نوے کی دہائی کا آغاز مسلمانوں کے لیے بہت
امید افزا اور امنگوں سے بھرپور تھا۔ افغان جہاد کے نتیجے میں روس کی
پسپائی اور پھر مسلم ریاستوں کی آزادی ایک ایسا عمل تھا کہ جس کے باعث دیگر
محکوم خطوں میں مسلمان بھی ولولہ سے لبریز تھے۔ ایسی صورتحال کے باعث کشمیر
اور فلسطین کے لوگ بھی پر عزم تھے کہ اگر مسلح جدوجہد سے روس جیسے دشمن کو
شکست دی جاسکتی ہے تو بھارتی جبر اور اسرائیلی استبداد سے بھی چھٹکارا ممکن
ہے۔ چنانچہ ان دونوں جگہوں پر تحریک آزادی میں بہت تیزی آگئی۔ بالخصوص
کشمیر کہ جہاں تحریک آزادی تو اس وقت سے جاری تھی کہ جب گلاب سنگھ ڈوگرہ نے
محض اسی لاکھ نانک شاہی کے عوض پوری ریاست جموں و کشمیر کوڑیوں کے مول بیچ
دی تھی لیکن اس تحریک میں اتار چڑھاؤ آتے رہے تھے۔ 1947 میں ایک تیزی آئی
تھی کہ جب قیام پاکستان ہوا تھا اور اسی وقت کشمیر کا ایک تہائی حصہ آزاد
کروالیا گیا تھا۔ اس کے بعد روس کی پسپائی سے تحریک آزادی میں پھر سے ایک
نیا ولولہ اور جوش اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ کشمیری نوجوان دھڑا دھڑ تحریک آزادی
میں شمولیت اختیار کر رہے تھے اور اس پر بھارت سرکار شدید پریشان تھی۔ آئے
روز کشمیریوں میں مظاہرے اور بھارت سرکار کے خلاف ہڑتالیں عروج پر تھیں۔
بھارتی فوج ان سب کو دبانے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کر رہی تھی اور
یوں ظلم کی نئی داستانیں رقم ہورہی تھیں لیکن کشمیری بھی کسی صورت جھکنے پر
تیار نہ تھے اور مسلسل قربانیاں پیش کر رہے تھے۔ انہی دنوں میں سرینگر میں
دریائے جہلم کے پل پر ایک مظاہرہ ہوا۔ اس مظاہرے میں ہزاروں لوگ شریک تھے۔
بھارتی فوج نے ان مطاہرین پر بے دریغ فائرنگ کی جس کے نتیجے میں دو سو کے
قریب لوگ شہید ہوگئے۔ اس کے علاوہ دیگر علاقوں میں بھی بھارتی مظالم کا
سلسلہ جاری رہا۔ یہ واقعہ 21جنوری 1990کو پیش آیا۔ اس واقعے کے بچ جانے
والے عینی شاہدین میں سے ایک فاروق وانی بھی تھے جو اس وقت پبلک ہیلتھ
انجنیئرنگ ڈیپارٹمنٹ میں ایگزیکٹو انجنیئر تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی
فوج نے مشین گنوں کی مدد سے نہتے افراد پر فائر کھولا۔ اس کے نتیجے میں بہت
سے لاشے تڑپتے رہے۔ فاروق احمد کو بھی کمر میں گولیاں لگیں لیکن ان کی
زندگی بچ گئی۔ ایک اور عینی شاہد کہتے ہیں کہ یہ امرتسر میں ہونے والے
جلیانوالہ باغ کی طرز کا حملہ تھا۔ یاد رہے کہ جلیانوالہ باغ میں بھی نہتے
مظاہرین کی بڑی تعداد کو تحریک آزادی ہند کے دوران قتل کردیا گیا تھا۔
اس واقعہ کے بعد دنیا بھر میںاور بالخصوص پاکستان کے مسلمان مضطرب ہوئے اور
کشمیر کاز کے لیے آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں۔ کشمیری لوگوں میں جذبہ
انتقام عروج پر تھا۔ پاکستان میں اس وقت جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین
احمد نے اس جذبہ حریت اور آزادی سے پاکستانیوں کو آگاہ کرنے کے لیے ایک دن
مختص کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اس دن ساری دنیا کو کشمیریوں کی تحریک سے آگاہ
کیا جائے اور ان سے یکجہتی کا اظہار بھی کیا جائے تاکہ کشمیری قوم کے حوصلے
بلند رہیں کہ پاکستانی عوام ان کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کی ہر ممکن مدد جاری
رکھے گی۔ یوں 5 فروری 1990 میں پہلی دفعہ یوم یک جہتی کشمیر منایا گیا۔ اس
دن ملک بھر میں یکجہتی کشمیر کے پروگرام ہوئے اور حکومت پاکستان نے اس کی
بھرپور تائید کی یوں پاکستان کی عوام نے کشمیری عوام کے جذبہ حریت کو نہ
صرف سلام پیش کیا بلکہ یہ پیغام بھی دیا کہ ان کی تحریک آزادی میں ہر ممکن
