رام مندر: یہ عشق نہیں آسان

اترپردیش میں اپریل 2017میں انتخابات ہونے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ انتخابی مہم ابھی سے شروع ہوگئی ہے۔ ہر چند کہ اسی سال اپریل کے مہینے میں بھی کچھ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ہونے ہیں جن میں مغربی بنگال ،آسام ،تمل ناڈو، کیرلا اور پانڈیچری جیسی اہم ریاستیں شامل ہیں۔ان ریاستوں میں کہیںپربھی بی جے پی کی حکومت نہیںہیں اور آزادی کے بعد سے اب تک ان میں سے کسی ریاست میں بھی ان کی حکومت نہیں رہی لیکن اس بار آسام میں بی جے پی کو بوڈو پیپلز فرنٹ اور آسم گن پریشد کے ساتھ مل کر سرکار بنانے کی توقع ہے۔اسی طرح مغربی بنگال میں بھی بی جے پی کو زیادہ سیٹیں حاصل کرنے اور زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی قوی امید ہے۔ کیرل اور تمل ناڈو میںبھی اپنی پوزیشن مستحکم ہونے کاامکان ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے ایک بار پھر انتخابی سیاست کے ماہر امت شاہ کو پارٹی کی کمان سونپ دی ہے۔ ان پانچوں ریاستوں میں نتائج کچھ بھی ہوں بی جے پی کو زیادہ اندیشے نہیں ہیں۔لیکن اس انتخابی مہم کے ذریعے ہی بی جے پی اترپردیش کی انتخابی مہم کا آغاز کردینا چاہتی ہے۔ اترپردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے75ضلعوں کی 403اسمبلی نشستوں کے انتخاب کے لئے ایک لمبی انتخابی مہم درکار ہے۔ ظاہر ہے کہ دیگر پارٹیاں بھی پیچھے رہنے کو تیار نہیں ہوں گی۔ایسے میں انتخابی مہم کا ابھی سے گرما جانا قدرتی بات ہے۔چنانچہ بی جے پی نے پہل کرتے ہوئے اپنے لیڈر سبر امنیم سوامی اور ونے کٹیار کے ذریعے سب سے پہلے بابری مسجد کا معاملہ گرم کردیا ہے۔جہاں ایک طرف سبرامنیم سوامی معاملے کوعدالت سے باہر حل کرنے یا روز مرہ کی بنیادوںپر سپریم کورٹ میں سنوائی کی وکالت کررہے ہیں اور بار بار یہ اعلان کررہے ہیں کہ اس سال کے آخر تک بابری مسجد تعمیر ہوجائے گی۔وہیںونے کٹیار بھی مندر کی تعمیرکے لئے بڑی تعداد میںپتھر اکٹھے کئے جانے کے انتظامات میںمصروف ہیں۔ حال ہی میں اجودھیا کے قریب سرجو ندی کے کنار واقع کار سیوک پورم میں بڑی تعداد میں راجستھان سے پتھر لائے گئے ہیں۔جس پر سماج وادی پارٹی نے کوئی روک ٹوک نہیں کی۔ مزید برآں سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادونے معروف سماجی وادی رہنما کرپوری ٹھاکر کے یوم ولادت پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاہے کہ انہیں 1990ء میں کار سیوکوں پر ان کی سرکار کے ذریعے گولی چلائے جانے کا بے حد افسوس ہے لیکن عبادت گاہ کو بچانا بھی ضروری تھا۔ملائم سنگھ کے اس بیان پر بی جے پی نے فوری رد عمل ظاہرکرتے ہوئے ان سے کارسیوکوں کے لواحقین سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔واضح رہے کہ 1990کے اسی واقعے کے بعد ملائم سنگھ یادو کو ملاّ ملائم سنگھ کا خطاب دیا گیا تھا اور یہ وہی ملائم سنگھ ہیں جنہوں نے اس وقت پارلیامنٹ میں کھڑے ہوکر یہ کہاتھا کہ اگرمسجد کو بچانے کے لئے اس سے زیادہ کارسیوکوں پر گولی چلانی پڑتی تو بھی میں دریغ نہ کرتا۔