اچھے اور برے طالبان
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
ایک زمانہ تھا کہ جب پاکستانی معاشرہ ایک
پرامن اور پرسکون معاشرہ تھا،پستول اور بندوق شاذونادر ہی کسی کے گھر میں
ہوا کرتا تھا۔پختون معاشرہ بھی ایسا نہ تھا جو آج ہے۔پختونوں کے گھروں میں
بھی اسلحہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس وقت کرائم ریٹ بھی کم تھا لیکن پھر
افغانستان میں روس نے قدم رکھا اور امریکانے روس سے بدلا لینے کے لیے
پاکستان کی مدد سے مجاہدین تیار کیے جو باقاعدہ طور پر روسی فوج سے لڑتی
تھی۔جہاد کے نام پر بہت سے گروپ بنائے گئے ،سب کی ٹر نینگ ہوئی اور آخر کار
مجاہد ین کے ہاتھوں روسی افواج کوشکست ہوئی جس کے نتیجے میں افغانستان سے
روسی افواج چلی گئی ،افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہونے کی وجہ سے حالا ت
خراب ہوئے، پاکستان میں بھی اسلحہ آیا ،خیبر پختونخوا کے تقر یباً ہر گھر
میں روسی بندوق گلاشنگوف ہر گھر میں پہنچا ۔ افغانستان میں خانہ جنگی کے
دوران طالبان کا ظہور ہوا جنہوں نے قندہار سے شروع ہوکر پوری ملک پر قبضہ
کرلیا۔طالبان کی حکومت پانچ ،چھ سال رہنے کے بعد نائن الیون کا واقع پیش
آیا جس میں تین ہزار لوگ ہلاگ ہوئے۔طالبان کے دور حکومت میں افغانستان میں
بہت حد تک امن قائم رہا ۔ انہوں نے بعض غلطیاں بھی کی لیکن مجموعی طور پر
ان کی حکومت پرامن اور عوام دوست رہی۔نائن الیون کے بعد امریکا نے اسامہ بن
لادن کا بہانہ بنا کر 2oo2میں افغانستان پر حملہ کیا ۔یہ بھی یاد رہے کہ
نائن الیون میں کوئی پاکستانی یا افغانی شامل نہیں تھا لیکن اس کے باوجود
امریکا نے القاعدہ اور اس کے بہانے افغانستان پرچڑھائی کی جس میں اب تک
لاکھوں لوگ شہید ہوچکے ہیں اور بہت سے عمر بھر کے لیے اپاہج ۔ امریکا
طالبان کو شکست تو نہ دے سکا لیکن افغانستان سمیت پوری خطے میں خانہ جنگ
اور بدامنی ضرور پیدا ہوئی جس کا نقصان آج بھی پاکستان اٹھارہاہے۔افغانستان
پرحملہ کرنے کے بعد بہت سے افغان جنگجو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں روپوش
بھی ہوئے ۔امریکا نے افغانستان پر حملے کے بعد جلد ہی کنٹرول سنبھال لیا
تھا ، طالبان نے ایک منصوبے کے تحت افغانستان کی حکومت چھوڑ کر گوریلا جنگ
شروع کی جس نے آج امریکا کو شکست سے دوچار کیا۔آج پندرہ سال گزرنے کے بعد
بھی امریکا افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل نہ کرسکا ،امریکانے طالبان سے
اپنی شکست تو مان لی لیکن آج پورا خطہ غیر محفوظ ہوگیا،دہشت گردی اور
بدامنی سے ہر علاقہ متاثر ہوا ۔ دوسری طرف امریکا اور افغان حکومت نے
وقتاًفوقتاً پاکستان سے شکایت بھی کی کہ قبائلی علاقوں سے افغانستان میں
مداخلت ہوتی ہے ، یہ بھی کہا گیا کہ طالبان کو پاکستان کی جانب سے سپورٹ مل
