سپہ سالار پاکستان کا صائب فیصلہ

سپہ سالارِ پاکستان جنرل راحیل شریف نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کا فیصلی کیا، ملک میں شہشت گردی اور کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے جنرل صاحب کی شخصیت ایک پسندیدہ شخصیت کے طور پر سامنے ۤئی ہے اکثر احباب کا خیال ہے کہ جرنل صاحب کو اسی حیثیت میں پاکستان کو ضرورت ہے لیکن جنرل صاحب نے اپنے فیصلے سے قوم کا ۤآگاہ کیا جسے راقم بھی صائب فیصلہ تصور کرتا ہے اسی موضوع پر اپنے اس کالم میں اظہار خیال کیا گیا ہے
سپہ سالار پاکستان جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے گردش میں رہنے والی تمام خبروں نے دم توڑ دیا جب سپہ سالان نے یہ اعلان کیا کہ وہ مدت ملازمت میں توسیع نہیں لیں گے۔جنرل صاحب نے یہ فیصلہ کر کے یہ ثابت کردیا کہ وہ ایک سچے سپاہی ہیں۔ انہیں قومی مفاد عزیز ہے اپنی ذات نہیں۔ جنرل صاحب نے جب سے یہ فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان سے دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرکے دم لیں گے ، ان کے اس عزم کا ساتھ پاکستا ن کے ہر طبقہ فکر نے کھلے دل اور بے خوف و خطر ہوکر دیا۔ دہشت گردوں کا قلہ قما کرنے کے لیے جو اقدامات سپہ سالار نے کیے اور جس طرح ان اقدامات پر عملی طور پر عمل عوام الناس کو نظر آیا ، پاکستانی عوام کے دلوں میں سپہ سالار کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوتا گیا اور انہوں نے محسوس کیا کہ جنرل راحیل شریف حقیقت میں پاکستان کے سچے ہمدرد، مخلص اور ملک کی بہتری کے لیے کچھ کرنے کا پختہ عظم رکھتے ہیں۔

گزشتہ دنوں پاک فوج کے ترجمان جنرل عاصم باجوہ نے سماجی ویب سائٹ ٹوئٹر پر یہ بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ سربراہ پاک فوج جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق افواہیں بے بنیاد ہیں جب کہ اس حوالے سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کاکہناہے کہ پاک آرمی عظیم ادارہ ہے اور مدت ملازمت میں توسیع پر یقین نہیں رکھتا۔ ان کا یہ بھی کہنا سو فیصد درست ہے کہ ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کئے جانے والے اقدامات بھر پور طاقت کے ساتھ جارہ رہیں گے، پاکستان کا وسیع تر ملکی مفاد مقدم ہے اور ہر قیمت پر ملک کو محفوظ بنایا جائے گا۔ جنرل راحیل شریف نے یہ بھی کہا کہ پاکستان آرمی ایک عظیم ادارہ ہے مدت ملازمت میں توسیع پر یقین نہیں رکھتا، مقررہ وقت پر ریٹائر ہوجاؤں گا۔ دہشت گردی کے خاتمہ کا سلسلہ بھر پور عزم کے ساتھ جاری رہیگا، پاکستان کا قومی مفاد ہر چیز پر مقدم ہے اور اس کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا۔

کسی بھی سرکاری ملازمت میں یہ ایک معمول کا مرحلہ ہوتا ہے اور اس کے لیے ایک قانون ابتدا سے بنا ہوا ہے جس کے تحت ہر سرکاری ملازم کو ساٹھ سال کی عمر کو پہنچنے پر اپنے عہدہ سے ریٹائر ہونا ہوتا ہے۔ البتہ پہنچ رکھنے والے مختلف طریقے سے اپنے مدت ملازمت کو توسیع دلواتے رہتے ہیں۔ ایسی مثالیں بے شمار ہیں کہ اہم شخصیات نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع حاصل کی یا اُسے اُس کے بااعتماد ہونے کی بنا پر اس عہدہ پر برقرار رکھا گیا۔ اس لیے کہ قانون میں بھی اس کی گنجائش موجود ہے ۔ سابق آرمی چیف کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے جنہیں توسیع دی جاتی رہی لیکن ایک وقت ایسا آگیا کہ انہیں جانا ہی پڑا۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار مثالیں ہیں سرکاری ملازمین کی کہ جن کی مدت ملازمت میں توسیع دی جاتی رہی ۔ قانون میں یہ گنجائش ہے کہ صدر مملکت وزیر اعظم کی سفارش پر ان کی مدت ملازمت میں توسیع کرسکتے ہیں۔

