امام الدین علیگ
اروناچل پردیش میں عوام کی منتخبہ حکومت کو برطرف کرکے صدر راج نافذ کرنے
پر سپریم کورٹ کی سختی کے بعد ریاست کے آر ایس ایس نواز گورنر جے پی
راجکھوا نے یہ جواز پیش کیا ہے کہ کھلے عام گاؤ کشی ہونے کی وجہ سے ریاست
میں صدر راج نافذ کرنا پڑا۔ یہ ایک انتہائی مضحکہ خیز اور بے بنیاد دلیل
ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کے جمہوری نظامِ کو بھگوا اصولوں پر چلانے کرنے کی
ایک مذموم کوشش بھی ہے۔سپریم کورٹ نے جب معاملے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے
ریاست کے گورنر اور مرکز کی مودی حکومت سے صدر راج نافذ کرنے کی وجہ پوچھا
اور اس سے متعلق تمام دستاویزات پیش کرنے کا حکم دیا تو اس معاملے میں
قوانین و اختیارات کا بے جا استعمال کرنے والے بی جے پی نواز جے پی راجکھوا
نے کسی ٹھوس وجہ کی عدم موجودگی میں گائے کو ہی ڈھال بنانا زیادہ مناسب
سمجھا اور انھوں نے راج بھون کے سامنے ’’مِتھن ‘‘کے بلی کی ایک تصویر بھی
بطور ثبوت پیش کردی۔
در حقیقت اروناچل پردیش میں گاؤ کشی کا رواج ہمیشہ سے عام رہا ہے اور یہ
چیز وہاں کے ہندو ؤں اور قبائلیوں کی قدیم روایت و ثقافت کا حصہ رہا
ہے۔شاید اسی روایت کے تحت کانگریسی لیڈران نے اس سیاسی اتھل پتھل کے دوران
راج بھون کے سامنے ’مِتھُن‘ کی بلی دی ہے۔ واضح رہے کہ متھن ایک پہاڑی
مویشی ہے جسے گائے کی ہی ایک نسل تصور کیاجاتا ہے ۔ یہ بھی واضح ہونا چاہئے
کہ یہ بَلی دینے والے کوئی مسلمان نہیں بلکہ بی جے پی کے حمایت یافتہ
کانگریس کے باغی لیڈران تھے۔اس بات کو مزید اچھے طریقے سے سمجھنے کے لیے
10دسمبر 2015کو مشہور اخبارٹیلی گراف کے حوالے سے ڈی این اے میں شائع آر
ایس ایس کے ایک سینئر لیڈر منموہن ویدیا کاوہ بیان کافی مدد گار ثابت ہو
سکتا ہے جس میں انھوں نے اروناچل پردیش میں ہی یہ بات کہی تھی کہ اس ریاست
میں بڑے کا گوشت کھانا یہاں کے کلچر کا حصہ رہا ہے اور یہاں بیف کھانا ایک
عام سی بات ہے۔انھوں نے مزید کہا تھا کہ بیف کھانے والا بھی آر ایس ایس کا
ممبر ہوسکتا ہے اور اس حوالے سے انھوں نے یہ دلیل دی تھی کہ خود اروناچل
پردیش میں بیف کھانے والے آر ایس ایس کے 3000ممبران ہیں۔اگر منموہن ویدیا
کے اس بیان کو سامنے رکھ کر صدر راج نافذ کرنے کے لیے گورنر کے ذریعہ پیش
کی گئی دلیل کو دیکھا جائے تو یہ مکمل طور پر مضحکہ خیز اور بے بنیاد معلوم
ہوتی ہے۔
اس سے قبل بھی آر ایس ایس لیڈران کے ایسے بیانات اور انکشافات سامنے آچکے
ہیں جن سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ اس کے نزدیک گائے کو کسی
بھی طرح کا مذہبی تقدس حاحل نہیں ہے۔8اکتوبر 215کو ’دی اکنامک ٹائمس‘ میں
آر ایس ایس پرچارک ، مصنف اور کالم نگار دلیپ دیودھار کا وہ بیان بھی کافی
دنوں تک سرخیوں میں رہا تھاجس میں انھوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ موہن
بھاگوت بھی آر ایس ایس کے چیف بننے سے پہلےتک گوشت کھایا کرتے تھے ۔
انھوںنے مزید کہا تھا کہ آر ایس ایس کے زیادہ تر پرچارک گوشت خورہیں۔ یہ
انکشاف کرنے کا انجام یہ ہوا تھا کہ دلیپ دیودھار سے آ رایس ایس نواز
اخبار ’’ترون بھارت‘‘ نے وہ کالم چھین لیا تھا جو وہ پچھلے 16برسوں سے لکھ
رہے تھے۔
آر ایس ایس کے لٹریچر اور اس کے سابق لیڈران کے موقف بھی اسی بات کی تصدیق
کرتے ہیں کہ آر ایس ایس کے نزدیک گائےکی حیثیت کسی بھی عام جانور سے زیادہ
