اندھے جذبے

محبت ہو یا نفرت دونوں ھی جذبے “اندھے “ ہوتے ہیں ایک تباہی اور بربادی کے راستے پر لاٹھی ٹیکے نکلتا ہے تو دوسرا جذبہ زندگی بخش امنگوں اور امیدوں کی پھوار کو دیکھ نہ بھی سکے، تو اسکی ٹھنڈک ضرور محسوس کرتا ہے ایک سچی کہانی جسمیں نفرت کے اندھے پن کو محبت اور ہمدردی نے شکست دی باوجود اسکے کہ یہ بے غرض محبت اور بے لوث ہمدردی بھی نابینا تھیں ا ور اسی لیے اچھے برے انجام سے بےپرواہ تھیں ۔۔۔۔۔
"جلدی چلو ہمیں پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے" میری بہن نےناراضگی سےکہا." بس میں اپنے سرٹیفیکیٹ چیک کرلوں " آج میرا ایک بہت اچھے کالج میں لیکچرر کی پوسٹ کے لیے انٹرویو ہےاور ہمیشہ کی طرح میں نے اپنی بہن کو اس بہانے اپنے ساتھ جانے پر راضی کرلیا ہے کہ کچھ پتہ نہیں میں کالج کا راستہ نہ سمجھ سکوں اور دیر سے پہنچنے میں انٹرویو سے بھی جاؤں اور اپنی پسند کی نوکری سے بھی مگر میرے گمان میں بھی نہ تھا کہ آج ہم دونوں کا ساتھ کسی کی زندگی بچا نے کا ذریعہ بن جاۓ گا . گاڑی تو میرے والد لے جاچکے تھے سوچا کہ اب یاتو رکشہ ٹیکسی کی جاۓ یا بس سے منزل پر پہنچا جاۓ.

پہلے کچھ وقت یہی کوشش رہی کہ ٹیکسی ، رکشہ کچھ بھی مل جاۓ مگر جب وقت نکلنے لگا تو یہی سوچا کہ بس ہی لے لیں کالج پہنچتے پہنچتے صورت تو یقینن بگڑ جاۓ گی مگر میرٹ کا " گھمنڈ " ہی کافی تھا اس لیے خود ہی یقین کر لیا کہ اس شکل پرجانے سے پہلے محترمہ پرنسپل صاحبہ عقل کےرعب میں آجائیں گی اور اپنا کام ہوجاۓ گا -

بس کے ذریعے کالج پہنچےاورانٹرویو دیا بھی اور لیا بھی کیونکہ کالج کے بارےمیں سنا بہت بہتر تھا مگر اندر کا حال کچھ بہتر نہ تھا خیر میری بہن کا مشورہ اور میرا خیال ایک ہی waveLength پر تھے-

ہم کالج کے گیٹ سے نکلے اورمین روڈ کی طرف چل پڑے تاکہ گھر جاکر اپنے کامیاب انڑویو اور اس کالج میں نوکری نہ کرنے کے اپنے متفقہ فیصلے سے والدہ کو آ گاہ کریں .ابھی مین روڈ پر پہنچے پانچ منٹ ہی ہوۓ تھے کہ سامنے دیکھتی ہوں ایک ٹیکسی والا جو کہ پچپن ساٹھ سال کا بزرگ تھا اپنی ٹیکسی کو ایک رکشہ کے بالکل سامنے کھڑا کر دیتا ہے اور ٹیکسی میں بیٹھے بیٹھے رکشے والے کو للکار تا ہے " ابے ! اپنے باپ کی روڈ سمجھی ہے کیا ، بغیر انڈیکیٹر دیۓ تو آگے نکلا کیسے " " اچھا اچھا بس کرو آگے سے ہٹو " رکشہ ڈرائیور جو بمشکل ١٩/٢٠ سال کا تھا ، نے چیخ کے کہا ! کراچی میں ٹریفک کا زور و شور اتنا ہوتا ہے کہ ایسی" بک جھک" اکثر سننے کو ملتی ہےاس لیے ہم دونوں یہ سب کچھ سن بھی رہے تھے اور اپنی بس کا انتظار بھی کر رہے تھے.اچانک ٹیکسی والا پان تھوکتا اپنی ٹیکسی سے اترکر رکشے کی سمت گا لیاں دیتا ہوا نکلا اسکا لہجہ اور انداز بتا رہے تھے کہ نام کا ہی بزرگ ہے " ابے او اتر رکشے سے نیچے " ٹیکسی والا بولا…." تم امارے سامنے سے اٹتا اے یا ام رکشہ اوپر سے لے جاۓ " رکشہ ڈرائیور نے چیخ کے کہا. رکشے والے کا لہجہ بتارہا تھا کہ وہ کون ہے اور عمر بتا رہی تھی کہ وہ سمجھ نہیں پارہا کہ یہ علاقه " بہادری " دیکھانے کا نہیں !! پل کے پل میں اس بزرگ نما گالیاں دینے والے غنڈے کی للکاریں سنتے ہی دوکانوں ، گلیوں ،گھروں اور چلتے ٹریفک میں سے" ٹڈ ی دل "نکل آئے بالکل ایسے جیسے چیونٹیوں کے ایک گھر پر غلطی سے پانی ڈال دو تو غول کے غول اپنے لیے پناہ گاہیں ڈھونڈنے نکل پڑتے ہیں مگر یھاں چیونٹیاں نہ تھیں اور نہ ہی کسی کو پناہ گاہ کی تلاش تھی. ایک ٹھیک ٹھا ک غول تھا جو رکشہ ڈرائیور کو کھینچ کر رکشے سے باہر نکالنا چاہ رہا تھا-