جنرل راحیل شریف کی سرکاری ملازم کی حیثیت سے مدت ملازمت اس سال کے آخر میں پوری ہورہی ہے ۔ اس میں ابھی دس ماہ باقی ہیں لیکن ان کے ریٹائر منٹ کو قبل از وقت موضوع بنا یا گیا اور مختلف بیانات سامنے آئے، ایسا کیوں ہوا؟ کس کے ایما پر ہوا، آخر کار سپہ سالار کو اس موضوع کے حوالے سے وضاحت کرنا پڑی ۔ ان کی وضاحت سے اس حوالے سے تمام شکوک و شبہات دور ہوگئے، تمام تر افواہیں دم توڑ گئیں۔ سپہ سالار کے اس فیصلے کو عوام اور لیڈران قوم کی اکثریت نے مناسب فیصلہ ، خوش آئند، وقار میں اضافے کا باعث قرار دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل راحیل شریف جیسے پیشہ ور جنرل ، محبِ وطن رہنما کی پاکستان کو ایک طویل عرصہ کے لیے ضرورت ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں جنرل راحیل شریف کا اسی حیثیت میں برقرار رہنا ملک اور قوم کے اعلیٰ تر مفاد میں ہے ۔ ملک میں نیشنل ایکشن پلان کو ابھی پائے تکمیل تک پہنچنا باقی ہے، کراچی اور دیگر علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ابھی مکمل نہیں ہوا، ملک میں کرپشن کے خاتمے کے لیے جاری آپریشن کو اپنے منطقی انجام تک پہنچنا باقی ہے۔ یقینا سپہ سالار کی بھی یہی خواہش اور کوشش ہے کہ جب ان کی مدت ملازمت کا وقت آئے تو وہ اپنے تمام تر اہداف پائے تکمیل کو پہنچا چکے ہوں۔ لیکن دہشت گردی اور کرپشن کے ناسور کی جڑیں اس قدر گہری ہوچکی ہیں کہ اس کی جڑوں کو اکھاڑ پھیکنے میں ایسی ہی سنجیدگی، تیزی، بلند حوصلہ کی ضرورت ہے جو جنرل راحیل شریف نے دکھائی ہے۔ دہشت گردی اور کرپشن کو اس عرصہ میں شاید مکمل طور پر دور کرنا ممکن نہ ہو لیکن سپہ سالار کی خواہش اور عملی کوشش ہے کہ وہ اس کام کو جہاں تک ممکن ہوسکے آگے بڑھا دیں ، ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کردیں اور کرپشن کے خاتمے کے لیے جو حکمت عملی اختیار کی گئی ہے اسے ان کے جانے کے بعد بھی جاری رکھا جاسکے۔

سپہ سالار ِ پاکستان نے قبل از وقت اپنے ارادوں کا فیصلہ بانگِ دھل کر کے ایک اعلیٰ مثال قائم کی ہے، قوم کو حیران کردیا، ان کایہ فیصلے نے ان کی عزت اور وقار میں اضافہ کا باعث ہواہے، ہمارے ملک میں طاقت ور یا اثر رسوخ رکھنے والے سرکاری ملازمین کے لیے مدت ملازمت میں توسیع لے لینا ایک ایسا کلچر بنا ہوا ہے کہ جس نے بعض اداروں کے ملازمین میں بددلی پیدا کر رکھی ہے جنرل راحیل کا یہ فیصلہ ملک میں مدت ملازمت میں توسیع کلچر کے خاتمے کاباعث بھی ہوگا۔ عوام الناس کے علاوہ ملک کی بعض اہم سیاسی جماعتوں نے بھی سپہ سالار کے اس فیصلہ کو سراہا اور اسے ایک صائب فیصلہ قرار دیا۔یہ سیاسی جماعتیں جو کچھ عرصہ تک جنرل صاحب کی مدت ملازمت میں توسیع کے مشورہ دے رہی تھیں نے بھی اس فیصلہ کو قابل تحسین فیصلہ کہا ہے۔سپہ سالار کے اس فیصلے سے ملک میں برپا ہونے والی قیاس آرائیاں، آئے دن اخبارات میں آنے والے تجزیے اور تبصر ے ، ٹی ٹاک میں تجزیہ نگاروں کی آراء اپنی موت آپ مرگئیں ہیں۔ سپہ سالاِ پاکستان کے اس فیصلے کے وہ از خود اور ان کے ساتھی اپنے اہداف کے حصول کے لیے انتہائی تند دہی کے ساتھ کام کریں گے تاکہ وقت مقرہ پر اپناہدف حاصل کرسکیں، ایک اہم بات ادارے میں اعتماد اور دلجمعی کے ساتھ کام کرنے اور مدت ملازمت کی خواہش پیدا ہی نہیں ہوگی، ساتھیوں میں اعتماد بڑھنے کا باعث ہوگا۔ ریٹائر منٹ کو معیوب سمجھنے والے اپنے آپ کو دھوکا دیا کرتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ صرف وہ ہی اس کے اہل ہیں جب کہ جنرل راحیل شریف نے اپنے فیصلے یہ ثابت کردیا کہ یہ سوچ کسی بھی اعتبار سے مناسب نہیں، دوسروں کو کام کا موقع دینا چاہیے، دیگر دشعبوں میں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ لوگ اپنے عہدوں سے چمٹے رہتے ہیں، چاہے ان کی کارکردگی کچھ ہو ، آخر میں ایسے لوگ عزت سے رخصت نہیں ہوتے، اسی قسم کی صور حال سیاسی جماعتوں میں بھی پائی جاتی ہے ، پارٹی بنانے والا سیاست داں پارٹی کی رہنمائی کو اپنا جدی پشتی حق تصور کرتا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ پارٹی وقت کے ساتھ ساتھ دم توڑ تی جاتی ہے، ہمارے بعض حکمراں ایسے رہے کہ وہ بات کرتے ہوئے ، تقریر کرتے ہوئے بار بار رومال سے اپنی رال صاف کیا کرتے تھے لیکن اپنے آپ کو سب سے بہتر حکمراں تصو ر کیے ہوئے تھے۔ گئے تو لیکن اپنے پیروں چلتے نہیں ، ایسی حکمرانی سے کیا فائدہ۔

سپہ سالار پاکستان نے یہ ثابت کردیا کہ کوئی شخص اگر اپنے کردار اور عظم و ہمت سے مثبت مقام بنا لے تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ اپنے آپ کو ہمشہ کے لیے اس عہدہ کا اہل سمجھ بیٹھے۔ جنرل صاحب کا یہ فیصلہ ہر اعتبار سے سراہا گیا، اسے ایک اعلیٰ فیصلہ ہر اعتبار سے مناسب گردانا جارہاہے اور ایسا ہونا چاہیے۔ تاریخ میں سپہ سالار پاکستان کے اس فیصلہ کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437045 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More