نہیں ہے۔آر ایس ایس کے نظریہ ساز دامودر ساورکر کی مراٹھی زبان میں لکھی
گئی کتاب ’وگیان نشٹھ نبندھ‘جس کے ایک باب کا ترجمہ انگریزی میں ویب سائٹ
’اسكرول ڈاٹ ان‘ نے شائع کیا ہے، اس میں ساورکر لکھتے ہیں کہ گائے کی پوجا
کرنا اور اسے انسان سے اوپر سمجھنا انسان کی توہین ہے۔ساورکر نے اس باب میں
واضح طور پر لکھا ہے : ’’اگر ہمارے ہندو راشٹر کے کسی شہر پر حملہ ہوتا ہے
اور رسد ختم ہو رہی ہو تو فوج کی کمان سنبھال رہے لیڈر کے لئے یہ فرض بنتا
ہے کہ وہ گاؤ کشی کا حکم دے اور اس کے گوشت کو کھانے کے لیے استعمال کرے۔‘‘
آر ایس ایس دراصل ساورکر کے اسی نظریے پر عمل پیرا ہے بس فرق یہ ہے کہ حسب
ضرورت اسے گاؤ پرستی کا دکھاوا کرنا پڑرہا ہے۔ساور کر کا نظریہ تھا کہ
ضرورت پڑنے پر گائے کو کھایا جا سکتا ہے اور آر ایس ایس کا موجودہ نظریہ
ہے کہ ضرورت پڑنے پر گائے کا بھرپور سیاسی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان
دونوں نظریات میں کوئی واضح فرق نہیں ہے۔ بیشتر سابقہ انتخابات سے لے کر
اروناچل پردیش کے موجودہ سیاسی بحران تک میںبی جے پی اسی نظریہ پر کاربند
نظر آرہی ہے۔ ویر ساورکر نے مزید لکھا ہے ’’مسلمانوں نے جنگوں میں ہندو
راجاؤں کے سامنے گائے کو ڈھال کی طرح استعمال کیا کیونکہ انہیں یقین تھا
کہ ہندو اس جانور کو نقصان نہیں پہنچائیں گے ۔‘‘ ساورکر کا یہ دعویٰ کہ
مسلم حکمرانوں نے گائے کو ڈھال کی طرح استعمال کیا ، بے بنیاد ہونے کے ساتھ
ساتھ تاریخ کو توڑنے مروڑنے یا الگ سے جھوٹی تاریخ رقم کرنے کی بھی ایک
مذموم کوشش ہے۔ تاریخ کے اوراق میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا ہے جس یہ بات
ثات ہوسکےکہ ہندوستان میںکسی ایک بھی مسلم حکمراں نے بھی ایسا کیا ہو۔
البتہ عرب مسلمانوں اور بنی اسرائیلی کی تاریخ میں بعض ایسے واقعات ضرور
ملتے ہیں جن میں قرآن اور تورات کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا۔ شاید
انھیں واقعات کو ویر ساورکر نے توڑ مروڑ کر قرآن اور تورات کی جگہ گائے
اور دیگر کرداروں کی جگہ مسلم حکمرانوں اور ہندو راجاؤں کو رکھتے ہوئے
جھوٹی تاریخ گڑھ کر ہندوؤں کو ورغلانے کی کوشش کی ہے۔یہاں اس بات کی وضاحت
کرنے کا مقصد مسلم بادشاہوں کا دفاع کرنا بالکل نہیں ہے ، بلکہ بادشاہوں
اور راجاؤں کو ہندو اورمسلمان کی کٹیگری میں کرکے ان کا دفاع کرنے سے تو
آر ایس ایس کو فائدہ پہنچے گا اور حقیقت میں یہ حکمراں کسی مذہب کی نہیں
بلکہ اپنے خاندنی حکومت کی نمائندگی کر رہے تھے۔ یہاں ساورکر کی کتاب کا
حوالہ پیش کرنے کا اصل مقصد آر ایس ایس کے ذریعہ جھوٹی تاریخ گڑھنے اور
گائے کے تعلق سے اس کے اصل نظریے کو بے نقاب کرنا ہے۔
ایک طرف ساورکر تاریخ کو توڑ مروڑ کر گائے کے تقدس کو ختم کرنے کی وکالت کر
تے ہیں تو وہیں دوسری طرف موجودہ وقت میں آر ایس ایس اسی گائے کے تقدس کا
سیاسی استعمال کر رہی ہے ، ان دونوں واقعات کے بیچ اصل محرک اور مقصد ایک
ہی ہے اور وہ ہے فرقہ وارانہ ارتکاز کرکے اقتدار کی کرسی تک پہنچنا۔ در اصل
ملک کے طول و عرض میں مختلف علاقوں میں گائے کے تعلق سے برادران وطن کے
نظریے میں واضح اختلاف پایا جاتا ہے ۔ ملک کے بعض علاقوں میں گائے کو پوجا
جاتا ہے تو کئی دیگر علاقوں میں اسی گائے کی بلی دی جاتی ہے اور اس کا گوشت
بھی کھایا جاتا ہے۔مگر ہاں ، گائے کو کھانےکا رواج زیادہ تر دلتوں،
