بدبو دار لاش۔۔۔لیکن کون ؟

عام لوگ جنہیں انسان بھی کہا جاتا ہے بہر حال اﷲ کی تخلیق کردہ یہ مخلوق کسی بھی علاقے محلے ،گاؤں ،تحصیل ،ضلعے صوبے یا ملک میں رہائش پذیر ہو ں ان کی نمائندگی و ترجمانی کرنے والے ان کے منتخب کردہ لوگ جو چاہے تعلیم یافتہ ڈاکٹر ،سائنس دان ، انجنئیر ہوں یا راستے پر جھاڑو دینے والے وہ بہرحال ان لوگوں کی عزت وغرور اور ان کی خودداری کا نشان ہوتے ہیں قومی غیرت کی علامت ہوتے ہیں اور وہ مخصوص احباب جنہیں عوام یہ اختیار دیدتے ہیں وہ ان کے حقوق و اقتدار اعلیٰ کے آمین و پہریدارو محافظ ہوتے ہیں ۔لیکن اس دنیا میں تقریبا دو سو ممالک میں سے ایک ریاست جموں کشمیرہے جس کا ایک چھوٹا سا حصہ جو ’’آزاد جموں کشمیر‘‘کہلاتا ہے جہاں جبراً تقسیم کے وقت محض اڑھائی ضلعے تھے جو اب دس بن چکے ہیں اور یہاں عرصہ دراز سے عوامی انتخاب کے زریعے حکومت سازی کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے جو تا حال اپنے اندر بے پناہ سوالات رکھتا ہے ۔

اس خطے کے پسے ہوئے استحصال زدہ لوگ یوں تو آزاد کشمیر کہلانے والے علاقے میں رہتے ہیں لیکن ۴۷ سے آج تک انہیں کبھی خود اپنی حکومت بنانے کا حق نہیں ملا اور نہ ہی وہ حق لینے کے لئے کبھی کوئی قابل زکر کوشش کی گئی ہے ۔یہاں کے بیشترسیاستدانوں نے پاکستانی سیاسی پارٹیوں کی یہاں برانچز قائم کر رکھی ہیں جوبلا شعبہ لمیٹٹڈ کمپنیوں کی مانند ہیں اوران کے سرباہان ان کے سائٹ منیجراور پروجیکٹ منیجر سے زیادہ کچھ نہیں جو اپنی کمپنیز کے جنرل منیجرزکی خوشنودی کے لئے ایک دوسرے سے بازی لیجانے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں ۔ان کا کام صرف خودروزگار اور مالک کے لئے منافع کا اہتمام کرنا ہے اس کے لئے انہیں کسی بھی حد تک جانا پڑھے تو یہ گریز نہیں کرتے ۔آزاد جموں کشمیر حکومت کے قیام سے ہی یہاں قومی غیرت سے عاری کئی ایک روایات کی بنیاد یں رکھ دی گئیں ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ رہی کہ اوائل سے ہی عاقبت نا اندیش سیاستدانوں کو اپنی زمہ داریوں کا ادراک نہ رہا ، ملک چلانے اور لوگوں کے مستقبل کو خوشحال بنانے کے لئے منصوبہ بندی کا فقدان رہا اور یوں سطحی سوچ کے حامل لوگ بنا سوچے سمجھے بھاگم بھاگ پاکستانی لیڈروں کے پیچھا کرنے پر جیسے مامور ہو گئے انہیں گماں تک نہ ہوا کہ وہ بھی کسی قوم کے زمہ دار ہیں ان کے حقوق کے محافظ و آمین ہیں اور ان کی غیرت و خوداری کی حفاظت ان کی زمہ داری ہے ۔اور یوں جب اپنی قومی دمہ داریوں سے ماورہ وہ لوگ عوام کے نمائندگان بن گئے تو عوام نے جیسے سب کچھ ان کے حوالے کر دیا تاکہ وہ اس کا جو چاہے حشر کریں ۔کوئی کسی کے آگے جوابدہ نہیں رہا اور جب وہ اس خطے کے عوام کے اقتدار اعلیٰ جس کی خاطر بیش بہا قربانیاں دی گیئں تھیں کو کراچی اسلام آباد کی گلیوں میں نیلا م کر نے لگے تو ان کے کمپنی ’’جنرل منیجر ز‘‘جیسے آقاؤں نے بھی جو جس کے لائق تھا اس کی وہی قیمت لگائی اور بہت ہی کم عرصے میں خطہ کے لوگوں سے حق حکمرانی چھین لیا گیا اور ان کے فیصلے مری اسلام آباد اور کراچی میں ہونے لگے ۔اور ہر ایک فرد اس طاق میں رہتا کہ کب کسی کی زبان سے اسلام آباد کیخلاف اور عوام کی حق میں کوئی ایک لفظ نکلے تاکہ وہ دربار شاہا میں اپنی وفاداری کو ثابت کر سکے ۔یہ سلسلہ فوجی حکمرانوں کے خاتمے اور سول حکومت کے قیام تک جاری رہا اس کے بعد جویہی اسلام آباد میں سول حکومتوں کا دور آیا تو یہاں بھی تبدیلی آئی، یہ کہ پاکستان میں موجود جاگیرداروں اور وڈیروں کے ڈیروں سے آقا درآمد کئے جانے لگے اور ان پسے ہوئے لوگوں کی زندگیوں کے فیصلوں کا مرکز ’’مری‘‘ سے گڑھی خدا بخش ،رایؤنڈ اور بنی گالہ شفٹ ہو گیا اور یوں ’’مری‘‘ کے علاوہ’’ آقا‘‘ تراشنے کے مذیدتین چار کارخانے قائم ہو گئے ۔اس دوران عوام اور عوامی مسائل تو جیسے ایک خواب بن کر رہ گئے اور سیاستدانوں کے وعدے ’’سبز باغ‘‘ ٹھہرے ۔اس سارے کھیل سے عوام بہت دلبرداشتہ ہو ئے نتیجتاوہ ان کے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں پر عدم دلچسپی کا مظائرہ کرنے لگے ،یہی وجہ ہے کہ ۴۷ سے لیکر اب تک درجنوں مرتبہ مقدس ایوانوں میں براجمان ان لوگوں کو زلیل و رسوا کر کے باہر نکالنا اور ان کی جگہ کسی دوسرے کو بٹھا دینا ایک معمول بن گیا ۔نہ تو کسی کو کوئی شرم آئی ناں عوام میں کوئی رد عمل ہوا ،اور جب جب کسی نے عوامی حقوق کی بات کی تو اسے تاریخ برد کر دیاجاتا رہا ۔فوجی حکومتوں کے دوران تو معاملات خامشی سے کہیں گم ہو جاتے تھے البتہ سول حکومتوں کے دوران جب جب ان حاشیہ برداروں کو اپنی ملازمت جاتی دکھائی دیتی تو لوگوں کی نظر میں ہیرو بننے ’’سیاسی شہید‘‘کہلانے کے لئے کچھ بھڑکیں ضرور مارتے رہے ۔

