ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری نے پیپلز پارٹی کی نیندیں چرالیں

 سندھ کے کرپشن کے ماحول میں لوگوں کی سانسیں گھُٹی جا رہی ہیں ۔مگر حکمران پیپلز پارٹی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔اب جبکہ کئی روز کی ناسازیِ طبع کے بعدوزیر داخلہ چوہدری نثار احمد خان منظر نامے پر نمودار ہوے تو ان کے مخالفوں کے تو جیسے چھکے چھوٹ گئے۔اس ماحول میں انہوں نے محسوس کر لیا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت مرکز سے منہ بسورے کھڑی ہے۔وزیر اعلیٰ سندھ رینجرز کو اختیارات دینے کے تیار نہیں ہیں۔ جب تک رینجرز ایم کیو ایم کے خلاف ایکشن میں تھی تو سب کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں اور سب پیپلے ایک سے ایک بڑھ کر ایک اپنی اپنی بھڑاس نکال رہے تھے۔مگر برا ہو ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کا کہ جس نے پیپلز پارٹی کے سب کئے دھرے پر پانی کی پچکاری مار دی۔جیسے ہی رینجرز نے ہڈی کے ڈاکٹر پر ہاتھ ڈالا پیپلز پارٹی کے ایوانوں میں 440وولٹ کا اچانک جھتکا لگ گیا اور ہر جانب افراتفری کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔
دوبئی میں سابق صدر زرداری پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہم سے اگر اداروں نے ٹکر لی تو اُن کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے!!! اس بیان کی وجہ یہ بنی کہ میگا کرپشن کے سلسلے میں ایان علی اور بعد میں ڈاکٹر عاصم سے کرائے گئے اعترافات سے پیپلز پارٹی کے وزراء اور زرداری کی تمام کی تمام پول پٹیاں اداروں کے سامنے نہ آجائیں۔جس کی وجہ سے بڑے بڑے پردہ نشینوں کے نام عوام کے سامنے آجائیں گے تو ادارے تو خاموش نہیں بیٹھیں گے۔زرداری اور پیپلز پارٹی کے وزراء اور سفراء کی کرپشن کی داستانیں اپنے پٹ کھولیں گی تو وہ تمام دولت جو بے ایمانی اور کرپشن سے انہوں نے دنیا میں اکٹھی کر رکھی ہے کہیں اُس سے انہیں ہاتھ دھونا نا پڑ جائیں اورآئندہ کا اقتدار تو ان کے ہاتھوں سے گیا ہی گیا۔جس کی وجہ سے ہر پیپلز پارٹی کے رہنما کی راتوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں اور وہ سب بے خودی کے عالم میں کروٹیں بدل رہے ہیں۔