قبائلیوں اور پسماندہ ہندوؤںمیں ہے اور ان لوگوں کی تعداد اعلیٰ ذات کے
ہندوؤں سے کہیں زیادہ ہے۔ پہلے آر ایس ایس کی کوشش یہ رہی کہ گائے کے
تعلق سے اعلیٰ ذاتوں کے نظریے کو تبدیل کرکے پسماندہ اور اعلیٰ ذاتوں کے
مابین نظریاتی اختلاف ختم کرکے سارے ہندوؤں کو پولرائز (ارتکاز)کیا جائے۔
مگر جب آر ایس ایس کو اس حکمت عملی سے کامیابی نہیں ملی تو اس نے گائے کے
اسی تقدس کو ہی استعمال اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے کرنا شروع کردیا
اور دلتوں وقبائلیوں پر بھی اعلیٰ ذاتوں کی اس اندھی عقیدت کو تھوپ کر گائے
کو سیاسی میدانِ کا گھوڑا بنا لیا اور پھر اسی پر سوار ہوکر آر ایس ایس
اقتدار تک پہنچنے کی حکمت عملی پر کاربند ہوگئی ۔ اس حکمتِ عملی سے ایک طرف
جہاں اعلیٰ ذات پر مشتمل آر ایس ایس کی قیات کو کافی فائدہ پہنچاتو وہیں
دوسری طرف اسی حکمت عملی سےان غریب دلتوں، قبائلیوں اور پسماندہ ذاتوں کا
کافی نقصان ہوا جن کے لیے بڑے کا گوشت غذائیت اور معیشت کا ایک بڑا ذریعہ
تھا۔کچھ برس قبل تک اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے ماتحت رہنے والے دلتوں اور
قبائلیوں کے لیے مری ہوئی گائیوں کے گوشت اور چمڑے کا استعمال کرنا ایک عام
سی بات تھی۔ تب اعلیٰ ذاتوں کے گلے سڑے جانوروں اور دیگر غلاظتوں کو ٹھکانے
لگانے کے لیے دلتوں کایہ عمل ان کے لیے قابلِ قبول ہی نہیں بلکہ ضروری تھا
مگر آج ووٹوں کی مجبوری کے تحت انھیں قبائلیوں اور دلتوں کو گائےپرست
بنایا دیاگیا ۔ اس حکمت عملی سے جہاں ایک طرف دلت اور پسماندہ لوگوں سے ان
کی غذائیت اور معیشت کا ایک مضبوط ذریعہ چھین کر انھیں مزید پسماندگی میں
دھکیلنے کا کام کیا گیاتو وہیں اسی اندھی عقیدت کا فائدہ اٹھا کر حکومت پر
اعلیٰ ذاتوں کے قبضے کو مزید مستحکم کیا گیا، کیوں آر ایس ایس کو معلوم ہے
کہ صحت، معیشت اور سیاست کے میدان میں دلتوں اور قبائلیوں کا ان کے برابر
آنے سے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کا غلبہ خطرے میں پڑ جاتاجو آر ایس ایس کی
برہمن قیادت کبھی گنوارا نہیں کر سکتی۔ اگر آر ایس ایس اور بی جے پی کو
گائے میں معمولی عقیدت بھی ہوتی تو وہ اس کا سیاسی استعمال نہیں کرتیں ۔ یہ
بات بالکل ایسی ہی ہے جیسے قرآن پر ایمان رکھنے والے مسلمان کا دل یہ
گنوارا نہیں کر سکتا ہے کہ وہ مسلمان قرآن پر سیاست کرے۔
درحقیقت گائے کے تعلق سے آر ایس ایس کے مقصد اورنظریے میں بنیادی طور پر
آج بھی کوئی فرق واقع نہیں ہواہے۔گائے ہو یا مذہب یا پھر معصوم لوگوں کی
جانیں آر ایس ایس کو حصول ِ اقتدار کی خاطر کسی بھی چیز کے استعمال سے
پرہیز نہیں ہے۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اروناچل پردیش میں صدر راج کے نفاذ
کے لیے گائے کو ڈھال بنانے کا معاملہ ہو یا منصوبہ بند دادری واقعے کے
بہانے گائے کی پیٹھ پر سوار ہوکر بہار کے انتخابی دنگل میں کودنے کا
معاملہ، گائے کی حیثیت بی جے پی کے لیے کبھی بھی مذہبی جانور کی نہیں رہی
ہے بلکہ وہ بی جے پی کے نزدیک محض ایک سیاسی جانور ہے۔ گائے کے تعلق سے جے
پی اور آر ایس ایس کے ذریعہ قائم کیے گئے اس مایاجال سے مسلمانوں سے زیادہ
دلتوں، قبائلیوں اور پسماندہ ہندوؤں کو باہر نکالنے کی ضرورت ہےورنہ اعلیٰ
ذاتوں کی یہ منڈلی کبھی گائے تو کبھی کسی اور بہانے سے ملک کے دلتوں ،
قبائلیوں اور پسماندہ ذاتوں کا استحصال کرتی رہے گی۔ |