5 فروری یوم یکجہتی کشمیر

شمائلہ جاوید بھٹی

اس دفعہ یوم یکجہتی کشمیر سے قبل ہی کشمیر پر جبراً فوجی قبضہ کرنے والے بھارت نے مزید فوج کشمیر بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم فوجی بل بوتے پر کشمیر کی زمین پر تو بھارت قبضہ رکھ سکتا ہے لیکن کشمیریوں کے دل اور نظریہ آزادی کو کبھی فتح نہیں کرسکتا بہرحال 5 فروری پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس روز پاکستان میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مختلف شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے کئے جاتے ہیں اور ریلیاں نکالی جاتی ہیں اور کشمیر کی آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں نعرے لگائے جاتے ہیں۔ قائدین تقریریں کرتے ہیں اور بھارتی غاصبانہ قبضے کیخلاف اپنے عزم کا اظہار کرتے ہیں۔ اس روز دنیا کو بھارت کا اصل گھناؤنے چہرے دکھایا جاتا ہے جو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ریاست کہلاتا ہے۔ دنیا کو یہ بتایا جاتا ہے کہ کس طرح 7 لاکھ سے زیادہ فوج کشمیر میں لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے اور کشمیری عوام کا قصور صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ اپنے بنیادی حق یعنی آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں کیونکہ 1947ء میں بھارت نے ان کی اُمنگوں کے برخلاف فوج بھیج کر قبضہ کرلیا تھا۔ کشمیری اس روز اپنے عزم اور حوصلے کا اظہار کرتے ہیں کہ جو جدوجہد کئی عشروں پر محیط ہے وہ رُکے گی نہیں جاری رہے گی اور ہر ممکن طریقے سے بھارتی غاصبانہ قبضے کیخلاف آواز اٹھائی جاتی رہے گی اور آزادی کا مطالبہ جاری رکھا جائے گا۔ دنیا کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ کشمیری جس حق کی بات کرتے ہیں وہ ان کا جائز حق ہے۔ اس کے پیچھے کوئی سیاسی مقاصد نہیں ہیں بلکہ یہ ان کا ازلی مطالبہ ہے جو تب سے جاری ہے جب انگریزوں نے کشمیر کو گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کردیا تھا اور پھر جب ہندو اکثریتی بھارت نے اپنی فوج بھیج کر کشمیر کو اپنی جاگیر بنا لیا وہاں پر کوئی گھر ایسا نہیں ہے جس کا کوئی بیٹا، بھائی، باپ بھارتی مظالم کا نشانہ نہ بنا ہو یا شہید نہ ہوا ہو۔ ہزاروں کشمیری خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ بھارتی فوج کی طرف سے کشمیری خواتین کی اجتماعی آبروریزی کی گئی اور ایسے مظالم کے لئے بھارت نے اپنی فوج کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔یہ گھناؤنی حرکات انسانی اور بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے لیکن بھارت کو ان اصولوں کی کوئی پرواہ نہیں جو صرف اور صرف کشمیری پر اپنا جابرانہ قبضہ طاقت کے زور پر برقرار رکھنا چاہتا ہے لیکن کشمیری عوام کی جدوجہد اور حوصلہ کبھی ماند نہیں پڑا وہ اب بھی آزادی کے لئے اسی طرح سے جدوجہد کررہے ہیں جب پہلے روز وہ اپنے اس حق کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
پاکستان کے پہلے نشان حیدر کیپٹن راجہ محمد سرور بھٹی شہید کو یہ اعزاز بھی جنگِ کشمیر میں ہی جرأت و بہادری کی عظیم داستان رقم کرتے ہوئے ملا تھا۔ پاکستانی قوم اور پاکستانی فوج کی آزادی کشمیر کے لئے قربانیوں کی منفرد تاریخ ہے۔ 1948ء کی جنگ میں جب ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا تب قائد اعظم زندہ تھے۔ قائد اعظم نے جہاد کی اجازت دی۔ آپ اندازہ کریں کہ وہ 73 سالہ بزرگ، ضعیف اور کمزور جس کا وزن 90پونڈ تھا تو ان کی حالت کیا ہوگی۔ بیماری کے ہاتھوں وہ اس وقت آخری سانسوں پر تھے لیکن آپ پھر بھی ان کا عزم دیکھیں۔ ان کے لئے کشمیر اتنا اہم تھا کہ انہوں نے کہا چڑھ جاؤ اس کے اوپر کیا ان کو خطرات نظر نہیں آ رہے تھے۔ پاکستان اس وقت لڑکپن اور بچپنے کی حالت میں تھا۔ خزانہ خالی تھا فوج نہیں تھی، پناہ گزینوں کا بوجھ بڑھ رہا تھا۔ دفتروں میں کرسی میز نہیں تھے۔ یہاں تک کہ کاغذ بھی نہیں تھے۔ ایسی صورت میں بھی جس شخص کو فیصلہ کرنا تھا اس نے فیصلہ کردیا کہ ہم کشمیر لیں گے اور جو کشمیر آج ہمارے پاس ہے وہ قائد اعظم کا مرہون منت ہے۔ ان کی وجہ سے ان کے اس فیصلے کی وجہ سے ہے جس کی انہوں نے اجازت دی اس کے بعد یکے بعد دیگرے ہمارے ساتھ ہاتھ ہوتا رہا۔ یہ بڑی المناک داستان ہے کہ سر ظفر اﷲ نے نیو یارک جاکر کہا کہ’’ سیز فائر کروا دو‘‘۔ کشمیر کے بارے میں ہر دفعہ سیز فائر ہوجاتا ہے۔ یہ سیاسی فیصلے ہوتے ہیں۔ فوجی فیصلے نہیں ہوتے فوج کا کام ہے کہ اگر آپ حکم دیں تو لڑے یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ کہے کہ نہیں جی ہم نہیں لڑ سکتے فوج نے کبھی نہیں کہا وہ تو جان دینے کے لئے تیار ہے -