۴۷ سے آج تک کبھی خطہ میں عوام کے ووٹ سے حکومت نہیں بن سکی ،ایک پارٹی کی مہیم وزیر امور کشمیر چلاتا ہے تو دوسرا گالیاں دیتا ہے اور جب اس کی باری آتی ہے تو پہلا وہی کردار ادا کرتا ہے ۔ کئی بار متعدد وزرہ اعظم و صدور کو محض اسلام آباد کی نافرمابرداری کی پاداش میں ایک چوکیدار کی طرح ایوان سے نکال باہر کیا جاتا رہا لیکن یہ لیڈران اس عزت افزائی پر بجائے اپنی قومی غیرت کی خاطر اٹھ کھڑے ہوتے تالیاں بجاتے اور وفادریاں نبھاتے رہے اور مورخ کو ان کا وہ کردار بھی یاد ہے جب ان کے لئے سابق وزیر امور کشمیر مہتاب عباسی کے مشیر نے نوے کے اوائل میں کہا تھا کہ آزادکشمیر کے لیڈر اقتدار کے لئے یوں منڈلاتے ہیں جیسے مردار پرگدھ۔۔شرم انہیں اس وقت بھی نہیں آئی جب جنرل پرویز مشرف نے ان کے لئے کہا تھا کہ تماری سانسیں ہمارے بدولت چل رہی ہیں اور شرم انہیں اس وقت بھی نہیں آئی جب ان کے لئے کشمیر کونسل کے چئرمین نے کہا تھا کہ یہ لوگ ایک جھنڈی کے لئے اپنی ماں کو بھی بیچنے سے گریز نہیں گرتے ۔غیرت تو اس وقت بھی نہیں جاگی جب برجیس طائر نے خطہ کے وزیر اعظم کی عزت افزائی میں اسے’’پہاڑی بکرہ‘‘ کا نام دیا اور یہاں کے تمام سیاستکاروں کی قومی غیرت اس وقت بھی نہیں جاگی جب وزارت امور کشمیر کے ایک بدمعاش نے یہاں کے وزیر اعظم کو ’’بدبودارلاش‘‘ کہہ کر پکارہ اور وہ جب چالیس لاکھ کے نمائندہ منصب کی ایسی عزت افزائی کر رہا تھا اس وقت وہ اسی سرزمین کشمیر پر کھڑا تھا اور اس کے سامعین بھی کشمیری تھے جو اپنی قومی غیرت کی دھجیاں اڑانے والے کی تالیاں بجا کر سراہنا کر رہے تھے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’وزیر اعظم آزادکشمیر‘‘ جو کسی ایک چوہدری ،سردار یا راجے کا نام نہیں ہے بلکہ چالیس لاکھ کشمیری انسانوں کی غیرت وہمیت کی علامت ہوتا ہے اور جب غیر ملکی لوگ اس طرح اس کی عزت افزائی کریں اور مقامی لیڈران اور ہموطن تالیاں بجائیں تو ۔۔۔تحقیق کرنا ہوگا کہ در حیقیت ’’بدبودار لاش ‘‘کون ہے ۔۔۔؟ تمام تر جماعتی وابستگی سے بالا چالیس لاکھ کی نمائندگی وترجمانی کے دعویدار ان کا ضمیر یا اس خطہ کی کل آبادی کی اجتماعی غیرت ۔۔۔؟یا اس غیرت کا گڑھی خدا بخش ،رایؤنڈ ،بنی گالہ اور مری کے چوک و چوراہوں میں سودہ کرنے والوں کا ضمیر؟
Niaz Ahmed
About the Author: Niaz Ahmed Read More Articles by Niaz Ahmed: 98 Articles with 76638 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.