لیکن اب ان کے اظہار افسوس سے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا سیاسی مجبوریاں نہ ہوتیں تو وہ ایک بھی کارسیوک کی جان لینے سے گریز کرتے بھلے ہی مسجد اسی دن شہید ہوجاتی ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ریاست میں 2012کی سرکار بننے کے فوراً بعد سماج وادی پارٹی کے موقف میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔2014لوک سبھاانتخابات سے قبل پارلیامنٹ میںکھڑے ہو کر لال کرشن اڈوانی کی جانب انگلی اٹھاکر ملائم سنگھ یادو نے یہ بیان دیا تھا کہ اڈوانی جی ان کے نزدیک سب سے زیادہ سلجھے ہوئے اور سب سے زیادہ قابل احترام لیڈر ہیں اور یہ کہ وہ انہیں خود اپنا لیڈر مانتے ہیں۔ اس کے بعد ایک دیگر سماج وادی رہنماجنیشور مشر کے تعزیتی جلسے میںانہوں نے گرو گوالکر اور ہیڈ گوار کو سب سے بڑا دیش بھکت قرار دیا تھا۔ان کے ان بیانات سے پارٹی کی بدلتی ہوئی پالیسی کا اندازہ کیاجاسکتا ہے۔ دوسری جانب سے پارٹی کے سب سے بڑے پالیسی ساز رام گوپال یادو بھی اسی بدلتے ہوئے نظریے کے ترجمان نظر آتے ہیں۔پارلیامنٹ کے اندرتمام حکمت عملی وہ خود ہی طے کرتے اور کئی موقعوں پر انہوں نے بی جے پی سرکار کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔اس دوران اترپردیش میں دہشت گردی کے الزام میں بے قصور مسلمان لڑکوں کی پکڑ دھکڑ جاری ہے۔
اس سے قبل 2012اسمبلی انتخابات کے وقت سماج وادی پارٹی اپنے انتخابی منشور میں یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ خالدمجاہداور طارق قاسمی جیسے بے قصور نوجوانوں کو رہا کردیںگے۔لیکن خالد مجاہد کی پولیس تحویل میں عدالت سے لاتے وقت انتہائی مشکوک حالات میں موت واقع ہوگئی پولیس نے اسے قدرتی موت قرار دیا جب کہ خالد مجاہد کے چچا ظہیرالدین فلاحی نے اسے پولیس ٹارچر کے نتیجے میں ہوئی موت قرار دیا کیونکہ خالد کے جسم پرزخموں کے بے تحاشہ نشانات موجود تھے۔طارق قاسمی کے معاملے میں حکومت نے جتنی مرتبہ بھی عدالت میں رجوع کیا ہر مرتبہ تکنیکی بنیاد پر وہ درخواستیں خارج ہوگئیں اور انہیں ابھی تک انصاف نہیں مل سکااور یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب کہ اترپردیش کے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کوئی اور نہیں بلکہ خود ظفر یاب جیلانی ہیں۔اس سے حکومت کی منشاء واضح ہوجاتی ہے۔

لوک سبھا انتخابات میںسماج وادی پارٹی بُری طرح ہاری اور اس کے صرف پانچ ممبران پارلیامنٹ جیت سکے۔ یہ محض اتفاق نہیںہوسکتاکہ یہ پانچوں ملائم سنگھ یادو کے خاندان کے لوگ ہیں۔ ادھر اترپردیش کی دوسری سب سے بڑی پارٹی بی ایس پی کواس انتخاب میں ایک بھی سیٹ نہیں ملی تھی۔جبکہ بی ایس پی کو ہر سیٹ پراس کا اپنا روایتی ووٹ پورا ملا تھا۔ آج بھی ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میںبی ایس پی سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی تیسری بڑی پارٹی ہے۔ان انتخابات سے عین قبل مظفر نگر میں ایک بھیانک فرقہ وارانہ فساد آج تک نہیں بھلایا جاسکتا۔ اس کے ساتھ سب سے درد ناک بات یہ تھی کہ اس میں پچاس ہزار مسلمانوں کو گھر سے بے گھر ہوکر کیمپوں میں پناہ لینی پڑی تھی۔ان میں اکثر لوگ آج بھی کیمپوں میں ہی رہتے ہیں۔ حکمراں سماج وادی پارٹی نے اس وقت فساد کو روکنے کی نہ صرف یہ کہ کوئی کوشش نہیں کی بلکہ بعد میںمنظر عام پر آنے والی بہت سی رپورٹوں نے یہ بھی ظاہر کیا کہ پارٹی کے کچھ اہلکار اورپولیس انتظامیہ اس فساد میں ملوث تھا۔ فساد کے بعد پارٹی کے ایم پی اور ایم ایل پوری طرح دادرسی کے کاموں میں منہمک دکھائی دئیے ۔ جس نے پورے مسلم ووٹ سماج وادی پارٹی کی جانب دھکیل دیا مگر اس کے باوجود پارٹی ان علاقوں میں کوئی سیٹ نہیں جیت سکی اور اس کی وجہ یہی تھی کہ پوری ریاست میں یادوں ووٹوں کی ایک بڑی تعداد بی جے پی کی طرف پلٹ گئی ۔جاٹ ووٹ بھی چودھری اجیت سنگھ سے ہٹ کے پورا بی جے پی کی جھولی میں جاگرا جس نے مغربی اترپردیش کی جاٹ مسلم مساوات کو توڑدیا۔ ایسے میں اگر مسلم ووٹ فساد کی ملزم سماج وادی پارٹی سے ہٹ کے بی ایس پی کی طرف چلا جاتا تو ریاست میں بی ایس پی کم از کم 25سیٹیں جیتنے کی پوزیشن میں تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو مرکز میں بھی بی جے پی ایک مستحکم سرکار بنانے میں ناکام ہوجاتی۔ اسی غرض سے اس فساد کے بعد سماج وادی پارٹی نے انتہائی نرمی اور رحمدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ یادو ووٹ ان سے ہٹ چکا ہے مسلم ووٹ کو اپنی جانب کھینچنے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی۔ یہ ظاہر ہے کہ تنہا مسلم ووٹوں سے بڑی سے بڑی پارٹی بھی انتخابات نہیں جیت سکتی۔ پارٹی نے جان بوجھ کر اپنے خاندان کی سیٹوں کو بچا کر باقی سیٹوں کو بی جے پی کی طرف جانے میں بھر پور مدد کی۔اس سے اس کے ازلی دشمن بی ایس پی سے بدلہ لینے کا موقع مل گیا۔ یاد رہے کہ 2012کے اسمبلی انتخابات میں سماج وادی پارٹی کو بڑی تعداد میںاعلیٰ ذات ہندو ووٹ بھی ملا تھا۔ جس کا قرض پارٹی نے 2014میںچکا دیا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی اور سماج وادی پارٹی کے درمیان یہ معاہدہ ہوچکا ہے کہ مرکز میںبی جے پی اور ریاست میں سماج وادی پارٹی سرکار میں رہے۔ حال ہی میں بی جے پی کی شعلہ بیان لیڈر اوما بھارتی بھی ایک پریس کانفرنس میں یہ اشارہ دے چکی ہیں۔یہاں یہ تجزیہ بھی کم اہم نہیں ہوگا کہ 2007کے اسمبلی انتخابات میں سماج وادی پارٹی کو تقریباً 25فیصد ووٹ حاصل ہوا تھا اور اس وقت مسلم ووٹ کا ایک بڑا حصہ بی ایس پی کے حصے میں گیا تھااور سماج وادی پارٹی کو محض 97سیٹیں ملی تھیں۔جبکہ 2012ء میں پارٹی کو 29فیصد ووٹ ملا اور سوا دوسیٹیں حاصل ہوئیں ۔ اس وقت مسلم ووٹ سارا کا سارا سماج وادی پارٹی کو ملا تھا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سارا مسلم ووٹ سماج وادی پارٹی کو ملنے کے باوجود بھی پارٹی کو محض 4فیصدووٹ کا فائدہ ہوا۔ چنانچہ پارٹی محسوس کرسکتی ہے کہ اگر مسلم ووٹ اس سے ناراض ہو کر اس سے ہٹ بھی جائے تو اعلیٰ ذات ہندو ووٹ کا ایک حصہ اسمبلی انتخابات میں اس کی مدد کے لئے موجود رہے گا۔ان حالات میں پارٹی کو مسلم ووٹ کی زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیںہیں۔یہ وجہ ہے کہ پارٹی لیڈران عام ہندو ووٹرس کو خوش کرنے والے بیانات جاری کررہے ہیں اور مسلمانوں کی منہ بھرائی کے الزام سے بچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ملائم سنگھ کے حالیہ بیان کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ ایک طرف پارٹی رام مندر کی تعمیر کے لئے پتھروں کی آمد کو روکنے سے قاصر ہے۔ دوسری جانب کارسیوکوں کے قتل پر اظہار افسوس کیا جارہا ہے۔ملائم سنگھ یاد اوررام گوپال یادو کو یہ یقین ہو چلا ہے کہ ریاست کا برہمن اور بَنیا بی جے پی کے مقابلے انہیں فوقیت دے گا۔لیکن ملائم سنگھ یہ بھول رہے ہیں کہ ریاست میں بڑھتی لا قانونیت روز افزوں مہنگائی اور مسلم ووٹ کی ناراضگی بہرحال انہیں مہنگی پڑے گی۔ادھر بی ایس پی بھی کہیں نہ کہیں مطمئن نظر آتی ہے کہ چاروناچار سماج وادی پارٹی سے ناراض مسلم ووٹ انہیں کی جھولی میں آئے گا۔مایاوتی کو بھی بہرحال یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ریاست میں کانگریس کی قیادت والا مہاگٹھ بندھن اجیت سنگھ کو ساتھ لے کر ریاست میں طاقت آزمائی کے لئے پر تول رہا ہے۔ایسے میں مسلم اقلیتی اداروں کے کردار پر بی جے پی کا حملہ اس مایوس مسلم ووٹ کو اگر مہا گٹھ بندھن کی جانب دھکیل دیتا ہے تو ایک بار پھر بی ایس پی سیاسی حاشیے پر چلی جائے گی اور مقابلہ بی جے پی اور سماج وادی پارٹی کے بیچ ہوگا جبکہ بہار میں مکمل اقتدار حاصل کرنے والا مہا گٹھ بندھن اترپردیش میں ووٹ کٹوا بن کر بی ایس پی کو اقتدار سے دور کردے گااور ایک بار پھر ریاست سماج وادی پارٹی کی جھولی میں جاکر یہ تاریخ بدل ڈالے گی کہ وہاں ایک مرتبہ بی ایس پی اور دوسری مرتبہ سماج وادی پارٹی اقتدار میںآجاتی ہے۔ایسے میں ریاست کے مسلمان اپنی سیاسی فراست کا ثبوت دیں اور صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کریں تو سیاسی بازیگروں کا یہ کھیل بآسانی پلٹا جاسکتا ہے۔ بہرحال یہ طے ہے کہ بابری مسجد اترپردیش کے آئندہ انتخابات کا انتخابی مدعا نہیں ہوگا۔رام مند رکے نام پر موجودہ اٹھا پٹخ ماحول کو کچھ عرصے کے لئے گرمانے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
Dr Tasleem Ahmed Rehmani
About the Author: Dr Tasleem Ahmed Rehmani Read More Articles by Dr Tasleem Ahmed Rehmani: 41 Articles with 24408 views I m Chief Editor of Mission Urdu Weekly New Delhi, President Muslim Political Council of India lives in Delhi a political strategist and profound writ.. View More