ابے کیا سمجھ کر بزرگ سے منہ ماری کر رہا تھا ؟ اپنے باپ کا علاقه سمجھاہے ایک لڑکا بولا اور رکشے والے کو گریبان سے پکڑ کر باہر نکالنے کی کوشش کرنے لگا ! " ام نے کیا کیا اے ؟ یہ بابا اپنا ٹیکسی کیوں اما رے راستے پر روک کر امارا راستا بند کیا اے ؟" رکشہ ڈرائیور نے مضبوطی سے اپنے رکشے کے اندر لگے پتلے پتلے ڈنڈوں کو پکڑے رکھا تھا تاکہ یہ ہجوم اسکو باہر نہ کھینچ سکے اور دو چار تھپڑ اور مکوں کے علاوہ ٹھکائی بھی نہ لگے ! ہوسکتا ہے اسکے علاوہ بھی کوئی وجہ ہو مگر ہجوم تھا کہ ٹلنے کا نام نہیں لے رہا تھا ! جب ہم نے دیکھا کہ اب بات "منہ ماری " سے تھپڑ، گھونسوں تک آگئی ہے تو ہم دونوں تیزی سے سڑک کی اس جانب گئے جہاں یہ لڑائی جاری تھی اور پہلے چیخ کے ان لوگوں کو سمجھا نے کی کوشش کی جو اب تک اس رکشے والے کو کھینچ مار کر باہر سڑک پر نکال چکے تھے اور ہر طرف سے مار پھٹکار کا سلسلہ چل رہا تھا ایک معمولی سی بات پر کہ لڑکےنے ٹیکسی والے کو کہہ دیا اپنی ٹیکسی میرے راستے میں سے اٹھاؤ اور بس ! ہم نے لڑکے کومارنے والوں کو کھنچنے کی کوشش بھی کی مگر مار پٹائی کم ہونے کی نسبت بڑھ رہی تھی اور وہ بھی یک طرفہ ! " ابے اسکو یہیں مارو اور رکشے کے ساتھ جلادو! تین چارلڑکوں نے ایک ساتھ کہا اور اپنی راۓ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آگے بڑھے......... او خدا ! یہ کیا ہونے والا ہے!

