل میں ہیں جس کی مدت تیس دن ہے ‘جس کے اندر اندرملزم کیخلاف ثبوت جمع کرناہوتے ہیں البتہ حکومت مزید تیس دن کی مہلت بھی حاصل کرسکتی ہے لیکن افسوس کہ پاکستان کی جانب سے موئثرکاروائی اوربہتررسپانس کاجواب سخت اورروایتی انداز میں دیاجارہاہے۔

جب تک پاکستان وبھارت کے مسائل طے نہیں ہونگے اسوقت تک دونوں ممالک دفاعی بجٹ کے بوجھ تلے دبے رہیں گے۔اب بھارت ہی کولیجئے وہ کرناٹک ریاست میں برصغیرکاسب سے بڑاجوہری شہربساکرہائیڈروجن بم کی تیاریوں میں مصروف نظرآتاہے ۔اطلاعات کے مطابق اس کی نگرانی وزیراعظم ہاؤس سے کی جارہی ہے۔بھارت میں شدت پسندی کو عالمی سامراج بھی تقویت دے رہاہے جو مشرقی وسطی میں پاکستان کے کردار کو محدود کرنا چاہتاہے۔عالمی طاقتیں شطرنج کے کھیل کی طرح بازی پلٹی رہتی ہیں۔روس کو اس قدرمجبورکردیاگیاہے کہ وہ شام میں اپنی فوجیں اتار دے ۔چین وروس نے افریقہ کے بعد سب سے زیادہ سرمایہ کاری شام میں کررکھی تھی جسے عالمی طاقتوں نے نیست ونابود کردیا۔اسی طرح داعش کے ذریعے نورالمالکی اورصدربشارالاسدکوسبق سکھانے کے بعد اسی کے خلاف کاروائی کی جارہی ہے۔کوشش کی جارہی ہے کہ روس کریمیاوبحیرروم کے ذریعے اسرائیل کے سرتک نہ پہنچ سکے ۔بڑی تگ ودوکے ساتھ مشرق وسطی میں مسلم ممالک اورچین وروس کی صلاحتیوں کو جنگ زدہ کرنے کی خاطر کوشش کی گئی ہے اوراب پاکستان کو اس لیئے دوررکھاجارہاہے تاکہ وہ اس گند کو صاف نہ کرسکے۔اسی لیئے بھارت میں انتہاپسندی کو بھی شہ دی جارہی ہے تاکہ اگرپاکستان کی طبیعت میں مسلمانوں کی حالت دیکھ کرتکدر آئے تو اسے بھارتی انتہاپسندی کے ذریعے دبادیاجائے۔

پاکستان کی اقتصادی راہداری اس کی تاریخ کا سب سے بڑااکنامک منصوبہ بننے جارہاہے۔پاکستان اپنے اندرہی دہشت گردی کی جنگ لڑ رہاہے ایسے حالات میں پاکستان کسی ملک میں مداخلت کاتصوربھی نہیں کرسکتا۔سوال اگریہ ہے کہ اجمل قصاب پاکستانی تھایانہیں ؟توکیایہ سوال نہیں ہے کہ اجمل قصاب کاجرم کتناتھایابمبئی حملے کی سازش میں کس خفیہ ایجنسی کا ہاتھ تھا؟اگربھارت بمبئی حملہ پر تحقیق کرے تو شاید اس کاہاتھ اپنوں کے ہی گریبان تک جائے۔اقتصادی راہداری بھارت سمیت دنیاکونہیں بھارہی ۔عالمی سامراج پاکستان کو مشرقی وسطی کے معاملات سے دور رکھنا چاہتاہے کیونکہ اس نے بڑی تگ ودو کے ساتھ وہاں شعیہ سنی فساد کا ماحول تیارکرکے عرب وعجم کو تباہ کرنے کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچاناہے ۔چین وروس نے افریقہ کے بعد سب سے بڑی سرمایہ کاری شام میں کی تھی ان ممالک کو سبق سکھانے کیلئے اس نے شام کو تباہ کردیاہے۔پاکستان کو قضیئے سے دوررکھنے کیلئے بھارت میں انتہاپسندطبقے کو تیارکیا جارہاہے۔پاکستان اس تبدیل ہوتی صورتحال میں اقتصادی راہداری کی تکمیل سے فائدہ اٹھاسکتاہے کیونکہ اقتصادی راہداری سے چین کے معاشی فوائد بڑے پیمانے تک پاکستان سے منسلک ہوجائیں گے اوروہ کبھی بھی پاکستان کے امن کو خراب نہ ہونے دے گا۔

ان تمام مسائل جن کا اوپرذکرآچکاہے کاپرامن حل وقت کی اشدضرورت ہے۔پاکستان نے پٹھان کوٹ مسئلے میں تعاون کا یقین دلایاہے نہ کہ یہ تسلیم کر لیاہے کہ ہمارے علاقے کی حدودیالوگ استعمال ہوئے ہیں یا کیئے گئے ہیں ابھی تحقیقات ہوناباقی ہیں۔ماضی کی نسبت اس لیئے مذاکرات تگڑے نظرآرہے ہیں کہ وزیراعظم پاکستان سمجھتے ہیں کہ مودی سرکاربااختیارہے ۔دونوں ممالک کو اپنے تمام پیچیدہ مسائل بات چیت کے ذریعے ہی حل کرناہونگے اورالزام تراشی کی فضاسے بچناہوگا۔کیابھارت نے کبھی سوچاہے کہ ستمبر 2015میں بڈھ پیر سانحہ کو پاکستان نے کسی ملک سے نہیں جوڑاتوپھر وہ کیوں بناء ثبوت کے چڑھ دوڑتاہے۔

ان تمام ترحالات میں اگر دونوں ممالک سمجھ بوجھ کامظاہرہ کریں تو امن مذاکرات کو کامیاب کرواکرانتہاپسندوں کے منہ پرطمانچہ رسیدکرسکتے ہیں۔اس کیلئے یہ مصرعہ یاد رکھناہوگا
یہ کیسے ممکن ہے بھلاکہ ظلم بھی رہے اورامن بھی ہو
 
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 188400 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.