فوج کا تو کام ہی یہی ہے۔ کشمیر کی آزادی اور کشمیر کے لئے لڑنا تو اس کے رگ و پے میں بسا ہوا ہے۔ یہ فوج کا قصور نہیں یہ سیاستدانوں کے معاملات ہیں اور پاکستان بننے کے فوراً بعد قائد اعظم کی آنکھیں بند ہونے کے بعد سے لے کر آج تک پاکستان کی خارجہ پالیسی کے تمام فیصلے بشمول کشمیر امریکہ کی ایماء پر ہوتے ہیں ان کی خواہشات کے تابع ہیں اور جیسے وہ کہتا ہے ہم ویسے ہی کرتے ہیں۔ کبھی وقت آئے گا جب ہم اپنے فیصلے خود کرنے لگیں گے تو پھر انشاء اﷲ ہماری فوج پیچھے نہیں رہے گی۔ جب فوجی جنگ میں جاتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنی جان ایک کاز کے لئے دینی ہے اور اگر کشمیر ہمارا کاز نہیں تو ہمارا کونسا کاز ہے۔ پاک فوج کے تو مشن میں ہی لکھا ہے کہ ہم نے کشمیر اور پاکستان کی حفاظت کرتی ہے۔ کشمیر کی آزادی پاکستانی فوج کی نفسیات کا لازمی جزو ہے اور انشاء اﷲ ہم اس کو آزاد کروائیں گے لیکن فی الحال حکمت عملی کے طور پر میں یہ کہتا ہوں کہ ضروری ہے کہ پاکستانی فوج اس میں ملوث نہ ہو۔ جب سیاستدان یہ کہنے لگے ہیں کہ ہم جنگ نہیں لڑنا چاہتے تو پھر کوئی کیا کرے۔ جنگ سے بھاگنا اور چیز ہوتی ہے اور حکمت عملی کے طور پر جنگ نہ لڑنا اور بات ہے۔ جنگ سے گریزاں پالیسی جو حکومتیں اختیار کرتی ہیں وہ غلط ہے ۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکمرانوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ ہماری شہ رگ ہے جیسا کہ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ اخلاقی، قانونی، جغرافیائی اور اقتصادی حوالے سے کشمیر ہمارا حصہ ہے۔ اگر ہندوستان بلا کسی جواز کے یہ کہتا ہے کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے تو ہمارے پاس تو دس ہزار جواز موجود ہیں۔ یہ کہنے کے لئے کہ وہ ہمارا اٹوٹ انگ ہی نہیں بلکہ ہماری شہ رگ ہے۔ انگ توڑ کر تو زندہ رہا جاسکتا ہے لیکن شہ رگ کاٹ کر جسم زندہ نہیں رہ سکتا اور حکومت کے اندر جو شرح صدر ہونی چاہئے وہ شرح صدر نہیں ہے جس کی وجہ سے ہماری کشمیر پالیسی ہمیشہ ناقص کمزور اور بزدلانہ رہی ہے اور امریکہ کے ابروچشم کے اشارے کی مرہون منت رہی ہے۔ یہ ہے اصل مسئلہ ۔ پاک بھارت اعتماد سازی کے لئے مذاکرات بہت ہو چکے اب پاک بھارت جامع مذاکرات یا حقیقی مذاکرات تبھی نتیجہ خیز اور معنی خیز ہونگے جب مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے حقیقی پیش رفت کی جائیگی۔ ورنہ مذاکرات مذاکرات کا کھیل صرف مذاق رات بنا رہے گا۔
 
Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 104909 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.