بس کرو ، بند کرو یہ جھگڑا کچھ نہیں ہوا یھاں پر ، کیوں ہنگامہ کر رہے ہو؟ میں نے اپنی تمام قوت اپنی آواز میں ڈالنے کی کوشش کی ! اس بار میری کوشش کامیاب تھی اس لیے ایک ساتھ چار پانچ آوازیں آئیں ! " جائیں محترمہ ! آپ لوگ اپنا کام کریں ہمیں آتا ہے ایسوں سے نپٹنا " ابھی میں سوچ ہی رہی تھی کہ رکشے والے کو ان ظالموں کے ہاتھوں مار کھانے یا مارے جانے سے کیسے بچاؤں کہ مجھے رکشے میں سے اپنی بہن کی آواز آئی " چھوڑیں اس لڑکے کو ! ہمیں جلدی پہنچنا ہے ویسے ہی بہت دیر ہوگئی ہے " ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں مجھے اپنی بہن کی ترکیب سمجھ آگئی اور میں بھی فورا خالی رکشے میں سوار ہوگئی! کچھ دیر کے لیے رکشے والے کو تھپڑ جوتے مارنے والے رک گئے اور حیرت سے ہمیں دیکھنے لگے! ہنگامہ اور ہجوم میں کسی کو یاد نہ تھا کہ جب رکشے والے کی دھنائی شروع کی تھی تو رکشہ خالی تھا یا اسمیں سواریاں موجود تھیں ، نفرت ، حقارت ،اپنے علاقے کی دادا گیری کا جذبہ اتنا اندھا تھا کہ ہماری غلط بیانی کو بھی سمجھ نہ پاۓ
اللہ کا کرم ہی تھا کہ غصے اور دہشت سے مغلوب ہونے کے باوجود رکشہ ڈرائیور کی عقل بہت کام کر رہی تھی اور اس نے جانتے بوجھتے یہ نہیں کہا کہ میرا رکشہ تو خالی تھا ! لڑکوں کے ہاتھوں میں پیٹرول کے ڈبے تھے اور وہ کسی طرح بھی ایک ہولناک منظر سے " لطف " اٹھانے کے لیے بے تاب تھے اس لیے دوبارہ ہمیں کہنے لگے " کوئی اور رکشہ کروا دیتے ہیں " مگر انسانی جان کو بچا نے کے لیے ہمارا جذبہ بھی بے خوف ہو چکا تھا ! میں نے رکشے میں بیٹھے بیٹھے دونوں ہاتھوں سے رکشہ ڈرائیور کو کالرسے کھینچتے ہوۓ کہا" کیوں کر لیں کوئی اور رکشہ ؟ سر مار کے اسکے ساتھ پیسے طے کیۓ ہیں ، چل بھئی جلدی کر ہم نے پہنچنا ہے ، ہمارا دماغ خراب نہ کرو " !شاید ہماری یہ ترکیب نہ چلتی اگر اللہ کا کرم اور رکشہ ڈرائیور کی ماں کی دعا ئیں نہ ہوتیں. ترکیب کام کر گئی. بھدے قسم کے غنڈوں نے اپنے ساتھ لگے کمزورمگر شیطان صفت فسادیوں کو رکشے والے کو چھوڑنے کا کہا جسپر باقی لڑکوں نے ایک بار پھر اسکو تھپڑوں،گا لیوں اور اپنی" دو لتیو ں" کا نشانہ بناتے ہوۓ خبردار کیا " خر کے بچے اگر آئیندہ اس طرف کا رخ کیا تو یہیں جلا کر سڑک پر دبا دیں گے "! رکشے والا پھر بھپر نے لگا مگر ہم نے اس سے پہلے شور کرنا شروع کر دیا کہ جلدی چلو ہمیں دیر ہورہی ہے -

رکشہ ڈرائیورکو بھی سمجھ آگئی تھی کہ یھاں سے نکلنا کتنا ضروری ہےاس نے عقلمندی کا ثبوت دیتے ہوۓ فورا رکشہ سٹارٹ کیا اور ہجوم میں سے نکل گیا مگر موٹر سائیکلوں پر سوار دو چار فسادی بھی نہ جانے کیوں ہمارے تعا قب میں چل پڑے ہم نے انہیں پیچھے آتے دیکھا تو رکشے والے کو اپنے گھر کی بجاۓ -
دوسرےعلاقے کی طرف لے گیےاور ساتھ ساتھ میں اس لڑکے کو سمجھاتی رہی کہ ہم اسکی جان بچانے کے لیے رکشے میں بیٹھے ہیں لہذا جب وہ دیکھے کہ پیچھے آنے والے ادھر ادھر ہو گیۓہیں تو ہمیں کسی بھی بس سٹاپ پر اتارکر اپنے لیے جو محفوظ مقام سمجھے چلا جاۓ . خدا کا شکر ہوا اورایک ڈیڑھ میل ہمارا پیچھا کرنے کے بعد ان اچکوں نے اپنی راہ لی اور ہم نے اپنی گھر پہنچے تو سواۓ والدہ کے جسکو بھی یہ واقعہ سنایا اس نے " بیوقوف " اور جذباتی " ہی کہا. بات ٹھیک ہے کہ معا ملہ ہمارا نہ تھا اور نقصان ہمارا ہوسکتا تھا لیکن یہ بات طے ہوگئی کہ جس طرح ان فسادیوں کی نفرت نے انکی آنکھوں پر پردے ڈال دیۓ تھے ہماری ہمدردی نے بھی ہما رے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پرتالا ڈال دیا تھا. وہ لوگ اس انجانے لڑکے کو مارنا چاہتے تھے اور ہم بچانا،وہ ہمارے لیے بھی اتنا ہی اجنبی تھا جتنا انکے لیے ،جذبہ ہمارا بھی اندھا تھا اور ان ہلڑ بازوں کا بھی لیکن سمت مختلف تھی،ارادے مختلف تھے اور نتایج بھی-
aina syeda
About the Author: aina syeda Read More Articles by aina syeda: 44 Articles with 68981 views I am a teacher by profession, a writer by passion, a poet by heart and a volunteer by choice... View More