رہی ہے لیکن عملی طور پر امریکا نے پاک افغان بارڈر کو محفوظ بنانے کے لئے
کوئی اقدامات نہیں اٹھائے ، پاکستان کے تجایز کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا۔
پاکستان نے بحیثیت اسٹیٹ ان تمام الزامات سے انکار بھی کیا ۔ افغان جنگ کی
وجہ سے پاکستان میں 2007تک حالات اتنے خراب نہیں تھے جتنے حالات اسلام آباد
میں لال مسجد آپریشن شروع ہونے کے بعد خراب ہوئے ، یہ بھی حقیقت ہے کہ لال
مسجد آپریشن سے پہلے پاکستانی طالبان کاظہور ہو چکا تھا ، قبائلی علاقوں
میں امریکا، بھارت ، افغانستان اورپاکستان پراکسی وار لڑنے کے لیے تیاری
اورحکمت عملی بنارہے تھے ۔ ایک منصوبے کے تحت وزیرستان میں طالبان تیار
ہورہے تھے جنہوں نے بعد ازاں قبائلی علاقوں کے دیگر حصوں میں قدم جمانا
شروع کیا ،زیادہ تر ان کی کارروائیاں قبائلی علاقوں تک محدود تھی لیکن
بعدازاں انہوں نے ملک کے دیگر علاقوں میں بھی اپنا اثررسوخ بڑھایا۔ لال
مسجد آپریشن کے بعد سے حالات مزیدخراب ہو گئے ،طالبان کے مزید گروپ بھی
سامنے آگئے جو طالبان پہلے افغانستان میں امریکا کے خلاف لڑنے جاتے تھے ان
کے ساتھ اور کئی گروپ نے مل کر پاکستان میں سکیورٹی اداروں کے خلاف علم
بغاوت شروع کی،اس وقت کے صدر جنرل مشرف پر بھی کئی حملے ہوئے لیکن لال مسجد
آپریشن کے بعد ملک بھر میں شدت پسندی نے زور پکڑا ۔ آئے روز بم دھماکے اور
خودکش حملے شروع ہوئے، سوات میں طالبان کا ظہور ہوا جس کو ختم کرنے کے لیے
بعدازاں بہت بڑا آپریشن کرنا پڑا ۔سوات سے طالبان نکل کر قبائلی علاقوں اور
افغانستان فرار ہوئے۔حالات تیزی سے بدلنے لگے ۔ ملک بھر میں بم دھماکے ،
خود کش حملے اور سکیورٹی اداروں پر حملوں نے ایوان اقتدار اوراعلیٰ عسکری
قیادت کوسوچنے پر مجبور کیاکہ اب ان طالبان یا شدت پسندوں کے خلاف کارروائی
ہونی چاہیے۔ سوالات یہ بھی اٹھے کہ کونسے طالبان کے خلاف کارروائی ہو۔ ایک
وہ طالبان جو افغانستان میں افغان طالبان کی مدد کرتے ہیں یا ان کے ساتھ
شانہ بشانہ لڑتے ہیں ، دوسرے وہ گروپ جو دوسرے ممالک سے پیسہ لے کر ملک میں
خانہ جنگی شروع کرتے رہیں اور حالات کوخراب کرتے ر ہیں۔ مختصراً یہ کہ
پاکستانی حکومت اور عسکری اداروں کی طرف سے کہا گیا کہ جولوگ مذاکرات کرنا
چاہتے ہیں ان سے مذاکرات شروع ہو اور جو مذاکرات کے حامی نہ ہوان کے خلاف
کارروئی شروع کی جائے ۔ مذاکرات کرنے کی کئی بار کوشش بھی ہوئی لیکن ہر بار
کوئی نہ کوئی مسئلہ درپیش آتا اور حالات پھر نو ریٹرن کی طرف چلے جاتے ۔ ان
شدت پسندوں میں کئی گروپ بھی بن گئے ہر گروپ کا اپنا ایجنڈا بناتھا ،پاکستان
کوکمزور کرنے اور ملک میں خانہ جنگی شروع کرنے کے لیے عالمی کھلاڑی بھی
میدان میں تھے ، ملک دشمن عناصرنے حالات کاخوب فائدہ اٹھا یا اورآخرکار
