’دھرم کی راجنیتی‘اور’خوشامدکی پالیسی‘ کافلسفہ

مطلب یہ کہ آپ سیکولرزم کی کوئی بات نہ کریں،’ہندوکرن ‘کی کریں توٹھیک ہے،آئین میں درج لفظ سیکولرتک سے انہیں پریشانی ہے۔تویہ کس سیکولرزم کومعاشرہ سے جوڑنے کی بات کررہے ہیں؟۔ممکن ہے کہ ان کے کہنے کامطلب یہ ہوکہ مختلف مذاہب اورعلاقائی تنوع ہمارے ملک میں کہلانے بھرتوہولیکن ان مذاہب کے پیروکاروں کو’ان راستوں پر‘چلناہوگاجن پرسنگھ پریوارچلاناچاہتاہے۔یعنی اپنے مذہبی تشخص،عقائداورمذہبی آزادی کوبالائے طاق رکھ کرہندتواکے ایجنڈے کوتسلیم کرناہوگا۔حالانکہ مذہبی خودمختاری اورشہری آزادی کے جمہوری حقوق کامطالبہ توملک کے ثقافتی ورثے اورآئینی اقدارکاتقاضہ ہے ۔جبکہ جس ہندوتواکی راہ پرسنگھ پریوارچل رہاہے ،اس سے’ آئین کی اصل روح ‘مجروح ہورہی ہے۔
بی جے پی اورآر ایس ایس لیڈروں کی طرف سے بارہاسناگیاہوگاکہ ہم’ دھرم کی راجنیتی‘اور’خوشامدکی پالیسی ‘ پریقین نہیں رکھتے ۔مرکزی وزیرمختارعباس نقوی نے کہاہے ’’ سیکولرازم کو معاشرے سے جوڑنے کی بجائے سیکولرازم کے کچھ سیاسی سورماؤں نے اسے سیاسی استحصال کاہتھیاربنا لیا ہے جس کی وجہ سے سیکولرزم کی’ اصل آئینی روح‘ مجروح ہوئی ہے۔ سیکولر ازم کا سیاسی استحصال اورسیاسی شگوفہ بندہوناچاہئے ، ہمیں ملک کے ثقافتی ورثے اورآئینی اقدار کومضبوط کرنے کی راہ پرچلناچاہئے ۔مذاہب،زبان،ملبوسات اورعلاقائی تنوع کے باوجودلوگ اورملک مذہبی فتووں،پیغامات سے نہیں،آئینی اقداراوراصولوں سے چلتاہے‘‘۔مرکزی وزیریہ بتائیں گے کہ کیا مذہبی احکام ،آئینی اورجمہوری روح کاحصہ نہیں ہیں۔ مطلب یہ کہ آپ سیکولرزم کی کوئی بات نہ کریں،’ہندوکرن ‘کی کریں توٹھیک ہے،آئین میں درج لفظ سیکولرتک سے انہیں پریشانی ہے۔تویہ کس سیکولرزم کومعاشرہ سے جوڑنے کی بات کررہے ہیں؟۔ممکن ہے کہ ان کے کہنے کامطلب یہ ہوکہ مختلف مذاہب اورعلاقائی تنوع ہمارے ملک میں کہلانے بھرتوہولیکن ان مذاہب کے پیروکاروں کو’ان راستوں پر‘چلناہوگاجن پرسنگھ پریوارچلاناچاہتاہے۔یعنی اپنے مذہبی تشخص،عقائداورمذہبی آزادی کوبالائے طاق رکھ کرہندتواکے ایجنڈے کوتسلیم کرناہوگا۔حالانکہ مذہبی خودمختاری اورشہری آزادی کے جمہوری حقوق کامطالبہ توملک کے ثقافتی ورثے اورآئینی اقدارکاتقاضہ ہے ۔جبکہ جس ہندوتواکی راہ پرسنگھ پریوارچل رہاہے ،اس سے’ آئین کی اصل روح ‘مجروح ہورہی ہے۔
یہ خوبی ’’جملہ بازوں‘‘ کی رہی ہے کہ وہ جوکچھ کہتے ہیں ،آسانی کے ساتھ اس کوسمجھنامشکل ہوتاہے ۔ان کے’ من کی بات‘ وہ نہیں ہوتی جوکہی جاتی ہے ۔اگردھرم کی راجنیتی پروشواس نہ رکھنے کی بات کا مطلب ’’ سب کاساتھ سب کاوکاس‘‘ہوتاتوعلی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کے ’مسلم ‘نام سے انہیں پریشانی نہیں ہوتی،اقلیتی اداروں پرنظرِبدنہ ڈالی جاتی ۔