کسانوں کا معاشی قتل ۔۔۔ذمہ دار کون؟

کہتے ہیں کسان ملکی زرعت کی ترقی کے لیئے رہڈکی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ کسان کی دن رات کی محنت کی وجہ سے ملک ترقی کرتا ہے ۔ کسان نہ تو رات دیکھتا ہے اور نہ ہی دن بس اپنے کھیت میں مصروف رہتا ہے۔ صرف اس لگن سے کہ میری فصل سب سے اچھی ہو ۔اس کے زہن میں ہوتا ہے کہ اگر میں زیادہ وقت اپنے کھیت کی بہتری کیلئے دوں گا تو میری فصل اچھی ہو گی ۔ اور اس کی پیداوار بھی اچھی ہوگی ۔ جس سے اس کے سارے اخراجات پورے ہو سکیں گے ۔ اس وجہ سے کسان ساری عمر اس محنت میں لگا رہتا ہے ۔ مگر ہمارے ملک میں سب الٹا ہے۔ کسانوں کے لئے کوئی منصوبہ بندی ہی نہیں ہے ۔ ہمارے ملک کے اندر کسانوں کی بہتری اور ان کی پیداوار کے لئے کوئی منصوبہ بندی ہی نہیں ۔ جس کی وجہ سے ہر روز کسانوں کا معاشی قتل کیا جا رہاہے ۔کسان ہمارے لئے سزیوں سے لے کر ہر وہ چیز جو ہم زندہ رہنے کے لئے استعال کرتے ہیں وہ اس کی پیداوار کے لئے محنت کرتا ہے ۔ اور اپنی تمام تر توانیاں استعمال کر کے جب وہ تیار ہو جاتی ہے تو ہم تک پہنچا دیتا ہے ۔ اور ہم ان کو اپنی روزمرہ کی ضروریا ت میں شامل کر لیتے ہیں ۔ہمارے حکمران کسانوں کی اس محنت کو بھولتے جا رہے ہیں ۔ اس لئے وہ کسان پر کوئی منصوبہ بندی نہیں کر رہے ۔ ہماری حکومت صرف بزنس مین اور سٹاک ہولڈرز کو تحفظ فراہم کرر ہی ۔ کتنے افسو س کی بات ہے کہ ہمارے حکمران اپنے کسانوں کو بھول کر ایسے لوگوں کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں جن کا کوئی وجود ہی نہیں ۔ کیوں کسانوں کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک کیا جارہا ہے ۔

گزشتہ دو تین سالوں سے جب سے نئی حکومت آئی ہے ۔ تب سے لے کر آج تک کسان سڑک پر آگیا ہے ۔بزنس مین کو بچانے کے لئے بڑے بڑے ٹیکس معاف کیے جا رہے ہیں مگر کسانوں کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے کوئی سبسڈی نہیں دی جا رہی۔جس سے کسان کی حالت بہتر ہو سکے۔ حکومت آخر کسانو ں کے ساتھ کرنا کیا چاہتی ہے ۔ وزیر اعظم صاحب خدارا کچھ اپنے ملک اور اس کی عوام کے بارے میں سوچو۔سب کچھ لاہو ر کو نہ سمجھو۔اور سب کچھ میٹروٹرین پر نہ لگاؤ۔اس ملک کے اند اور بھی بہت سے مسائل ہیں جن کا حل بھی آپ کو ہی کرنا ہے ۔ اپنے ملک کے محنتی کسانوں کے بارے میں سوچو۔ صرف باہر کے بزنس مین کو فائدہ نہ پہنچاؤ۔اپنے ملک کے کسانوں کے مستقبل کے بارے میں بھی سوچو۔ انہی کسانوں کی محنت کی وجہ سے پاکستان نے آگے بڑھنا ہے ۔اور ترقی کرنی ہے ۔کسانوں کے مسائل دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں ۔کسان جو بھی فصل اگاتا ہے ۔ اس کو اس کی پوری محنت تو کیا اس کے پورے آخرا جات بھی نہیں مل رہے۔دو سال کے اندر اندر کسان کی معاشی حالت اس قابل ہو گئی ہے کہ اس کے پاس فصل اگانے کے لئے سرمایہ ہی نہیں ۔ تو وہ کیا اگائے گا اور ہم کیا کھائیں گے ۔ اگر اسی طرح حکومتی منصوبہ بندی رہی اور ہماری حکومت لاپرواہی کر تی رہی تو وہ دن دور نہیں جب ہم کو اپنی تمام روزمرہ کی اشیاء باہر سے منگوانی پڑئیں گئیں۔اور معلوم یہی ہو رہا ہے کہ اگر ایسا ہو تا رہا تو یہ دن بھی دیکھنے پڑیں گے ۔ہر روز جو اشیاء کسان کے استعمال میں ہیں ان کے دام بڑھ رہے ہیں ۔ زرعی ادویات سے لے کر کھاد بیج تک ان کے ریٹ آسان کو چھو رہے ہوتے ہیں۔ حکومت ان کو تحفظ دے رہی ہے کہ بھائی جو دل کرتا ہے کرواور کسانوں کو اس ملک سے مٹا دو۔ کھادوں کے ریٹ اب اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ کسان کے خریدنے کے بس کی بات ۔ اگر اپنا سب کچھ بیچ کر خرید بھی لیتا ہے تو اس سے وہ نتائج نہیں ملتے جس کی اس کو تمنا ہو تی ہے۔ مارکیٹ میں ہر وہ چیز دو نمبر مل رہی ہے جوکسان کے استعمال کی ہے ۔ ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ سٹاک ہولڈ ر ز کھادیں ا پنی مرضی سے سیل کرتے ہیں ۔ پھر بھی حکومت ان کا ساتھ دیتی ہے ۔ کتنی شرم کی بات ہے ہمار ا کسان تو مر رہا جس پر ہماری روزمرہ کی ضروریات کا انحصار ہے ۔ اور ان کو تحفظ مل رہا جو ملک کو لوٹ کر کھا رہے ہیں ۔حکومت کو چاہئے کہ کھادوں اور زرعی ادویات کے ریٹ کسان کی پہنچ کے مطابق رکھے جائیں تاکہ کسان باآسانی ان کو خرید سکے۔

