یوم یکجہتی کشمیر کے تقاضے
(Muhammad Abdullah, Lahore)
کشمیر میں چلنے والی پر امن آزادی کی تحریکوں کو بزور قوت دبا کر دنیا کی نظروں سے مسئلہ کشمیر کو اوجھل کر دینا بھارت کا روز اول سے وطیرہ رہا ہے اوردنیا کے دیگر مظلوم مسلمانوں کی طرح اہل کشمیر کا بھی عالمی سطح پر کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ |
|
|
کشمیر برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے اور پاکستان کا جزولاینفک ہے |
|
مشہور مغربی مفکر روسو نے کہا تھا کہ
”انسان فطرتاً آزاد پیدا ہوتا ہے مگر اس کو زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے“ کچھ
یہی حال اس کرہئ ارض پر بسنے والے بے بس اور لاچار کشمیریوں کا بھی ہے،جو
کئی عشروں سے غلامی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی بھارت
نے 27 اکتوبر 1947کو اپنی فوجیں داخل کرکے کشمیر پر جابرانہ قبضہ کیا تھا
اور مظالم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا تھا جو تاحال جاری ہے۔
تڑپتی لاشوں، لٹتی عصمتوں، غائب کردیے جانے والے جواں سال بیٹوں اور
ظالمانہ قوانین کے تحت قیدوبند کی صعوبتوں سمیت کوئی ظلم ایسا نہیں ہے جو
کشمیری قوم نے ظالم بھارتی فوج کے ہاتھوں نہ جھیلا ہو۔ 1948 کی جنگ میں
بھارت نے اقوام متحدہ میں یہ عہد کیا تھا کہ وہ کشمیر میں استصواب رائے
کروائے گی اور کشمیریوں کو ان کا حق خودرادیت استعمال کرنے کا موقع دیا
جائے گا،مگر تاحال یہ وعدہ پورا کرنا تو دور کی بات بھارت اس وقت سے لے کر
اب تک مسلسل وہاں پر اپنی فوجیں بڑھاتا چلا جارہا ہے اور وہاں پر اپنے
مظالم کا سلسلہ دراز کرتا چلا جارہا ہے۔ کشمیر میں چلنے والی پر امن آزادی
کی تحریکوں کو بزور قوت دبا کر دنیا کی نظروں سے مسئلہ کشمیر کو اوجھل کر
دینا بھارت کا روز اول سے وطیرہ رہا ہے اوردنیا کے دیگر مظلوم مسلمانوں کی
طرح اہل کشمیر کا بھی عالمی سطح پر کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
ایک ملک ایسا بھی ہے جس کے ساتھ ان کا مذہبی، نظریاتی، ثقافتی اور
جغرافیائی رشتہ ہے اور وہ ملک کہ جس کے لیے کشمیر زندگی اور موت کا مسئلہ
ہے۔ کشمیر کی آزادی اور اس ملک کے ساتھ الحاق میں ہی اس ملک کی بقا ہے، جس
کے بانی نے کہا تھا کہ”کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔“ جس کے ایک وزیر اعظم نے کہا
تھا کہ ”کشمیر کے لیے اگر ہمیں بھارت سے ایک ہزار سال تک لڑنا پڑا تو ہم
لڑیں گے۔“ جس کے چیف آف آرمی سٹاف نے یہاں تک کہہ دیاہے کہ ”کشمیر برصغیر
کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے۔“ وہ ملک،جو پوری دنیا میں کشمیر کا واحد
وکیل سمجھا جاتا ہے، لگتا ہے کہ اب اس ملک کے ارباب اختیار یہ کردار نبھاتے
نبھاتے تھک گئے ہیں یا سست پڑ گئے ہیں۔ ان کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ
ان کا مقابلہ ایک ایسے دشمن سے ہے جو چانکیائی سیاست و کردار کا حامل ہے۔
پاکستان کے ارباب عقل و دانش کو سمجھ جانا چاہیے کہ بھارت کا تو اول دن سے
ہی یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ جب بھی دیکھتا ہے کہ اہل کشمیر میں آزادی کی تڑپ
اور جستجو بڑھ گئی ہے اور کشمیریوں کی ان گنت، لازوال قربانیوں اور پاکستان
کی مؤثر وکالت کی بدولت مسئلہ کشمیر دنیا کے سامنے اجاگر ہورہا ہے تو وہ
کوئی ایسا کھڑاک کرتا ہے کہ ساری دنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر سے ہٹ کر بھارت