ہندتواسیکولرزم کی جمہوریت ایک دوسرے کی ضدہیں توپھرجس پارٹی کے ایجنڈے میں ہندتواکے منصوبے ہوں،وہ’ سب کے ساتھ ‘کے بارے میں سوچ بھی لے ، ’سب کے وکاس‘ کے بارے میں نہیں سوچ سکتی،یاپھران کے ہندتوایجنڈے کوتسلیم کرلیجئے توپھر’سب کے وکاس‘ کے دائرۂ کارمیں آپ شامل ہوسکتے ہیں۔ سنگھی لیڈران کے اس لفظ کاآسان ترجمہ یہ ہواکہ کسی اقلیتی طبقہ کے مفادکی کوئی بات ’خوشامدکی پالیسی ‘ہوگی۔ان کی پسماندگی کے حوالہ سے کوئی قدم ووٹ بینک اوران کے حقوق کی وکالت’ دھرم کی راجنیتی‘ہے۔آئین کے ذریعہ اقلیتوں کودی گئی مذہبی خودمختاری ان کیلئے ناقابل برداشت ہے،آئین کی دفعہ30سے چھیڑچھاڑکاارادہ اسی کاعکاس ہے۔ ہندتواکے ایجنڈے کوملک پرتھوپ دیں،یوگا،سوریہ نمسکار،گیتا،رام مندر،گؤکشی جیسے شوشے چھوڑکرایک خاص دھرم کوملک پر،اس کے تمام طبقات پرلاد دیاجائے اورکوئی کچھ نہ کہے توپھرانہیں کوئی پریشانی نہیں ہے ۔

مہاتماگاندھی کے یومِ شہادت پرجہاں پوراملک خراجِ عقیدت پیش کررہاتھاوہیں مہاراناپرتاپ بٹالین کی طرف سے اس پستول کی تصویرکی پوجاہورہی تھی جس سے بابائے قوم کوقتل کیاگیاتھا۔اس موقعہ پرآزادہندوستان کے اولین دہشت گردناتھورام گوڈسے کو خراج عقیدت بھی پیش کیاگیا۔مرکز میں ’بھائی کی سرکار‘کے آنے کے بعدفرقہ پرست مطمئن ہوکرننگاناچ پورے ملک میں ناچ رہے ہیں۔عدم رواداری کے ماحول پرکوئی اعتراض گرچہ بی جے پی لیڈران کوگالی سی لگتی ہو،حقیقت یہی ہے کہ ملک نے کبھی ایساماحول نہیں دیکھاتھاجہاں ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کوشک کی نگاہ سے دیکھنے پرمجبورہے۔افسوس ہے کہ ہمارا وطن ان ہاتھوں میں چلاگیاجن کے پریوارکے لوگ مہنگائی کے ایشوزپرسنجیدگی سے سوچنے اورغریبوں کودووقت کی روٹی دینے کی بجائے ایک دوسرے کولڑانے میں مصروف عمل ہیں۔وہ کھانامیسرکرانے کی بجائے یہ طے کرنے لگے ہیں کہ کون کیاکھائے اورکیانہ کھائے۔کسان خودکشی کرتے رہیں،انہیں یونیورسیٹیوں سے لے کرایوانوں تک بھگواکرن کی سوجھی ہوئی ہے۔ اقلیتوں میں احساس عدم تحفظ اوراکثریتی طبقہ میں نفرت وتکدرکی چنگاری سلگائی جارہی ہے۔بین الاقوامی حقوق انسانی کے اداروں نے جس طرح مودی حکومت کو آئینہ دکھایاہے ،اس سے اورلوگوں کی صحت پرکوئی اثرپڑاہویانہ لیکن ہم محب وطن کاسرشرم سے جھک گیا۔چنانچہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ اورایمنسٹی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹ میں شہریوں کے بنیادی حقوق کی پامالی کے حوالہ سے مودی کی حکومت کی کھنچائی کی گئی ہے ۔ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ نریندر مودی حکومت اظہارِ رائے کی آزادی پرہو رہے حملوں کو روکنے میں ناکام ہے۔نیز گجرات فسادات پرناناوتی مہتاکمیشن کی رپورٹ کوخفیہ رکھنے،صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں کوپریشان کرنے کاالزام لگاتے ہوئے اسے اظہارِرائے کی آزادی پرحملہ بتایاگیاہے ۔