آزادکشمیر میں رواں سال ماہ جولائی میں
ہونے والے آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی کے عام انتخابات کے لیے مستقل چیف
الیکشن کمشنر کی تعیناتی کامعاملہ سپریم کورٹ کے مختصر فیصلے کے باوجود
تاحال آزادکشمیر حکومت اور آزادجموں کشمیر کونسل کے مابین حل نہ ہوسکا ہے
اور چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ گزشتہ سال 13اپریل سے جسٹس چوہدری منیر حسین
کی ریٹائر منٹ کے بعد تاحال خالی چلا رہا ہے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے
حوالہ سے سپریم کورٹ آزادجموں وکشمیر کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس محمد اعظم خان
کی سربراہی میں چار رکنی فل کورٹ کے گذشتہ دنوں مختصر فیصلہ کے بعد وزیر
امور کشمیر برجیس طاہر نے بھی اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے ذریعے
صدر آزادکشمیر سردار محمد یعقوب خان سے مطالبہ کیاہے کہ وہ فوری طور پر
کشمیر کونسل کی ایڈوائس کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کریں جبکہ
آزادکشمیر کے وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید نے اپنی کیچن کابینہ اور قانونی و
آئینی ماہرین سے صلاح و مشورہ کے بعد سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے تک چیف
الیکشن کمشنر کی تقرری نہ کرنے کا فیصلہ کیاہے جس سے تاحال آزاد خطہ میں
چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ 13اپریل 2015سے خالی اور آزاد کشمیر حکومت اور
آزاد جموں و کشمیر کونسل کے مابین متنازعہ چلا آ رہا ہے اس عرصہ کے دوران
آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے متعدد پینلز قائمقام چیف الیکشن کمشنر کی
تعیناتی کیلئے ارسال کیے گئے جبکہ کشمیر کونسل کی طرف سے بھی متعدد مرتبہ
صدر آزاد کشمیر کو ایڈوائس بھیجی گئی مگر آزاد حکومت اور کشمیر کونسل کے
مابین اس تنازعہ کے حل کیلئے کسی بھی حاضر سروس جج یا ریٹائر جج کے نام پر
اتفاق نہ ہو سکا اور سرد جنگ کا ماحول جاری رہا - اس سلسلے میں قانونی
وآئینی ماہرین کے مطابق آزادکشمیر کے عبوری ایکٹ 1974ء کی دفعہ 43کی ذیلی
دفعہ 7، کی جز (الف) اور( ب) میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ کوئی جج ہائی کورٹ
آزادکشمیر حکومت کے تحت کوئی ایسا عہدہ قبول نہیں کرے گا جس میں جج کی
تنخواہ میں اضافے کا احتمال ہو یااضافی تنخواہ لینے کا حق دیاگیا ہو۔ اس کے
علاوہ آئین ایکٹ کی متعلقہ دفعہ میں کوئی کسی قسم کی پابندی یاقدغن نہیں ہے
کہ جج ہائی کورٹ کوئی دوسراعہدہ اضافی طور پر قبول نہیں کرسکتا۔ آئینی
ماہرین کے مطابق ایکٹ کی دفعہ 43کی 7، کی جز( الف) اور (ب )میں کسی اسامی
یا عہدہ کی یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ عارضی یاعبوری یامستقل طور پر اضافی
عہدہ قبول نہیں کیاجاسکتا۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ اس دفعہ کے تحت اضافی
عہد ہ پر کام کرنے پابندی ہے تو اس صورت میں ہائی کورٹ جج کسی اور اضافی
عہدہ یا اسامی پر فرائض سرانجام نہیں دے سکتا لیکن اس ضمن کی اسوقت تک جو
تشریح کرکے اس پر عمل کیاگیا ہے وہ صرف اس حد تک ہے کہ جج ہائی کورٹ اضافی
عہدہ کے فرائض سرانجام دینے پر ہائی کورٹ کے جج کی مقرر کردہ تنخواہ کے
علاوہ اور کوئی تنخواہ حاصل نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ اور کوئی پابندی
مروجہ آئین ایکٹ 1974ء میں درج نہ ہے اس لیے اگر مان لیا جائے کہ آئین
میں یہ پابندی مستقل ہے تو اسوقت ہائی کورٹ آزادکشمیرکے چیف جسٹس شریعت
کورٹ کے چیف جسٹس کے فرائض سرانجام نہیں دے سکتے۔ ایکٹ 74ء کے نفاذ سے لیکر
اسوقت تک چیف جسٹس ہائی کورٹ اور جج صاحبان متعدد بار چیف جسٹس شریعت کورٹ
کے علاوہ چیف الیکشن کمشنر کے اضافی فرائض بھی سرانجام دیتے چلے آرہے ہیں
لہذا اس ضمن کاسہارالے کریہ نہیں کہا جا سکتاکہ جج ہائی کورٹ دوسرے کسی
اورعہد ہ کے اضافی فرائض سرانجام نہیں دے سکتے ۔آئینی اور قانونی ماہرین نے
اس کی مثال دیتے ہوئے کہاکہ اس کی مثال مسٹر جسٹس چوہدری ریاض اختر اور
مسٹر جسٹس سردار محمد اشرف بھی موجود ہیں کہ وہ چیف جسٹس اور جج ہائی کورٹ
ہوتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کے عہد ہ پر اضافی فرائض بھی سرانجام دیتے رہے
ہیں۔آئینی اور قانونی ماہرین کے مطابق آزادجموں وکشمیر سپریم کورٹ کے مختصر
فیصلے اور ایکٹ 1974ء کی متعلقہ دفعات کی روشنی میں صدرریاست سردار محمد
یعقوب خان آزادجموں وکشمیر کونسل کی ایڈوائس کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کی
تقرری کرنے کے پابند ہیں اس طرح اگر آزادکشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر
جسٹس غلام مصطفی مغل چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے ازخود انکار نہ
کریں تو ان کی تقرری کا نوٹیفکیشن جار ی کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے
بلکہ یہ سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے مختصر فیصلہ اور آئین کی متعلقہ دفعات
اور آزاد جموں و کشمیر کونسل کی ایڈوائس کے مطابق درست ہے اور بالآخر صدر
آزادکشمیر کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کشمیر کونسل کی ایڈوائس پر
چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا حکم نامہ جار ی کرنا ہی پڑے گا۔ اور چیف جسٹس
ہائیکورٹ آزاد جموں کشمیر جسٹس غلام مصطفےٰ مغل کے انکار کی صور ت میں آزاد
جموں و کشمیر کونسل کی طرف سے کسی دوسرے جج یا ریٹائر جج ہائیکورٹ کی
ایڈوائس پر ہی چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کر کے 9ماہ سے جاری اس تنازعہ
کو حل کیا جا سکتا ہے- |