شاعر جناب افضل گوہرؔ راؤ صاحب
(وشمہ خان وشمہ, Malaysia)
آج پھلروان، سرگودھا سے تعلق رکھنے والے
خوبصورت لب و لہجے کے شاعر جناب افضل گوہرؔ راؤ صاحب کا یومِ پیدائش ہے۔
افضل گوہر راؤ یکم فروری 1965ء میں ملتان کی تحصیل شجاع آباد کے ایک گاؤں
میں پیدا ہوۓ لیکن ان کا بچپن اپنے آبائی گاؤں پھلروان میں گزرا۔ ابتدائی
تعلیم سرکاری سکول پھلروان سے حاصل کی۔ 1982ء میں گونمنٹ کالج سرگودھا سے
ایف اے پاس کیا اور پھر حالات کچھ ایسے تھے کہ آگے نہ پڑھ سکے۔1992ء میں
پاک فوج میں بطور فزیو تھراپسٹ ملازمت اخیتیار کی اور 23 سال فوج کی ملازمت
میں گزارے۔ ان کے چھ مجموعے شائع ہو کر پذیرائی پا چکے ہیں ۔ جن کے نام یہ
ہیں ۔ " خوش نما" ۔ "ہجوم" ۔ "رمق" ۔ "ہم قدم"۔ " جھلک" اور "اچانک" اور "
گذشتہ کلیات" اور تحقیقی و تنقیدی مطالعہ براۓ ایم اے اردو یونیورسٹی آف
سرگودھا ۔۔افضل گوہرّ راؤ کو پرندوں اور جانوروں سے بہت محبت ہے اسی وجہ سے
ان کی شاعری میں پرندوں کا ذکر ہمیں اکثر نظر آتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جو سورج ہے یہ سورج بھی کہاں تھا پہلے
برف سے اٹھتا ہوا ایک دگواں تھا پہلے
مجھ سے آباد ہوئی ہے تری دنیا ورنہ
اس خرابے میں کوئی اور کہاں تھا پہلے
ایک ہی دائرے میں قید ہیں ہم لوگ یہاں
اب جہاں تم ہو کوئی اور وہاں تھا پہلے
اس کو ہم جیسے کئی مل گۓ مجنوں ورنہ
عشق لوگوں کے لیے کار زیاں تھا پہلے
یہ جو اب ریت نظر آیا ہے افضل گوہرؔ
اسی دریا میں کبھی آب رواں تھا پہلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہجر میں اتنا خسارہ تو نہیں ہو سکتا
ایک ہی عشق دوبارہ تو نہیں ہو سکتا
چند لوگوں کی محبت بھی غنیمت ہے میاں
شہر کا شہر ہممارا تو نہیں ہو سکتا
کب تلک قید رکھوں آنکھ میں بینائی کو
صرف خوابوں سے گزارہ تو نہیں ہو سکتا
رات کو جھیل کے بیٹھا ہوں تو دن نکلا ہے
اب میں سورج سے ستاہ تو نہیں ہو سکتا
دل کی بینائی کو بھی ساتھ ملا لے گوہرؔ
آنکھ سے سارا نظارہ تو نہیں ہو سکتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیند آئی نہ کھلا رات کا بستر مجھ سے
گفتگو کرتا رہا چاند برابر مجھ سے
اپنا سایہ اسے خیرات میں دے آیا ہوں
دھوپ کے ڈر سے جو لپٹا رہا دن بھر مجھ سے
کون سی ایسی کمی میرے خد و خال میں ہے
آئینہ خوش نہیں ہوتا کبھی مل کر مجھ سے
کیا مصیبت ہے کہ ہر دن کی مشقت کے عوض
باندھ جاتا ہے کوئی رات کا پتھر مجھ سے
دشت کی سمت نکل آیا ہے میرا دریا
بس اسی پر ہیں خفا سارے سمندر مجھ سے
اپنے ہاتھوں کو جو کشکول بنایا گوہرؔ
گر پڑا جانے کہاں میرا مقدر مجھ سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمیں سے آگے بھلا جانا تھا کہاں میں نے
اٹھاۓ رکھا یوں ہی سر پہ آسماں میں نے
کسی کے ہجر میں شب سے کلام کرتے ہوۓ
دیے کی لو کو بنایا تھا ہم زباں میں نے
شجر کو آگ کسی اور نے لگائی تھی
نہ جانے سانس میں کیوں بھر لیا دھواں میں نے
کبھی تو آئیں گے اس سمت سے گلاب و چرخ
یہ نہر یوں ہی نکالی نہیں یہاں میں نے
مری تو آنکھ مرا خواب ٹوٹنے سے کھلی
نہ جانے پاؤں دھرا نیند میں کہاں میں نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی بےزاری کے اظہار کا غُصہ کرنا
چھوڑئیے کاھے کو بےکار کا غُصہ کرنا
اُس سے کیا پوچھنا ماتھے کی شکن کا مطلب
جس نے دیکھا ہی نہ ھو یار کا غُصہ کرنا
تم جو شاخوں سے پرندوں کو اُڑا کر خوش ھو
بعد میں دیکھنا اشجار کا غُصہ کرنا
جس نے گھر چھوڑ کے جانا ھو وہ کب دیکھتا ھے
سقف و بام و درودیوار کا غُصہ کرنا
ھم کوئ ایسی تجارت کبھی کرتے ہی نہیں
جس سے بنتا ھو خریدار کا غُصہ کرنا
لغزشِ عشق میں برداشت کیا کر گوھر
سُرخ ھوتے لب و رخسار کا غُصہ کرنا |
|