ایک طرف پوری دنیاکے سرمایہ کاروں کی توجہ ہندوستان کی طرف مبذول کرانے کی کوشش ہے دوسری طرف رتن ٹاٹاجیسے صنعت کاربھی ملک کی صورتحال کاشکوہ کررہے ہیں۔یہ بھی باعث حیرت ہے کہ رتن ٹاٹااورکرن جوہرکوملک چھوڑکرکہیں جانے کامشورہ نہیں دیاگیا،جب کہ عامرخان اورشاہ رخ کیلئے پاکستان کاویزالئے کئی لیڈرقطاربند نظرآتے تھے۔

اترپردیش میں ’ہندوسوابھیمان‘ نامی تنظیم نے ’دھرم سینا‘نامی فوج تیارکی ہے۔اس فوج کامقصد ہندوستان میں داعش کامقابلہ کرناہے۔گویاکہ مشرق وسطیٰ کی طرح دھرم کے نام پر’’ داعش پارٹ ٹو ‘‘کی بنیادرکھی گئی ہے۔دوسرے لفظوں میں دہشت گردی کامقابلہ دہشت گردی سے کرنے کی کوشش ہے ۔عالم اسلام کے ساتھ ساتھ تمام ہندوستانی علماء نے صراحتہ داعش کو غیراسلامی بتاتے ہوئے دولت اسلامیہ کے نام پرپنپ رہے ناسورکودشمنان اسلام کی طرف سے منظم حربہ قراردیاہے۔ہندوستانی مسلمان کسی بھی صورت میں اس ناسورکومنظورنہیں کرسکتے ۔وطن سے محبت ان کی خمیرمیں شامل ہے۔حیرت اس پرہے کہ ’’آئی ایس آئی ایس پارٹ ٹو‘‘کی تشکیل کرنے والوں کے تئیں چشم پوشی کی جارہی ہے جو ہندوستانی کی قابل تعریف فوج کی بہاردی پرسوالیہ نشان اور لاء اینڈآرڈکوچیلنج اورفوج کے متواز ی فوج کی تشکیل دستوراورسسٹم پرعدم اعتمادکی دلیل ہے جس کی ملکی قانون میں ہرگزگنجائش نہیں ہے ۔ اترپردیش کو فرقہ پرستی کی تجربہ گاہ بنایاجارہاہے۔یوپی سرکارجہاں مسلمانوں سے کئے گئے وعدوں پرجھانسہ دے رہی ہے وہیں وہ فرقہ پرستی کی منہ بھرائی میں بھی مصروفِ عمل ہے۔بہارالیکشن میں ایس پی کاحقیقی چہرہ سامنے توہی آچکاہے،لیکن کارسیوکوں پرگولی چلانے پراظہارِتاسف کے بعدکچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

پورے ملک میں ایک طرف ہندوؤں کومتحدکرکے اقلیتوں کے خلاف صف آراء کرنے کی سیاست ہورہی ہے۔دوسری طرف مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی بھرپورسعی کی جارہی ہے۔واضح ہوکہ سبرامنیم سوامی نے کہاتھاکہ ہم ہندؤں کومتحدکریں گے اورمسلمانوں کے درمیان گروہ بندی کرائیں گے۔چنانچہ سنگھ پریوارکی پوری حکمت عملی اسی کے اردگردگھوم رہی ہے ۔کبھی وزیرداخلہ پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے سترفرقہ کی بات کرتے ہیں اورمتعددفرقوں میں بٹ جانے کاطعنہ سنناپڑرہاہے۔سبق ہمیں لیناہے کہ اس طعنہ پرسنجیدگی سے غورکریں اوراپنی صفوں کودرست کرکے فرقہ پرستوں کے منصوبوں کوشکست دیں۔ ملک کادلت طبقہ پھربرہمنیت کی زدپرہے۔ضرورت ہے کہ دلتوں،اقلیتوں کے ساتھ ساتھ تمام محروم اورمظلوم طبقات کوساتھ لایاجائے اوراس آوازکومضبوط کیاجائے جوانہیں ساتھ لے کرشہری،بنیادی اورمذہبی آزادی کے تئیں پرامن طریقے پررائے عامہ کوبیدارکررہی ہے۔یہ وقت ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کانہیں ،صداؤں میں قوت ،اقدام کواستحکام بخشنے کاہے ۔ضروری ہے کہ کم ازکم مشترکہ پروگرام پراتفاق رائے کی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ تمام محروم طبقات ایک مضبوط آوازبن کرابھریں۔کیونکہ ملک کی اکثریت برہمنیت کی ستائی ہوئی ہے۔