ہمارے ملک میں اس وقت زیادہ تر مکئی ،گنا،آلو،گندم ،سبزیاں،مونجی کی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں ۔ان تمام فصلوں کی کاشت کی ذمہ داری کسان پر ہوتی ہے ۔ اور کسان ہی کی وجہ سے ہم کو تروتازہ سبزیاں کھانے کو میسر ہوتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کسان ان پر محنت کرتا ہے ۔مگر جب وہ تیار ہو جاتیں ہیں تو کسان ان کو منڈی میں فروخت کے لئے لے جاتا ہے ۔ جب ان کو سیل کر تا ہے توخوشی کی بجائے اس کو مایوسی ہو تی ہے اور اس کا دل ٹوٹ جاتا ہے ۔ اور وہ نڈھال پریشان گھر کو لوٹ آتا ہے ۔ اس وقت اس کے اند ر داخل ہو کر کوئی نہیں پوچھتا کہ اس کو کیا ہو ا ہے ۔ بس حکومت اور خریدار اس کی بے بسی کا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں ۔اس وقت ملک کی سب سے بڑی پیداوار آلو ہے ۔ اور پنجاب میں سب سے زیادہ اس کی کاشت ہوتی ہے۔ آلو کو سبزیوں کا سردار کہا جاتا ہے ۔ گھر میں کوئی اور سبری ملے نہ ملے آلو آسانی سے مل جاتا ہے اور گھر کا نظام بآسانی اس سے چل سکتا ہے۔پاکستانی آلوچپس،گھی اور دوسری بہت سی اشیاء میں استعمال ہو تا ہے ۔آلو پاکستان سے بہت سے ملک میں سپلائی بھی کیا جاتا ہے۔ مثلاً افغانستان،آزربائی جان، دوبئی ،ملائیشیا،سعودی عرب اور دیگر ممالک آلو پاکستان سے خریدتے ہیں ۔اس لئے آلو کی فصل پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے ۔

ان دوسالوں کے اندر آلو کی فصل نے کسانو ں کے جنازے نکال دیے ہیں۔آلو کی ایک ایکٹر فصل تیار کرنے کے لئے اس پر تقریباًایک لاکھ روپے اخراجات آتے ہیں ۔ مگر جب اس کو تیار کر کے مارکیٹ میں سیل کے لئے بھیجا جا تا ہے تو کسان کی پوری محنت بھی واپس نہیں ملتی اس وقت پاکستانی منڈیو ں کے اندر آلو کی سیل فی بوری تقریباً 500سو سے1000روپے تک ہے اسطرح کسان کو ایکڑپیدوارانکم تقریباً 70000ہزار سے 80000ہزا ر تک مل رہی ۔ جو کسان کے کسان کے اخراجات کو بھی پورا نہیں کرتی ۔ حکومت کی توجہ اس طرف نہ ہونے کی وجہ سے کسانوں کا معاشی قتل ہو رہا اگر حکومت کسانوں کو تحفظ فراہم نہیں کرے گئی تو ملک کا بہت بڑا نقصان ہو گا۔ جس سے دن بدن پیداوار میں کمی واقع ہو گیا اور زرعت کے شعبہ کا بھی بہت بڑا نقصان ہو گا جس سے کسان کی معاشی حالت کو نقصان ہو گا۔ اگر کسان کی فصل کو اسی طرح مارکیٹ میں ذلت ملتی رہی تو کسان کو مایوسی ہو گی اور وہ اس کام کو چھوڑ دے گا۔ اور اس کی ساری کی ساری ذمہ داری حکومت پر ہو گی کیونکہ حکومت نے کسانوں کا ساتھ نہیں دیا اور ان کے لئے کوئی اچھے اقدامات نہیں کیے جس کی وجہ سے کسانوں کا معاشی قتل ہو رہا ہے ۔ خدارا ہمارے ملک میں ایسے حکمران بھیج جو کسانوں کیلئے اچھی منصوبہ بندی کر سکیں جس سے ہمارا زراعت کا شعبہ ترقی کر سکے اور ہمارے کسانوں کا معاشی قتل بند ہو سکے ۔
Muhammad Riaz Prince
About the Author: Muhammad Riaz Prince Read More Articles by Muhammad Riaz Prince: 107 Articles with 105426 views God Bless You. Stay blessed. .. View More