کی نام نہاد مظلومیت کی طرف ہوجاتی ہے اور ساری دنیا بشمول پاکستان، مسئلہ
کشمیر کو بھول کر بھارت کی دل جوئی اور غمگساری میں لگ جاتی ہے۔ ابھی حال
ہی میں بھارت نے جب دیکھا کہ کشمیر میں تحریک آزادی کی قیادت نوجوانوں کے
ہاتھ میں آجانے کے بعد تحریک ایک نئے اور فیصلہ کن موڑ میں داخل ہوچکی ہے
تو اس کو محسوس ہونا شروع ہوگیا کہ
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھتے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
وادی میں آتے دن لہراتے پاکستانی پرچم اور بلند ہوتے ”پاکستان زندہ باد“
اور ”بھارت مردہ باد“کے نعروں میں اسے نوشتہ دیوار صاف نظر آنا شروع ہوگیا
کہ اب ساری دنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر کی طرف مبذول ہوچکی ہے۔ بھارتی غنڈہ
گردی اور دہشت گردی پاکستان کی موثر خارجہ پالیسی، حکمران اور سپہ سالار کے
جذبات سے لبریز بیانات کی وجہ سے دنیا کے سامنے آشکار ہوچکی ہے تو اس نے
ایک تیر سے دو شکار کرنے کی سوچی، پٹھان کوٹ حملوں کی آڑ میں ایک طرف تو
پوری دنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر سے ہٹا کر اپنے لیے ہمدردیاں سمیٹیں اور
دوسری طرف کشمیریوں کے وکیل پاکستان پر ایک دفعہ پھر دہشت گردی کا الزام
لگا کر اس مسئلہ کشمیر پر مؤثر سفارت کاری سے ہٹا کر دفاعی پوزیشن پر چلے
جانے پر مجبور کردیا۔
پاکستان سمیت پوری دنیا بھارت کے جھانسے میں آکر ایک بار پھر کشمیر سے
نظریں چرا گئی، کشمیریوں کی قربانیاں اور ان کی پوری تاریخ میں اتنی تیز
اور منظم تحریک پھر سے پس پردہ چلی گئی۔ حالانکہ متحدہ جہاد کونسل کے
سربراہ سید صلاح الدین نے علی الاعلان تسلیم کیا ہے کہ یہ حملے کشمیریوں نے
کیے ہیں کیونکہ اگر بھارت کو کشمیر میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا
حق ہے تو پھر مظلوم کشمیریوں کو بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنے مظالم کا بدلہ
بھارت سے لے۔
ان حالت میں پاکستانی حکمرانوں کو چاہیے تھا کہ وہ بھارتی سازشوں کو عالمی
سطح پر بے نقاب کرتے اور کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرتے، اس سے پاکستان پر
لگائے گئے دہشت گردی کے الزامات خود بخود دھل جانے تھے۔ مگر اس نازک ترین
موقع پر سستی کر کے کشمیر کاز کو دانستہ یا نا دانستہ نقصان پہنچایا گیا۔
پاکستانی حکمرانوں کی کشمیر پالیسی میں آنے والی سر دمہری اور بھارت کے
ساتھ تجارت، دوستی اور مسئلہ کشمیر کو ایک طرف رکھ کر دو طرفہ مذاکرات کی
باتیں، یہ سب لاکھوں کشمیری شہدا ء کے خون سے غداری اور بے وفائی ہے۔ اس سے
کشمیری قیادت اور عوام کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ ان کے پاکستان پر اعتماد
کو بحال کرنا وقت اور تحریک کی اہم ترین ضرورت ہے اور یہ ذمہ داری اہل
اقتدار کی بنتی ہے۔
اس اہم اور نازک ترین موڑ پر 5فروری کا دن آرہا ہے جس کو پاکستان یوم
یکجہتی کشمیر کے نام سے مناتا ہے۔ یہ پہلی بار 1990ء میں باقاعدہ سرکاری
طور پر منایا گیا تھا۔ تب پاکستانی حکمرانوں اور عوام میں کشمیر کی آزادی
کی تڑپ اور جوش برابر کا تھا۔ مگر ہر گزرتے سال کے ساتھ یہ دن رسمی سا ہوتا
جارہا ہے۔ ہم اس دن چند بیانات دے کر بینرز سجا کر اور یکجہتی کا علامتی
اظہار کرکے سمجھتے ہیں کہ شاید ہمارا فرض ادا ہوگیا ہے۔