بی جے پی دوسروں پرمذہب کی سیاست کاالزام لگاتی رہی ہے لیکن اصل میں یہی عناصرمذہب کی سیاست اورمذہب پرسیاست کررہے ہیں۔ نکسلی دہشت گردنہیں ہیں جبکہ آئے دن متعددریاستوں میں پولیس اہلکاران کے نشانہ بن رہے ہیں۔تمل ناڈوحکومت راجیوگاندھی کے قاتلوں کوبچاتی ہے ،بی جے پی کی اتحادی جماعت اکالی دل بے انت سنگھ کے قاتلوں کادفاع کرتی ہے ۔کاپوکمیونٹی کے ریزرویشن کے مطالبہ پررتنانچل ایکسپریس کی آٹھ بوگیوں کونذرآتش کیاگیا،دولاکھ مشتعل مظاہرین نے پرتشددمظاہرہ کیا لیکن مالدہ کے احتجاج پرواویلاکرنے والی بی جے پی اورمیڈیاکویہ تشددکیوں ہضم ہوگیا۔رامپال پوری فوج تیارکرکے پولیس سے مقابلہ کرے تووہ دہشت گردکیوں نہیں ؟۔جرم کوئی بھی کرے وہ مجرم ہے،اس وقت مذہب کی یہ سیاست آڑے نہیں آنی چاہئے۔دھرم کی راجنتی اگربی جے پی چھوڑدے تواس کے پاس بچے گاکیا،وہ مذہب سے اوپراٹھ کرسوچ بھی نہیں سکتی ۔اس کاساراخمیرتواسی سے تیارہواہے ،پوری سیاست مذہب کی بنیادپرہورہی ہے۔ہاں اس کے علاوہ جن ایشوپراس نے لوک سبھاالیکشن لڑا،اس میں وہ بری طرح ناکام ہے،مہنگائی اوربدعنوانی پرکنٹرول اس کے بس کاروگ نہیں ،اس لئے صرف فرقہ پرستی اورمذہب کی سیاست ہی اس کیلئے سب کچھ ہے۔ بابائے قوم کو قتل کس نے کیا، ہم نے تومحمدعلی جناح کوچھوڑکرمہاتماگاندھی کوگلے لگایا، فوجیوں کے تابوت کے گھوٹالے کاالزام کس پرلگا؟،تم نے گستاخی رسول ﷺکے ذریعہ ہرایک قلب مومن کومجروح کیا،ہم نے رام کے نام پرقصیدہ لکھا،ہماری تہذیب،مذہب اورتعلیمات ،ہرمذہب ،اس کے پیشواکے احترام کادرس دیتی ہیں ۔مسلمانوں نے نہ صرف وطن عزیزکی سرحدوں کی رکھوالی کی ہے بلکہ اس کے وقاراوراصولوں کی حفاظت کی ہے۔اورآج بھی یہ ہنرہمارے ہی پاس ہے۔ہماری حب الوطنی مسلم ہے،ہم نے تو ملک کوایٹمی طاقت سے مالامال کیاہے۔ہماری تاریخ میں بہادرعبدالحمیداوراے پی جے عبدالکلام ہیں،ہمیں عدالت عالیہ پربھروسہ ہے،لیکن بابری مسجدکے معاملہ پرعدلیہ پراعتمادکس کاکمزورہے،آج کل کی سرگرمیوں سے اندازہ لگایاجاسکتاہے۔دیش بھکتی کاسرٹیفیکٹ انہیں پیش کرناچاہئے جن کاقومی پرچم،جمہوری آئین،سیکولراقدار،عدالتی نظام اورلاء اینڈآرڈرپربھروسہ نہیں ہے۔
Md Sharib Zia Rahmani
About the Author: Md Sharib Zia Rahmani Read More Articles by Md Sharib Zia Rahmani: 43 Articles with 36991 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.