تعاون بھی کیا جائے گا۔
یوم یکجہتی کشمیر منانے کا مقصد صرف یہ نہ تھا کہ کشمیریوں کو آزادی دلوانے
میں کردار ادا کیا جائے بلکہ یہ پاکستان کی بقا اور دوام کا مسئلہ تھا۔
بانیئ پاکستان کے بقول کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اور یہی بیان ہمارے
حالیہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی دیا ہے مگر ایک بات جو یہاں وضاحت
طلب ہے کہ اس جملے سے مراد کوئی جذباتی وابستگی نہیں ہے بلکہ اگر زمینی و
جغرافیائی حقائق کو سامنے رکھا جائے تو در حقیقت کشمیر ہی پاکستان کی شہہ
رگ ہے۔ پانی زندگی اساس ہے۔ تاریخ اقوام عالم میں آبادیوں کا آغاز پانی ہی
ذخائر کے قریب ہوتا تھا۔ چنانچہ اگر آج ہم دیکھیں تو پاکستان کے تمام دریا
وادی کشمیر سے نکلتے ہیں۔ اگر بھارت کا وادی کشمیر پر قبضہ رہے گا تو وہ
ایسی صورت میں دریاؤں پر ڈیم بنا کر پاکستان کو بنجر کردے گا اور بلا ضرورت
پانی چھوڑ کر سیلاب کی آفت بھی دوچار کرے گا۔
اس لئے پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کی حیثیت سے کشمیر اس کی معاشی و اقتصادی
ترقی کے لیے شہہ رگ ہی کی حیثیت رکھتا ہے۔ 1990میں اگرچہ یہ نظری باتیں
تھیں لیکن آج یہ تمام مفروضے خوفناک حقیقت کا روپ دھارے ہمارے سامنے موجود
ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بھارت نے ہمارے دریاؤں پر کس قدر ڈیم بنائے ہیں
اور ان کے نتیجے میں خشک ہونے والے دریائے ستلج، راوی، چناب بھی ہمارے
سامنے ہیں۔ یہیں پر بس نہیں بلکہ گرمیوں کے موسم میں ہر سال بھارت کی طرف
سے پانی چھوڑے جانے پر آنے والی تباہی بھی ہر سال دیکھتے ہیں۔ یہ سب اس لیے
ہے کہ ہماری شہہ رگ پر ہمارا دشمن قابض ہے۔ اس لیے جب تک اس دشمن کے قبضہ
سے کشمیر کو چھڑوا نہ لیا جائے جب تک اس دشمن پاکستان کی بقا اور خوشحالی
ممکن نہ ہے۔
لہٰذا یوم یکجہتی کشمیر کو محض ایک جذبہ ہمدردی اور کشمیریوں سے اظہار
یکجہتی نہ خیال کریں بلکہ یہ پاکستان کی بقا اور خوشحالی کا معاملہ ہے۔
مزید براں کشمیر کے خطے میں اگر بھارت قابض رہتا ہے تو وہاں کے مسلم تشخص
کو اسی طرح مٹا دے گا جیسا کہ اندلس میں مسلم تشخص ختم کردیا گیا۔ اس لیے
اس اثاثے کو سنبھالنے کے لیے بھارت کو وہاں سے نکالنا ناگزیر ہے۔
مذکورہ بالا میں سب سے بڑھ کر وہاں کے مظلوم مسلمان ہیں کہ جن کی مدد اور
نصرت ہم پر واجب ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ نساء میں نازل ہونے والی آیات اس
سلسلے میں ہمارے سامنے ہیں کہ ہم پر ان کمزور اور ضعیف مسلمانوں کی مدد
کرنا ضروری ہے۔ اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ بھارت کشمیری عوام پر ظلم
و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ اگر کسی کو پاکستان کے کچھ مخصوص گروہوں کی طرف
سے مبالغہ آرائی کا اندیشہ ہو تو وہ عالمی میڈیا کی ان رپورٹس کا مطالبہ
کرسکتا ہے کہ جن میں ہمیں بھارت کی طرف روا رکھے جانے والے نارروا سلوک سے
نقاب ہٹایا گیا ہے۔ یوں ان مظلوموں کی مدد کرنا ہمارا اولین فریضہ بھی ہے۔
ان تمام وجوہات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس دفعہ 5 فروری کو محض رسمی طور پر
نہ گزاریے بلکہ اس مسئلہ کو نہ صرف مظلوموں کی مدد بلکہ پاکستان کے استحکام
اور بقا کا مسئلہ سمجھتے ہوئے اپنا حتی الامکان کردار ادا کرنے کی کوشش
کریں۔ اسی میں اسلام اور پاکستان کی بھلائی ہے اور اسی صورت مین استحکام و
خوشحالی پاکستان کا مقدر ہے۔ وگرنہ اگر آپ اپنی شہہ رگ دشمن کے ہاتھ میں دے
کر مطمئن ہیں تو اس پر افسوس کے علاوہ اور کیا کیا جاسکتا ہے۔
|