اچھے اور برے طالبان میں پہچان بھی مشکل ہوگئی ۔ ملک بھر میں طالبان کی
کارروئیاں بڑھتی گئی تو قبائلی علاقے شمالی وزیرستان جو ہر قسم کے طالبان
کا مرکز تھا ،جہاں پر طالبان کی ٹر نینگ سمیت ہرقسم کی منصوبہ بندی ہوتی
تھی ، وہاں آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیاجس میں بہت سے شدت پسند ٹارگٹ ہوئے
اور بہت سے افغانستان بھی فرار ہوئے۔آپریشن ضرب عضب کے بعد ملک میں دہشت
گردی کے واقعات میں کمی آئی لیکن پھر 16 دسمبر 2014کو پشاور میں آرمی پبلک
سکول پر حملہ ہواجس میں تقریباً135معصوم طلبہ کوٹارگٹ کیا گیاجس نے پوری
قوم کوسوچنے پر مجبور کیا کہ ملک سے شدت پسندی کے خاتمے اور ان لو گوں
کوشکست دینے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں حکومت ، عسکری اداروں اور تمام
سیاسی جماعتوں نے مل کر نیشنل ایکشن پلان بھی بنا یا ،عسکری اداروں نے
افغانستان کے ساتھ بھی مشاروت شروع کی اور فیصلہ کیا کہ گڈ اور بیڈطالبان
نہیں بلکہ سب کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ افغان قیادت سے مل کر یہ بھی
کہا گیا کہ اپ کا دشمن ہمارا دشمن اور آپ کا دوست ہمارا دوست ۔ اس طرح
بھارت کے ساتھ بھی تعلقات کوبہتر کرنے کے لیے باور کرایا گیا کہ پاکستان
کسی بھی قسم کی شدت پسندی کے حق میں نہیں ۔ پاکستان کی سرزمین کسی بھی ملک
کے خلاف استعمال نہیں ہوگی ۔ خارجہ پالیسی میں بھی تبدیلی محسوس کی گئی جس
کو مختلف مکتب فکر کی جانب سے سراہا گیا۔ نئے سال کے آغاز میں آرمی چیف
جنرل راحیل شریف نے اپنے عزم کو دوہراتے ہوئے کہا کہ 2016دہشت گردی سے نجات
کا سال ہوگا لیکن سال کے آغاز ہی سے ملک میں اور خاص کر خیبرپختونخوا میں
کئی دہشت گرد حملے ہوئے جس نے بہت سے سوالوں کو بھی جنم دیا لیکن ایک بات
طے ہوئی کہ عسکری قیادت سمیت پوری قوم پرعزم ہے کہ ملک سے شدت پسندی اور
دہشت گردی کا خاتمہ ہرصورت میں کرنا ہے ۔ چارسدہ میں باچاخان یونیورسٹی پر
حملے کے بعد کی صورت حال سے واضح ہوگیا ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے مدد
کاروں کو کسی صورت نہیں چھوڑا جائے گا ۔
پاکستان میں ہرمکتب فکر کے لوگوں کواب نئی پالیسی کے مطابق چلنا چاہیے جس
طرح اسٹیٹ نے اچھے اور برے طالبان کا فرق ختم کیا ہے اسی طرح ہماری تمام
سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو بھی اچھے اور برے طالبان کا فرق ختم کرنا چاہیے
۔ بھارت اور افغانستان سمیت علاقائی اور عالمی ممالک کو بھی پاکستان کی اس
نئی پالیسی کا خیر مقدم کرنا چاہیے اور دہشت گردی جو ایک عالمی مسئلہ ہے ان
کے خلاف سب کو اکٹھا ہو کر لڑنا چاہیے اورسب ممالک اپنی فرائض کو پوراکریں،
تب دہشت گردوں کوشکست اور خطے میں امن قائم ہوسکتا ہے ۔ |
|