نہیں اے اہل پاکستان! کشمیر کی آزادی آپ پر فرض بھی ہے اور ایک قرض بھی اور
پاکستان کی بقا اور استحکام کا ضامن بھی۔ ہرآنے والا 5 فروری ہمارے لیے
تجدید عہد اور خود احتسابی کا دن ہے۔
ہمیں کشمیر کی آزادی کی تحریک میں آنے والی حالیہ تیزی اور ان کی پاکستان
سے والہانہ محبت کا بھی بغور جائزہ لینا چاہیے کہ وہ ہر روز چوکوں چوراہوں
میں پاکستان کا پرچم لہرا کر پاکستان کے حق میں ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کے
نعرے لگا رہے ہیں۔
ان حالات میں سب سے پہلے توہمارے اکابرین کو کشمیری قوم اور ان کی قیادت کو
اعتماد میں لے کر پاکستان کی خارجہ پالیسی پر ان کا اعتماد بحال کرنا
چاہیے۔ دوسری بات ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو مزید مضبوط اور فعال بنا کر
ملکوں اور قوموں کو اپنے ساتھ ملا کر کشمیر کے مسئلہ پر عالمی سطح اور
اقوام متحدہ کے فورمز پر اجاگر کرکے عالمی توجہ اس کی طرف مبذول کروا کر اس
کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کروانے کی ضرورت ہے۔
تیسری بات ہمیں،مسئلہ کشمیر پر مضبوط مؤقف اپنانے اور اس کو اپنی خارجہ
پالیسی کا مستقل حصہ بنانے کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر بھارت پاکستان کے ساتھ
یک نکاتی ایجنڈے (ممبئی حملوں) پر مذاکرات کی میز پر بیٹھتا ہے اور اسی پر
سارے مذاکرات کی کامیابی اور ناکامی کو محمول کرتا ہے تو ہمیں بھی کشمیر کا
ایجنڈا ہمیشہ سر فہرست رکھنا چاہیے اور بھارت سے یہ بات کرنی چاہیے کہ پہلے
مسئلہ کشمیر کو حل کرو پھر مذاکرات بھی ہوں گے پھر دوستی کی بسیں بھی چلیں
گی اور تجارت بڑھانے کے کام بھی کشمیر کی آزادی سے منسلک ہونے چاہئیں۔
اسی طرح بھارت کشمیر میں تحریک آزادی کو زندہ رکھنے والوں کے خلاف عالمی
پروپیگنڈا کرتا اور غلط افواہیں پھیلاتا ہے ہمارے دفتر خارجہ کو چاہیے کہ
کشمیر میں تحریک آزادی کے لیے کام کرنے والوں کا تاثر دنیا کی نظروں میں
بہتر بنائیں کہ وہ آزادی کے متوالے ہیں نہ کہ دہشت گرد۔
ان سارے معاملات میں حکومت اپنا کردار ادا کرے، میڈیا اپنا مؤثر کردار ادا
کرے اور بھارت کے سالہا سال سے جاری مظالم کو دنیا کے سامنے آشکار کرنے کے
لیے خصوصی پروگرام کیے جائیں، مضامین اور خصوصی ایڈیشن بھی شائع کیے جائیں۔
اس تحریک کا بہت بڑا کردار پاکستانی عوام اور بالخصوص پاکستانی نوجوانوں
اور طلبا کو ادا کرنا ہے جن کی اکثریت مسئلہ کشمیر اورکشمیر کی پاکستان کے
لیے اہمیت و افادیت سے قطعی طور نابلد ہیں۔ ان حالات میں جہاں کشمیری تحریک
آزادی کی ساری قیادت نوجوان اور یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا کر رہے
ہیں، پاکستانی طلبا کو بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر سکولوں، کالجوں اور
یونیورسٹیوں میں یکجہتی کشمیر کے حوالے سے پروگرامز، سیمینارز، کانفرنسز
منعقد کریں۔ ریلیوں کا انعقاد کرنا چاہیے۔ اسی طرح سوشل میڈیا کا استعمال
کرتے ہوئے کشمیر کی آزادی کی تحریک کو پوری دنیا تک پھیلایا جاسکتا ہے جس
میں بہت بڑا کردار پاکستانی طلبا ادا کرسکتے ہیں اور خصوصاً جن کا بہت سارا
وقت سوشل میڈیا پر گزرتا ہے۔
کشمیر کی تحریک کی اخلاقی اور سیاسی حمایت کے ساتھ ساتھ ایمان اور مذہب کے
تقاضوں کے پیش نظر ان کی جدوجہد آزادی کے لیے عملی کردار ادا کرنے کی ضرورت
ہے تاکہ اہل کشمیر جلد بھارت کے ظالمانہ تسلط سے نکل کر آزاد فضاؤں میں
سانس لے سکیں. |
|