گذشتہ ساڑھے ساڑھے سات سالوں سے زیادہ کے عرصے میں خاص طور پر صوبہ سندھ میں سوائے کرپش، لوٹ کھسوٹ کے پیپلز پارٹی نے کچھ بھی تو نہیں کیا۔کراچی جیسے خوبصورت میٹرو پولیٹن شہر کو اس کرپٹ پارٹی نے کھنڈرات میں بدل کے رکھدیا ہے۔سڑکیں خستہ ہیں ۔بجلی پانی نہ ہونے کے برابر ہے شہر کے ہر حصے میں کوڑا کرکٹ اور گندگی کے ڈھیر لگے ہیں۔ گلیاں گٹروں کے متعفن پانی سے لبریز ہیں۔مکھی مچھروں کی اتنی بہتات ہے کہ جس سے ہر گھر میں بیماریوں نے گھر بنا لیا ہے۔صوبائی خود مختاری نے کرپٹ لوگوں کے لئے پیسہ بٹورنے کے درو دیوار بنا دیئے ہیں۔ان بد فعلیوں پر مرکز ان کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا ہے۔ گویا لٹیروں کی عید کے تمام سامان پیدا کر کے لٹیروں کے مزے مزے ہی مزے کرادیئے ہیں۔یہ ہیں جمہوریت کے ثمرات جو عوام کو بلا قیمت کے مل رہے ہیں۔اس وقت حکومت سندھ اسمبلی کے ایوانوں تک کارکردگی کے ذمہ دار رہ گئی ہے۔
مرکزی وزیرِ ڈاخلہ چوہدری نثار نے پیپلز پارٹی کی بے حسی اور کرپشن مافیہ کی طرفداری اور اداروں پر بے جا تنقید کا معاملہ دیکھا تو اُن سے بولے بغیر نہ رہا گیا۔کیونکہ پیپلز پارٹی اپنی کرپشن چوریوں ڈکیتیوں کو چھپانے کے لئے وزارتِ داخلہ پر مسلسل تنقید کے تیر برسا رہی ہے۔حد تو یہ ہے کہ سینٹ جہاں ان کی اکثریت ہے میں بھی نیب جیسے اداروں کو آزادی کے ساتھ کام نہ کرنے دینے کا بل منظور کر ا کے اپنی طرم خانی کا ثبوت دیدیا ہے۔جس کی وجہ صرف یہ ہی ہے کہ’’ چھوٹا چور مار جائے اور بڑا چور پکڑا نہ جائے‘‘یہ لوگ چاہتے ہیں کہ کرپشن کے بارے میں ادارے زبان نہ کھولیں ورنہ گدی سے زبان کھینچ لی جائے گی۔یہ ہی وجہ تھی کہ وزیرِ داخلہ کو اپنے اور اداروں کے دفاع میں زبان کھولنا پڑی۔بس پھر کیا تھا پیپلز پارٹی کے ہر فرد نے وزیرِ داخلہ پر طنز کے تیروں کی بارش کر دی۔وزیر داخلہ کا اپوزیشن رہنما خورشید شاہ کے بیانات پر کہنا تھا کہ حیران ہوں کہ جس کے نام کے ساتھ سید لگا ہے وہ جھوٹ بولتا ہے۔میں اپوزیشن لیڈر کی حکومت سے مک مکا کی تصدیق کرتا ہوں۔اسی مک مکا کا الزام تحریکِ انصاف بھی لگاتی رہی ہے۔وزیر داخلہ کے اس بیان نے تو اپوزیشن رہنما کے منہ سے جھاگ نکلوادیئے۔وزیرِ داخلہ نے اپنی حکومت سے بھی سوال کیا کہ حکومت بتائے کہ اس کے بدلے میں اُسے کیا ملا ہے؟اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی ملک میں مایوسی پھیلا رہی ہے،ڈپریشن پھیلانے والوں کو روکنا ہوگا۔اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ میری شکل،ڈاکٹر عاصم اور ایف آئی اے سے متعلق شکایت ہے تو مجھ سے بات کریں۔کچھ عناصر کو تکلیف کوئی دے رہاہے اور غصہ ایکشن پلان پر اُتارا جارہا ہے۔جنہوں یہ پلان پڑھا تک نہیں وہ ہی اس پر تبصرے کر رہے ہیں۔تنقید کرنے والے جواب دیں کہ گذشتہ ادوار میں اُن کی انٹیلی جینس کتنی مضبوط تھی؟اپنے دور میں کچھ نہ کرنے والے آج پوائنٹ اسکورنگ کر رہے ہیں۔سندھ حکومت مجھے انا پرست اور نہ جانے کیا کیا کہتی ہے۔ جس کا صاف مقصد اپنے کرپشن کو چھپانا ہے۔

حزب اختلاف کے رہنما خورشید شاہ کو وزیرِ داخلہ کی کھری کھری باتیں شائد اچھی نہیں لگیں۔انہوں نے فوراََ جواباََ پریس کانفرنس شدید ضصے کی حالت میں کر ڈالی اور وزیرِ داخلہ کو وہ کھری کھری سنائیں اور ایسے ایسے الفاظ کہہ گئے جو ان کی زبان سے نہایت ہی بھونڈے لگ رہے تھے۔اس پریس کانفرنس کا مقصد حکومت وقت سے اپنے ماضی کے احسانات کا بدلہ چکانے کی یاد دہانی کرانا تھا اور ساتھ ہی چوہدری نثار کو اُن کے فرائض سے روکنا اور اانہیں رسوا کرنا معلوم ہوتا تھا۔ خورشید شاہ نے بڑے طیش میں کہا کہ وزیر اعظم صٓاحب آپ کی آستینوں میں سانپ چھپے ہیں انہوں نے شاید اپنے کسی تجربے کی بنیاد پر یہ بات کہی کہ آستینوں کے سانپ ڈستے کسی کو ہیں اور مرتا کوئی اور ہے۔اس کے بعد باری باری پیپلز پارٹی کے کئی نمک خواروں نے دل کی بھڑاس نکالی۔ان تمام باتوں کا لُبِ لُباب یہ تھا کہ آیان علی اور ڈاکٹر عاصم پر نرم ہاتھ رکھا جائے تاکہ کرپٹ لوگوں تک قانون کو رسائی نہ مل سکے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری نے پیپلز پارٹی تمام رہنماؤں کی نیندیں حرام کر کے رکھ دی ہیں․․․․
Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 212978 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.